... loading ...
مروہ شبنم اروش
ترجمہ: محمد دین جوہر
[ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر ہمارے ہاں تبصرے اور اظہار خیال ابھی جاری ہے۔ ہم نے وجود ڈاٹ کام پر شائع ہونے والے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں قومی میڈیا کے ”تجزیاتی رویوں“ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی تھی۔ لبرل، سیکولر اور مارکسی تجزیوں کی شورہ پشتی متوقع تھی، لیکن استعماری متجددین اور جدیدیت پرست مذہبی حلقوں کے تجزیے تو بددیانتی کے ”شاہکار“ بن گئے۔ یہ کئی اعتبار سے نہایت اہم ہیں۔ ان تجزیوں میں بھرپور کوشش کی گئی کہ امریکااور یورپی یونین کا نام نہ آنے پائے، اور الزام انہی آقاؤں کے تتبع میں اردوگان کے سر تھوپ دیا جائے تاکہ گلین اور اس کے سرپرست مغرب سے فیضیابی کا عمل جاری رہ سکے۔ دوسری کوشش یہ کی گئی کہ ایک خالص سیاسی واقعے کی واعظانہ تعبیرات سے اسے گھریلو سطح کا جھگڑا بنا دیا جائے تاکہ مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کے سیاسی ادراک پر کاری ضرب لگائی جا سکے۔ پھر سی آئی اے کے ایجنٹ اور قوم دشمن گلین کے نام نہاد ”تصوف“ اور اس کے ”معتدل اسلام“ کو آڑ بنا کر اسے دو شخصیتوں کی فکری کشمکش ظاہر کرنے پر بھی کافی زور صرف کیا گیا تاکہ امریکاکے ”درباری جدید اسلام“ کو مسلمانوں کے گلے میں اتارا جا سکے۔
ہم ذیل میں ترک انگریزی روزنامے ”ینی شفق“ کی کالم نگار مروہ شبنم اروش کے مضمون کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ اس ترجمے کا مقصد اس سیاسی تناظر کو واضح کرنا ہے، جو اس واقعے کا اصل پس منظر ہے۔ یہ مضمون ۴؍اگست کو شائع ہوا۔]
جمہوریت کا وکیل، امریکا، پندرہ جولائی کی رات انتظار میں رہا کہ دیکھیں کون جیتتا ہے۔ انقرہ میں امریکی سفارت خانے نے جو ایمرجنسی پیغام اپنے شہریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے شائع کیا، اس میں گلینی دہشت گردوں کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کو ”uprising“ قرار دیا، اور یہ اصطلاح عموماً بہارِ عرب کے دوران حکومت مخالف عرب مظاہروں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ جب عوام نے تختہ الٹنے کی کوشش ناکام بنا دی تو امریکی صدر اوباما نے کہا کہ وہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اب تو بہت دیر ہو چکی تھی!
بغاوت کی ناکامی کے بعد گلینی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ، فتح اللہ گلین کو ترکی کے حوالے کرنے پر جو سوالات کیے گئے ان کے امریکی جواب بھی نہایت دلچسپ تھے۔ امریکی انتظامیہ نے صورت حال کو ”پہلے شہادتیں تو دیکھ لیں“ جیسے بیانات سے ٹالنے کی کوشش کی، اور بغاوت کے سازشی منصوبہ ساز اور دہشت گرد کو گرفتار کرنے، اسے حراست میں لینے یا اسے ملک سے فرار ہونے سے روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ امریکی میڈیا اسی کی بات کو بڑھا چڑھا کے پیش کرتے رہے۔ گلین نے سی این این پر فرید زکریا سے بات کرتے ہوئے اس بغاوت کو ہالی وڈ کی فلم سے تشبیہ دی، اور ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ اس کے پیچھے خود طیب اردوگان ہے۔ یہ مذاق لگتا ہے لیکن واقعہ یہی ہے۔ امریکی میڈیا ترکوں پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ سازشی نظریئے گھڑے جا رہے ہیں، کیونکہ ترک عوام کو اس بغاوت پر امریکی پنجے ہی کی چھاپ نظر آتی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ وہ سالوں سے گلین کا میزبان ہے، اور پھر میڈیائی رپورٹنگ کی ہیراپھیری اور بغاوت کے وقت سامنے آنی والی موقع پرستی ایسے موقف کے لیے کافی گنجائش پیدا کر دیتی ہے۔ اور گلین ہے کہ وہاں بیٹھا ترک قوم کا تمسخر اڑائے جا رہا ہے اور اس کے پیروکاروں کی طرف سے سوشل میڈیا پر دی گئی گلین کی ویڈیو گفتگؤوں میں ترکی کو مسلسل دھمکیاں ہی مل رہی ہیں۔
یہی وجہ ہےکہ اس بغاوت میں امریکی شرکت کے جو شواہد سامنے آئے ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ خصوصاً ”ینی شفق“ میں اس واقعے پر دی گئی رپورٹیں نہایت قابل توجہ ہیں۔ تاہم امریکی انتظامیہ ایسی رپورٹوں کی وجہ سے خاصی آشفتہ ہے، جبکہ ترکی میں دباؤ اور امریکا دشمنی کے جذبات عروج پکڑ رہے ہیں۔ امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ ان سب کو سازشی نظریے سمجھتے ہیں۔ تکلف بر طرف، اگر کوئی چیز بطخ کی طرح چلتی ہو، بطخ کی طرح تیرتی ہو، اور بطخ کی طرح ہی قیں قیں کرتی ہو، تو امکان ہے کہ وہ بطخ ہی ہو گی۔ گلین ہی اس بغاوت کا سرغنہ ہے، وہ امریکا میں سترہ سال سے رہ رہا ہے، اور امریکا اسے حوالے کرنے پر بھی تیار نہیں، اور اس تنظیم کی کاروائیاں خطے میں امریکی ایجنڈے کے عین مطابق ہیں، تو میں افسوس سے کہوں گی کہ ترک قوم یہ ماننے میں قطعی حق بجانب ہے کہ امریکا ہی اس بغاوت کے پیچھے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے، جو بغاوتیں کروانے کی حیثیت عرفی رکھتا ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمارے داخلی اور خارجی معاملات میں جس جس طرح مداخلت کی ہے وہ ہماری یادوں پر کھدی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ٹرومین کے ڈاکٹرائن (نظریۂ) اور گلیڈیو آپریشن کے تحت ترکی میں ”بغاوتوں“ کو کچلنے کا عملی منصوبہ کیا تھا؟ کیا یہ مسلح تنظیم، جس کا قیام کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اسے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا، امریکا کا کیا دھرا نہیں ہے؟
پھر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ۱۹۶۰؍ کی بغاوت میں امریکا کا کوئی عمل دخل نہیں تھا؟ یہ وہ زمانہ تھا جب عدنان مندریس معاشی متبادلات کے لیے روس کا دورہ کرنے والے تھے کیونکہ ترکی حد سے زیادہ امریکا کا دست نگر ہو گیا تھا۔ جب ترکی نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی، اور ادانہ کے انجرلک فوجی اڈے کا معاہدہ ہوا، اس وقت عدنان مندریس ہی وزیر اعظم تھے اور وہ امریکا یا نیٹو کے خلاف بھی نہیں تھے۔ اس زمانے کی یہ ہوائی بات قابل التفات بھی نہیں کہ نیٹو ترک معیشت کی بہتری کے لیے قرضہ دینے ہی والا تھا، کیونکہ وہ تو ہمیں صنعت کاری کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ ہم ایک زرعی ملک سے آگے کا سفر کر سکیں۔
آئیے ہم وہ خط بھی یاد رکھیں جو ۶۰ کی دہائی میں قبرصی واقعات کے دوران امریکی صدر لنڈن جانسن نے وزیر اعظم عصمت انونو کو لکھا تھا۔ اس میں صدر جانسن نے ترکی کو دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے قبرص میں مداخلت کی تو نیٹو اس کے ساتھ نہیں رہے گا۔ جواباً انونو نے لکھا تھا کہ ”ایسی صورت میں ایک نیا عالمی نظام جنم لے گا اور ترکی اس میں اپنی جگہ ڈھونڈ لے گا“۔ تاہم ایک سال بعد ہی انونو کو اس وقت مستعفی ہونا پڑا جب بجٹ پر رائے شماری کے دوران بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی۔
اور بلند ایجوت پر کیا گزری؟ قبرص میں مداخلت کے جواب میں اسلحے کی امریکی پابندیوں کے باوجود اس کی مقبولیت عروج پر تھی اور اس نے استعفیٰ دے کر جلد الیکشن کروانا چاہے تاکہ بھاری اکثریت سے مضبوط حکومت بنا سکیں۔ لیکن دو سو دن تک کوئی حکومت ہی تشکیل نہ دی جا سکی۔کیا ہمیں اس وقت بننے والے مخلوط اتحاد یاد نہیں؟ یا انتہائی دائیں بازو کی کشمکش اور جھڑپیں یاد نہیں؟ اور پھر اس کے فوراً بعد ۱۹۸۰ء میں فوج نے حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا۔ جب فوجی آمر کینان ایورن اور اس کے گروہ نے ملک پر تسلط قائم کر لیا، تو کیا یہ رپورٹیں بار بار نہیں آتی رہی تھیں کہ ایک سی آئی اے ایجنٹ نے امریکی صدر جمی کارٹر کو خوشی سے بتایا کہ ”ہمارے جوان جیت گئے ہیں“؟
طورغت اوزال ۱۹۸۳ میں برسراقتدار آئے۔ انہوں نے ترکی کو ترقی دینی شروع کی، اور ساتھ ہی کرد مسئلے کے حل کی کوشش شروع کر دی۔ عین انہی دنوں وہ ایک پراسرار اور مشکوک ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئے۔ بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ فوجی افسر مصطفیٰ سارسلماز اس وقت گلہانی ملٹری میڈیکل اکیڈمی میں حفاظت پر مامور تھا اور اس کے گلین کی تنظیم کے ساتھ گہرے روابط تھے اور اوزال کی موت کو گلین تنظیم کے اٹھائے ہوئے ارگینیکان کے سازشی بھد نامے سے جوڑنے کی کوشش بھی کی گئی۔ کیا اس انکشاف نے ان شکوک کو دوبارہ زندہ نہیں کر دیا جو اس زمانے میں ظاہر کیے گئے تھے؟
اوزال کی موت کے بعد نو سالوں میں آٹھ حکومتیں تبدیل ہوئیں، اور ایک پوسٹ ماڈرن فوجی بغاوت ہوئی۔ ان حکومتوں میں سے سات مخلوط تھیں۔ اے کے پارٹی کے برسراقتدار آنے پر اس انتشار کا خاتمہ ہو گیا اور ملک کو استحکام نصیب ہوا۔ تاہم یکم مارچ کی فوجی یادداشت کو ترک پارلیمنٹ نے رد کر دیا تو امریکا کے ساتھ تعلقات پھر کشیدہ ہو گئے۔ تب ایسے لوگ تھے جو امریکا سے عدم اتفاق کی وجہ سے ترکی کو نیٹو سے باہر دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے قابل اعتبار ہونے پر سوال اٹھاتے تھے۔ شامی خانہ جنگی کی طرز پر عالمی میڈیا میں ترکی کے خلاف ایک طوفان برپا کر دیا گیا۔ ارگینیکان اور بیلاز کے اسکینڈلوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یکم مارچ کی یادداشت اور گلین تنظیم کے انتقام نے ان دو اسکینڈلوں کے ذریعے فوج میں جو تبدیلیاں کیں، ان کی حیثیت فوج کی تشکیل نو کر کے اسے مکمل طور پر امریکی مفادات کے تابع کرنا تھا۔
بالفاظ دیگر، امریکا کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ ترکی میں فرمانروا حکومت بائیں بازو کی ہے یا دائیں بازو کی، مذہبی ہے یا سیکولر، بلکہ جس نے بھی اس کے مفادات کی خدمت بجا لانے سے انکار کیا، اس کا انجام ایک ہی ہوا۔ ترکی میں امریکی مداخلت کا یہ پہلا موقع نہیں ہے، بلکہ یہ پہلا موقع ہے کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اب تیز دھار خنجر نمودار ہو چکا ہے، اور ہمیں اپنی قومی یکجہتی باقی رکھنا ہو گی، کیونکہ سالہا سال کے بعد ظاہر ہونے والی یہی قومی یکجہتی ہے جس نے ہمیں اس خنجر پر گرنے سے بچا لیا ہے۔
ترکی میں فوج کی ناکام بغاوت کے بعد اب یہ بات ہرگزرتے دن پایہ ثبوت کو پہنچ رہی ہے کہ اس کی پشت پر فتح اللہ گولن اور امریکا کی مشترکہ منصوبہ بندی موجود تھی۔ اس تاثر کو مضبوط کرنے میں خود فتح اللہ گولن کے بیانات نے بھی خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اب فتح اللہ گولن نے العربیہ نیوز چینل سے ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے امریکی سابق وزیر خارجہ اور موجودہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن پر الزام لگایا ہے کہ وہ سعودی عرب کی ملی بھگت کے ساتھ ترکی میں میں بغاوت کی کوشش کر رہی تھیں، جو ناکام بنا دی گئی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کے امریکا میں مقیم ترک رہنما فتح اللہ گولن کے...
ترکی میں 15 جولائی کی فوجی بغاوت سے لے کر اب تک ہر رات عوام سڑکوں پر بیٹھ کر جمہوریت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اب 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے طاقت کے ایک عظیم الشان مظاہرے کے ساتھ اپنا فرض مکمل کردیا ہے۔ 15 جولائی کی شب ہونے والی بغاوت کے دوران 270 لوگ مارے گئے تھے لیکن ...
ترکی میں ۱۵؍ جولائی کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت داخلی، علاقائی اور عالمی تناظر میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔ جس طرح ہارٹ اٹیک کے بعد آدمی کا طرز زندگی، معمولات، میل جول، محلے داری سب کچھ اچانک بدل جاتا ہے، اسی طرح اس واقعے کا اثر پورے ترک معاشرے اور ریاست پر بہت گہرا ہوا ہے۔ اگ...
جس طرح ہمارے کچھ وزراء صاحبان ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر اپنے علاوہ سب کی بغلیں بجاتے ہوئے پائے گئے تھے ویسا ہی معاملہ ہمارے کسی عزیز کا بھی ہوا ۔وزیر تو بے چارے اپنے حاکم عالی مرتبت کے ہاتھوں مجبور ہیں، دکھانے کے لیے اپنے ہی منھ پر طمانچے مار کر گال لال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں ...
ترک صدر رجب طیب اردوغان ترک عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ جس قوم کے افراد اس رہنما کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے تقریر کے دوران شہدا کی یاد میں ایک خوبصورت ن...
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں ناکام بغاوت کے بعد مغربی رہنماؤں کی جانب سے انقرہ کے ساتھ اظہار یکجہتی نہ کرنے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک جنہیں ترکی میں جمہوریت کے بجائے باغیوں کی فکر کھائے جا رہی ہے، ہر گز ترکی کے دوست نہیں ہو سکتے۔ انقرہ کے صدارتی محل م...
یہ ایک اوسط درجے سے بھی کم ذہانت کا مظاہرہ ہے کہ یہ سوال بھی اُٹھایا جائے کہ بغاوت تو فوج نے کی اور سزا ججوں کو کیوں دی جارہی ہے۔ اول تو کسی بھی بغاوت سے پہلے اُس کے معمار اسی پر غور کرتے ہیں کہ بغاوت کے بعد خود کو قانونی شکنجے سے بچانے اور آئینی خرخرے سے سنبھالنے کا طریقہ کیا ہو...
ترکی میں ناکام بغاوت کے منصوبہ ساز فتح اللہ گولن امریکا کی سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے لیے کام کرچکے ہیں، یہ بات روس کی دوما کےنمائندے اور اس کی تعلیمی کونسل کے سربراہ ویاکیسلاف نکونوف نے بتائی ہے۔ سرکاری ٹیلی وژن پر جاری ہونے والی ایک تقریر میں نکونوف نے کہا کہ "گول...
امریکا کی کامیابی یہ نہیں کہ وہ دنیا کے حالات پر گرفت رکھتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ ان حالات کی جس طرح چاہے تفہیم پیدا کرانے میں کامیاب رہتا ہے۔ ترک بغاوت پر جتنے پراگندہ خیال و حال پاکستان میں پیدا ہوئے، اُتنے خود ترکی میں بھی دکھائی نہیں پڑتے۔ مگر امریکا کے لیے تقدیر ن...
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کےبعد ترک حکومت نے نہایت سنجیدگی سے بغاوت کے محرکین کے خلاف ٹھوس کارروائیوں کا سلسلہ جاری کررکھا ہے۔ ترک حکومت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ترکی کی حالیہ ناکام بغاوت میں فتح اللہ گولن کا مرکزی کردار تھا۔ اور اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ اس ضمن میں ترک حکوم...