... loading ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک فوجی افسروں کی گرفتاری سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ترکی میں بغاوت کی ناکامی کے بعد اسے امریکا کی جانب سے دھمکی قرار دیا جاسکتاہے جبکہ ترک صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ امریکا پہلے ہی اس بغاوت کے ماسٹر مائنڈ گولن کی پرورش کے فرائض انجام دے رہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کی جانب سے فوج میں اتحاد برقرار رکھنے کے لئے جو احسن اقدام کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھنے کا حکمنامہ جاری ہوچکا ہے یہ فیصلہ ترک وزیر اعظم علی یلدرم کی زیر صدارت ایک طویل اجلاس میں کیا گیا ہے۔
ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت سے لیکر آج تک جتنا وقت گزرا ہے اس دوران میں بہت سے چشم کشا انکشافات سامنے آئے ہیں جس میں امریکا اور اسرائیل کے علاوہ خطے کے کچھ ایسے مسلم ملک بھی اس سازش میں شامل تھے جن کے حکمران اپنی حکومتوں کی بقا کے لئے اب اسرائیل سے تعلقات کی سند حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ عالمی صہیونیت کے ہرکارے یہ مسلم حکمران تو محض ایک مہرہ ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ترکی میں بغاوت سے امریکا اور اسرائیل کے مقاصد کیا تھے اور اس سارے معاملے میں روس کہاں کھڑا ہے۔اس کی تفصیلات میں جانے سے پہلے یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت صرف علاقائی پس منظر میں نہ دیکھی جائے بلکہ درحقیقت یہ ایک ایسی جنگ کی ابتدا ہے جس نے آگے چل کر نہ صرف اس سارے خطے کو بلکہ باقی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت اس کا محض ایک پہلا سین تھا، اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس بڑی جنگ کا پہلا مرحلہ روس نے ترک عوام کی مدد سے جیت لیا ہے ۔ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یہ ساری کشمکش درحقیقت آبنائے باسفورس پر قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش ہے کیونکہ جو’’ بڑی جنگ ‘‘عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے، اس میں باسفورس کا خطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بڑی حد تک امکان ہے کہ یہ جنگ نومبر میں آئندہ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ہی چھیڑ دی جائے جس میں یقینا بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال ہوں گے۔۔۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ باسفورس پر اس وقت نیٹو کا کنٹرول ہے۔ یہ وہ پٹی ہے جو اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہم دو سمندروں کے درمیان میں ہے یعنی بحیرہ اسودBlack Sea اور بحیرہ روم Mediterranean بحیرہ اسود کی جانب روس کرایمیا کی بندرگاہ واپس لے چکا ہے۔ یاد رہے کہ کرایمیا بحیرہ اسود میں روس کی واحد جنگی بندرگاہ تھی جسے 1954ء کو سوویت یونین کے زمانے میں انتہائی پراسرار انداز میں یوکرین کے حوالے کردیا گیا تھا تاکہ باسفورس کی جانب سے سوویت مداخلت کا امکان ختم کیا جاسکے کیونکہ اگر روس بحیرہ اسود سے بذریعہ آبنائے باسفورس بحیرہ روم میں اپنی بحری قوت لے آتا تو اسرائیل کے وجود کو براہ راست خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔ اس لئے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد عالمی صہیونیت اور اس کی پروردہ نیٹو کو گمان تھا کہ یوکرین کے الگ ہوجانے سے کریمیا بھی روس کے ہاتھوں سے نکل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جب روس کی عنان پوٹن کے ہاتھوں میں آئی تو ایک طرف مشرقی یوکرین پر اس نے روس کا حق جتا دیا تو دوسری جانب کرایمیا پر قبضہ جماکر اسے روسی علاقے کی واپسی قرار دے دیا۔ اب آبنائے باسفورس کے ایک طرف روسی بحری جنگی قوت کا راج ہے تو باسفورس کے اس طرف یعنی بحیرہ روم میں نیٹو کا کنٹرول ہے اور باسفورس پر نیٹو کی حلیف ترک فوج موجود ہے۔