... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
شہدا ء اسٹریٹ کے اختتام پر ایک سیمنٹ بلاک کی اوٹ میں مجھے گول متھلو سا غسان دکھائی دے گیا۔ چلتے وقت الخلیل کے ایچ ون علاقے میں اس کا تعارف مجھے بہت تفصیل سے کرادیا گیا تھا۔ غسان میاں چالاک تھے۔ ایسے چالاک جو ذہانت بہت سینت سینت کر رکھتے ہیں۔ مجھے بھی انہوں نے دور سے پہچان کر بہت سرعت سے پتلی گلی پکڑی۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ ع
میں بھی بہت آرام سے ٹہلتا ہوا اُس گلی میں چلا گیا۔ وہ لاتعلقی سے تیز تیز آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسی جگہ آگئے جہاں کسی چھاپے کی صورت میں فرار کے بہت سے راستے تھے۔ میرے نزدیک آنے پر ایسے لپٹ گئے جیسے جنم جنم کی ملاقات ہو۔ چند سو میٹر کی یہ پھرتی اس کی سانسوں کو بھاری پڑی تھی۔ وہ بُری طرح ہانپ رہا تھا، شاید خوف بھی تھا۔ گلے ملنے اور سانسوں کے بحال ہونے تک حضرت نے ملاقات کی اس بے ضابطگی کا احوال اس وضاحت سے دیا کہ وہاں ملتے تو اسرائیلی فوجی اسے گرفتار کرلیتے اور مجھے شامل تفتیش کرکے ہراساں کرتے۔ چندگلیاں چھوڑ کر جب ان کا محلہ اور گھر آگیاتومجھے لگا کہ یہ تو وہی شہدا اسٹریٹ کا پچھواڑہ ہے۔ یہ درست تھا کیوں کہ اس کا مرکزی دروازہ بھی دیگر گھروں کی مانند ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیل کردیا گیا۔ داخلے کی اجازت عقبی دروازے سے تھی۔ اس میں کسی قسم کوئی رو رعایت نہ تھی۔
وہ مجھے لے کر چھت پر چلاگیا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ نارمل زندگی کسے کہتے ہیں، اس کا ہمیں تو اب ادراک اور ذائقہ بھی نہیں رہا۔ ہمارا ہر گھر بیت الآم ہے۔ ماتم کدہ رفتگاں و شھیدان وطن ہے۔ شاید ہی کوئی فلسطینی گھر ایسا ہو جس کی میز پر کسی شہید کی تصویر نہ ہو۔ کوئی ماں بہن بیٹی ایسی نہیں جس کی آنکھ اپنے بیٹے بھائی یا باپ لیے اشکبار نہ ہو۔ ہم ایسے مجبور ہیں جو شہادت کے منتظر ہیں۔ اس چھت سے بائیں جانب وہ جو گھر ہے وہ اُم حبیبہ کا ہے۔ ان یہودی پناہ گیر آباد کاروں نے اس کے میاں اور دو نوجوان بیٹوں کو مارڈالا۔ یہ قاسم کا گھر ہے۔ اس نے ایسے ہی کسی گھر کی جانب اشارہ کیا، قاسم نابینا اور جھلسا ہوا ہے۔ اس کے چہرے پر کسی یہودی نے تیزاب پھینک دیا تھا۔ میں گھر کی جانب کیا دیکھتا۔ میری آنکھیں دُھندلا چکی تھیں۔ کانوں میں سناٹے گونج رہے تھے اور ذہن ماؤف ہوچکا تھا۔ میں خود کو کوس رہا تھا کہ اس بستی کرب و بلا میں آنے کا فیصلہ میں نے آخر کیوں کیا۔ ساری دنیا انہیں نظر انداز کیے بیٹھی ہے۔ انہیں مرنے دو۔ میں بھی ایسا کرلیتا۔
کسی دن ان کا تہوار ہوتا ہے تو یہ بہانے سے ہماری بستی میں آجاتے ہیں، اس قدر بے ہودگی اور ظلم کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ۔ ہم اقوام متحدہ کے فوجیوں کو درخواست کرتے ہیں کہ ایسے موقع پر وہ آجایا کریں۔ ہمارے بچے بھی اب انہیں مبصرین کی نگرانی میں اسکول جاسکتے ہیں، تنہا نہیں۔
