... loading ...
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ بھی آگیا۔ گزشتہ منگل کو جسارت میں ان کا مضمون ’’دُم پر پاؤں‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس کی پہلی سطر ہے ’’اس لفظ (پاؤں) کی صحیح املا پانو ہے‘‘۔ مفتی صاحب کے فتوے کے مطابق بھی املا مونث ہے۔ ان کے فتوے پر تو ہم روزہ رکھتے اور عید منا لیتے ہیں۔ لیکن جہاں تک املا کا تعلق ہے تو ’’فرہنگ آصفیہ‘‘ میں یہ مذکر ہے اور ’’علمی اردو لغت‘‘ میں اسے مذکر مونث دونوں ہی قرار دیا گیا ہے۔ ماہر لسانیات جناب وارث سرہندی کی کتاب ’’زبان و بیان (لسانی مقالات)‘‘ جو 1989ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے شائع کی اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے جناب ملک نواز احمد اعوان نے ہم پر نوازش کی، اس میں بھی وارث سرہندی نے املا کو مذکر ہی لکھا ہے۔ مثلاً یہ جملہ ’’عربی الفاظ کا املا……‘‘ لیکن اس مضمون ’’اردو املا اور عربی الفاظ‘‘ میں ایک جگہ املا کو مونث بھی لکھا ہے، مثلاً ’’عربی زبان کی املا میں تصرف ہوچکا ہے‘‘۔ یہ مضمون نومبر 1982ء میں اخبار اردو میں شائع ہوا تھا۔ اب قارئین جیسے چاہیں استعمال کریں۔ ہمیں تو اسکول میں املا کرایا جاتا تھا۔
فرہنگ آصفیہ میں املا کے ذیل میں ’’اش اش‘‘ پر بھی نظر پڑی۔ کچھ طالبانِ علم استفسار کرتے ہیں کہ یہ اش اش ہے یا عش عش۔ ہم تو اپنی کم علمی چھپانے کے لیے کہہ دیتے ہیں کہ اس کا انحصار کیفیت پر ہے۔ انبساط کی کیفیت شدید ہو تو یہ عش عش ہے۔ لیکن فرہنگ آصفیہ میں صراحت کی گئی ہے کہ یہ اش اش ہے جو عربی کے لفظ ’’اشاش‘‘ کا بگاڑ ہے۔ اشاش کا مطلب ہے نہایت خوش ہونا، خوشی کے مارے وجد کرنا۔ اردو والوں نے الف کی جگہ ’ع‘ لگا دیا، جب کہ عربی میں عشعش کے معنی گھونسلے کے آئے ہیں۔ ہم نے اشاش کے دو ٹکڑے کردیے جس پر اش۔ اش کرنا چاہیے۔ اخبارات میں ایسی غلطیاں عام ہیں۔ مثلاً 23 فروری کے اخبار جنگ میں حسن نثار کا مضمون بھی کمپوزنگ کا شاہکار ہے۔ ’’ڈاکٹر عاصماپنا‘‘، ’’عزیر بلوچاپنا‘‘، ’’ایان علیا پنا‘‘ وغیرہ۔ یہاں اپنا کا الف نام میں شامل ہوگیا ہے اور اشاش کا دوسرا الف ہم نے الگ کردیا۔ ہوسکتا ہے کبھی یہ سہو کسی کاتب سے ہوگیا ہو۔
املا کے لغوی معنی ہیں: یاد سے کچھ لکھنا۔ اصطلاحی معنوں میں رسم خط کے موافق صحت سے لکھنا، یا بتائی ہوئی عبارت کو درست لکھنا۔
محترم مفتی منیب نے لکھا ہے کہ پاؤں کی صحیح املا ’’پانو‘‘ ہے۔ یہ بات درست ہے، لیکن یہ املا متروک ہوچکا ہے اور اب پاؤں ہی فصیح ہے۔ مرزا غالب نے بھی اپنی مشہور غزل کی ردیف میں ’’پانو‘‘ ہی لکھا ہے۔ مطلع ہے:
اسی غزل میں ایک بڑی خامی ’’تعقید لفظی‘‘ کا شاہکار بھی ہے، ’’ہلتے ہیں خودبخود مرے اندر کفن کے پانو‘‘۔ صرف پانو ہی نہیں، اردو کے ایسے کئی الفاظ ہیں جن کا املا بدل گیا ہے اور اب یہ بدلا ہوا املا ہی فصیح ہے۔ مثلاً تڑپنے کا پرانا املا ’’تڑفنے‘‘ ہے۔ استاد کا یہ شعر دیکھیے:
