... loading ...
تاریخ پر اب تاریخ گزرتی ہے مگر کبھی تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو ایک رائے بہادر یار جنگ کی ملتی ہے، جسے اُنہوں نے کسی اورسے نہیں خود قائداعظم محمد علی جناح کے سامنے ظاہر کیا تھا:’’پاکستان کو حاصل کرنا اتنامشکل نہیں جتنا پاکستان کو پاکستان بنانا مشکل ہو گا۔”
اب دہائیاں بیت گئیں اور ایک آزاد ملک کا مطلب کیا ہوتا ہے اس کا وفور بھی کہیں غتربود ہو گیا۔ گستاخی معاف کیجئے گا، 14؍ اگست اب کچھ اور نہیں، بس عادتوں کی ایک ورزش ہے۔یومِ آزادی کے ہر شہری پر دو حق ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس کی خوشی منائے۔ اور دوسرا یہ کہ وہ اس کے حقیقی تصور کے ساتھ خود کو متعلق اور تازہ رکھے۔ جب آزادی کے حقیقی تصور سے کوئی قوم خود کو نظری طور پر وابستہ رکھتی ہے تو وہ اس دن کو تجدیدِ عہد اور احساسِ ذمہ داری کے طور پر مناتی ہے۔ جو یومِ آزادی، ذمہ داری کا مستقل شعور اور پائیدار احساس پیدا نہیں کرتا وہ ایک عارضی رسم کی شکل میں تو منایا جاسکتا ہے مگر حقیقی خوشی کا موقع نہیں بن سکتا۔ مکر ر عرض ہے کہ 14 اگست اب کچھ اور نہیں، بس عادتوں کی ایک ورزش ہے۔
آزادی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پاس ایک سینہ تو ہے، مگر اس میں دھڑکتا ہوا دل نہیں، مگر آج یہ بات اُسی دھڑکتے ہوئے دل میں نہیں اُترتی۔ داغستان کی آوار قوم کی ایک لوک کتھا کو کافی شہرت ملی ہے جسے اب مصور لکیروں میں کھینچتے اور تصویریں اُبھارتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک آدمی نے ایک مرتبہ کسی چڑیا کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیا۔ چڑیا پنجرے میں رات دن روتی اور چلاتی رہتی کہ ’’میرا وطن، میرا وطن، ہائے میرا وطن۔‘‘ایک دن اُس آدمی نے سوچا کہ آخر اس چڑیا کاوطن کہاں اور کس قسم کا ہے؟ وہ یقیناًکسی خوبصورت وادی میں سرسبزوشاداب جگہ پر ہوگا۔ جہاں خوبصورت قدآور اور پھل دار درخت ہوں گے اور اس جیسی بہت ہی خوبصورت چڑیائیں وہاں چہچہا رہی ہوں گی۔ایسی فردوس گمان وادی کا نظارہ ضرور کرنا چاہئے، چنانچہ اُس آدمی نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا اور مشاہدے کے لئے اُس کا تعاقب کیا، مگر چڑیا دس قدم اڑ کر ایک ننگی پہاڑی پر اُگی اجاڑ سی جھاڑی پر جا بیٹھی جہاں اس کا گھونسلہ تھا،جو بات ہمارے دانشور ہزاروں صفحات پڑھ کر نہیں سمجھتے ، آوار قوم کے اُس آدمی نے وہی بات ایک چڑیا سے سمجھ لی۔ آزادی زرق برق لباسوں، اونچی اونچی عمارتوں اور لمبی لمبی شاہراؤں کا نام نہیں۔ یہ ایک باطنی وفور ہے، جس میں کوئی بھی شخص طے شدہ تحدید وتوازن میں اپنے شعور کو ارادے کی طاقت دے سکتا ہو۔
اُس شخص کی اپنے مُلک سے محبت ادھوری ہے جو اپنے مُلک کو اپنا چہرہ نہ سمجھتا ہو۔ کوئی بھی شخص اپنے چہرے سے کسی کو چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر ہم نے اپنے مُلک سے اس کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ کسی نے کہا تھا کہ آزادی کی قدر صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو کبھی غلام رہے ہو،مگر سوال یہ ہے کہ آزادی کی قدر کامطلب کیا ہے؟وہ آدمی ہرگز آزاد نہیں، جس نے ابھی تک یہ نہیں سمجھا کہ اُس کی طرح دوسرا بھی آزاد ہے۔ آزادی کاکوئی مطلب بھی شخصی نہیں ۔ اس لئے ایک آزاد آدمی ہی دوسرے کی آزادی کا احترام کر سکتا ہے۔ ایسا ہی شخص اس سوال کا جواب جانتا ہے کہ آزادی کی قدر کامطلب دراصل کیا ہے۔