وجود

... loading ...

وجود

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

جمعرات 28 جولائی 2016 دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 22

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔



پچھلی قسط میں اس طریق الالام یعنی شاہراۂ کرب کا ذکر تھا ۔ (اس سے متعلق تفصیلات پچھلی قسط میں کچھ دے دی گئی تھی مگر اس کے اگلے حصے سے مربوط ہونے کے لیے دوبارہ اپنے ذہنوں میں تازہ کر لیجیے۔) اس شاہراہ کی تصدیق عیسائیوں کے تمام فرقے کرتے ہیں۔ان سب کا اتفاق اس پر بھی ہے کہ حضرت عیسی ؑ کی گرفتاری Garden of Gathsheme کے عین اُس مقام سے ہوئی تھی جہاں یہ چرچ آف آل نیشنز یا کلیسۂ آلام موجود ہے۔ چاروں بائبلوں میں یعنی متی، لوکا،یوحنا اور مارکس میں اس رات کا احوال ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔جن لمحات میں حضرت عیسیؑ اپنے گیارہ حواریوں کے ساتھ وہاں مفرور تھے تو بارہواں حواری Judas Iscariot ْغائب تھا ۔ وہی دغا باز، رومی سپاہیوں اور یہودی راہبوں کو لے کر وہاں پہنچا۔مرحلہ شناخت کا تھا، لہذا طے ہوا تھا کہ ان حواریوں میں مروج رسم کے مطابق یہ بدبخت جس ہستی کو چومے گا وہی حضرت عیسیؑ ہوں گے۔ اسی وجہ سے انگریزی زبان میں بظاہر پیار کا وہ عمل جو دھوکا دہی کی نیت سے کیا گیا ہو اسے kiss of Judas کہتے ہیں ۔اسے حضرت عیسیؑ کو پکڑوانے کی رشوت چاندی کے چالیس سکے ملی تھی ۔ آج کل اس مقام پر ایک چرچ موجود ہے جس کا نام کلیسۂ آلام یاChurch of All Nations کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

وہ چبوترہ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گرفتاری سے قبل عبادت کی

وہ چبوترہ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے گرفتاری سے قبل عبادت کی


جوڈاس کو جب یہ علم ہوا کہ حضرت عیسیؑ علیہ السلام مصلوب کردیے گئے ہیں تو بہت دل گرفتہ ہوا۔ وہ اس مقام پر آیا اور اپنی رشوت کی رقم راہب کے سامنے مٹی پر پھینک دی اور باہر جاکر ایک چبوترے پر خودکشی کرلی۔بابئل میں متی اور لوکا کا بیان ایک دوسرے سے اس حوالے سے قطعی مختلف ہے۔

کلیسۂ آلام

کلیسۂ آلام


حضرت عیسیؑ کی گرفتاری ، مقدمے اورسزا کے حوالے سے بہت تحقیق ہوئی ہے۔انہیں جمعہ کی اس رات ایک سے دو بجے کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔کل چھ مقدمے چلے جن میں تین یہودی قانون کے مطابق اور تین رومن قانون کے مطابق تھے۔ اُن پرالزامات یہ عائد کیے گئے تھے کہ وہ خود کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ مملکت روم سے بھی وفادار نہیں اور یہودی مذہب کی توہین کرتے ہیں۔یہ الزامات ایسے نہ تھے کہ ان کی وجہ سے انہیں مصلوب کیا جاتا۔ آخر کار انہیں رومی گورنر Pilate یعنی پیلاطس کے سامنے پیش کیا گیا۔یہ سیاسی مقدمہ سا بن گیا اور وہ اتنی کڑی سزا کے حق میں نہ تھا۔ اس کی بیوی بھی اسے معافی دینے کے حق میں تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ یروشلم کی رعایا اس بات پر رضامند نہ تھی ۔

وہ چبوترہ جہاں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کیا گیا

وہ چبوترہ جہاں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کیا گیا


یروشلم کے گورنر کو اختیار تھا کہ وہ اس مقدس دن Passover یعنی جس دن یہودیوں کو فرعون سے نجات ملی تھی کسی بھی ایک قیدی کو معاف کرسکتا تھا۔ اس دن ایک بے رحم قاتل Barabbas اور حضرت عیسیؑ کو ان دو میں سے کسی ایک کو معاف کیا جاسکتا تھا کیونکہ باراباس کی سفاکیت اور جرائم پیشہ زندگی پورے یروشلم کے سامنے تھی لہذا نمونے کے طور پر پہلے اسے اور بعد میں حضرت عیسی ؑ کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔وہ لوگ جو خلق خدا پر اﷲ سے زیادہ بھروسا کرتے ہیں وہ جان لیں کہ خلق خدا نے قاتل کو معاف اور نبی معصوم کو مصلوب کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کا نام دنیا ہے ۔عوام کا مطالبہ سن کر حضرت عیسی ؑنے مسکراتے ہوئے ایک ہی جملہ کہا تھا Forgive them. They knoweth not. (الہی انہیں معاف کردے ، یہ لاعلم ہیں)۔ حضرت عیسیؑ آخر کار اپنی صلیب لے کر اس طریق آلام پر جمعہ کے دن تین بجے چل پڑے۔اس واک کی یاد میں اب یہاں ہر جمعے کو ٹھیک تین بجے ایک تقریب منعقد ہوتی ہے۔اس طریق آلام کے پہلے چودہ پڑاؤ ہوتے تھے اب یہ کل نو ہیں۔انیسویں صدی کے آغاز سے مختلف تحقیقات کے ذریعے موجود راستے کو مستند مان لیا گیا جو 600 میٹر طویل ہے اور قلعہ انطونیو سے کنیسہ القائمہ تک چلا جاتا ہے۔ہر پڑاؤ کی اپنی داستان کرب و الم ہے۔

عزاداران عیسیٰ

عزاداران عیسیٰ


میرا اصل ارادہ تو یہ تھا کہ میں الخلیل یعنی Hebron سے ان عزاداروں کے ماتمی جلوس کا حصہ بنوں گا مگر مجھے پھر خیال آیا کہ جانے پھر یہ موقع ملے نہ ملے ۔سو اپنا ارادہ بدلا ،ویسے بھی میری نگاہوں کے سامنے پہلے پڑاؤ کا بورڈ لگا تھا۔ میں نے ان میں سے ایک راہبہ کو پوچھا کہ’’ کیا میں بھی ان کے ساتھ Via Dolorosa, کے اس سلسلہ عزاداری کا حصہ بن سکتا ہوں حالانکہ میں ایک مسلمان ہوں؟‘‘ تو ان میں سے جو عمر رسیدہ تھی وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی کہ ’’ہم سب اس ایک ہی شعور الہی کا حصہ ہیں‘‘۔عیسائی حج کا ایک رکن یہ ہے کہ اس طریق الالام کا سفر کریں، دریائے اردن جہاں حضرت عیسی ؑ نے ڈبکی لگا کر بتپسمہ لیا تھا وہیں وہ بھی غسل تقدیس کرے۔پہلا پڑاؤ وہ مقام ہے جہاں مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا اور ان پر رومی سپاہیوں کی جانب سے بے انتہا تشدد کیا گیا۔اس دوران عوام کی ایک خاصی بڑی تعداد بھی ان کا مذاق اڑاکر اُن کے اردگرد ناچتی کودتی رہی۔ دوسرے پڑاؤ سے آپ نے اپنی صلیب اٹھائی اور آپ کے سر پر کانٹوں کا تاج پہنایا گیا ۔ ایک عدد کانٹا زور سے آپ کے رخسار مبارک پر اورکچھ آپ کی پیشانی پر بھی چبھ گئے۔ ان خراشوں سے خون رسنے لگا ۔ تماش بین آپ کی تضحیک کرتے ہوئے ’ یہودیوں کے بادشاہ کی آمد۔ مرحبا مرحبا‘ کے نعرے لگاتے رہے۔

طریق الآلام تیسرا پڑاؤ

طریق الآلام تیسرا پڑاؤ


تیسرے پڑاؤ پر ایک چھوٹا سا خوبصورت آرمینی چرچ موجود ہے۔ حضرت عیسیؑ اس مقام پر تشدد اور تھکاوٹ سے صلیب کے بوجھ سے نڈھال ہوکرگر پڑے تھے۔ چوتھے پڑاؤ پر چونکہ اس دن یہودیوں کا مقدس تہوار پاس اوور تھا لہذا ایک مجمع سڑک کے اطراف موجود تھا۔ رومی سپاہی آپ پر کوڑے برساتے جاتے تھے۔اتنے میں اس مقام پر حضرت مریم مجمع کو چیرتی ہوئی باہر نکلیں۔ دونوں ماں بیٹوں نے ایک دوسرے کو خاموشی سے دیکھا ، ماں نے بیٹے کے چہرے کے زخم پونچھے لیکن سپاہیوں نے ایک زور کو کوڑا حضرت عیسیؑ کو رسید کیا اور مسافت اندوہ جاری رکھنے کا حکم دیا۔

پانچویں پڑاؤ سے ایک ڈھلان کا آغازہوجاتا ہے جو اس ٹیلے کی جانب اٹھتی چلی جاتی ہے جسے عربی میں ال جل جثہ اور انگریزی میںGolgotha کہتے ہیں۔یہاں یہ بیان دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اکہرے بدن کے تھے۔ان کے لیے اتنی بھاری صلیب لے کر چٹان پر چڑھنا آسان نہ تھا۔وہ بہت قلیل الطعام ( کم خوراک )اور قلیل المنام (کم نیند والے) تھے ،جبکہ صلیب کا اپنا ہی وزن ایک سو تیس کلوگرام کے لگ بھگ تھا۔

ال جل جثہ

ال جل جثہ


تیسرے پڑاؤ سے ہی میری ہم قدم ان اطالوی راہباؤں کی آہوں کا آغاز ہوچکا تھا جو یہاں تک پہنچ کر باقاعدہ سسکیوں اور آہ و زاری میں بدل گیا۔ان کے لیے اب اس عمودی ڈھلان اور سیڑھیوں پر چڑھنا مشکل ہورہا تھا۔ سانس بھی پھولنے لگی تھی ایسے میں اس عمر رسیدہ راہبہ نے میرا بڑھایا ہوا ہاتھ شکریے سے تھام لیا۔انہیں رومن سپاہیوں میں میری طرح کا نیک دل سائمن سرئین تھا جس نے حضرت عیسیؑ کو اس مقام پر صلیب اوپر تک ڈھونے میں مدد کی ۔چھٹے پڑاؤ پر حضرت ویرونیکا آگے آئیں اور اپنے رومال سے حضرت عیسیؑ کے چہرہ مبارک سے خون صاف کیا ۔یہ رومال آج بھی پوپ کی راجدھانی ویٹیکن کے کلیساSaint Peter’s Basilica Rome, میں موجود ہے۔خاکسار اس کی زیارت باسعادت سے بھی مستفید ہوچکا ہے ساتویں پڑاؤ پر حضرت عیسیؑ ایک مرتبہ پھر سے نڈھال ہوکر گر پڑے۔

آٹھویں پڑاؤ سے جہاں آج کل ایک چھوٹی مگر مصروف مارکیٹ ہے وہاں سے گزرتے ہوئے حضرت عیسی علیہ السلام کی نگاہ آہ و بکا میں مصروف چند خواتین پر پڑی یہ آپ کی خفیہ پیروکار تھیں۔ آپ نے یہاں رک کر ایک چھوٹا سا خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہاں آپ پر ایک دفعہ پھر سے کوڑے برسائے گئے۔ نواں پڑاؤ وہ ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام تیسری مرتبہ گرے۔یہاں سے ایک ا ندھا موڑ آتے ہی سیدھے ہاتھ پرکنیسۃ القائمہ یعنیChurch of the Holy Sepulchre آجاتا ہے۔اس کی ان عیسائیوں کے ہاں بلحاظ تقدیس وہ اہمیت ہے ۔

کنیسۃ القائمہ

کنیسۃ القائمہ


طریق الالام کے بقایا چار پڑاؤ اسی کلیسا کے احاطے میں ہیں جنہیں رومی شہنشاہ کانسٹنٹائن نے بنایا تھا۔ اسی کے عہد میں عیسائیت کو بہت فروغ ہوا۔ایک روایت کے بموجب وہ صلیب جو ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسی ؑکو مصلوب کرنے کے وقت استعمال ہوئی اسے اس کی والدہ نے کھوج نکالا تھا۔یہ صلیب نائٹ ٹمپلرز چراکر اسکاٹ لینڈ لے گئے تھے اب یہ اسکاٹ لینڈ کے روزا لن چرچ میں چھپاکر رکھی گئی ہے۔(خاکسار پچھلے دنوں ایک پیشہ ورانہ کانفرنس میں اسکاٹ لینڈ گیا تو اس کی زیارت کابھی شرف حاصل ہوا ۔یہ قصہ کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں۔) کنیسہ الا قائمہ میں مین گیٹ کے ساتھ پڑاؤ نمبر دس ہے۔یہاں مزید تحقیر کے لیے حضرت عیسیؑ کو برہنہ کردیا گیا تھا۔

مجھے لگا کہ میں تو اپنے عقیدے کی رو سے یہ مصلوب ہونے والی غلط العام داستان الم اور اس طرح کی دور افتادہ عزا داری سے بالکل ہی لاتعلق ہوں۔اس کے باوجود میں نے جذبات انسانی کے احترام میں ان کی رفاقت اس وقت تک نبھائی جب تک لائن مارشل نے ہمیں باہر نہ کردیا

وہ اس حالت برہنگی میں چند قدم آگے لے جائے گئے اور ایک ہال میں داخل ہوئے۔یہ ہال شاید وہ مقام ہے جسے لاطینی میں cavalry اور یونانی زبان میں اسے Golgotha کہتے ہیں عربوں نے بھی اسی یونانی لفظ کو مشرف بہ عربی کرکے ال جل جثہ پکارنا شروع کردیا ہے۔یہ وہ جائے عبرت تھی جہاں مجرموں کو کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔ہم اس مقام پر جب پہنچے جہاں حضرت عیسی ؑمصلوب ہوئے تھے تو رات ہوچکی تھی۔ہال میں تھوڑے سے افراد تھے اس مقام پر جہاں حضرت عیسیؑ مصلوب ہوئے اب ایک صلیب پر ہالوگرافک عکس موجود ہے ۔اب میری ہم سفر راہبائیں غم سے نڈھال ہوکر گھٹنوں کے بل گر پڑی تھیں اور روئے چلی جاتی تھیں۔ ان کا غم سمجھ بھی سکتا ہوں اور اس پوری تاریخ سے بھی کما حقہ آگاہ ہوں ۔ ان کے عقائد سے اختلاف رکھنے کے باوجود میں ان کے جذبات کا مکمل احترام کرتا ہوں۔

میرے عقیدے کی راہیں جدا ہوئیں تو میں نے ان مبتلائے درد و الم بیبیوں کو سسکتا بلکتا چھوڑا اور چل پڑا ۔سیڑھیاں اتر کر چرچ کے مین ہال میں ایک گول سے پلیٹ فارم پر وہ سنگ مسیحائی ہے جہاں حضرت عیسیؑ کا جسد مبارک بی بی مریم کی گود میں رکھا تھا ۔وہ اشکبار تھیں۔اس پتھر کے عین اوپر تصاویر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے ایک میں بے جان عیسی ابن مریم کو والدہ کی گود میں پڑا دکھایا گیا ہے۔

کنیسۃ القائمہ کے اندر

کنیسۃ القائمہ کے اندر


یہاں وہ مرقد ہے جس میں حضرت عیسیؑ کو دفن کیا گیا تھا۔ دن میں لمبی قطاریں ہوتی ہیں مگر رات کو تھوڑے سے لوگ تھے سو میرا نمبر جلد ہی آگیا۔لائن چل رہی تھی اور میں بھی شیشے کے سے چمکتے خوب صورت موزایئک فلور پر آگے بڑھتا رہا۔دیواروں پرحضرت عیسی علیہ السلام، جنت،فرشتوں کی تصاویر آویزاں تھیں۔داخلے کے دروازے پر بیس فٹ کے قریب اونچی موم بتیاں روشن تھیں،اس کے علاوہ چھت سے لٹکے کئی فانوس اور قندیلوں سے وہ سارا ماحول جگ مگ کر رہا تھا۔ہم تین کو اس مرقد میں داخل ہونے دیا گیا۔میرے علاوہ ایک ہسپانوی جوڑا بھی وہاں اظہار عقیدت کے لیے آیا تھا۔ یہاں ماربل کا ایک ایسا تختہ موجود ہے جس پر صلیب سے اتارے جانے کے بعد حضرت عیسیؑ کو لٹایا گیا تھا۔عیسائی مورخین کے مطابق مصلوب ہونے کے تیسرے دن جب اس مرقد کو کھولا گیا تو یہ مر کزانوار بناہوا تھا۔ اس میں سے خوشبوؤں کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں ۔ یہ نور بتدریج ان الفاظ میں بدل گیا کہ ’’ وہ یہاں نہیں وہ تو بلندیوں کی جانب چلا گیا ہے‘‘جانے کیوں جب میں نے انگریزی میں یہ الفاظ نا دانستہ طور پر دہرائے تو ان کا اس جوڑے پر بہت گہرا اثر ہوا ۔شوہر نے ایک ہاتھ سے بیوی کا اور دوسرے سے میرا ہاتھ تھام لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔مجھے لگا کہ میں تو اپنے عقیدے کی رو سے یہ مصلوب ہونے والی غلط العام داستان الم اور اس طرح کی دور افتادہ عزا داری سے بالکل ہی لاتعلق ہوں۔اس کے باوجود میں نے جذبات انسانی کے احترام میں ان کی رفاقت اس وقت تک نبھائی جب تک لائن مارشل نے ہمیں باہر نہ کردیا اب بیوی نے بھی میرا ہاتھ تھام لیا اور میں بھی ہسپانوی زبان میں بولنے لگا۔ان کے منھ سے ہسپانوی لفظ Gracia” یعنی شکریہ بار بار ٹپک رہا تھا۔وہ اب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے آسمان کی جانب کسی ایسی روشنی کو دیکھ رہے تھے جو اس کائنات میں صرف ان کا حصہ تھی۔اس کلیسہ القائمہ سے نکل کر جب میں باہر شاہراہ پر آیا تو کئی اور یاتری صلیبیں اٹھائے اس طرف آرہے تھے اور میں تھا کہ ایک اور سحر میں مبتلا تھا ۔ یہ میرے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی مسجد کا بورڈ تھا جس نے میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔

کنیسۃ القائمہ کے اندر

کنیسۃ القائمہ کے اندر


یہ اس کلیساء سے بالکل جڑی ہوئی ہے مگر میں آپ کو بتاتا چلوں کہ فاتح ایران و فلسطین حضرت عمر بن خطابؓ اس دن صلوۃ الجمعہ پڑھنے کے لیے جگہ کے انتخاب کا سوچ رہے تھے تو وہاں آئے ہوئے کچھ معززین نے رائے دی کہ مسلمان یہ نماز وقتی طور پر اس کلیسۂ القائمہ میں ادا کرلیں۔اس تجویز کو حضرت عمر ؓنے سختی سے رد کردیا۔ آپ نے وہاں کے راہب اعلیٰ کو یقین دلایا کہ ان کے اس مقام مقدس کا ہر قیمت پر احترام کیا جائے گا۔ ان کو عبادات کی کھلی آزادی ہوگی۔اس ملاقات میں خود راہب اعلی نے اس پیشکش کا اعادہ کیا کہ مسلمان صلوۃ الجمعہ اگر کلیسہ القائمہ میں ادا کریں تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔حضرت عمر ؓ نے اس کی اس دعوت کو سن کر کہا کہ ہرگز نہیں اگر آج انہوں نے اس رعایت کو اپنالیا تو ان کے بعد اس کو دیگر مسلمان اپنا حق سمجھ کر جتلائیں گے اور یہ کلیسا مسجد میں تبدیل ہوکر رہ جائے گا۔ انہوں نے یہ کہہ کر سامنے میدان میں ایک کنکر پھینکا اور جہاں یہ کنکر جاکر گرا وہاں آپ نے دیگر مسلمانوں کی صلوۃ الجمعہ کی امامت فرمائی۔ موجودہ سادہ اور چھوٹی سی مسجدآپ کی حق گوئی اور انصاف و رواداری کے ثبوت کے طور پر اسی مقام پر تعمیر کی گئی ہے۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر