... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اللہ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ میں وہاں الخلیل میں عبدالقادر کے رشتہ دار تاجروں سے ایچ ٹو ایریا میں جانے کی ضد کررہا تھا اور وہ مجھے روک رہے تھے کہ وہ بہت شورش زدہ علاقہ ہے۔ وہاں کے یہودی شیطان کا دوسرا جنم ہیں۔ وہاں جانے کی کوشش میں انہیں قائل کرنے میں اس لیے کامیاب ہوگیا کہ میں نے انہیں باور کرایا کہ میں وہاں موجود تیس ہزارفلسطینیوں کے حالات کا خود جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ فلسطینی عربوں میں موجود یہ مسلمان، برما کے روہنگیا، چین کے یوغور مسلمان، سینٹرل افریقن ری پبلک اورشام کے مسلمان اس وقت دنیا کے مظلوم ترین مسلمان ہیں۔ میں ان فلسطینیوں سے ملنا اور گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
ممکن ہو تو میں وہاں موجود یہودی پناہ گیروں سے بھی ملنا چاہتا ہوں۔عین اسی لمحے ایک اور رشتہ دار آگے بڑھا۔ یہ پی ایل او فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا ایک سرگرم کارکن تھا۔وہ بتانے لگا کہ وہاں کے حالات اتنے کشیدہ ہیں کہ اگر تمہیں کچھ ہوجائے تو اس کی اسرائیل اور دنیا بھر میں کوئی شنوائی نہیں ہوگی ۔یہاں فائرنگ، خنجر زنی اور گرفتاریاں روز مرہ کا معمول ہیں۔وہاں سیاح جانے سے گریز کرتے ہیں۔بڑے ٹور آپریٹر اپنے مہمانوں کو باقاعدہ اطلاع دے کر اسرائیلی فوج کی نگرانی میں لے جاتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ آپ اس غیر ضروری مہم جوئی سے باز رہیں۔ مجھے لگا کہ وہ بہت غیر محسوس طریقے سے میرے لگاؤ کو بھانپ رہے ہیں ۔بہت آہستگی سے یہ ضد جب انہیں بھی مہمان کی ضد سے آگاہی کا سفر نظر آنے لگی اور انہیں بھی یہ محسوس ہونے لگا کہ میں واقعی اپنے فلسطینی بھائیوں کے حالات زندگی اور ان کے کرب کا اندازہ خود وہاں کا مشاہدہ کرکے لینا چاہتا ہوں۔ یہ کھوج لگانا چاہتا ہوں کہ وہ کیا جذبہ اور تحریک ہے جس نے انہیں ان مشکل اور نامساعد حالات میں بھی وہیں قیام کرنے پر آمادہ کیا ہواہے۔تذبذب کی اس دھندلی فضا کو عبدالقادر نے اسطرح صاف کردیا کہ عین اس موقع پر باکسنگ رنگ میں موجود ریفری کی طرح اعلان کیا کہ مصطفے وہاں ضرور جائے گا ، وہ باز آنے والا نہیں مجھے وہاں جانے کے لیے ایک ایسا شخص درکار ہے جو اسے یہ سب کچھ دکھا سکے‘‘۔ ایک دو فون کال اور میرے لیے وہاں غسان صاحب کا بندوبست ہوگیا۔
وہ حضرت مجھے یہودی آباد کاروں کے علاقے H-2.میں مل جائیں گے۔عبدالقادر کے پاس گو پروانۂ راہداری ہے ، وہ بھی وہاں کا باشندہ ہے مگر مجھے لگا کہ وہ جانے میں کچھ ہراساں ہے۔ سو، میں نے وہاں موجود اپنے میزبانوں کو اللہ حافظ کہا اور تنہا پیدل ہی چل نکلا۔ مٹی سے اٹی سڑکوں پر چلتے چلتے،کچھ موڑ ادھر ادھر مڑتے میں ایک ایسی دیوار کے سامنے آن پہنچا جس کے پاس جگہ جگہ ریت کے تھیلوں سے بنے ہوئے بنکرز تھے جن کے اندر اور باہر دھوپ کے چشمے لگائے اسرائیلی فوجی تعینات تھے ان کی آرپی جی رائفلوں کو بھی بخوبی دیکھا جاسکتا تھا۔شہر کو دو حصوں میں بانٹنے کے لیے ایک زنگ آلودturnstile بھی لگا تھا۔دوسری طرف بھی کئی کمانڈو اور فوجی ہمیں چبھتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ان فوجیوں کا تعلق نو بھرتی شدہ فوجیوں میں ہوتا ہے۔اسرائیل میں ہر نوجوان مرد و زن پر ترکی کی طرح فوجی تربیت لازم ہے۔انہیں جس مرحلے سے گزارا جاتا ہے اسے Aliyah (گھر واپسی )کہا جاتا ہے۔یہ ان کی لازمی ہدایت کا حصہ ہے کہ وہ خطرے کو بھانپتے ہی بندوقوں سے عربوں کو بھون دیں۔