’’تمہارے بچے ہیں ڈاکٹر صاحب‘‘ مجھے لگاکہ وہ یہ سوال شاید مجھے ڈی اسٹریس کرنے کے لیے پوچھ رہاہے۔ میں نے بھی اپنی نارمل حالات میں لوٹنا مناسب سمجھا ’’ جی۔ دو‘‘
’’آپ یقینا اُن سے پیار بھی بہت کرتے ہوں گے‘‘۔ غسان نے اپنا بیان جاری رکھا۔ مجھے لگا کہ میں تو اسی خارزار میں بھٹک رہا ہوں
جی ہاں دنیا میں وہی میرے لیے سب کچھ ہیں۔ میں نے بھی زندگی کی اس بڑی حقیقت کا اظہار ایک ایسی کیفیت میں کیاجس کی بے یقینی سے ان لمحات کی تلخی کے حوالے سے صرف میں ہی واقف ہوں۔
اُن کی آواز اب ڈوب چلی تھی۔ ایسا لہجہ ہوچلا تھا جو یا تو بہت پیار میں ڈوبی گھڑیوں کا ہوتا ہے یا ان کڑواہٹوں کو جو آپ کی صوتی رگوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ وہ کہہ رہا تھا ان سے پیار کرنا مت چھوڑیے گا۔ ہمارے بچوں کی زندگی کی سب بڑی خوشی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس شہدا اسٹریٹ پر کھیلیں کودیں دوڑیں بھاگیں۔ وہ ہماری لاکھ احتیاط اور ممانعت کے باوجود ایسا کرتے بھی ہیں۔ انہیں موت کی مستقل مزاجی کا علم نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موت REVERSIBLE PHENOMENONہے۔ سارا دکھ تو زندہ رہ جانے والوں کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اس کو آزادی اور بغاوت سمجھ کر نکل جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک موت کا ہاتھ تھام کر اس سڑک پرنکلنا ہی زندگی ہے۔ یہی آزادی ہے، بے حیثیت ہی سہی مگر اختیار تو اپنا ہے۔
میں نے گفتگو کا یہ الم انگیز بیانیہ حل اور تجزیے کی جانب موڑ دیا۔ آپ تو بہت عمدہ موٹر مکینک ہیں۔ یہ جگہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ ایچ ون یا کہیں اور کیوں نہیں چلے جاتے۔ ہمارے دشمن، یہ گھس بیٹھیے بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کی ان حرکات سے زچ ہوکر علاقہ چھوڑ دیں۔ ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ ہمارا یقین ہے کہ ہم نہ سہی ہمارے دوسری تیسری چوتھی نسل اس سرزمین پر ایک دفعہ پھر آزادی کا سانس لے گی۔ اب اس کی آواز میں توانائی اور اعتماد تھا۔ ہر ظلم کو ایک دن مٹ جانا ہے۔ ہر ظالم کو برباد ہوجاناہے۔
ہم وہاں سے نکل کر ایک گھنٹے تک عرب علاقوں میں گھومتے رہے۔ یہاں ہر جانب غربت عیاں تھی۔ ان کے غریبوں میں اور ہمارے غریبوں میں دو بڑے واضح فرق ہیں۔ اجتماعی شعور، اور بے پناہ صفائی۔ ان کی خواتین، ان کے لباس سے غربت اور لمحات اندوہ کرب میں بھی پاکیزگی اور رکھ رکھاؤ دکھائی دیتا ہے۔ وہاں جن سے بھی بات ہوئی ہر گھر سے وابستہ ایک داستان الم کے پیچھے اعتماد اور امید تھی۔ یہ بڑے غازی اور مجاہد لوگ ہیں، میں جب ایچ ون کی طرف واپس آرہا تھا تو اندر سے بہت کرچی کرچی ہوچکا تھا۔ بہت سے سوال تھے جن کا میرے پاس اپنی زندگی کے حوالے سے اور ان کی زندگی کے حوالے سے کوئی جواب نہ تھا۔ آپ ٹی وی پر جو مناظر دیکھتے ہیں ان کے ساتھ گھر کا ایک احساس تحفظ وابستہ ہوتا ہے، ان جگہوں کو جب حقیقت میں وہاں جاکر دیکھتے ہیں تو آپ پر سچ کا بوجھ سنگِ گراں کی مانند آن پڑتا ہے۔
