... loading ...
جس طرح ہمارے کچھ وزراء صاحبان ترکی کی ناکام فوجی بغاوت پر اپنے علاوہ سب کی بغلیں بجاتے ہوئے پائے گئے تھے ویسا ہی معاملہ ہمارے کسی عزیز کا بھی ہوا ۔وزیر تو بے چارے اپنے حاکم عالی مرتبت کے ہاتھوں مجبور ہیں، دکھانے کے لیے اپنے ہی منھ پر طمانچے مار کر گال لال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں جس دن ٹوپیاں تے سوٹیاں آیاں ،تو اہل سیاست کے گھر کی عورتیں بھی سڑکوں پر ٹینکوں والوں کو یہ گا گا کر سناتی ہوئی نکل آئیں گی کہ نہ لڑ دیورا تیری اک بھرجائی وے۔ میرا دیورا تیری دور بلائی وے۔صد بسم اﷲ آیاں نوں ۔ ہانے نی ووڈے بھراجی کدوں کیئا سی تسی بیرکاں توں باہر نہ آؤ ۔ سیاست میں ماتحت اپنے سربراہوں کی خوشنودی کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں ، تمہیں کیا پتہ۔اپنے پردادا اور پر نانی کا نام یاد نہ ہو مگر پارٹی کے بڑوں کی سات نسلوں تک کا شجرہ ایسا یاد ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے دماغ میں سورۃ اخلاص کی میموری کی جگہ نہیں نکلتی۔ ڈسک بھر جاتی ہے۔
عزیز ان دنوں استنبول ۔ ترکی میں تھے ۔ہمارے بیٹے کے دفتر سے اس کی ایک ماتحت انہیں اس لیے لے گئی تھی کہ انہیں استقلال اسٹریٹ پر حطّے ریسٹورنٹ پر کھانے پر آنا تھا۔وہ استنبول کے اس مشہور ریسٹورنٹ کی شہرت سن کر شوق طعام سے نڈھال ہوچکے تھے۔یہ ماتحت وہاں تقسیم اسکوائر (تقسیم اس لیے کہتے ہیں کہ یہاں پانی کی لائنوں کا نظام ہے جو شہر میں پانی کی سپلائی کا فیصلہ کرتا ہے) کی پچھلی کسی گلی میں رہتی تھی۔ہمارا بیٹا انہیں فرن باشی میں میٹننگ ختم ہونے پر انہیں وہاں آ ن کر کھانے پر لے جاتا۔ وقت اورکرائے کی بچت کا جو ہڑکا ہر سیاح کو ہوتا ہے وہ انہیں بھی تھا۔انقلاب کا غلغلہ ہوا تو کہاں کا حطے کیسی وہ نمک اور مٹی کے برتن میں سلگتی ہوئی مرغی۔اس بے چاری کے گھر میں ہی دبک گئے۔دو دن تو اس کے گھر مہمان بنے رہے۔وہ بھی طیب اردگان کے پیار میں اور اپنے افسر عالی مقام کی خوشنودی کی خاطر انہیں سنبھالے رہی ۔ یہ بے چارے تو ڈر کے مارے ٹی وی بھی نہ دیکھتے تھے۔ بالآخر تیسرے دن سے حالات بحال ہوئے تو ہمارا بیٹا انہیں آکر لے گیا۔ان کے لیے راستے بھر حیرت کی بات یہ تھی کہ نہ میٹرو نہ فیری، نہ بس سبھی کرایہ وصول کرنے سے انکاری تھے۔میمن ہونے کے ناطے پیسوں کا یہ مزاق ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔بار بار پوچھتے کہ کہیں کرنسی چینج اوور تو نہیں ہورہا ۔میں نے اتاولے پن میں ایک ساتھ تین سو ڈالر چینج کرالیے تھے۔جب انہیں لگا کہ یہ مفت سواری انقلاب کا تحفہ ہے تو وہ بضد ہوئے کہ ہر جگہ جہاں انقلاب آئے اور ناکام ہو یہ ضرور موجود ہوں۔بس لاہور کے حوالے سے ذرا تذبذب میں ہیں کہ کامیاب ہوگا تو کیا میٹرو مفت ملے گی!
یہ بیانیہ ایک میمن بزنس مین کا ہے مگر حقائق سو فیصد درست ہیں۔
وہ کہہ رہے تھے کہ ترکی کا انقلاب دو تین وجوہات سے ناکام ہوا ۔ایک تو طیب اردگان خود بہت اچھے انسان ہیں۔ اپنے لوگوں میں بہت پاپولر ہیں۔یہ گولن بہت فیک آدمی ہے۔وہ بھی کوئی لیڈر ہوتا ہے جو باہر بیٹھ کر انقلاب لائے۔ ہم نے خمینی کے انقلاب اور مرجع خلائق کی ایران سے باہر پیرس میں موجودگی کی بات کی تو وہ اسے امریکاکا ایجنٹ ثابت کرنے پر تل گئے ۔ جواباًمنڈیلا، ماوزے تنگ اور لینن کی مثالیں دے کر کہنے لگے یہ سب اپنے ملک میں رہے ۔برما کی آنگ سانگ سوکی انہیں بہت پسند نہیں۔نہ مجیب الرحمن انہیں اچھا لگتا تھا مگر وہ ان کی دلیری اور نامساعد حالات میں ملک میں موجودگی کے گرویدہ ہیں۔
ترکی کے انقلاب کو ناکام بنانے کا سہرا بھی وہ آپریشنل سائیڈ پر ڈائیریکٹر این آئی او ہکان فدان کے سر باندھتے ہیں۔ بقول ان کے کیا ٹھنڈا آدمی ہے۔لگتا ہے فرج میں بیٹھ کر سوچتا ہے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ گولن کے حامی کچھ کام دکھانے والے ہیں ۔ اس نے اپنی پلاننگ بھی جاری رکھی۔ اردگان صاحب کو بھی بتادیا کہ ایک دم سیکرٹ موومنٹ رکھو کوئی ٹائمنگ کسی کو مت بتاؤ۔اپنے لوگوں کے ذریعے گولن والوں کو بھی کہا انقلاب لانا ہے تو دیر مت کرو ۔ بوٹ نہیں تو چپل، پتلون نہیں تونیکر ،ٹینک نہیں تو موٹر بائیک ۔بس بندوق پکڑو اور چل پڑو ۔لیٹ ہوئے تو حکومت بھرکس بھر دے گی۔ ڈس انفارمیشن سے ان کو بتایا کہ مصر میں سن 1952 والا انقلاب اس لیے کامیاب ہوا کہ کرنل یوسف کی بیوی نے اس کو دو بجے کی بجائے رات کو بارہ بجے ہی جگا دیا کہ ابھی کچھ فوجی گاڑیاں گئی ہیں ۔ مجھے لگا وہ تمہارے لفنگے کرنل جمال عبدالناصر کو اس کی گرل فرینڈ نے غصے سے باہر نکال دیا ہے۔ایک گاڑی میں وہ تھا۔کرنل یوسف ہڑبڑاکر اٹھا گھڑی بھی نہ دیکھی اور سیدھا اپنے دستوں سمیت شاہ فاروق کو گرفتار کرنے پہنچ گیا۔یوں بیگم کی توتکار سے انقلاب مصر کامیاب ہوگیا۔ دیر ہوتی تو شاہ فاروق کو فرار ہوجانا تھا۔
ہکان فدان 15جولائی کو تین بجے دوپہر تک اپنے دفتر سے سارا کام کرتے رہے اورموصول ہونے والی اطلاعات سے اردگان صاحب اور جنرل اسٹاف کو بھی باخبر رکھتے رہے۔تین بجے جب وہ دفتر سے چلے گئے تو انقلابیوں کو لگا کہ اب وہ جاکر سو جائیں گے اور انہیں آئندہ کا کچھ پتہ نہیں۔ سو وہ طے شدہ وقت سے رات کو چھ گھنٹے پہلے ہی نکل آئے۔اس ہڑبونگ میں ایک نقصان یہ ہوا کہ ایسے انقلاب کا ایک Nerve Centre ہوتا ہے، اس طرح کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر جو انقلاب کو سنبھالتا ہے، وہ کمانڈ سینٹر برگیڈئیر جنرل سمیع ترازی کی قیادت میں بننا تھا وہاں جھگڑا ہوگیا ۔ گالم گلوچ کی وجہ سے ایک جونئیر افسر نے طیش میں آن کر اس کو ہی گولی سے اڑادیا جس پر اس میمن سیٹھ کو جگجیت سنگھ جی یاد آگئے اور وہ کہنے لگے کہ ع
جنرل سمیع کے مرتے ہی حوصلے ٹو ٹ گئے۔ افراتفری پھیل گئی ۔اب کیا تھا کہ ہر کمانڈر اپنی مرضی کا مالک ہوگیا۔یہ دوسری بڑی ناکامی کی وجہ تھی۔بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر یہ انقلاب واقعی میں سچا تھا تو اردگان صاحب کو پکڑنے کوئی کیوں نہیں گیا۔اس کے دوجواب ہیں۔ ہکان فدان صاحب نے اردگان صاحب کی موومنٹ کو بالکل خفیہ کردیا تھا،ان کا کوئی پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں؟مختلف دوستوں کے کمانڈروں کو حکم تھا کہ فون اور دیگر برقی مواصلات کا بالکل استعمال نہیں کرنا ۔سو ہر باغی فوجی اپنے ٹارگٹ کی تلاش میں رہا اور مزید رہنمائی کامنتظر بھی۔جب یہ اطلاع ملی کہ وہ مارماریس کے تفریحی مقام پر موجود ہیں تو خاصی دیر ہوچکی تھی ۔وہ خاص دستہ جس نے انہیں گرفتار کرنا تھا وہ نئے پلان کی بجائے طے شدہ پرانے وقت کے مطابق جب تین بجے صبح انہیں گرفتار کرنے پہنچا تب تک وہ اپنے ہوٹل سے استنبول کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ہکان فدان بھی ان کے ہاتھ نہ لگے۔حکم تو یہ تھا کہ ان دونوں کو زندہ گرفتار کرکے مثال عبرت بنانا ہے۔ اسی وجہ سے ہوٹل پر کوئی بمباری بھی نہ کی گئی۔
انقلاب کی ناکامی اور بودے پن کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کسی بڑے میڈیا ہاؤس پر بھی قبضہ نہ ہوپایا۔Turksat ان کا بہت بڑا نیٹ ورک ہے اس پر بھی قبضہ نہ ہوا تو اردگان صاحب جو بے حد ذہین اور حاضر دماغ شخصیت کے مالک ہیں، وہ فوراً FaceTime کرنے پر اتر آئے اور اپنے حامیوں کے رابطے میں آگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کئی وزراء بھی پاکستان میں اپنے Android فونز پرFaceTime ڈلوانے کی جستجو میں ہیں۔صدر اردگان کے حامی ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے۔ متعلقہ وزیر نے سب ٹیلی ویژن چینلوں کو یہ پیغام براہ راست نشر کرنے کا حکم دے دیا۔اس وجہ سے ان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور کسی مقام پر چھپے ہوئے ڈائریکٹر این آئی او ہکان فدان نے طیارہ شکن توپوں کے دہانے کھول دیے۔ باغیوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشن کے پاس ایسے مہلک ہتھیار بھی ہوں گے۔اس وجہ سے وہ فوجی طیارے جن میں باغی فوجی سوار تھے اور ہیلی کاپٹر جنہیں صدارتی محل پر قبضہ کرنا تھا۔ انہیں راہ ِفرار اختیار کرنا پڑی۔