اس تصورِ آزادی سے اجتماعی زندگی کا آہنگ ترتیب پاتا ہے اورباہمی تعلقات کی وہ بنیادی مساوات قائم ہوتی ہے جسے منصفانہ کہاجاتا ہے،پھر محنت اور اجر کے درمیان استحصال کاکوئی درمیانی پھندا باقی نہیں رہتا۔آخر کھیتوں میں ہل چلاتا کسان پھول اور غنچوں کے بجائے خاروخس کیوں پاتا ہے؟ امرا کے گھر تعمیر کرنے والا مزدور اپنے گھر سے کیوں محروم ہے؟ کھلونوں کی فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کش کے بچے کھلونوں سے کیوں محروم ہیں؟ خوراک سے گودام اور خزانے بھرنے والا محنت کش لہسن اور ساگ پات کے لئے کیوں ترستا ہے؟ ریشم وکم خواب بُننے والے ہاتھوں کے ہاتھ میں تن ڈھانپنے کے لئے چیتھڑے بھی کم کیوں پڑ جاتے ہیں؟آخرآزادی کی نیلم پری اپنی چھب انہیں کیوں نہیں دکھاتی، جن کے بربط ہائے ہستی کے تار حسرتوں سے ٹوٹے جاتے ہیں،جن کے دلوں میں محبت کے بجائے اب نفرت کی بھٹیاں سلگنے لگی ہیں۔پاکستان کو حقیقی خطرہ دہشت گردی سے نہیں دراصل ایسے حالات سے ہے۔ جہاں ہر روز ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے،جو مملکت سے اپنے تعلق میں مکمل بیگانگی اختیار کر چکے۔ وہ وطنِ عزیز کے کم سے کم تعلق دار بنتے جارہے ہیں، جن کی زندگیوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑ تاکہ وہ آزاد رہیں یا نہ رہیں؟جن کے لئے چڑیا کی مانند ایک ننگی پہاڑی پر اُگی اجاڑ سی جھاڑی پر قائم گھونسلے جتنا تصورِ آزادی بھی ایک وجودی حالت میں کہیں پایا نہیں جاتا۔ اگر ایسے حالات میں ترانۂ آزادی خود ہمیں شرمندہ نہیں کرتا تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہمارے تصورِ آزادی میں کہیں کوئی کجی ہے۔
حکمران اشرفیہ کا یہ کج رو تصورِآزادی کہیں ان محروموں ، مجبوروں، لاچاروں اور بیکسوں کو اپنا 14 اگست تخلیق کرنے کی ضرورت پر نہ اُکسا دے۔پھر ان کی محنت کا محور کھیت نہیں تخت ہوگا۔ طبقۂ اشرافیہ کو اندازا ہونا چاہئے کہ یومِ آزادی اُن کے لئے خطرہ اور کمزوروں کے لئے ایک موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر وہ اپنے تصورِ آزادی سے حقیقی طورپر وابستہ ہو تو پھر اُنہیں دُکاندار نہیں دیانت دار ہونا چاہئے۔ اُنہیں اپنے گھوڑوں پر دوسروں کی زینیں نہیں کسنی چاہئیں۔ وگرنہ اُن کا حال ہمیشہ یہی ہوگا کہ وہ دروازوں پر تب بھاری تالے لگا پائیں گے جب اُن کے بیل چوری ہوچکے ہوں گے۔ بلاشبہ یومِ آزادی آج بھی ہمارے حافظوں میں پوری آب وتاب سے برقرار ہے۔ اس کاتاریخی سفر ہمارے نظری وجود کا مستقل حصہ ہے، مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یومِ آزادی ہمارے عمل کا فعال حصہ اب تک نہیں بن سکا۔یومِ آزادی تب ہی ہمارے عمل میں ایک فعال روپ میں جلوہ گر ہوگا جب اس کے تقاضے حکمران اشرافیہ پورے کریں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اس دن سے وابستہ عوامی جذبات کو خود عوام سے قربانی مانگنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس مملکت کو دھوکا عوام نہیں ، وہی قوتیں دیتی ہیں جو اس دن عوام سے تجدیدِعہد کے وعدے لیتی ہیں۔ ایک عام آدمی کے لئے تو یہ ضروری ہے کہ وہ آزادی کے اس ناقابلِ انکار واقعے کو حقیقت کا روپ دے اور اس کے لئے اُسے چاہئے کہ وہ یومِ آزادی کو عادتوں کی ورزش نہ بننے دے۔ یاد رکھیں بہادر یار جنگ نے کہا تھا کہ ’’پاکستان کو حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا پاکستان کو پاکستان بنانا مشکل ہو گا”۔
(نوٹ: 14 اگست 2015 کو لکھا گیا)
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...