... loading ...
سندھ کا وزیراعلیٰ بننے سے سید مرادعلی شاہ کی ’’مراد‘‘ تو پوری ہوگئی لیکن صوبے کے عوام بدستور اپنے آدرش کی تلاش میں ہیں ۔رشوت اور بدعنوانیوں سے پاک ’’اچھی حکمرانی‘‘ تو جیسے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر سے رینجرز کی تعیناتی کا تنازع‘ جو حل ہونے میں نہیں آرہا ہے‘ وزیراعلیٰ کے آبائی علاقے دادو میں ایس ایس پی منیر احمد شیخ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہے تھے‘ مجرموں کو پکڑرہے تھے‘ نثارچانڈیو کے گھر پر چھاپہ مارا تھا جس کے سر کی قیمت پانچ لاکھ روپے مقرر ہے۔ ان ڈاکوؤں کے گرد گھیرا تنگ کررہے تھے جنہیں علاقے کے بااثر وڈیروں کی سرپرستی حاصل ہے‘ ان کی یہ بے باکی علاقہ کے رکن قومی اسمبلی سردار خان چانڈیو کو پسند نہ آئی۔ انہوں نے دبئی جاکر چار پی کے صدر آصف زرداری کو شکایت لگادی اور وہاں سے وزیراعلیٰ کو حکم آگیا کہ منیر شیخ کا تبادلہ کردیاجائے‘ جس طرح جنرل ضیاء الحق (مرحوم) نے ایک دن جی ایچ کیو میں سائیکل چلاکر قوم کو کفایت شعاری کا درس دیا تھا‘ اسی طرح وزیراعلیٰ مراد علیشاہ نے ایک دن سندھ سیکریٹریٹ صبح9بجے پہنچ کربیوروکریسی کو وقت کی پابندی کا سبق پڑھایا جسے وزراء نے اپنایا بھی‘ لیکن برسوں کی زنگ آلود انتظامیہ اپنا رنگ روپ بدلنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
کراچی کے کوٹہ پر تقرری حاصل کرنے والی خواتین کالجز کی 54 اسسٹنٹ پروفیسرز کی تقرری اندرون سندھ ان کے آبائی علاقوں میں کردی گئی ہے۔ سندھ کے نئے وزیر تعلیم جام مہتاب ڈھرکی آمد کے ساتھ ہی یہ واقعہ جنم پذیر ہوا۔ ایسے ہی واقعات کراچی کے ’’احساسِ محرومی‘‘ کو گہرا کررہے ہیں۔ سندھ حکومت کراچی کے شہریوں سے اربوں روپے کے ٹیکس جمع کرتی ہے اور جواب میں ساڑھے سات ارب روپے شہر اور نالوں کی صفائی کیلئے ’’عطا‘‘ کیے جاتے ہیں لیکن سڑکوں‘ گلی‘ محلوں اور ندی نالوں کا حال یہ بتاتا ہے کہ گزشتہ8سال کا فنڈ تقریباً 60ارب روپے دفن ہوچکاہے۔ معزول وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اقتدار کے نشہ میں تین دن کے اندر کراچی کو صاف کرنے کا نادرشاہی حکم جاری کیا تھا لیکن جو شہر8سال میں صاف نہ ہوسکا‘ وہ تین دن میں کیا صاف ہوتا‘ قائم علی شاہ دل کی حسرت دل میں لیئے رخصت ہوگئے۔ مہاجر اتحاد تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم حیدر کہتے ہیں کہ کسی بھی ریاست اورحکومت کا بنیادی مقصد اور کام اپنی حدود میں تحفظ امن وامان کا قیام اور شہریوں کو بلاامتیاز انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے سندھ میں1979ء کے بعد اور بالخصوص غوث علی شاہ وزارت اعلیٰ کے بعد سے ہی مسلسل بدامنی کا دور دورہ ہے امن وامان قیام کی خاطر بارہا دعوے اور اقدامات کے اعلانات تو کئے گئے لیکن آج تک نہ کوئی منصوبہ کامیاب اور قابل عمل ثابت ہوسکا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق سندھ میں پائیدار امن وانصاف کے قیام کا ادھورا نامکمل خواب حکومت کی آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ صوبائی حکمران تو دہشت گردی‘ بھتہ خوری‘ اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین واقعات پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے لیکن آپریشن ضرب عضب کے طفیل اور جنرل راحیل شریف کی خصوصی توجہ کے باعث وفاقی حکومت کے اداروں بالخصوص رینجرز کی مدد کے سہارے کسی حد تک سندھ میں امن وامان کے قیام کی کوششیں رنگ لارہی ہیں‘ کتنی ستم ظریفی ہے کہ19جولائی2016ء کے بعد سے رینجرز کی مدت اور خصوصی اختیارات کی توسیع کے حساس مسئلے پر صوبائی حکومت نے بچکانہ طرز عمل اختیار کیا ہوا ہے ۔