ڈائیریکٹر این آئی او ہکان فدان گو کہ بہت لوگوں کے نزدیک ہیرو ہیں پھر بھی وہ ان دنوں اس الزام کا گھاؤ سہلا رہے ہیں کہ انہوں نے بروقت دو ٹوک الفاظ میں صدر اور وزیر اعظم کو اس انقلاب کے حوالے سے باخبر کیوں نہیں رکھا؟ترکی کا سرکاری میڈیا بھی گولن اور ان کے حامیوں کے حوالے سے بہت سے الزامات امریکا پر دھرے جارہا ہے۔گولن صاحب ہماری جامعہ پینسلوانیا کے نزدیک ہی رہتے ہیں۔ بلاوجہ وہ کرسٹنا امان پور، سی این این کی فتنہ ساماں اینکر کی وہاں دو دن سے موجودگی کو بھی اس انقلاب کے حوالے سے امریکی حمایت سے جوڑتے ہیں۔اس حوالے سے وکی لیک کا بھی بہت ذکر ہے جس پر انقلاب کے پانچ دن بعد پابندی لگائی گئی۔وہاں سے انقلاب کے دوسرے دن ہی تین لاکھ ایسی ای میل لیک ہوئیں جو بظاہر صدر طیب اردگان اور وزیر اعظم بنالی یلدرم کے حامیوں کی جانب سے انقلاب کی حمایت میں بھیجی گئی ہیں۔اس انقلاب کی ٹائمنگ اور وکی لیکس کا یہ فتنہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ اور ایسے چھوٹے چھوٹے مگر انتہائی اہم نشان ایسے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انقلاب لانے والے کوئی اناڑی اور شوقیہ فن کار نہ تھے۔ نہ ہی ان کا منصوبہ چائے کی پیالی کا طوفانی اُبال تھا۔اسے ایک کثیر المقاصد اور بین الاقوامی فوجی اور سیاسی حمایت حاصل تھی۔اس میں بری ،بحری اور فضائی تینوں افواج کے دستے شامل تھے ۔بالخصوص صدر اردگان کی گرفتاری کے لیے جو یونٹ مارماریس کے تفریحی مقام پر گئے تھے وہ بہت اسپیشل دستے تھے جن میں غوطہ خور اور دیگر طرح کے کمانڈوز بھی شامل تھے۔
اس انقلاب کے حوالے سے اب اور کیا کچھ ہونے والا ہے۔سب سے بڑا دھچکا تو نیٹو کو لگے گا ،کیونکہ یورپ کے باہر سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ترکی میں ہی موجود ہیں۔ ترک افواج کے دستے نیٹو میں بلحاظ تعداد امریکاکے بعد سب سے بڑی فوجی اکائی ہیں۔ ترکی کو ایک عرصے سے یورپ ،یورپی یونین میں شمولیت کا تسلے میں چاند دکھارہا تھا، وہ جھانسا تو اب بکھر کر رہ گیا ۔خود برطانیاہی قبیلے سے نکل گیا اور جرمنی اور فرانس بھی پل تول رہے ہیں تو ترکی کیا کرے؟ترکی مشرق وسطی میں امریکا کا سب سے بڑا حلیف ہے جو داعش اور شام کے خلاف امریکی کارروائی کا حامی ہے۔ اس ناکام انقلاب کے بعد ترکی کیا روس کے ساتھ دوبارہ ایک گروپ میں شامل ہونے والا ہے؟ اس سے مشرق وسطی کی سیاست پر کیا اثر پڑے گا ؟بظاہر ایک مقامی کارروائی نے دنیا ئے عرب کی سیاست میں بہت بڑے سوال اُ ٹھادیے ہیں جن کا جواب آنے والا وقت ہی بہتر دے گا۔۔۔ سو انتظار کریں! کار جہاں دراز ہے!
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...