اس سے پہلے چار پانچ سو برس تک عثمانیوی ترکوں نے باسفورس پر کنٹرول قائم رکھا تھا لیکن اس زمانے میں اسے روس مخالف قوت قرار دیا جاتا تھا اس وجہ سے مغرب کو اطمینان تھا کہ روس کی مغرب کی جانب یلغار کو سب سے پہلے عثمانوی ترکوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ’’مشرقی آرتھوڈکس کلیسا‘‘ کا مرکز قسطنطنیہ یعنی استنبول تھااور مغربی یورپ اس بات سے واقف تھا کہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد روس کے اندر تاحال یہ خواہش موجود ہے کہ وہ مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کے مرکز کو واپس لے۔ اسی خواہش کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیا اور فرانس نے انتہائی چالاکی سے 1914ء میں زار روس سے ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا کہ مسلمان خلافت کو ختم کرنے کے بعد جب اس کے علاقوں کی تقسیم کا مرحلہ آئے گا تو اس وقت قسطنطنیہ یعنی استنبول روس کے حوالے کردیا جائے گا اسی خواہش کو مدنظر رکھ کر زار روس نے ترکی کے خلاف اعلان جنگ کردیا تھا اور باسفورس کے علاقے میں روسی بحری جنگی جہاز تیرتے نظر آنے لگے لیکن جیسے ہی برطانیا اور فرانس کا مطلب نکل گیا توانہوں نے 1917ء میں روس میں بالشویک انقلاب کی تحریک کھڑی کروا دی اب زار روس اور اس کی بحری قوت قسطنطنیہ کو بھول کر بدحواسی میں واپس روس پلٹے لیکن انقلاب اپنا کام دکھا چکا تھا۔ اس حقیقت کا علم دنیا کو اس وقت ہوا جب روسی انقلابیوں نے زار روس کی سرکاری آرکائز میں سے دیگر دستاویزات کے ساتھ زار روس، برطانیا اور فرانس کے درمیان ہونے والے خفیہ معاہدے کو عام کردیاجس کی وجہ سے برطانیا اور فرانس کو خاصی خفت اٹھانا پڑی تھی جبکہ ترکوں نے اس پر خوشی منائی کہ منصوبہ سازوں کا اصل منصوبہ بے نقاب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے ٹھیک چھ برس بعد انتہائی پراسراریت میں سوویت یونین نے 1954ء میں کرایمیا سے دستبردار ہوکر اسے یوکرین کے حوالے کردیا تھا۔جبکہ باسفورس جدید ترکی کی شکل میں بلاواسطہ طور پر نیٹو کی نگرانی میں آگیا تھالیکن سوویت یونین کی تحلیل کے بعد حالات تیزی کے ساتھ بدلنا شروع ہوئے ۔ روس نے شام کے ساتھ تعلقات تیزی کے ساتھ استوار کئے اور ایک معاہدے کے تحت اس کی بحریہ شام کی طرطوس کی بندرگاہ استعمال کرنے لگی جو بحیرہ روم کی جانب شام کی انتہائی اہم بندرگاہ ہے۔ یوں بجائے روس بحیرہ اسود کے راستے بحیرہ روم میں داخل ہوتا وہ شام کے ساتھ معاہدہ کرکے براہ راست یہ تمام راستہ پاٹ گیاجس نے امریکا، یورپ اور اسرائیل میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔روس تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہا تھا۔ ایک طرف طرطوس کی بندرگاہ کی جانب سے بحیرہ روم میں اس کا راستہ کھل گیا تو دوسری طرف جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا میں اس کے جنگی جہاز اترنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وینزویلا دوسرا کیوبا ثابت ہوتا۔عالم عرب میں’’عرب بہار‘‘ کے نام سے مسلمانوں پر لمبی خزاں تاننے کی ابتدا کردی گئی۔ امریکا اور مغربی ممالک اس بات سے آگاہ تھے کہ جو حکومتیں اس وقت عالم عرب میں موجود ہیں ان کے گرائے جانے کے بعد سیاسی خلا کو پر کرنے کے لئے اسلامی تحریکیں ہی آگے بڑھیں گی۔ اس لئے ’’اسلامی خطرے‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹ کر اس خطے کو آگ اور خون میں لوٹا کر وہاں عسکری مداخلت کا بھرپور جواز حاصل کرلیا جائے تاکہ ایک طرف ان ملکوں کی معدنی اور تیل کی دولت پر قابض ہوا جائے تو دوسری طرف عملی طور پر روس اور چین کی پیش قدمی کے سامنے بند باندھ دیا جائے۔ دوسری جانب ایران کے ساتھ معاملات ٹھیک کرکے عراق اسے پلیٹ میں رکھ کر پیش کردیا گیا تاکہ عراق، شام اور لبنان تک مسلمانوں کو مسلک کی جنگ میں الجھا دیا جائے اور جیسا کہ اب وہاں ہورہا ہے۔
اس سارے معاملے میں ترکی میں برسراقتدار آنے والے طیب اردگان کی پارٹی لوہے کا چنا ثابت ہوئی ۔اس سے پہلے نجم الدین اربکان کی حکومت نے مغرب مخالف فیصلے صادر کئے تو ترکی میں سیاسی بحران کھڑا کردیا گیا لیکن ترک فوج کی باگ نیٹو کے ہاتھ میں تھی۔ اس لئے انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن طیب اردگان کی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے فورا بعد ہی ترکی، امریکا اور نیٹو میں فاصلے بڑھنا شروع ہوئے۔ سب سے پہلا تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب طیب اردگان نے عراق پر حملے کے لئے امریکا کو جنوبی ترکی میں انجرلیک کا فوجی اڈہ استعمال کرنے سے روک دیا اور اسے ترک پارلیمنٹ کی قرار داد سے مشروط کردیا ۔ترکی کے اس فیصلے نے امریکی سینٹرل کمانڈ کو بری طرح ہلا دیا تھا ۔ اس کے بعد اسرائیل کی مقبوضہ فلسطین میں ظالمانہ کارروائیوں کی طیب اردگان حکومت نے کھل کر مخالفت شروع کردی۔ ترکی کا یہ عمل ایک طرح سے مسلم اتحاد کی جانب گامزن تھا جو امریکا اور عالمی صہیونیت کو کسی طور منطور نہیں۔ اس لئے سب سے پہلے عالم عرب کی لبرل صحافت میں اس کے سدباب کے لئے بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور اسے ترکی کے عربوں پر استعمارانہ کردار سے تشبہہ دی جانے لگی ۔ لمبے عرصے تک عالم عرب کی لبرل صحافت میں اردگان کو ترک سلطان کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور عرب عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ ترکی ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھرمسلمانوں کے امور اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے کوشاں ہے ۔
بدقسمتی سے امریکا اور اسرائیل کی ان کوششوں میں بہت سے مسلم ممالک بھی شریک رہے۔ مثلا ایک چھوٹی خلیجی ریاست کی جانب سے بھاری سرمایہ ترک انقلابیوں تک پہنچایا گیا ۔ اس سلسلے میں فلسطینی تنظیم الفتح کے ایک سابق عہدیدار ’’محمد دحلان‘‘ کو استعمال کیا گیا ۔ محمد دحلان طویل عرصے تک اسرائیل کی جیل میں رہا ہے۔ اس وجہ سے اس کے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ قریبی روابط استوار ہوئے۔ رہا ہونے کے بعد اسے الفتح کے زیر انتظام جو فلسطینی ریاست تشکیل دی گئی اس کا سیکورٹی انچارج بنا دیا گیا ۔ اس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے اس وقت الفتح کے سربراہ یاسر عرفات کو موساد کے کہنے پر زہر دیا تھا بعد میں اسے الفتح سے نکال دیا گیا۔ آجکل وہ اس چھوٹی خلیجی ریاست میں قیام پزیر ہے اور اس خلیجی ریاست کے حکمران کا سیکورٹی مشیر مقرر کیا گیاہے۔ مصر میں اخوان کے محمد مرسی کی حکومت الٹنے اور خلیجی ریاست کی جانب سے وہاں پیسہ تقسیم کرنے میں بھی اسی محمد دحلان کا کلیدی کردار تھا۔ اس کے اثاثوں کی کل مالیت 150ملین ڈالر کے قریب بتائی جاتی ہے محمد دحلان رہتا خلیجی ریاست میں ہے لیکن اس کے پاس سربیا کی شہریت ہے اور سربیا میں ہی اس نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔عرب ذرائع کے مطابق محمد دحلان کو ترکی میں انقلابیوں کی مدد کے لئے اس خلیجی ریاست نے ستر ملین ڈالر کی خطیر رقم مہیا کی تھی جس کا بڑا حصہ اس نے امریکی ریاست پنسلواینیا میں مقیم ترکی میں انقلاب کے ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن تک پہنچایا۔ یہ رقم امریکا میں مقیم ایک فلسطینی نژاد بزنس مین کے ذریعے پہنچائی گئی۔ عرب ذرائع کے مطابق محمد دحلان نے اس خلیجی ریاست اور فتح اللہ گولن کے درمیان ایک واسطے کا کردار ادا کیا۔ ذرائع کے مطابق ترک انٹیلی جنس نے امریکا میں مقیم اس فلسطینی نژاد بزنس مین کی معلومات بھی حاصل کرلی ہیں جس کے ذریعے محمد دحلان نے اس خلیجی ریاست کا پیسہ پہنچایا تھا۔ اس کے علاوہ محمد دحلان نے عرب لبرل میڈیا میں بھی یہ رقم تقسیم کی جنہوں نے ترک انقلاب کے شروع میں اعلان کردیا کہ طیب اردگان انقلاب کی اطلاع سن کر ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔ شروع میں اسی خلیجی ملک کے بہت سے نیوز چینلوں سے خبر لے کر امریکی سی این این اور فاکس نیوز نے اردگان کے فرار کی خبر نشر کردی تھی لیکن جیسے ہی ترک عوام کے باہر نکل آنے کے بعد ترک صدر طیب اردگان اتاترک ائیر پورٹ پر نمودار ہوئے تو اس خلیجی ملک کے حکام کو سخت پریشانی لاحق ہوئی اور فورامحمد دحلان کو فتح اللہ گولن سے روابط منقطع کرنے کا نہ صرف حکم دیا گیا بلکہ اسے اس خلیجی ملک میں آنے سے بھی منع کردیا جس کی وجہ سے محمد دحلان اس وقت خاموشی کے ساتھ مصر میں مقیم ہے۔ اسی خلیجی ریاست نے ناکام انقلاب کے سولہ گھنٹے بعد ترکی کی قانونی حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا تھا۔۔۔!!
عرب ذرائع کے مطابق محمد دحلان کئی ماہ پہلے سے ترکی میں انقلاب کی اس مہم میں جتا ہوا تھا اس سلسلے میں وہ سربیا بھی کئی مرتبہ گیا جہاں کی شہریت اسے حاصل ہے۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ سربیا میں تاحال روسیوں کو خاصا اثر ورسوخ ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ روسیوں کے کان میں ترکی میں آنے والے انقلاب کی بھنک سربیا میں پڑی تھی۔۔۔محمد دحلان چونکہ خلیجی ریاست کی جانب سے ترک انقلابیوں میں رقم تقسیم کررہا تھا، اس لئے وہ اسرائیلی موساد کے ساتھ بھی قریبی روابط میں تھا اس لئے اس کے پاس ترکی میں موجود انقلاب پر آمادہ ترک فوجی افسروں کی پوری فہرست موجود تھی۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کے ساتھ قریبی روابط رکھنے والے ترک افسروں کے ناموں سے بھی وہ واقف تھا۔ یہ تمام تفصیلات روسی انٹیلی جنس نے سربیا میں سے حاصل کی تھیں جن کے بارے میں عرب ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تفصیلات کو روسی صدر پوٹن کے ایک انتہائی معتمد خاص الیگزنڈر ڈیوگن نے خاموشی کے ساتھ ترک صدر طیب اردگان کو پہنچا دیاتھا۔ اس نازک ترین مہم کے لئے الیگزنڈر ڈیوگن نے ماسکو سے براہ راست انقرہ کا سفر اختیار نہیں کیا تھا بلکہ ا نقرہ پہنچنے سے پہلے اسے تقریبا پانچ ممالک کے ائر پورٹس سے گزرنا تھاتاکہ اسے مانیٹر نہ کیا جاسکے۔اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ سابق سوویت یونین کے زمانے میں روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی میں الیکٹرانک جاسوسی کا ایک بڑا شعبہ تھا جسے ’’شتازی‘‘ کہاجاتا تھا موجودہ روسی صدر پوٹن اس زمانے میں مشرقی یورپ اور بلقان کے علاقے میں طویل عرصے تک شتازی کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔اس ایجنسی کا کام حساس فون کالوں اور پیغامات کے دیگر ذرائع کو ٹریس کرنا اور امریکا اور یورپ میں ہونے والی الیکٹرانک جاسوسی کے شعبے میں پیشرفت سے آگاہ رہنا تھا۔بلقان کے علاقے خصوصا سربیا میں تاحال روسیوں کا خفیہ لیکن وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ عرب ذرائع کے مطابق محمد دحلان اسی نیٹ ورک کی زد میں آگیا تھا جس کی وجہ سے انقلاب کی تفصیلات روسیوں کے ہاتھ لگ گئیں۔
محمد دحلان کے حوالے سے یہ خبر بھی عرب ذرائع میں موجود ہے کہ وہ امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کی مدد سے مشرق وسطی سے لیکر کر یورپ تک ایک متوازی انٹیلی جنس نیٹ ورک چلاتا ہے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تردیگر عرب اور فلسطینی افراد کام کرتے ہیں۔کیونکہ نوے کی دہائی تک فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے زمانے میں الفتح کا ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک مشرقی یورپ میں اسرائیلی مفادات کے خلاف کام کیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں فلسطینی مجاہدین نے قربانی کی لازوال داستانیں رقم کی تھیں لیکن نوے کی دہائی کے بعد جب عراق پر حملے کے بعد امریکانے عربوں کو اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور اوسلو معاہدے کے بعد نام نہاد آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے الفتح کے مجاہدین کو فلسطینی پولیس میں تبدیل کردیا گیا تو محمد دحلان جیسے عناصر کو مشرق یورپ میں فلسطینی انٹیلی جنس نیٹ ورک کی بیخ کنی کے لئے استعمال کیا گیا اور اس کے متوازی ایسا نیٹ ورک تشکیل دینے کے احکامات صادر ہوئے جو اسرائیلی موساد کے مفادات میں جاسوسی کے فرائض انجام دے سکے۔
ان تمام کوششوں کے بعد چونکہ ترکی میں امریکا اور اسرائیل کی بچھائی ہوئی بساط کا پہلا مرحلہ ناکام بغاوت کی صورت میں انہی پر الٹ چکا ہے اس لئے نیٹو کے لئے اب آبنائے باسفورس پر کنٹرول قائم رکھنا مشکل ہورہا ہے کیونکہ طیب اردگان کی عسکری شعبے میں اصلاحات یقینا خطے میں کھیل کا پانسا پلٹ دے گی۔
روسی طیارہ گرانے کے بعد جس تیزی کے ساتھ روس اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہوئے تھے، اس سے کہیں تیزی کے ساتھ یہ حیرت انگریز طور پر پھر سے استوار ہوچکے ہیں جس کا راز یہ ہے کہ روسی طیارہ گرانے والا ترک فوجی خود انقلاب برپا کرنے والوں کے ساتھ گرفتار ہوا اور روسیوں کی خفیہ تحقیقات نے ثابت کردیا کہ وہ طیارہ گرانے سے پہلے دو امریکی پائلٹوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ جنوبی ترکی میں انجرلیک کا فوجی اڈہ نیٹو کے کنٹرول میں ہے جہاں پر نیٹو کے جوہری ہتھیار بھی موجود ہیں۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی خواہش تھی کہ ترکی شام میں فوجیں داخل کرنے کا اعلان کرے تاکہ روس کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوسکے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس مقصد کے لئے ترکی میں مختلف ناموں کی تنظیموں سے دھماکے بھی کروائے گئے لیکن اردگان کی حکومت نے تحمل سے کام لیا۔ اب ناکام انقلاب کے بعد ترک حکومت فوج میں جو اصلاحات نافذ کرنے جارہی ہے وہ امریکا اور اسرائیل کے پھیلائے ہوئے زہر سے پاک کرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ صورتحال نیٹو کے لئے مزید خطرناک ہوگی۔ اس طرح آبنائے باسفورس پر اس کا کنٹرول جو ترک فوج کے ذریعے ہے اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ دوسرے امریکا اور اسرائیل نے شمالی عراق اور شام پر مشتمل کرد علاقے کو جو آزاد کرد ریاست بنانے کا منصوبہ وضع کررکھا ہے۔ اس پر بری طرح ضرب پڑے گی۔ اس بات کا اظہار سی آئی اے کے چیف جان برینن John Owen Brennan کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے کہ ’’شام کی جغرافیائی وحدت برقرار رکھنا مشکل ہے‘‘۔ جان برینن امریکن یونیورسٹی قاہرہ سے بھی مشرق وسطی کے علوم میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں اور خطے کی جغرافیائی ہیئت کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں ان کے اس بیان کے سیاق وسباق میں وہی کرد ریاست کے قیام کی خواہش کارفرما ہے تاکہ مستقبل قریب میں اسرائیل کی دجالی عالمی حاکمیت کے اعلان کے موقع پر روسی ردعمل سے کردستان میں موجود میزائل شیلڈ پروگرام سے اسے محفوظ بنایا جاسکے۔ اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان اب آبنائے باسفورس پر براہ راست ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوجائے کیونکہ بحیرہ اسود پر نیٹو اپنا کنٹرول مکمل طور پرکھو چکا ہے۔ اب اگر ترکی میں طیب اردگان کی حکومت نیٹو کو ترکی کے اڈے خالی کرنے کا الٹی میٹم دے کر روس کے ساتھ عسکری معاہدے کرلے تو ایک طرح سے اسرائیل کی سلامتی کے ساتھ ساتھ یورپ کی سلامتی بھی روس کے رحم وکرم پر آجائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کی اقتصادی پیش قدمی کے سامنے بھی افریقا تک کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ اس لئے آئندہ امریکی صدارتی انتخابات جو اس برس نومبر میں ہونے ہیں سے پہلے نیٹو اور روس کے درمیان بڑا معرکہ چھڑ سکتا ہے جو یقینا صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ جنوبی ایشیا بھی اس کی لپیٹ میں آئے گا۔یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی کسی صورت بھی افغانستان سے اپنی فوجیں نہیں نکالیں گے بلکہ مذاکرات کا لالی پوپ دے کر تمام فریقوں کو لال بتی کے پیچھے لگائے رکھیں گے۔ ذرائع امریکی انتخابات سے پہلے کیوں ایک ’’بڑی جنگ‘‘ کی نشاندہی کررہے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے پالیسی خطاب میں کہہ چکا ہے کہ وہ ایک کاروباری آدمی ہے اور وہ کیوں روس کے ساتھ بلاوجہ جھگڑا مول لے گا۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے لئے روس کو سخت جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔جنوبی ایشیا میں پاکستان کے لئے آنے والا وقت انتہائی اہم اور نازک ہے۔ اسرائیل کے لئے امریکا کے بعد سب سے بڑا اسٹریٹیجک پارٹنر بھارت ہے اور عالمی صہیونیت کے ایجنڈے میں یہ بات شامل ہے کہ مستقبل میں جنوبی ایشیا کی حکمرانی بھارت کے حوالے کی جائے۔ اس سے پہلے ضروری ہے پاکستان کو جوہری کلب سے باہر کرنا ان پاکستان دشمن قوتوں کے لئے انتہائی ناگزیر ہے۔اس لئے ترکی اور باقی دنیا کے لئے جو حالات بننے جارہے ہیں، اس میں پاکستان میں فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑنا انتہائی اہم ہے کیونکہ یہی پاکستان اور اسلام دشمن قوتوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے وہ مشرق وسطی میں کامیابی سے استعمال کررہے ہیں۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے ...
مروہ شبنم اروش ترجمہ: محمد دین جوہر تمہید [ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہمارے ہاں تبصرے اور اظہار خیال ابھی جاری ہے۔ ہم نے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں قومی میڈیا کے ”تجزیاتی رویوں“ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔ لبرل، سیکولر اور مارکسی تجز...
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے امریکی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ملی بھگت کے ساتھ ترکی میں میں بغاوت کی کوشش کر رہی تھیں، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے...
ترکی میں 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے لے کر اب تک ہر رات عوام سڑکوں پر بیٹھ کر جمہوریت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اب 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے طاقت کے ایک عظیم الشان مظاہرے کے ساتھ اپنا فرض مکمل کردیا ہے۔ 15 جولائی کی شب ہونے والی بغاوت کے دوران 270 لوگ مارے گئے تھے لیکن ...
ترکی میں ۱۵؍ جولائی کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت داخلی، علاقائی اور عالمی تناظر میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ جس طرح ہارٹ اٹیک کے بعد آدمی کا طرز زندگی، معمولات، میل جول، محلے داری سب کچھ اچانک بدل جاتا ہے، اسی طرح اس واقعے کا اثر پورے ترک معاشرے اور ریاست پر بہت گہرا ہوا ہے۔ اگ...
اب اس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ پاکستان فتح اللہ گولن کے زیراثر چلنے والے ترک اداروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کر چکا ہے۔ اس امر کا واضح اشارہ ترک وزیرخارجہ مولود چاووش اوغلو نے ایک روزہ دورہ پاکستان میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے ساتھ اسلام آباد میں پریس کانفر...
جس طرح ہمارے کچھ وزراء صاحبان ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر اپنے علاوہ سب کی بغلیں بجاتے ہوئے پائے گئے تھے ویسا ہی معاملہ ہمارے کسی عزیز کا بھی ہوا ۔وزیر تو بے چارے اپنے حاکم عالی مرتبت کے ہاتھوں مجبور ہیں، دکھانے کے لیے اپنے ہی منھ پر طمانچے مار کر گال لال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں ...