... loading ...
نپولین کاشمار دنیا کے مشہورترین جرنیلوں میں ہوتا ہے اس کی جرأتمندی اور بہادری مثالی تھی۔ ’’ناممکن‘‘ کا لفظ اس کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ فرانس میں اس کی حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی‘ اقتدار سے محروم ہوا تو معزول کرکے جزبرہ ’’البا‘‘ میں قید کردیاگیا۔ لیکن جلد ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس معزول تاجدار کے ساتھ سپاہیوں کی معمولی سی تعداد تھی لیکن عزم یہ تھا کہ فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کرلے۔ پہلے ہی معرکے میں اسے20 ہزار جوانوں کی فورس کا سامنا کرنا پڑا۔ جب مختصر سی جماعت کے نپولین کا اس سے آمنا سامنا ہوا تو نپولین کو ٹکراؤ کے انجام کا احساس تھا۔ وہ تنہا غیر مسلح حالت میں اپنے مٹھی بھر سپاہیوں میں سے آگے نکلا اور نہایت اطمینان کے ساتھ چلتا ہوا مخالف صفوں کے سامنے جا کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنی وردی والے کوٹ کے بٹن کھولے اور اپنے سینے کو مخالف فوج کے سامنے ننگا کردیا۔ اس کے بعد نہایت جذباتی انداز میں مخالف سپاہیوں سے (جن میں اکثر اس کے ماتحت رہ چکے تھے) مخاطب ہوا ’’تم میں سے کون وہ سپاہی ہے جو اپنے باپ کے ننگے سینے پر فائر کرنے کو تیار ہو‘‘ اس کا یہ کہنا تھا کہ ہر طرف سے ’’کوئی نہیں‘ کوئی نہیں‘‘ کی آواز گونجنے لگی۔ سارے سپاہی مخالف صفیں چھوڑ کر نپولین سے آملے۔ اس نے بنا لڑائی فتح حاصل کرلی اور فرانس کے تخت پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ وہ معمولی فورس کے ساتھ مخالف بڑی فوج سے ٹکرایا تھا لیکن اسے خود پر اعتماد اور اپنی مقبولیت پر بھروسا تھا۔ اس لئے فتحیاب ہوگیا۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو بھی نپولین کی طرح اپنی صلاحیتوں اور جرأت وبہادری پر اسی طرح سے اعتماد تھا۔ چنانچہ ستمبر2013ء میں جب ’’قومی ایکشن پلان‘‘ ضرب عضب اور کراچی آپریشن کا آغاز کیا تو صورتحال انتہائی گھمبیر تھی۔ دہشت گردوں نے ریاست کے اندر اپنی ’’ریاست‘‘ قائم کر رکھی ہے۔ جدید ہتھیاروں کے بل پر پورے معاشرے اور ملک کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ کسی کی عزت وآبرو اور جان ومال محفوظ نہیں تھے۔ غیرملکی ایجنٹ اور دہشت گرد ملک بھر میں دندناتے پھرتے تھے۔ آج کراچی سے لے کر شمالی‘ جنوبی وزیرستان اور افغان سرحد تک حکومت کی ’’رِٹ‘‘ قائم ہوچکی ہے جس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے علاقے ’’ٹانک‘‘ سے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جناب جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کی بازیابی اور تین دہشت گردوں کی ہلاکت ہے۔ جناب سجاد علی شاہ نے اپنے بیٹے کی29 دنوں بعد بازیابی کو پاک فوج اور وفاقی حکومت سے منسوب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ ان کے بیٹے کی زندہ سلامت گھر واپسی میں سندھ حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔
رینجرز نے لاڑکانہ کے مفرور اسد کھرل کو بھی حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد سے گرفتار کیا ہے جو وہاں روپوش تھا اور جسے رینجرز کی گرفتاری سے بچانے کیلئے وزیرداخلہ سندھ انورسہیل سیال کے بھائی طارق سیال نے فرار کرایا تھا۔ قانون نافذ کرنے والوں نے اس واقعہ کے بعد وزیرداخلہ پر اظہار عدم اعتماد کیا ہے۔ لیکن صوبائی حکومت نے اس بات کو ہوا میں اڑادیا۔ شاید کہ سندھ حکومت ان ہی وجوہات کے باعث رینجرز کے اختیارات میں توسیع اور اس کی مزید تقرری سے گریزاں ہے۔ سندھ کا انتظامی ڈھانچہ مجموعی طور پر زوال پذیر ہے۔ رشوت‘ بدعنوانیوں‘ بے امنی اور اقرباء پروری نے صوبے میں انارکی جیسی صورتحال پیدا کررکھی ہے۔ صوبہ مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور وزیراعلیٰ سید قائم علیشاہ کو اہم فیصلوں کیلئے دبئی جانا پڑا ہے جہاں چار پی کے قائد آصف علی زرداری اور تین پی (پاکستان پیپلزپارٹی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری موجود ہیں۔باپ بیٹے نے قائم علی شاہ سے وزارت اعلیٰ کا تاج واپس لے لیا کہ سندھ حکومت پر بدنامی کی کالک نے پارٹی کا مستقبل داؤ پر لگادیا تھا۔ عوام8سال سے ایک ہی چہرہ دیکھ کر بیزار آگئے تھے اورجو’’مفلوج وزیراعلیٰ‘‘ کی حیثیت سے فوج کیلئے بھی ناپسندیدہ ہوگئے تھے۔ وفاقی وزیرخزانہ اوروزیراعظم کے سمدھی اسحاق ڈار نے بھی کشمیر میں انتخابی کامیابی کے بعددبئی آکر آصف زرداری سے خصوصی ملاقات کی ہے۔ نواز خاندان اور آصف زرداری خاندان کے دبئی‘لندن اور دیگر غیرملکوں میں گہرے معاشی مفادات ہیں۔ ان کے تحفظ اور پاکستان میں اپنے سیاسی ومعاشی معاملات میں دونوں خاندان ایک نظر آتے ہیں۔ اس لئے انتخابی اور سیاسی تلخیوں کا جام بھی شہد سمجھ کر پیتے ہیں اور باہم شیروشکر رہتے ہیں۔ ادھر جج اور جرنیل دونوں ہی ملکی صورتحال سے پریشان ہیں‘ فوج اور رینجرز سندھ وپنجاب سمیت پورے ملک سے دہشت گردی‘ جرائم اور بدعنوانیوں کو اکھاڑ دینا چاہتے ہیں لیکن سیاسی قیادت ان کے راستے میں کانٹے بچھانے پر تلی ہوئی ہے۔ کیا عجب ماجرا ہے کہ رینجرز نے جامعہ کراچی سے غیرحاضر اساتذہ کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔ سول حکومت یہ فرض بھی انجام دینے سے قاصر ہے۔ صوبائی محکمہ تعلیم کا حال اس سے بھی برا ہے۔ جعلی بھرتیاں اور گھوسٹ ملازمین کے نام پر کروڑوں روپے ماہانہ وصولی ’’عام مشغلہ‘‘ بن چکا ہے جو گزشتہ8برس سے جاری ہے۔ نیب نے حال ہی میں چار افسروں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ سندھ کا کونسا محکمہ ہے ،جہاں کرپشن نہیں ہے۔ ایک سال قبل آصف زرداری کے رضاعی بھائی اویس مظفر ٹپی سندھ کے وزیر بلدیات تھے۔ لین دین کے معاملات میں گڑبڑ پر وزارت سے ہٹائے گئے۔ رینجرز اور نیب کے ہاتھوں گرفتاری کا خطرہ ہو اتو ملک سے فرار ہوگئے ‘ پہلے دبئی پھر لندن اور تازہ اطلاعات کے مطابق ہانگ کانگ کے شاپنگ سینٹر میں خریداری کرتے نظر آئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے سندھ کے منظرنامے سے غائب ہیں۔ آزادکشمیر اسمبلی کے اسپیکر غلام صادق کی نااہلی تو تازہ ترین واقعہ ہے۔ جنہیں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے محض تین دن قبل بدعنوانی پرنااہل قرار دیاگیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور شخصیات کرپشن کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہیں۔ یہ جب برسراقتدار ہوتی ہیں تو اپنی نااہلی اور بدعنوانیوں کے باعث غیر مقبول ہوجاتی ہیں اور عوام اتنے بدظن ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں فوج ہی مسیحا نظر آتی ہے۔ مارشل لاء کی باتیں ہوتی ہیں۔ جرنیلی اقتدار کی خواہش ابھرتی ہے۔ ترکی میں صدر طیب اردوان اور ان کے ساتھی گزشتہ15سال سے حکومت کررہے ہیں۔ وہاں کے عوام نے ایک گروہ کی بغاوت کچل کر سول حکومت اور جمہوریت سے اپنی وابستگی حال ہی میں ثابت کردی ہے۔ پاکستان میں اس کے برعکس صورتحال کیوں ہے؟ سندھ کے فیصلے دبئی میں کیوں ہورہے ہیں؟ کیا پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی دارالحکومت کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنانے والے عوام کے آگے جوابدہ نہیں ہیں‘ کراچی میں50کروڑ کی لاگت سے انتہائی کم پاور 2میگا پکسل کے کیمرے سڑکوں پر لگائے گئے تو عدلیہ نے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سے پوچھ لیا کہ شاہ صاحب! اس سے زیادہ طاقتور کیمرے تو موبائل فون میں لگے ہوئے ہیں‘ آپ ان سے مجرموں کو کیسے پکڑیں گے جن کے چہرے بھی وڈیو میں صاف نظر نہیں آتے۔ کراچی سے کچرا صاف کرنے کیلئے مختص50کروڑ روپے کا بجٹ کہاں گیا‘ وزیراعلیٰ نے جوابدہی سے بچنے کیلئے تین دن میں کراچی کو صاف کرنے کا اعلان کردیا اور ایک تنکا بھی ادھر سے اُدھر نہیں ہوا۔ جرنیل اور جج پورے نظام کی صفائی چاہتے ہیں لیکن سیاسی قیادت اس کیلئے تیار نہیں ہے‘ وہ کہتی ہے کہ جسے پکڑنا ہے‘ ہماری مرضی سے پکڑو اور جسے سزا دینی ہے ہماری مرضی سے سزا دو‘ ایک دو شخصیات کی نہیں اسمبلیوں میں بیٹھے تمام جاگیرداروں اور وڈیروں کی یہی سوچ ہے۔ جن کی نمائندگی یہ پارٹیاں اور شخصیات کرتی ہیں۔ یہ تو کونسلروں اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ رینجرز اور نیب کو کیوں کر اختیار دے سکتے ہیں۔ اسد کھرل کی گرفتاری میں رینجرز اور سندھ حکومت کے درمیان تنازع اس تلخ حقیقت کی ہلکی سی جھلک ہے۔ جس ملک میں41ارب ڈالر سالانہ کی کرپشن ہورہی ہو۔ وہاں تعمیروترقی اوراصلاح کیسے ہوسکتی ہے‘ موجودہ سیاسی نظام ایک ایسی جراحی کا متقاضی ہے جیسا کہ ترک صدر طیب اردوان ترکی میں کررہے ہیں جہاں بغاوت کے بعد50ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگروفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ملزم اسد کھرل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہ ڈالتے تو وہ بھی بیرون ملک فرار ہوجاتا۔
پاکستان کی سیاست اور سیاسی نظام‘‘ کھاؤ‘ پیو‘ بھاگ جاؤ‘‘ پر مشتمل ہے۔ ’’لٹوتے پھٹو‘‘ اس کا محور ہے اس کرپٹ سیاسی نظام کے ذریعے ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے۔ حالیہ کشمیر انتخابات کی جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مجموعی طور پر6لاکھ89ہزار ووٹ حاصل کرکے 32 سیٹیں جیتی ہیں، جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے مجموعی طور پر 3لاکھ83ہزار اور پیپلزپارٹی نے تین لاکھ 52ہزار ووٹ حاصل کئے اور ان کی صرف دو دو نشستیں ہیں۔ اگرچہ یہ ووٹ شخصیات کی بجائے ان جماعتوں کو ملتے تو وہ اپنے زیادہ نمائندے نامزد کرسکتی تھیں‘ یہی متناسب نمائندگی کا قانون ہے۔ پاکستان میں اس بنیاد پر انتخابات کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن صرف اسی سے مسئلہ کا حل نہیں ہوگا۔ آئین کی18ویں ترمیم نے صوبوں میں جاگیرداروں اور وڈیروں کو مکمل طور پربا اختیار بنادیاہے۔ نگرانی اور جانچ پڑتال کا نظام یکسر ختم ہوگیا ہے۔ پاکستان وفاقی ریاست ہے لیکن تمام تر خرابیوں کے باوجود وفاق اصلاح کرنے سے قاصر ہے اس سے جاگیردارانہ انانیت نے جنم لیا ہے اور کراچی جیسے عظیم شہر اسمبلی میں قانون سازی کے حق سے محروم ہوگئے ہیں۔ احساس محرومی شدت سے پنپ رہا ہے، جو مزید خرابیوں اورانارکی کا سبب بنے گا۔ پارلیمنٹ ہو یا سندھ اور پنجاب اسمبلی ہر جگہ جاگیرداروں اور وڈیروں کا قبضہ ہے جن کی نمائندگی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کررہی ہیں اور قوم حیرت وحسرت سے کبھی عدلیہ اور کبھی فوج کی طرف دیکھ رہی ہے۔ پورے سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی نظام کی مکمل جراحی کا یہ کٹھن فریضہ کون انجام دے گا۔کسی ممکنہ جراحت سے بچنے کیلئے دبئی سے سندھ کے وزیراعلیٰ کا ’’تحفہ‘‘ بھیجاگیا ہے۔ مرحوم وزیراعلیٰ سید عبداﷲ شاہ کے صاحبزادے سیدمراد علی شاہ سب سے زیادہ ’’فیورٹ‘‘ امیدوار ہیں۔ ان کا تعلق دادو کے علاقے سیہون شریف سے ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ عموماً سندھ میں ’’سید‘‘ کو وزیراعلیٰ بناتی ہیں۔ صوبے میں ’’سیدسگھورا‘‘ عوام کیلئے قابل تعظیم ہوتے ہیں۔ حکمرانی کی تمام تر غلطیاں اور لوٹ مار ان کے تقدس میں چھپ جاتی ہیں اور عوام طوعاً وکرہاً انہیں برداشت کرتے رہتے ہیں‘ سید قائم علی شاہ کو پہلی بار1988ء میں بینظیربھٹو نے وزیراعلیٰ سندھ بنایا تھا لیکن سندھ میں امن وامان کی ابتر صورتحال اور ناقص کارکردگی کے باعث انہیں وزارت اعظمیٰ سے ہٹاکر آفتاب شعبان میرانی کو وزیراعلیٰ بنادیاگیا تھا‘ محترمہ بینظیربھٹو کے دوسرے دور میں سید عبداﷲ شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ رہے جو اقتدار سے ہٹنے کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اور پھر جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔ سید قائم علی شاہ 2008ء میں اس وقت دوبارہ وزیراعلیٰ بنائے گئے جب آصف علی زرداری نے بینظیربھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کی صدارت سنبھالی‘ تیسری مرتبہ 2013ء کے انتخابات کے بعد پھر ان کی قسمت جاگی‘ پیپلزپارٹی وفاق میں اقتدار سے محروم ہوگئی اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمدنوازشریف وزیراعظم بن گئے، تاہم سندھ میں معمولی اکثریت کے ساتھ پیپلزپارٹی کااقتدار پھر قائم ہوگیا اور قائم علی شاہ کی ہیٹ ٹرک مکمل ہوگئی۔ وہ صوبے میں گزشتہ8سال سے وزیراعلیٰ تھے لیکن فیصلے پیپلزپارٹی کے اعلیٰ قیادت ہی کرتی تھی۔ وہ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی طرح صرف نام کے تاجدار تھے اور فیصلے کہیں اور ہوتے تھے۔ انہیں تو دستخط‘ انگوٹھوں کیلئے استعمال کیاجاتا تھا‘ اس طرح خوشی خوشی ساری بدنامی وہ اپنے دامن میں سمیٹ لیتے تھے۔ وہ سندھ میں رینجرز کے اختیارات ختم کرانے کیلئے دبئی گئے تھے جو15جولائی سے ختم ہوگئے تھے لیکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے خود انہیں بے اختیار کرکے گھر بھیج دیا۔
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...
پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...
سندھ کا وزیراعلیٰ بننے سے سید مرادعلی شاہ کی ’’مراد‘‘ تو پوری ہوگئی لیکن صوبے کے عوام بدستور اپنے آدرش کی تلاش میں ہیں ۔رشوت اور بدعنوانیوں سے پاک ’’اچھی حکمرانی‘‘ تو جیسے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر سے رینجرز کی تعیناتی کا تنازع‘ جو حل ہونے میں نہیں آرہا ہے‘ وزیراعلیٰ کے آبائی عل...
سندھ کے میدانوں‘ ریگزاروں اور مرغزاروں سے لہراتا بل کھاتا ہوا شوریدہ سر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد باشندے اس عظیم دریا کو ’’دریابادشاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ نہ صرف صوبے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ’’بادشاہت‘‘ بھی بانٹتا ہے۔ پہلے دریا کے دائیں کنارے پر آباد شہر خیرپور...
15 جولائی 2016 ء کی شب گزشتہ 48 سال کے دوران چوتھی مرتبہ ترکی میں ’’فوجی انقلاب‘‘ کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ بغاوت کا المیہ ہے کہ اگر کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو تو غداری کہلاتی ہے۔ 15 جولائی کا فوجی اقدام چونکہ ناکام ثابت ہوا لہٰذا باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرن...
عالمی شہرت یافتہ عظیم پاکستانی سماجی کارکن عبدالستار ایدھی بھی جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کا جنازہ کسی نیک دل اور خوش خصال شہنشاہ سے کم نہیں تھا۔ پاکستان کے صدرمملکت ممنون حسین‘ تینوں مسلح افواج کے سربراہان جنرل راحیل شریف‘ ایئرمارشل سہیل امان‘ ایڈمرل ذکاء اﷲ‘ سندھ وپنجاب کے وز...
پاکستان کی ازخود ’’جلاوطن‘‘ حکومت لندن سے چل رہی ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف ’’اوپن ہارٹ سرجری‘‘ کیلئے تین ہفتہ قبل لندن تشریف لے گئے تھے۔ یہ آپریشن جس اسپتال میں اور جس انداز میں ہوا‘ اس پر کثیر پاکستانیوں کو شبہات اورخدشات ہیں کہ آپریشن تو ایک بہانہ ہے‘ اصل معاملہ بیرون ملک جاکر...