پاکستان بھی اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی مملکت ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہاں لازمی فوجی تربیت سے کیوں منہ موڑا ہوا ہے جب کہ یہ قومی تشکیل، میعاریت،نظم وضبط، دہشت گردی کے خاتمے اور جاسوسی کے اندرونی نظام کے لیے بے حد موثر اور ناگزیر قومی ضرورت ہے۔چیک پوسٹ پر میں نے اپنا پاسپورٹ ایک مستعد سنتری کے حوالے کیا۔جس نے میرے سراپے کا جائزہ لیا ۔بیگ کی تلاشی لی اور ایک حفاظتی گیٹ سے گزرکر آگے جانے کی اجازت دے دی۔یہ پہلا مرحلہ تھا۔دوسری طرف کی سرحدی باڑ کئی عدد سیمنٹ کے بڑے بلاکس پر مشتمل تھی۔یہاں سوال جواب کا نیا مرحلہ شروع ہوا کہ میں H-2 علاقے میں کسے جانتا ہوں؟میرا صحافت سے کیا کوئی تعلق ہے؟ میرے انکار اور سرجن ہونے کی وضاحت پر وہ مطمئن ہوگیا اور مجھے آگے جانے کی اجازت دے دی۔
مجھے لگا کہ میرے قدم مجھے ایک شہر آسیب میں لیے چلے جاتے ہیں۔یہاں دُکانیں بند ، ٹریفک نہ ہونے کے برابر۔غسان سے میری ملاقات شہدا اسٹریٹ پر طے تھی۔میں نے گوگل کے نقشوں کی مدد سے مغرب کی سمت سفر کرنا شروع کردیا۔آدھ کلومیٹر چل کر مجھے ایک سیاحتی بس دکھائی دی جو شاید یروشلم سے یہاں آئی تھی اور ایک خالی پلاٹ میں کھڑے ہونے کی کوشش میں تھی۔بس کے رکتے ہی اس میں دس مشٹنڈے بندوق بردار اسرائیلی فوجی کودے اور چار اطراف سے بس کو گھیرے میں لے لیا۔ ان کی اجازت سے پھر کوئی پچاس سہمے ہوئے سیاح بس سے اُترے۔ میری مسکراہٹ نے ان میں سے ایک بوڑھی عرب عورت کوحوصلہ دیا۔ اُس نے پوچھا’’ کیا میں بھی عرب ہوں؟‘‘نہیں میں بھی سیاح ہوں آپ کی طرح۔ارے تو پھر آپ کا گروپ کہاں ہے؟ یہ اس کا اگلا سوال تھا۔میں تنہا ہی گھومتا ہوں۔آہستہ آہستہ رہائشی علاقے کی جانب بڑھتے ہوئے مجھے اب ایسے یہودی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دکھائی دے رہے تھے جن کا لباس و اطوار قدامت پسند انہ تھے ۔یہ مختلف بائیسکلوں پر سوار تھے۔گلی کے ہر نکڑ پر اسرائیلی فوجی کھڑے تھے اور چند خواتین بھی روز مرہ کے سوداسلف کی ٹوکریاں اٹھائے آجا رہی تھیں۔ ان سے مولی کے پتے باہر جھانک رہے تھے ۔مجھے وہاں بتایا گیا تھا کہ میں اس علاقے میں خواتین کی تصاویر لینے سے گریز کروں گو کہ یہ مناظر یقینا کیمرے میں محفوظ کرکے آپ کے ساتھ شیئر کرنے والے تھے ۔دس منٹ کی واک کے بعد میں شہدا ء اسٹریٹ پر پہنچ گیا۔اس گلی کا ایک اور نام بھی ہے،Apartheid streetیعنی شاہراہ نسلی منافرت ۔
بہت برس پہلے ایک یہودی جنونی ڈاکٹر Baruch Goldstein حرم ابراہیمی کے احاطے میں داخل ہوگیا تھا اور اندھا دھند فائرنگ کرکے اس نے تیس مسلمانوں کو دوران صلوۃ الجمعہ شہید کردیا تھا۔اسے مسلمانوں نے وہیں موقع پر دبوچ کر ماردیا جس کی وجہ سے ہنگاموں کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔
یہ ہنگامے سارے فلسطین میں پھیل گئے جس کے نتیجے میں ناروے کے دار الخلافہ اوسلو میں1994 میں معاہدہ ہوا۔اس معاہدے کی رو سے اب یہ شہر الخلیل دو حصوں میں تقسیم ہے حتی کہ حرم ابراہیمی بھی۔ اس کا ایک حصہ مسلمان اور دوسرا یہودیوں کے لیے مختص ہے۔مسلمان حصے میں حضرت اسحق علیہ السلام ، ان کی اہلیہ ربیکا اور بی بی سارہ کے مقابر ہیں ۔یہودی حصے میں حضرت یوسفؑ ، حضرت یعقوبؑ کے مقابر عالیہ ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقبرے کو دونوں حصوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔اس کو ایک عجب انداز سے منقسم کیا گیا ہے کہ بلٹ پروف شیشے سے مزار آدھا ادھر تو آدھا یہودی حصے میں آجاتا ہے۔1994 سے پہلے شہداء اسٹریٹ کو یہودی کنگ ڈیوڈ اسٹریٹ کہتے تھے۔یہاں بڑا کاروباری مرکز تھا ، صدیوں پرانا ایک بازار جسے سوق کہتے تھے، اس شہر کی اہم علامت مانا جاتا تھا۔سوق میں اکثر دُکانوں کے مالکان عرب تھے۔ ان کو برباد کرنے اور ان کے لیے عرصۂ حیات مزید تنگ کرنے کی خاطر اب ان یہودی پناہ گیر آباد کاروں کی حفاظت اور سیکورٹی کے نام پر اس شاہراہ اور ان دکانوں کو عربوں کے لیے مستقل طور پر نو گو ایریا بنادیا گیا ہے۔عربوں کے وہ گھر جن کا رخ اور صدر دروازے اس مرکزی شاہراہ پر تھے، ان پر اب یہ پابندی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں مرکزی دروازے سے داخل نہیں ہوسکتے بلکہ چوروں اور نقب زنوں کی طرح کھڑکیوں اور چور دروازوں سے یا دیواریں پھلانگ کر اندر آسکتے ہیں۔ پورے بارہ سال تک تو فلسطینوں پر شہدا ء اسٹریٹ میں چھوٹے گروپوں کی شکل میں قدم رکھنے پر بھی پابندی تھی۔معمولی سی خلاف ورزی پر چوکیوں اور واچ ٹاوروں پر ایستادہ یہودی سپاہیوں کی گولی انہیں نشانا بنا لیتی تھی۔2007 میں شدید بیرونی دباؤ میں آن کر اب یہ شرط نرم کردی گئی ہے۔ پیدل ٹولیوں کو وہاں آنے کی اجازت ہے۔ لیکن گولی اب بھی ویسے ہی چلتی ہے۔ کاروں کو البتہ وہاں آنے کی اب بھی ممانعت ہے۔
Bait Hadassah Museum کے سامنے سے گزرتے ہوئے میری نگاہ ان ہی سہمے ہوئے سیاحوں پر پڑی جنہیں میں نے بس سے اترتے دیکھا تھا ۔ ایک چالاک یہودی گائیڈ اب انہیں اس عجائب گھر کے بارے میں بتارہا تھا۔میرے لیے اس عجائب گھر میں داخلے کا امکان بہت کم ہے۔یہاں موجود نوادرات کو اس انداز اور نقطۂ نظر سے رکھا گیا ہے کہ یہودیوں کا اسرائیل پر حق ابتدائے آفرینش سے ثابت ہو، گویا اسرائیل جنت کا حصہ تھا جہاں آدم علیہ السلام رہا کرتے تھے اور انہیں جنت سے بے دخل اس قطعہ مملکت سمیت کیا گیا۔ عربوں کی بند دکانوں پر غلیظ عرب دشمن نعرے لکھے ہوئے تھے۔ایک جگہ بڑے الفاظ میں Free Israel کا نعرہ بھی درج تھا۔ یہ اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند صیہونیت سوچ کا نعرہ ہے۔ ہیبرون کے اکثر یہودی پناہ گیر آباد کار اس سوچ کے حامی ہیں۔ سڑک کے خاتمے پر ایک سیمنٹ بلاک کی اوٹ مجھے ایک گول متھلو سا نوجوان نظر آیا یہ غسان تھا ۔ مجھے اسے پہچاننے میں اس لیے دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ مجھے اس کی تصویر دکھا دی گئی تھی۔ (جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...