مولانا حسرت موہانی نے ’نکاتِ سخن‘ میں اس پر پورا ایک باب باندھا ہے۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کا املا اور تلفظ ہم نے ازخود بدل دیا ہے، مثلاً مہندی اور مہنگا میں نون ’ہ‘ سے پہلے ہے یعنی ’’منہدی‘‘ (م ن ہ د ی) اور ’’منہگا‘‘ (م ن ہ گ ا)۔ اب اس طرح لکھو تو اسے کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی سمجھا جائے گا۔ لیکن ’’منہ‘‘ بھی تو ہے جس میں ن، ہ سے پہلے ہے۔
رشید حسن خان نے ’’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘‘ میں پانو کا املا پاؤں لکھ کر پانو کے کئی محاورے بھی درج کیے ہیں مثلاً ’’پانو اکھڑے، پانو پانو صندل کے پانو (جب بچہ پہلے پہل کھڑے ہوکر چلتا ہے تو ماں بہنیں وغیرہ صندل گھس کر اس کے پانوؤں میں لگاتی اور یہ فقرے بار بار کہتی ہیں۔ لیکن اب صندل کا حصول اور اس کا گھسنا کارِدارد ہے)۔ پانو پر گر پڑا، یعنی خوشامد کرنے لگا۔ اس حوالے سے مثنوی سحرالبیان کا ایک شعر:
خیال رہے کہ مثنوی میں بے نظیر شہزادہ ہے، کوئی خاتون نہیں۔ پانو پڑنا یعنی قربان جانا پر بھی سحرالبیان کا ایک شعر:
علاوہ ازیں پانو پڑنا، پانو پوجنا ، پانو پھیرنے جانا وغیرہ متعدد محاورے ہیں۔ لیکن اب اگرکوئی پانو کہے تو مذاق بنے گا۔ اس کا تلفظ بھی پا۔نو (بروزن بانو) کیا جائے گا۔ نام کا املا بھی تو ’’ناؤں‘‘ہے جیسے ’’ہاتھی پھرے گاؤں گاؤں، جس کا ہاتھی اس کا ناؤں‘‘ یا ’’گاؤں تمہارا، ناؤں ہمارا‘‘۔ اب کوئی کہے کہ نام کی جگہ ناؤں کہا اور لکھا جائے کہ یہی صحیح ہے تو شاید یہ صحیح نہ ہو۔
آج کل ایک اصطلاح بہت عام ہو رہی ہے ’’اختتام پزیر‘‘۔ لاہور کا ادبی میلہ ختم ہوا تو برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ میں یہی تھا کہ میلہ اختتام پزیر ہو گیا۔ خود جسارت میں بھی کچھ خبروں میں یہی دیکھا، یعنی ختم کے بجائے اختتام پزیر۔ جب کہ اختتام پزیر کا مطلب ہے اختتام کی طرف بڑھتا ہوا، جاتاہوا۔ اس کا مطلب ختم ہونا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ترقی پزیر یا انحطاط پزیر کا کیا مطلب ہو گا؟ اگرہم کہیں کہ پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے تو کیا یہ مفہوم ہو گا کہ پاکستان میں ترقی ختم ہوگئی؟ ٹی وی چینلوں کو تو کیا کہیں، اخبارات میں موجود صحافیوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
’پزیر‘ لاحقہ فاعلی ہے اور فارسی مصدر پزیرفتن سے صیغہ امر ہے۔ یہ کسی اسم کے بعد آکر اسے اسم فاعل ترکیبی بنا دیتا ہے اور قبول کرنے والا، پکڑنے والا کے معنی دیتا ہے، جیسے ترقی پزیر، زوال پزیر وغیرہ۔ پزیرائی کا مطلب ہے منظوری یا قبولیت۔ چنانچہ جب کسی میلے، کسی تقریب کے لیے اختتام یا ختم کی جگہ اختتام پزیر لکھا جائے تو اس کا مطلب یہی ہوگاکہ تقریب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے، ابھی ختم نہیں ہوئی۔
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا : گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ: تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...
عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...
عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا ...
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...
چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...