... loading ...
یہ ایک اوسط درجے سے بھی کم ذہانت کا مظاہرہ ہے کہ یہ سوال بھی اُٹھایا جائے کہ بغاوت تو فوج نے کی اور سزا ججوں کو کیوں دی جارہی ہے۔ اول تو کسی بھی بغاوت سے پہلے اُس کے معمار اسی پر غور کرتے ہیں کہ بغاوت کے بعد خود کو قانونی شکنجے سے بچانے اور آئینی خرخرے سے سنبھالنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ اور ظاہر ہے کہ یہ طریقہ عدلیہ سے ہی نکالا جاتا ہے۔
مگر ترکی میں بغاوت سے پہلے کے حالات میں اس سے زیادہ ہی کچھ ہوا۔ جب رجب طیب اردوان کو روسی صدر کے خصوصی نمائندے الیگزینڈر ڈیوگِن (Aleksandar Dugin) نے تمام صورت حال سے آگاہ کردیا تو ترکی کی حکومت نے حقائق کا اپنے طور پر بھی جائزہ لیا ۔ ترک حکومت نے فوج کی جانب سے بغاوت پکنے کے شواہد پانے کے بعد خفیہ طور پر اعلیٰ عدلیہ سے رابطہ کرتے ہوئے یہ درخواست کی کہ وہ ممکنہ بغاوت کو منظم کرنے والے دو ہزار بری ، بحری اور فضائی افسران کو گرفتار کرنے کا ایک حکم نامہ جاری کرے۔عدلیہ نے اس درخواست کو حقارت سے ٹھکرا دیا، ترک حکومت کو یہ جاننے اور جانچنے میں ذرا دیر بھی نہیں لگی تھی کہ اعلیٰ عدلیہ کے کچھ جج صاحبان بھی ترکی کی ممکنہ بغاوت میں فوج کے ساتھ شریک ہیں ۔ کیونکہ اُن ہی عدلیہ کے جج صاحبان نے خاموشی سے اُن جرنیلوں کو فوراً آگاہ کیا کہ حکومت نہ صرف ممکنہ فوجی بغاوت سے باخبر ہو چکی ہے بلکہ ملوث فوجیوں کو گرفتار کرکے اُن کے خلاف سبق آموز اور سخت ترین مقدمات بھی چلانے کے لیے کمربستہ ہے۔ یہی وہ وجہ تھی جس پر اگست میں طے کی گئی فوجی بغاوت کو قبل ازوقت کرنے کا عجلت میں فیصلہ کیا گیا۔ جو پوری طرح ابھی پک نہیں سکی تھی۔معتدل دانشوروں کی خدمت میں عرض ہے کہ بغاوت کو قبل ازوقت مہمیز دینے کے محرک کوئی اور نہیں عدلیہ کے اہم ترین افراد بنے تھے جو حکومت کی طرف سے بغاوت کو کچلنے کے لیے قانونی راستا اختیار کرنے کی مشاورت میں شریک کیے گیے اور باغی فوج کے ’’مخبر‘‘ نکلے۔
ابھی پوری طرح لوگ اس سے بھی آگاہ نہیں کہ روسی ایس یو 24 جیٹ طیارہ گرانے والا پائلٹ بھی دراصل اس بغاوت کا حصہ تھا۔اس سے متعلق تمام حقائق تک بھی روس نے رسائی حاصل کر لی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ترک پائلٹ سے متعلق معلومات کی چھان بین اور اُس کی گفتگو کا ریکا رڈ جب حاصل کیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ روسی ایس یو 24جیٹ کو گرانے والا پائلٹ دو امریکی پائلٹوں کے ساتھ مستقل رابطے میں تھا اور اُن سے مسلسل گفتگو کا یکارڈ رکھتا تھا۔ اس سے قبل ماسکو اور انقرہ کے تعلقات ایک دوسرے کے لیے کافی آرام دہ تھے۔ روس نے ان حقائق تک پہنچنے کے بعد اپنے سخت رویئے میں نرمی پیدا کر لی تھی۔ اور ترک صدر نے کچھ وقت گزرنے کے بعد خاموشی سے معذرت کر لی تھی۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں مخصوص عناصر ترک صدر کی روس سے معذرت کا مزاق اڑا رہے تھے۔ کوئی پس منظر جاننے میں دلچسپی رکھتا ہی نہیں تھا۔ترک صدر نے ایک حقیقی قیادت کے طور پراپنے ملک کے ایک آلہ کار پائلٹ کے غیرذمہ دارانہ اقدام کی بھی ذمہ داری خود قبول کی تھی۔اورمتعین معلومات کے باوجود اپنی جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی ۔ یہ کوئی ایسے حقائق نہیں جو جانے نہیں جاسکتے تھے۔ اس ضمن میں بنیادی معلومات پہلے سے مختلف ویب سائٹس اور متوازی ذرائع ابلاغ کے دھاروں میں دستیاب تھیں۔ روسی اخبارات میں کچھ حقائق شائع ہو رہے تھے اور مقدونیہ (macedonia) کی ایک آن لائن نیوز ایجنسی نے ناکام بغاوت کے بالکل ابتدائی ایام میں پس پردہ بنیادی حقائق شائع کر دیئے تھے۔ مگر پاکستانی دانشور، کالم نگار اور تجزیہ کار اس سے تو دلچسپی رکھتے ہیں کہ اُنہیں دوردراز کے مشاہداتی سفر کرائے جائیں ، مگر اُنہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ پروپیگنڈے پر مبنی مواد کی ذرا سی چھان بین کر لیں اور حقیقی خبروں کی تلاش کے لیے کچھ غیر متعصبانہ جدوجہد کر لیں۔
مثلاً ایک بلقانی ویب سائٹ نے روسی صدر کے قابل اعتبار نمائندے الیگزینڈر ڈیوگِن (Aleksandar Dugin)کے ذریعے ترک صدر کو بغاوت سے قبل بغاوت کی تیاریوں کی معلومات پہنچانے کا پورا ماجرا بیان کیا ہے۔ پیوٹن کے اس نمائندے نے کس طرح اس دورے کو غیر معمولی طریقے سے انجام دیاتاکہ اردگرد کے ممالک یا امریکا اس سرگرمی پر متوجہ نہ ہو سکے۔ وہ پہلے ماسکو سے قازقستان کے دارالحکومت استاناپہنچا ، جہاں سے وہ تہران ، دمشق اور نکوشیا سے ہوتے ہوئے انقرہ وارد ہوا۔ جہاں وہ ترک صدر رجب طیب اردوان کے سب سے قابل اعتبار نمائندے میئر ابراہیم ملیح گوچک سے ملا تھا۔ اور اُن کے گوش گزار وہ تمام حقائق بیان کیے تھے جو امریکا ترک فوج کے ذریعے رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی صورت میں برپا کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر اختیار کرچکا تھا۔ بلقانی ویب سائٹ کے علاوہ روسی اخبارات نے بھی بعد ازاں یہ انکشاف کیا کہ مذکورہ روسی نمائندے نے ترک صدر کے قابل اعتماد میئر ابراہیم ملیح گوچک کو اس ممکنہ بغاوت کے متعلق تمام معلومات سے آگاہ کیا جو روس کے خفیہ اداروں نے کئی مہینوں پر محیط سرگرمیوں کے مکمل محفوظات (ڈیٹا) سے اخذ کر رکھی تھیں۔ روسی نمائندے کے پاس یہ معلومات بھی تھیں کہ بغاوت کا آغاز کیسے اور کب ہوگا جبکہ باغی اس سے پہلے اور بعد میں کیا طریقہ کاراختیار کریں گے۔روسی نمائندے کے پاس اس بغاوت میں شامل مختلف شعبہ ہائے حیات کے تمام افراد کی نہ صرف فہرستیں تھیں ، بلکہ اُن کے کوائف تک تھے۔ حیرت انگیز طور پر ان معلومات کا تبادلہ بغاوت سے بہت پہلے دونوں ممالک میں ہو چکا تھا۔ اور ترکی نے ان معلومات کی اپنے طور پر پڑتال بھی کررکھی تھی۔ مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں انتہائی متعصبانہ طور پر یہ عامیانہ سوال اُٹھایا گیا کہ بغاوت کے بعد اتنے کم عرصے میں ترک حکومت کے پاس اتنے سارے لوگوں کی معلومات کیسے اکٹھے ہوگئیں؟
ترکی میں فوجی بغاوت کا کوئی معمولی پس منظر نہیں تھا جسے ترکی کے طاہر القادری یعنی فتح اﷲ گولن کے حامیوں نے بہت نچلی سطح سے اوپر تک حمایت مہیا کررکھی تھی۔یہ تیسری عالمی جنگ کے ممکنہ عالمی ماحول میں روس امریکا کے مابین بننے والی سرد وگرم جنگ کا پیش نامہ تھا۔ جس میں ترکی کو امریکا کے مکمل رہین منت یورپ کے لیے روس اور اُن کے حامیوں کے خلاف مستقل محافظ کے طور پر کردار ادا کرنے کے لیے ایک آلۂ کار کے طور پر کھڑا کرنا تھا۔ اس میں فتح اﷲ گولن وہی کردار ادا کررہا ہے جو برصغیر میں تاج برطانیا کی حفاظت کے لیے انگریزوں نے ایسے مذہبی رہنماؤں سے لیا تھا جو بہت بااثر بھی تھے اور جن کی جڑیں اب بھی برصغیر کے منقسم معاشروں میں موجود ہیں۔ کسی شخص کی گہری تائید اُس کی دیانت یا اخلاص کی سند نہیں ہوتی۔ اور یہ فتح اﷲ گولن کی بھی نہیں ہے۔
امریکا اس فوجی بغاوت میں مکمل ناکام ہوا۔ مگر یہ اُس کی کامیابی ہے کہ اُس نے مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس بغاوت اور اُس کے بعد کے حالات کو اپنی مرضی کی تعبیر وتفہیم مہیا کی۔ پاکستان کے کج فہم دانشور اور سادہ لوح تجزیہ کار اس کے شکار دکھائی دیئے۔ اُنہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ترکی میں بغاوت کے بعد اُٹھائے گیے اقدامات کی حقیقی وجوہات کیا ہیں ؟ اس پر بحث پھر کبھی!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...