... loading ...
قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار عاصمہ جہانگیر، پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ، اعتزاز احسن ، مولانا فضل الرحمان ، لیاقت بلوچ اور سراج الحق بھی کر چکے ہیں۔البتہ مولانا فضل الرحمان بھی آڑے ہاتھوں لیے گیے۔پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے جہاں ارکان کو آئینی حق پہنچتا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی مسئلے پر اپنی آراء کا آزادی سے اظہار کر یں۔کسی رکن کی کوئی بات حقائق کے بر خلاف ہو تو احسن طریقے سے اطمینان بخش جواب دیا جاتا ہے اور ارکان کے سوالات اور تحفظات دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے ۔جمہوریت ، آئین و قانون اور حق گوئی کے بزعم خویش چیمپئن شیخ رشید احمد تو مغلظات پر اُتر آئے ۔کوئٹہ آکر موصوف نے جس زبان کا استعمال کیا، اس کی اجازت کسی طور نہیں دینی چاہئے تھی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شیخ رشید اور عمران خان دُکھی و رنجیدہ خاندانوں سے تعزیت کرنے اُن کے گھروں کو جاتے یا کم از کم وکلاء کے نمائندوں سے ہی تعزیت کرتے ۔سول ہسپتال کا دورہ کس کھاتے میں کیا گیا؟ جہاں دھماکے کا ایک بھی زخمی موجود نہ تھا۔ جائے وقوع کے چند سیکنڈ کے دورے کی غایت محض سیاسی تھی ۔اور میڈیا کے سامنے کھڑے ہو کر محمود خان اچکزئی کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ کہہ کر تبریٰ بھیجا ۔گویا اِن کی کوئٹہ آمد کا مقصد ہی یہ زبان استعمال کرنا تھا۔شیخ رشید احمد کو کوئٹہ اور بلوچستان کے عوام کی روایات کا ذرا بھی ادراک ہوتا تو وہ اتنی گری ہوئی زبان ہرگز استعمال نہ کرتے۔کسی کو غدار اور ایجنٹ کہنے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں جھانکتے ،صبح و شام منتخب حکومت کے خلاف سازشوں میں کس کہ کہنے پر مصروف ہیں؟
قوم کو معلوم ہے کہ بارہ مئی 2007کو جب کراچی مقتل بنا تو اُس رات پرویز مشرف کے ساتھ جشن منانے والوں میں شیخ رشید بھی فضا میں مُکے بلند کر رہے تھے ۔وکلاء ، صحافیوں اور دیگر عام شہریوں کا اس آسانی سے قتل عام پولیس اور انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے ؟یقینا حکومتوں کی ناکامی شاملِ حال ہے۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ اس ناکامی کی وجوہات اور اسباب کا تعین ہم مدتوں سے نہیں کر پائے ہیں ، اگر فی الوقع دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہوتی تو مردم کُشی کے واقعات پیش نہ آتے۔سالوں شدت پسندی پروان چڑھتی رہی کسی کو اس کی بھنک نہ پڑی ۔جی جناب! بلوچستان میں نوے کی دہائی سے علیحدگی اور فرقہ کی بنیاد پر تخریب کاری اور دہشت گردی کی سوچ پروان چڑھنے لگی۔جو آج ایک سڑا ہوا ناسور بن چکی ہے ۔بتایا جائے کہ اتنے سالوں حکمران اور عوام کے محافظ کیا کرتے رہے ؟ہزارہ قبیلے کے افراد کا اجتماعی و انفرادی قتل عام ہوا اور سالوں سال ہوتا رہا ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف و تردد نہیں کہ ہزارہ قوم کی بلوچستان میں باقاعدہ اور منظم انداز میں نسل کشی کی گئی ۔ان کے بچوں اور خواتین تک کو نہیں بخشا گیا ۔معاش ، کاروبار، تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے گئے ۔پوری قوم قلعہ بند زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دی گئی ۔سچی بات یہ ہے اِن کا درد اور دُکھ محسوس بھی نہیں کیا گیا۔البتہ سیاسی مقاصد کی حد تک ضرور ہمدردی جتائی جاتی ۔بتایا جائے کہ بلوچ شدت پسندوں سے سنجیدہ اور با معنی مذاکرات کب اور کس نے کئے ہیں؟ نیز ان شدت پسند ملیشیاؤں کو پھیلنے اور جڑیں پیوست کرنے کیوں دیا گیا؟ یہ سب ناکامیاں نہیں تو اور کیا ہیں۔اس غفلت کی وجہ سے نہ صرف شیعہ سنی عوام، علماء ،اساتذہ،طلباء ،ڈاکٹرز ،وکیل ،انجینئرز ،مزدور، پولیس ،ایف سی ،فوج گویا ہر ہر شعبہ زندگی کے لوگ جان سے گئے ہیں۔سیاستدان نشانابنے، قومی و سرکاری املاک اور تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچا۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے ۔’’این ڈی ایس‘‘ ’’را‘‘ کی کٹھ پتلی ہے ۔پاکستان کے خلاف محاذ خالصتاً بھارت کی خواہش اور ہدایات پر کھولا گیا ہے ۔ستم یہ ہے کہ مرض اور اس کی تشخیص کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ سیاستدان اور دانشور فکر اور رائے کا جمود توڑنے کو تیار نہیں، نہ معاملات کا ادراک ہو سکا ہے نہ ماضی کی خامیوں سے بہتری کی راہ نکالنے کی جستجو کی گئی ۔ یہ ’’پراکسی وار‘‘ اگر ہے تو محض پاکستان کی جانب سے نہیں ، پاکستان در اصل دفاع کی پوزیشن میں ہے ۔افغان حکومت آزاد اور خود مختار نہیں ،جس دن اسے داخلی خود مختاری حاصل ہو گی تو میں پوری بصیرت اور کا مل یقین سے کہتا ہوں کہ اگلے لمحے پاکستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہونا یقینی ہے۔ تب ایک خود مختار افغانستان اپنی زمین کسی کے مفادات و مقاصد کیلئے استعمال ہونے نہیں دے گا۔یہ امر تاریخ کے صفحات پر نوشتہ ہے کہ 1955ء میں افغانستان نے پشتونستان تحریک کو اُبھارنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد میں کامیابی پاکستان کے توڑنے میں پنہا ں تھی۔ سردار داؤد کے دور میں اس میں شدت آئی، چنانچہ جب وہ معاملے کی نزاکت اور پیچیدگی بھانپ گئے ، پاکستان سے بہتر تعلقات کی طرف بڑھنے لگے تو اُن کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی ۔کمیونسٹ نظام افغانستان پر مسلط کرنے کی کوشش ہوئی ۔چونکہ یہ انقلاب اور نظریہ عوام کے مزاج کے موافق نہ تھا ،یوں ببرک کارمل مسندِ اقتدار پر اس ہدایت کے ساتھ بٹھا ئے گئے کہ وہ ’’خلقی رجیم ‘‘ کی بعض نافذ شدہ اصلاحات فوری منسوخ کریں۔حکومت مخالف سیاسی قیدی زندانوں سے رہا کئے گئے ۔ علماء کو پھر سے قومی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ببر ک کارمل کے دور میں ریڈیو ، ٹی وی اور تقریبات کا آغاز بسم اللہ اور قرآن کی تلاوت سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنا قومی اور اسلامی تشخص اُجاگر کرنا شروع کر دیا اور خود کو ایک قوم پرست رہبر کے طور پر پیش کیا۔تاکہ بطور صدر افغان عوام کے لئے قابل قبول ہوں۔ یعنی ’’پرچمیوں‘‘ نے اپنے کمیونسٹ تعارف سے رجوع کر لیا۔ تاہم خلقی دھڑے کی نگاہ تب بھی سبز باغ پر جمی رہی۔ڈاکٹر نجیب اللہ نے مجاہد تنظیموں سے تعلقات بہتر بنانے کی مساعی کی ، اپنی تقریروں میں اکثر قرآن و حدیث مبارکہ کے حوالے دیتے ۔ کمیونسٹ فوجی قبضے کے بعد افغانستان کا جھنڈا سُرخ رنگ میں تبدیل ہو چکا تھا ، ببرک کارمل نے پھر سے تین رنگ کا جھنڈا افغان قومی پرچم قرار دیا۔گویا یہ معروضی حقائق کا ادراک تھا ۔
پاکستان کے پشتون قومی زعما ء کو فکر و نظر کے جمود کو اب توڑنا چاہئے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کافی حد تک بھارت کی پیدا کردہ ہے ۔جس کے جاسوسی ادارے پاکستان کے اندر مردم کشی کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ یاد رہے کہ ملک کا کوئی بھی ادارہ تنقید سے بالاتر نہیں ، اصلاح کی گنجائش بہر حال ہر ادارے میں پائی جاتی ہے ۔اور ہمیں بھی اپنی پیدا کردہ خرابیوں پر بھی کھلے دل کے ساتھ نہ صرف ہمہ پہلو غور بلکہ بولنے کی ضرورت ہے ۔کہا کہ خیبر پختوانخوا افغانستان کا حصہ تھا اور اگلے لمحے سیاق و سباق پر غور کئے بغیر’’ تبریٰ ‘‘بھیجنا شروع ہوا، اور محمود خان اچکزئی کے خلاف بلوچستان ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دی گئی اور آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ۔اس میں شک ہی نہیں کہ خیبر پختونخوا شمالی بلوچستان بشمول کوئٹہ تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ تھے ۔دونوں جانب آباد لوگ ایک ہی نسل، زبان ، مشترک ثقافت ،بود وباش و روایات اور ایک مذہب و عقیدے میں جڑے ہوئے ہیں۔یقینا اب دونوں جانب کے عوام دو الگ ممالک کے شہری ہیں ۔ لیاقت بلوچ کا یہ کہنا صائب ہے کہ’’ محمود خان اچکزئی کی حُب الوطنی پر شک کی گنجائش نہیں ہمیشہ آئین کے اندر رہتے ہوئے بات کی ہر ایک کا اپنا رد عمل ہو سکتا ہے کسی کی دل شکنی سے قومی یکجہتی متاثر ہو سکتی ہے ۔‘‘ ہم دیکھ رہے ہیں کہ صوبوں کے اختیارات رول بیک کئے جا رہے ہیں، ملک میں صوبائی خود مختاری کی یہ جنگ ایک طویل تاریخ کی حامل ہے ۔نفرتوں کی ایک وجہ ان اختیارات کا نہ ملنا ہے ۔ ایسے میں تبریٰ بھیجنے کا یہ ’’اوچھا چلن ‘‘قومی احترام اور ہم آہنگی کو زک پہنچا رہا ہے ۔
بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں ایف سی چیک پوسٹ پردہشت گرد حملے میں 4 اہلکار شہید جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ ترجمان کے مطابق دہشت گرد حملے میں حملے میں ایک ایف سی اور3 پولیس اہلکار شہید ہوگئے، تفصیلات کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا۔ فورسز اور دہشت گ...
سابق وزیر داخلہ و عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ایک ملزم سے فوری بیان دلوانا اور باقیوں کو فرار کروانا سوالیہ نشان ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے جاری کردہ بیان میں شیخ رشید نے کہا کہ اسلام آباد کو گوانتا مو بے جیل بنا دیا گیا ہے جو جیل ہمارے لیے کل بن...
بلوچستان میں پاک فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 2 میجر سمیت 6 اہلکار شہید ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاک فوج کا ایک ہیلی کاپٹربلوچستان کے علاقے ہرنائی کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔ ہیلی کاپٹر حادثے میں 2 پائلٹ سم...
مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء لانگو نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسنے کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے تصدیق کی ک...
بلوچستان میں سیلاب اور بارشوں نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے جس سے صوبے کے بیشتر علاقے بجلی کی بندش کے باعث تاریکی میں ڈوب گئے، تمام مواصلاتی نظام سمیت فضائی راستے بھی منقطع ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کوئٹہ شہر اور نواحی علاقوں میں مسلسل 30 گھنٹے سے زائد دیر تک کبھی تیز کبھی ہلکی بارش کا...
حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لیے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد کارکنان کو حراست میں لیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی اکثریت روپوش ہوگئی ہے۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی لال حویلی پر پولیس نے چھاپہ مارا لیکن شیخ رشید ا...
وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی گئی، تحریک عدم اعتماد بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی آئی، عوامی نیشنل پارٹی کے 14 ارکان کے دستخطوں سے جمع کروائی گئی ہے، تفصیلات کے مطابق بدھ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خا...
سابق وزیرداخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کی اداروں سے جنگ ہوجاتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ میں عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا رہوں گا، کیوں کہ میں عمران خان کو اس جنگ میں حق بجانب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ا...
سینئر سیاستدان و سابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا ہے کہ اگر عمران خان بال بھی بیکا ہوا تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی اور ملک میں کوئی محفوظ نہیں رہے گا، آصف زرداری نے اپنی بیوی کو قتل کرایا اور جعلی وصیت کے ذریعے اس کی سیاست پر قبضہ کیا، آصف زرداری نے بینظیر بھٹو کے دونوں بھائی...
سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے وفاقی وزارت داخلہ میں سمری کی تیاری شروع کر دی گئی۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزارت داخلہ میں (آج) جمعہ کو اہم اجلاس طلب کرلیا گیا ہے جس کی صدارت وزیر داخلہ شیخ رشید کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان سے وزیر داخلہ شیخ رشید (آج) جمعہ کو اہم ملاقات کریں گے جس کے ب...
حکومت نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سزا یافتہ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کو حتمی شکل دے دی۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی زیر صدارت وزارت داخلہ میں پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ریٹرنز اینڈ ری ایڈمیشن اور مجرمان کی حوالگی کے معاہدوں سے متعلق خصوصی کابینہ کمیٹی کا اجلاس ہوا...
وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے قبل ہی حکومت کی 2 بڑی اتحادی جماعتیں عوامی مسلم لیگ اور مسلم لیگ ق آمنے سامنے آ گئیں۔میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر داخلہ و عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے مسلم لیگ ق کا نام لئے بغیر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 5 سیٹوں والے پن...