ایچ ون کے علاقے میں میری واپسی تک دوپہر ہوچکی تھی اور عبدالقادر میرا انتظار کررہے تھے۔ انہوں نے یہ نہ پوچھا کہ وہاں میں نے کیا دیکھا یا میرے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ ایسا لگتا تھا میرا احوال میرے چہرے پر درج تھا جو اس نے بہت خاموشی سے پڑھ لیا ہے۔ میں نے صلوۃ الجمعہ کا قصد کیا۔ اس مقصد کے لیے ہم آہستہ آہستہ حرم ابراہیمی کی جانب بڑھنے لگے۔ اسے یہودی Cave of Patriarchs, یعنی غار بزرگاں بھی کہتے ہیں۔ راستے میں تین ملٹری چیک پوسٹ آئیں۔ تیسری چیک پوسٹ سے گزر کر ہم ایک پختہ احاطے میں داخل ہوگئے۔ اس احاطے میں بائیں جانب نصب turnstiles سے گزر کر فلسطینی داخل ہوسکتے ہیں۔ انہیں یہاں سنگل قطار میں کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ ہر فرد واحد کو اسرائیلی فوجی اچھی طرح سے کھنگالتے ہیں۔ مکمل جامہ تلاشی کے بعد انہیں مسجد میں داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ قادر کو چونکہ وضو کرنے کے لیے جانا تھا۔ لہذا وہ مجھے اس ہدایت کے ساتھ کہ میں اس کے واپس آنے تلک اسی جگہ اس کا انتظار کروں، چھوڑ کر چلا گیا۔ مجھے خیال آیا کہ یوں ہی بے کار اس کی راہ تکنے سے تو بہتر ہے کہ میں ایک آدھ تصویر اس مقام کی کھینچ لوں۔ میں نے قطار مجبوری میں کھڑے عربوں اور اس چیک پوسٹ کی تصویر کھینچ لی۔ جیسے ہی میرا ارادہ دوسری تصویر کھینچنے کا تھا مجھے چار سو ایک یلغار سنائی دی۔ اسی دوران میں مجھے پانچ اسرائیلی فوجیوں نے گھیر لیا۔ ان کی بندوق کی نالیوں کا رخ میرے سر اور سینے پر تھا۔ وہ عبرانی زبان میں چیخ رہے تھے۔ ان کی گرفت سے مجھے لگ رہا تھا کہ مجھے ان رسوائے زمانہ فوجیوں نے حراست میں لے لیا ہے۔ میں نے اطمینان اور سکون سے ہاتھ اوپر کرلیے اور انہیں آہستگی سے بتلایا کہ میں تو سیاح ہوں۔ میرا پاسپورٹ بھی میرے داہنے ہاتھ میں تھا۔ ایک فوجی نے میرا پاسپورٹ جھٹ سے چھین کر اس کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ اس دوران اس کی نگاہیں گاہے بہ گاہے پاسپورٹ سے اٹھ کر میرے چہرے پر مرکوز ہوجاتیں۔ یہاں کیسے آئے ؟ اس نے قدرے درشتگی سے پوچھا۔ ’’بذریعہ ٹیکسی ‘‘ میں نے جواباً وضاحت کی۔ ڈرائیور کہاں ہے؟ اس نے اگلا سوال داغا مگر اس کا لہجہ اب قدرے نرم تھا۔ میری نگاہ سامنے سے آتے ہوئے عبدالقادر پر پڑی تو یک گونہ اطمینان سا ہوا، مجھے یقین تھا کہ مقامی باشندہ ہونے اور اس طرح کے حالات کا مسلسل سامنا کرنے سے وہ بخوبی واقف ہوگا۔ جیسے ہی انہوں نے قادر کو دیکھا وہ اس پر بے رحمی سے ٹوٹ پڑے اور اس کے ہاتھ اور گریبان قابو کرکے اس کا سر ایک دیوار سے لگا دیا۔ یہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا کہ ایک بوڑھا ڈرائیور میری وجہ سے اس عتاب بے جا کا نشانا بنے۔ میرا خون کھول گیا۔ میں ان کے اور عبدالقادر کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ جس پر عبدالقادر نے چیخ کر مجھے ایک جانب ہٹ جانے کو کہا وہ کہہ رہا تھاDoc go away, stay away, I will handle it۔ میں نے بھی انہیں تقریباً چیخ کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر یہ کوئی جرم ہے تو میرا ہے وہ بے چارہ تو وہاں موجود بھی نہ تھا۔ جو معاملہ ہے مجھ سے کریں۔
عبدالقادر بے چارہ مریض قلب ہونے کی وجہ سے بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ لائن میں کھڑے دیگر نمازیوں میں جو یہ سارا واقعہ دیکھ رہے تھے ایک بے چینی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی وہاں سے صدائے احتجاج بلند ہونے لگی اور ایک ہنگامہ پھوٹ پڑنے کا امکان پیدا ہو گیا۔ میری نگاہ اس دوران اقوام متحدہ کے دو مبصرین پر پڑی جو غار بزرگاں Cave of Patriarchs کی ڈھلوان پر کچھ فاصلے پر کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ میں نے جست بھری اور ان کے پاس جاپہنچا۔ ان دو مبصرین میں ایک تو ڈنمارک کی خاتون تھی اور دوسرے صاحب کا تعلق جنوبی افریقا کے شہر کیپ ٹاؤن سے تھا۔ میں نے انہیں جلدی جلدی اپنی بپتا سنائی۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں مجھے ساتھ لے کر تقریباً بھاگتے ہوئے ان اسرائیلی فوجیوں کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھے۔ موقع کی نزاکت بھانپ کر اسرائیلی فوجی ایک دم پیچھے ہٹ گئے۔ ایک نے ذرا فاصلے سے انہیں بتایا کہ میں ممنوع علاقے میں تصاویر لے رہا تھا۔ میں چونکہ ایک سیاح ہوں لہذایہ ڈرائیور کی ذمہ داری ہے کہ مجھے وہ ان تمام مضمرات سے پہلے ہی آگاہ کرتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ قادر تو وضو کرنے گیا تھا اور ایک تاریخی اور سیاحتی اہمیت کی جگہ ہونے کے ناطے تصاویر لینے کا فیصلہ خالصتاً میرا محرکاتی عمل تھا۔ میرا ہم وطن جو واضح طور پر میرے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتا تھا اس نے تجویز پیش کی کہ فوجی میرا آئی فون دیکھ لیں اور وہ دو تصاویر جو میں نے اس احاطے میں کھینچی ہیں۔ اُنہیں ڈیلیٹ کردیں۔ انہیں بھی یہ تجویز بھلی لگی۔ اس پر فی الفور عمل بھی ہوگیا اور انہوں نے ہم دونوں کو مسجد میں صلوۃ الجمعہ کے لیے جانے دیا۔
مسجد کی راہداری تک پہنچتے پہنچتے قادر کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے مجھے کہا کہ میں تو ایک مجاہد ہوں۔ میں نے اسے کہا کہ میرا تعلق پاکستان کے علاقے پو ٹھوہارسے ہے۔ ہمیں ویسے بھی غیر ضروری جنگوں کی بہت عادت ہے۔ ہٹلر نے جب ہمارے سپاہیوں کو اتحادیوں کے لیے جان لٹاتے دیکھا تو اس نے جنرل رومیل کو کہا کہ اگر مجھے انگلش ٹینک اور پوٹھوہاری سپاہی مل جائیں تو دنیا فتح کرنا اتنا مشکل کام نہیں۔
مجھے لگا عبدالقادر کو ہٹلر کی حکمت عملی پسند آئی اور ہم مسکراتے ہوئے حرم ابراہیمی میں واقع صلوۃ ہال میں داخل ہوگئے۔
(جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...