... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
حضرت راحیل ،حضرت یوسف علیہ السلام کی والدہ محترمہ تھیں ۔ان کے مرقد عالیہ کے احاطے میں وہاں موجود ایک یہودی خاتون کچھ وردکرتے ہوئے ایک اونی سرخ دھاگے کو مرقد کے گرد لپیٹ کر اس میں پھونک پھونک کر گرہیں باندھ رہی تھی۔ اسے وہ بہت احتیاط سے لپیٹ کرایک چھوٹے سے پرس میں بھی رکھ رہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ شاید اِسے وہ ایسی خواتین کی کمر کے گرد باندھتی ہیں جن کو بچے کی ولادت کے درد میں کمی اور زچہ کو آرام پہنچانا مقصود ہو۔
ہم وہاں سے فاتحہ خوانی کے بعد واپس یروشلم لوٹ آئے۔ میں مسجد اقصیٰ کے قریب اُتر گیا۔عبدالقادر بھی دن بھر کی مسافت سے ہلکان ہوگیا تھا اور گھر جاکر آرام کرنے کا متمنی تھا۔اس نے جب کل کا پروگرام پوچھا تو میں نے کہا الخلیل یعنی ہیبرون ۔ یہ نام سنتے ہی وہ ایک دم متفکر سا ہوگیا۔اس نے یقین دہانی کی خاطر پوچھا کہ’’ کیا میں واقعی ہیبرون جانا چاہتا ہوں ۔یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ہمہ وقت یوٹیوب اور دنیا بھر کا میڈیا وہاں ہنگاموں اور مار دھاڑ کی خبریں دکھا رہا ہوتا ہے؟‘‘ میں نے بھی ذرا حوصلہ دکھاتے ہوئے جواب دیا ’’جی ہاں میرا حضرت علی مرتضی ؓ کے اس قول پر بہت پختہ یقین ہے کہ موت ہی زندگی کی محافظ ہے۔اسی وجہ سے سیاحت میں میری دل چسپی ناقابل سمجھوتہ ہے‘‘۔’’تو پھر کل صبح چھ بجے تیار رہنا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ رخصت ہوگیا اور میں اس کی کار یروشلم کے خراماں ٹریفک میں آہستگی سے غائب ہوتی دیکھتا رہا۔میں بھی ان تنگ گلیوں میں ٹکراتا ، بھاگا بھاگا سا بڑھتا رہا ۔دُکاندار ، وہی مال و منال کے سودوں میں مصروف تھے۔ چیک پوسٹوں والے بھی اب کچھ صورت شناسا سے ہوگئے تھے اور مجھے مغرب کے لیے مسجد اقصیٰ میں جماعت مل گئی۔
میراارادہ یہ تھا کہ صلٰوۃ المغرب کے بعد حاتم، نبیل انصاری یا شیخ نائف کے ساتھ اپنے مذاکرات جاری کرکے علم کی پیاس بجھاؤں گا مگر وہ کہیں دکھائی نہ دیے۔مجھے یکایک یاد آیا کہ آج تو جمعرات ہے اور وہ سب مسجد رابعہ میں ذکر کی محفل برپا کرکے بیٹھے ہوں گے۔
مغرب سے عشاء کے درمیان میرا کلینک بھی ہوگیا تو میرے پاس کچھ اور مصروفیت نہ تھی۔ یروشلم میں چھ سو میٹر کا ایک پتھریلا، بل کھاتا راستاہے جو بیچ بازار سے گزرتا ہے ۔اسے عرب طریق الام یعنی شاہراۂ کرب کہتے ہیں ۔اس شاہراہ کی تصدیق عیسائیوں کے تمام فرقے کرتے ہیں۔ان سب کا اتفاق اس پر بھی ہے کہ حضرت عیسی ؑ کی گرفتاری Garden of Gathsheme, کے عین اُس مقام سے ہوئی تھی جہاں آج کل چرچ آف آل نیشنز یا کلیسۂ آلام موجود ہے۔
چاروں بائبلوں میں یعنی متی، لوکا، یوحنا اور مارکس میں اس رات کا احوال ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ جن لمحات میں حضرت عیسیؑ اپنے گیارہ حواریوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوئے تھے تو بارہواں حواری Judas Iscariot, غائب تھا ۔ وہی دغا باز، رومی سپاہیوں اور یہودی راہبوں کو لے کر وہاں پہنچا۔مرحلہ شناخت کا تھا۔ لہذا طے ہوا تھا کہ ان حواریوں میں مروج رسم کے مطابق یہ بدبخت جس ہستی کو چومے گا ۔وہی حضرت عیسیؑ ہوں گے۔ اسی وجہ سے انگریزی زبان میں بظاہر پیار کا وہ عمل جو دھوکا دہی کی نیت سے کیا گیا ہو اسے Judas of a kissکہتے ہیں ۔اسے حضرت عیسیؑ کو پکڑوانے کی رشوت چاندی کے چالیس سکے ملی تھی ۔
جوڈاس کو جب یہ علم ہوا کہ حضرت عیسیؑ علیہ السلام مصلوب کردیے گئے ہیں تو بہت دل گرفتہ ہوا۔ وہ اس مقام پر آیا اور اپنی رشوت کی رقم راہب کے سامنے مٹی پر پھینک دی اور باہر جاکر ایک چبوترے پر خودکشی کرلی۔بائبل میں متی اور لوکا کا بیان ایک دوسرے سے اس حوالے سے قطعی مختلف ہے۔
حضرت عیسیؑ کی گرفتاری ، مقدمے ، سزا کے حوالے سے بہت تحقیق ہوئی ہے۔۔انہیں جمعہ کی اس رات ایک سے دو بجے کے درمیان گرفتار کیا گیا تھا۔کل چھ مقدمے چلے جن میں تین یہودی قانون کے مطابق اور تین رومن قانون کے مطابق تھے۔ الزامات یہ تھے کہ وہ خود کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔ مملکت روم سے بھی وفادار نہیں اور یہودی مذہب کی بھی توہین کرتے ہیں۔
یہ الزامات ایسے نہ تھے کہ جس کی وجہ سے انہیں مصلوب کیا جاتا۔ آخر کار انہیں رومی گورنر Pilate یعنی کے سامنے پیش کیا گیا۔یہ سیاسی مقدمہ سا بن گیا اور وہ اتنی کڑی سزا کے حق میں نہ تھا ۔اس کی بیوی بھی انہیں معافی دینے کے حق میں تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ یروشلم کے عوام کو حضرت عیسیؑ کے خلاف بہت مشتعل کیا گیا تھا ،وہ اس بات پر رضامند نہ تھے کہ ان کی جان بخشی کی جائے ۔ پیلاطس نے اپنے تئیں کچھ قانونی موشگافیوں کا سہارا لینا چاہا۔ اس نے تجویز دی کہ مصلوب کرنے کی بجائے حضرت عیسیؑ کو چالیس کوڑوں کی سزا دے کر رہا کردیا جائے۔اس وقت جب گورنر نے یہ تجویز یروشلم کے بپھرے ہوئے عوام کے سامنے رکھی تو وہ مزید مشتعل ہوگئے جس پر اس نے اپنا آخری قانونی پتہ پھینکا۔
یروشلم کے گورنر کو اختیار تھا کہ وہ Passover کے اس مقدس دن (جو یہودیوں کے موسم بہار کاہفتۂ جشن ہے جسے وہ فرعون سے غلامی کے نجات کی یاد میں مناتے ہیں) کسی بھی ایک قیدی کی مکمل سزا کو معاف کرسکتا تھا۔ اس دن ایک بے رحم قاتل Barabbas اور حضرت عیسیؑ میں سے کسی ایک کو معاف کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ باراباس کی سفاکیت اور جرائم پیشہ زندگی سارے یروشلم کے سامنے تھی لہذا نمونے کے طور پر پہلے اسے اور بعد میں حضرت عیسی ؑ کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ خلق یروشلم نے معافی کی رعایت اس قاتل بارا باس کو دی ۔حضرت عیسیؑ کے بارے میں ان کا غم و غصہ برقرار رہا اور ان کے مصلوب کیے جانے کی سزا برقرار رہی۔خلق خدا کا یہ ظالمانہ فیصلہ سن کر حضرت عیسیؑ مسکرادیے اور سر تسلیم خم کردیا۔
آخر کار فیصلے پر عمل درآمد کی گھڑی آگئی ۔حضرت عیسی ؑصلیب لے کر اس طریق آلالام یعنی Via Dolorosa پر جمعہ کے دن تین بجے چل پڑے۔اس واک کی یاد میں اب یہاں ہر جمعہ کو ٹھیک تین بجے ایک محفل عزاداری منعقد ہوتی ہے۔اس طریق آلالام کے کل چودہ پڑاؤ ہیں ۔انیسویں صدی کے آغاز سے مختلف تحقیقات کے بعد اس موجودہ راستے کو مستند مان لیا گیا جو 600 میٹر طویل ہے اور قلعہ انطونیو سے کنیسہ القائمہ تک چلا جاتا ہے۔ہر پڑاؤ سے منسوب اپنی ایک داستان کرب و الم ہے۔
میرا اصل ارادہ تو یہ تھا کہ میں الخلیل یعنی Hebron سے واپسی پر ان عزاداروں کے ماتمی جلوس میں شریک ہوں گا مگر مجھے پھر خیال آیا کہ جانے پھر یہ موقع ملے نہ ملے ۔میں دو سومیٹر کے لگ بھگ چل کر اپنے ہوٹل والی شاہراہ پر جارہا تھا تو میری نگاہ دو عدد کیتھولک راہباؤں پر پڑی جو دو تنگ گلیوں کے سنگم پر سر نگوں کھڑی تھیں۔ایک کونے پر کانسی کی ایک تختی بھی نصب تھی جس پر بہت واضح طور پر “VIA Dolorosa” لکھا تھا۔ میں بھی ان کے پاس پہنچ گیا اور بات چیت سے معلوم ہوا کہ وہ اس ماتمی جلوس میں شریک ہونے آئی ہیں جو ان چودہ مقاماتِ آہ و بکا سے گزرے گا۔
میرے اس سوال پر کہ’’ کیا میں بھی اس سلسلہ عزاداری کا حصہ بن سکتا ہوں حالانکہ میں ایک مسلمان ہوں؟‘‘ تو ان میں سے جو عمر رسیدہ تھی وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی کہ ’’ہم سب اُس ایک ہی شعور الٰہی کا توحصہ ہیں‘‘۔عیسائیوں کی مقدس ترین مسافت یا یاترا کا ایک رکن یہ ہے کہ اس طریق الالام کا سفر کریں ۔دوسرے دریائے اردن جہاں حضرت عیسی ؑ نے ڈبکی لگا کر بتپسمہ لیا تھا، اسی مقام پر وہ بھی غسل تقدیس کریں۔(جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...