صوبائی حکومت کے دبئی کنٹرول فیصلوں سے صوبہ سندھ وفاق پاکستان کا حصہ ہونے سے زیادہ دبئی‘ متحدہ عرب امارات کی کالونی محسوس ہوتا ہے‘ گو کہ گزشتہ ہفتے برطرف ہونے والی ’’سائیں قائم علی شاہ سرکار‘‘ اپنے سوتے رہنے کی شاندار کارکردگی کے بعد رخصت ہوچکی ہے اور نئی مراد علی شاہ سرکار صبح9بجے اُٹھ کر تبدیلی کا پروپیگنڈہ کررہے ہیں حالانکہ سابقہ قائم علی شاہ حکومت میں جس بڑے پیمانے پر کرپشن‘ لوٹ مار‘ ناانصافی‘ متعصبانہ سیاسی فیصلوں کا ارتکاب کیاگیا ہے اس کا احتساب ضروری ہے‘ کرپشن ایک معاشی دہشت گردی ہے جس کے احتساب اور خاتمے کے بغیر سندھ میں امن قائم نہیں ہوسکتا‘ موجودہ وزیراعلیٰ روزانہ یہ بھاشن دیتے ہیں کہ ’’ماضی کو بھول جائیں آئندہ کرپشن نہیں کرنے دینگے‘‘ سابق وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا نے انکشاف کیا ہے کہ ’’مراد علی شاہ سندھ بجٹ کا7%آصف زرداری کو پہنچاتے ہیں جو اب بڑھ کر14%ہوگیا ہے‘‘ اس الزام کی فوری تحقیق کی ضرورت ہے۔ ماضی کی کرپشن کی نیب کے ذریعے تحقیقات کروائی جائیں اور نتائج آنے تک انہیں وزارت اعلیٰ کے اختیارات کے استعمال سے روکا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی جیسا بین الاقوامی شہر ’’دنیا کا سب سے بڑا گوٹھ‘‘ بنادیاگیا ہے‘ پانی جیسی بنیادی ضرورت کی عدم فراہمی ‘ سیوریج گندگی کی موجودگی‘ ٹرانسپورٹ کی بدحالی‘ تعلیم و صحت کے ادارہ کی خستہ حالی اور سب سے بڑھ کر صوبائی اقتدارسے کراچی اور شہری سندھ کی مکمل علیحدگی جیسے سنگین معاملات ناکامی کا کھلا ثبوت ہیں۔ کراچی‘ حیدرآباد کے مقامی شہری ربع صدی سے خیرپور اور دادو کے حکمرانوں کے رحم وکرام پر ہیں‘ شہری عوام اپنی بدحالی کا ذمہ دار کرپٹ متعصب حکمرانوں کو سمجھتے ہیں جنہوں نے صوبائی حکومت ‘ وزارت‘ بیوروکریسی‘ ملازمت‘ تعلیم سمیت ہر شعبہ زندگی میں شہری نمائندگی ناممکن بنادی ہے‘ شہری عوام صوبائی حکمرانوں سے مایوس ہوکر وفاق کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وفاق پاکستان شہری عوام کو وطن عزیز میں اپنے مستقبل سے مزید مایوس نہیں کرے گا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے اہم رہنما اور قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ اگر سندھ حکومت سے کراچی نہیں سنبھل رہا تو اسے الگ صوبہ بنادیں‘ ڈاکٹر سلیم حیدر نے اس ابتر صورتحال کا حل یہ پیش کیا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقے نااہل وڈیرہ قیادت کے تسلط سے نکال کر وفاق کے ماتحت کردیئے جائیں۔ اس طرح وہ سندھ کا حصہ بھی ہوں گے اور میرٹ کی بنیاد پر منتخب اہل انتظامیہ ان کا نقشہ بدل دے گی۔ قیام پاکستان کے فوری بعد محمد ایوب کھوڑو سندھ کے وزیراعلیٰ اور سندھ مسلم لیگ کے صدر تھے۔ سندھ کابینہ کے اندرونی اختلافات نے اسکینڈل کی شکل اختیار کرلی۔وزراء ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے لگے تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اس صورتحال کو ناپسند کیا اور گورنر سندھ سے رپورٹ مانگ لی رپورٹ دیکھنے کے بعد قائداعظم نے گورنر کو ہدایت کی کہ وہ ایوب کھوڑو کو وزارت اعلیٰ سے برطرف کردیں‘ برطرفی کے بعد مقدمہ چلانے کیلئے ٹریبونل مقرر کیاگیا‘ جہاں معزول وزیراعلیٰ پر بدانتظامی اور اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو بجا لانے میں سنگین بے قاعدگیوں کے الزامات عائد کئے گئے جن کی تحقیقات ہوئی اور سزا کے طور پر خان بہادر ایوب کھوڑو کو تین سال کیلئے کسی سیاسی عہدے پر فائز ہونے سے روک دیاگیا‘ اسمبلی کی رکنیت بھی گئی اور ایک فوجداری مقدمہ میں انہیں دو سال کی سزا ہوئی جس کے خلاف انہوں نے سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور خود درپردہ سیاست کا کھیل کھیلتے رہے ان کی جگہ پیرالٰہی بخش نے3مئی1948ء کو وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا اور سندھ مسلم لیگ کے صدر بھی منتخب ہوگئے‘ مئی1948ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے کراچی کو مرکزی دارالحکومت بناکر اس کا انتظام براہ راست مرکزی حکومت کوتفویض کردیا۔ جولائی کے مہینے میں گورنر جنرل قائداعظم نے بھی اس فیصلے کی توثیق کرکے مہر تصدیق ثبت کردی‘ یہاں خان بہادر ایوب کھوڑو کو ’’سندھ کارڈ‘‘ کھیلنے کا موقع مل گیا‘ ان کے زیراثر سندھ مسلم لیگ نے اس فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کرلی اور کونسل نے سندھ کے وزراء کو ہدایت کی کہ وہ کراچی کے سلسلے میں مرکزی حکومت کا فیصلہ قبول نہ کریں اور وزارت سے مستعفی ہوکر کراچی کی علیحدگی کے مسئلہ پر دوبارہ انتخابات لڑیں‘ کونسل نے اپنی مجلس عمل کو ’’قومی ماتم کا ایک دن‘‘ منانے کیلئے موزوں تاریخ مقرر کرنے اور احتجاج کی ہدایت بھی کی۔ اس سلسلے میں جب ایگزیکٹیو کمیٹی کا اجلاس ہوا تو رکن اسمبلی ہاشم گزدر نے تجویز پیش کی کہ کوئی قدم اٹھانے سے قبل قائداعظم سے ملاقات کرلی جائے چنانچہ پانچ رکنی وفد تشکیل دیاگیا جس نے قائداعظم سے ملاقات کی۔ قائداعظم نے حالات اور واقعات کی روشنی میں فیصلہ دیاکہ کراچی کو وفاق کے ماتحت علاقہ بنانے کے سلسلے میں دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ قبول کرلیاجائے اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ مرکزی حکومت بتدریج کراچی میں اپنے دفتر بنائے گی اور تمام املاک کا معاوضہ ادا کرے گی کراچی میں جو بھی تعمیراتی کام ہوگا اور سہولتیں میسر ہوں گی ان سے بہرحال سندھ کو فائدہ ہوگا‘ قائداعظم کی بات تسلیم کرلی گئی۔5جولائی کو سندھ مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے5کے مقابلے میں 26ووٹوں سے قائداعظم کے مشورے کی حمایت کردی اور کراچی کو وفاق کے زیرانتظام علاقہ بنادیاگیا۔ ایوب کھوڑو اور ان کے بعض ساتھیوں کی کراچی کے حوالے سے مخالفت محض اپنے سیاسی مفادات کیلئے تھی‘ اگر انہیں سندھ سے اتنا ہی پیار ہوتا تو8نومبر 1954ء کو جب وزیراعلیٰ پیرزادہ عبدالستار کی وزارت اعلیٰ سے برطرفی کے بعد ایوب کھوڑو کو وزیراعلیٰ بنایاگیا تو وہ ون یونٹ کی حمایت نہ کرتے جس کی مخالفت کرنے پر پیرزادہ عبدالستار کی حکومت ختم کردی گئی تھی ون یونٹ کی حمایت کے صلے میں ایوب کھوڑو کو مغربی پاکستان کابینہ میں بھی وزیر لے لیاگیا۔ سندھ ایک بار پھر 1950ء کے عشرے کی کہانی دوہرا رہا ہے‘ سندھ کی نئی کابینہ میں کراچی کی سیاسی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ حیدرآباد سمیت صوبے کے شہری علاقے احساس محرومی کی آگ میں سلگ رہے ہیں۔ ان کے نمائندے صوبائی فیصلوں میں شرکت سے محروم ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ڈاکٹر سلیم حیدر کے اعلانات اور بیانات کراچی‘ حیدرآباد‘ میرپورخاص‘ سکھر اور نوابشاہ کے شہری علاقوں کی ترجمانی کرتے ہیں‘ سندھ کی وحدت کا رومانس بہت دلکش ہے لیکن ناانصافی‘ حق تلفی‘ بددیانتی اور بے ایمانی سے تو خون کے رشتے بھی کمزور پڑجاتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل147 سے149تک واضح طور پر وفاق کو یہ اختیارات دیتے ہیں کہ کسی گڑ بڑ کی صورت میں صوبے میں کارروائی کرسکتا ہے۔ آرٹیکل 148کی تیسری ذیلی شق(3) کے تحت ’’وفاق کا یہ فرض ہوگا کہ ہر صوبے کو بیرونی جارحیت اور اندرونی خلفشار سے محفوظ رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر صوبائی حکومت دستور کے احکامات کے مطابق چلائی جائے‘‘ سندھ حکومت کو غور کرنا چاہیئے کہ صوبے کے شہری علاقوں کے حوالے سے کہیں کوئی حق تلفی تو نہیں ہورہی ہے جس سے خلفشار‘ انتشار اور انارکی پھیلنے کا خدشہ ہو اور وفاق کو مجبوراً کوئی کارروائی کرنی پڑے۔
کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...
کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...
کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...
بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...
کراچی کے علاقے سعود آباد سے جعلی ادویات بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی۔ پولیس نے لاکھوں روپے مالیت کی جعلی ادویات برآمد کرلیں۔ پولیس کے مطابق سعود آباد میں فیکٹری پر چھاپہ کارروائی کی گئی، اس دوران چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، غیر قانونی طور پر فیکٹری میں جعلی ادویات بنائی جا رہی تھ...
عمرکوٹ میں چھاچھرو روڈ پر سیلاب متاثرین نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گاڑی روک لی اور شکایات کے انبار لگا دیے۔ متاثرین کے مطابق ان کے گھر بارشوں کی نذر ہوگئے، نہ راشن ملا ہے نہ پانی دستیاب ہے۔ سیلاب متاثرین نے کہا کہ ان کے علاقوں سے پانی نکالا جائے تاکہ وہ اپنے گھروں کو واپس...
اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے شاہین فورس کے قیام اور گشت کے باوجود شہر میں لوٹ مار کی وارداتوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، نیو کراچی صنعتی ایریا میں موٹر سائیکل سوار ڈاکو فیکٹری ملازم سے 10 لاکھ روپے نقد لوٹ ک...
کراچی میں شدید گرمی کے باعث لوڈ شیڈنگ نے عوام کا بُرا حال کردیا۔ تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں درجہ حرارت میں اضافے کے بعد کے الیکٹرک نے بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا۔ نارتھ ناظم آباد بلاک ڈبلیو، کورنگی، لیاقت آباد، گلبہار، ابوالحسن اصفہانی روڈ ، پاک کالونی، پی ای سی ایچ ایس،...
بلدیہ عظمیٰ کے ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف زرداری سے ایم کیو ایم رہنماؤں سے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلدیہ عظمی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بلاول ہاؤس ...
شہر میں پانی کے شدید بحران، ٹینکرمافیا اور واٹر بورڈ کی ملی بھگت اور کراچی کے لیے 650 ملین گیلن کے K-4 منصوبے میں کٹوتی، سرکاری سرپرستی میں کے الیکٹرک کی ظلم وزیادتی، شدید لوڈشیڈنگ اورنرخوں میں اضافہ، کراچی کے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں میں حق تلفی اور جعلی مردم شماری کے خلاف کر...