... loading ...
سندھ کے میدانوں‘ ریگزاروں اور مرغزاروں سے لہراتا بل کھاتا ہوا شوریدہ سر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد باشندے اس عظیم دریا کو ’’دریابادشاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ نہ صرف صوبے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ’’بادشاہت‘‘ بھی بانٹتا ہے۔ پہلے دریا کے دائیں کنارے پر آباد شہر خیرپور کے دو وکیلوں سیدغوث علی شاہ اور پھر سید قائم علی شاہ کو صوبے کا ’’بادشاہ‘‘ بنایا اور اب بائیں کنارے پر آباد شہر دادو کے باشندے سید مراد علی شاہ کو سندھ کا ’’بادشاہ‘‘ بنایا گیا ہے۔
ان کے والد سید عبد اللہ شاہ بھی1993-96ء کے دوران وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے 1979ء میں راقم الحروف کے ساتھ حیدرآباد سینٹرل جیل میں قید کاٹی تھی۔ اس دوران وہ دادو میں وکالت کرتے اور پیپلزپارٹی سے وابستہ تھے۔ میرا تعلق نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن سے تھا جس کا پی پی پی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دیتے وقت کسی ممکنہ ردعمل کے خوف سے ملک بھر میں تمام فعال سیاسی کارکنوں کو قید کردیا تھا۔ سید عبد اللہ شاہ مرحوم خوش اخلاق‘ ملنسار اور اچھی عادات واطوار کے مالک تھے۔ وہ وزیراعظم بینظیربھٹو کی دوسری حکومت میں سندھ کے وزیراعلیٰ بنائے گئے جو بڑا بحرانی دور تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم نے انہیں وزارت اعلیٰ کیلئے ووٹ دے کر بلامقابلہ منتخب تو کرادیا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ میں اختلافات نے سر ابھارا۔ سیاسی کشمکش شروع ہوگئی جو بتدریج دو جماعتوں کے درمیان تصادم کی شکل اختیارکرگئی۔1995ء میں ایم کیوایم کی طرف سے کراچی اور صوبے کے دیگر شہری علاقوں میں 365میں سے200 دن ہڑتالیں کرائی گئیں اور بالآخر دوسری بار اسمبلیاں توڑ کر نگراں حکومت قائم کی گئی۔ 1997ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کی اور میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ مئی2013ء کے عام انتخابات تک سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیوایم اپنے مضبوط ووٹ بینک کے ذریعے انتخابی کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔
برصغیرکی تاریخ میں کسی سیاسی پارٹی کا یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ صوبے کے شہری علاقوں میں گزشتہ25برس سے اسے عوامی مینڈیٹ حاصل ہے۔ اس کے نامزد گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے سندھ کے طویل ترین عرصہ 14سال تک گورنر رہنے کا منفرد اعزاز حاصل کرلیا ہے۔ وہ اب تک صوبے کے6وزرائے اعلیٰ سے مختلف عرصہ میں حلف لے چکے ہیں جن میں سے تازہ ترین وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایم کیوایم نے خود کو وزیراعلیٰ سے لاتعلق رکھا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد51ہے جنہوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم لیگ (فنکشنل) اور ن لیگ بھی انتخابی عمل سے علیحدہ رہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی خرم شیرزمان نے مراد علی شاہ کے مقابلے پر الیکشن لڑا اور انہیں توقعات کے مطابق پی ٹی آئی سے وابستہ صرف 3ووٹ ہی ہاتھ لگے۔ اس طرح سید مراد علی شاہ168کے ایوان میں88ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جس جیت کو ’’بھاری اکثریت‘‘ قرار دیا‘ وہ اپوزیشن کے مقابلے میں صرف8ووٹوں کی برتری ہے۔ اگر مخالفین متحد ہوکر کسی ایک امیدوار کو میدان میں لاتے تو اسے80ووٹ مل سکتے تھے اور سندھ میں ایک مضبوط اپوزیشن کی بنیاد پڑسکتی تھی جو حکومت کو ’’صراط مستقیم‘‘ کے راستے پر گامزن کرسکتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے شدید ترین مخالف ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے صاحبزادے حسنین مرزا نے بھی سید مراد علی شاہ کو ووٹ دیا ہے‘ کہا جاسکتا ہے کہ ایم کیوایم کی لاتعلقی کے باعث سید مراد علی شاہ دیہی سندھ کی طاقت سے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ صوبہ سندھ میں دیہی‘ شہری کا تضاد بھی خوب ہے۔ کراچی کی آبادی 2کروڑ35لاکھ ہے جہاں قومی اسمبلی کی20اور صوبائی اسمبلی کی 42نشستیں ہیں اور اندرون سندھ (دیہی سندھ) کی آبادی2کروڑ53لاکھ19ہزار198 ہے جہاں قومی اسمبلی کی 41 اور صوبائی اسمبلی کی88سیٹیں ہیں۔ (وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو اتنے ہی ووٹ ملے ہیں) اس شرح سے کراچی میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 11لاکھ75ہزار اوراندرون سندھ 6لاکھ17ہزار541نفوس پر مشتمل ہے جبکہ کراچی میں صوبائی اسمبلی کا حلقہ پانچ لاکھ59ہزار525 اور اندرون سندھ 2لاکھ87ہزار718نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کی تصدیق1972ء کی مردم شماری سے بھی ہوسکتی ہے جب دیہی سندھ کا کوٹہ60فیصداور شہری سندھ کا40فیصد مقرر کیاگیا تھاجو آبادی کی بنیاد پر تھا۔ گزشتہ44سال کے دوران لاکھوں آبادی دیہی سندھ سے روزگارکیلئے رہائش پذیرہوگئی ہے اور آبادی کا تناسب یکسر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس نئی صورتحال میں شہری سندھ کی اسمبلی نشستوں میں اضافہ ضروری ہے لیکن اسی خوف سے دیہی سندھ کی وڈیرہ قیادت شفاف اور منصفانہ مردم شماری کرانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اندرون سندھ کالجوں کی تعداد 130اور کراچی میں کالجز کی تعداد260 ہے اس سے بھی دیہی شہری آبادی کے فرق کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حقائق سے فرار کے باعث صوبے کے شہری علاقوں کی سیاسی حق تلفی ہورہی ہے جس کا ایک مظہر یہ ہے کہ 28سال بعد پہلی مرتبہ شہری سندھ کی نمائندہ پارلیمانی جماعت ایم کیوایم نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا ہے اور فنکشنل مسلم لیگ سمیت ن لیگ نے بھی خود کو انتخابی عمل سے الگ رکھا ہے۔ اس صورتحال میں صوبے کی یکجہتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ایک مرتبہ پھر 1995ء کی تاریخ دوہرانے کے آثآر نظر آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب والے دن ایم کیوایم کے قائد اور رابطہ کمیٹی سمیت60کے قریب کارکنان کے خلاف عزیز آباد تھانہ میں اشتعال انگیزی کا مقدمہ درج کیاگیا ہے۔ موجودہ حالات میں سندھ کو اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے لیکن صوبائی حکومت ایک جانب رینجرز کے اختیارات میں توسیع سے گریزاں ہے اور دوسری طرف سیاسی تنہائی کی سمت بڑھ رہی ہے۔ دونوں صورتیں ہی صوبے کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ نوجوان وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اکنامک گریجویٹ ہیں۔ انہیں صوبہ کی ’’پتلی‘‘ حالت کا بخوبی علم ہے۔ ڈیڑھ سال بعد2018ء کے عام انتخابات کا نقارہ بجنے والا ہے۔ غضب کرپشن کی عجب کہانی ختم کرکے سیاسی مفاہمت اور سندھ کی تعمیر وترقی کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔ رینجرز نے امن وامان کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ صرف کراچی ہی نہیں‘ اندرون سندھ بھی رینجرز آپریشن کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے۔ سندھ کے سب سے بڑے قوم پرست لیڈر سائیں جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ اور قومی سیاستدان رسول بخش پلیجو کے صاحبزادے ایاز پلیجو نے اندرون سندھ بھی رینجرز کے آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو ان آوازوں کا ادراک کرنا ہوگا۔ اگر وزیراعلیٰ کی تبدیلی سے بھی صوبے کے حالات بہتر نہ ہوئے اور کرپشن کی گنگا اسی طرح سے بہتی رہی تو کہنے والے یہ بات کہنے میں حق جانب ہونگے کہ29جولائی کو صرف چہرہ تبدیل ہوا ہے۔30جولائی کولاڑکانہ میں رینجرز پرحملہ بھی اس حقیقت کا عکاس ہے کہ دہشت گرد اندرون سندھ بھی مصروف عمل ہیں اوروہاں بھی آپریشن ناگزیر ہے۔وزیراعلیٰ مراد علی شاہ عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد ابھی مزارقائداعظم اور شہیدوں کے مزارات پر حاضری سے فارغ ہوکر اپنے مرحوم والد سید عبد اللہ شاہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کا سوچ رہے تھے کہ دبئی سے بلاوا آگیا اور وہ آصف علی زرداری سے ملنے جا پہنچے۔ اس سے عوام میں یہ تاثر گہرا ہوگیا کہ ڈوریں اب بھی لندن اور دبئی سے ہی ہلائی جائیں گی۔البتہ وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے پیر کی صبح 9بجے سندھ سیکریٹریٹ پہنچ کر صوبے کی بیوروکریسی کو ایک سخت پیغام ضرور دے دیا ہے۔
وفاقی کابینہ نے قومی احتساب بیورو( نیب )کی سفارش پر پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔ نجی ٹی وی کے مط...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...
پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...
سندھ کا وزیراعلیٰ بننے سے سید مرادعلی شاہ کی ’’مراد‘‘ تو پوری ہوگئی لیکن صوبے کے عوام بدستور اپنے آدرش کی تلاش میں ہیں ۔رشوت اور بدعنوانیوں سے پاک ’’اچھی حکمرانی‘‘ تو جیسے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر سے رینجرز کی تعیناتی کا تنازع‘ جو حل ہونے میں نہیں آرہا ہے‘ وزیراعلیٰ کے آبائی عل...
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے گورنر سندھ عشرت العباد کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا جسے انہوں نے منظور کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں آٹھ سال تک وزیراعلیٰ رہنے والے قائم علی شاہ اپنی کابینہ کے ارکان نثار کھوڑو، ناصر شاہ، مکیش کمار چاؤلہ، منظور وسان اور دیگر کے ہمراہ گورنر ہاؤس پہن...
نپولین کاشمار دنیا کے مشہورترین جرنیلوں میں ہوتا ہے اس کی جرأتمندی اور بہادری مثالی تھی۔ ’’ناممکن‘‘ کا لفظ اس کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ فرانس میں اس کی حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی‘ اقتدار سے محروم ہوا تو معزول کرکے جزبرہ ’’البا‘‘ میں قید کردیاگیا۔ لیکن جلد ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ ...