... loading ...
علامہ اقبالؒ نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا :
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
ایم اے اردو کے ایک طالب علم نے اس پر حیرت کا اظہار کیا کہ داغ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کے شانے کی بات کی جارہی ہے جب کہ غالب نے صاف کہا تھاکہ:
تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گئیں
اس سوال پر ہم بھی پریشان ہوکر رہ گئے۔
داغ دہلوی نے جس شبہ یا شکوے کا اظہار کیا تھا وہ ایسا غلط بھی نہیں۔ ٹی وی چینلوں پر گیسوئے اردو کی جس طرح حجامت بنائی جارہی ہے وہ اس کا ثبوت ہے۔ چلیے، ’’مشاق‘‘ طیارے کے حادثے پر اسے ’’مشتاق‘‘ کہا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن ایک خاتون خبر دے رہی تھیں کہ فلاں نے ’’جھان سہ‘‘ دے دیا۔ انہیں گوارہ نہیں ہوا کہ جھانسہ کے نون غنہ کو خالی جانے دیا جائے۔ حیرت تو اس پر ہوتی ہے کہ کوئی اصلاح کرنے والا بھی نہیں۔ جب جب خبر دہرائی گئی، یہی تلفظ سننے میں آیا۔ ایک صاحب خبر دے رہے تھے کہ فلاں نے فلاں کو ’’ہوس‘‘ (بروزن جوش، ہوش) کا نشانہ بنایا۔
ٹی وی چینلوں کا ذکر خاص طور پر اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ یہ ذریعہ براہِ راست سماعت و بصارت پر اثرانداز ہوتا ہے اور کچے ذہن اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ تلفظ صحیح کرانے کی کوشش کرو تو جواب ملتا ہے ’’ہمیں تو یہی پڑھایا گیا ہے، آپ نئی اردو ایجاد کررہے ہیں!‘‘ اس پر یاد آیا کہ اسکول میں تو ہمیں بھی برطانوی بادشاہ چارلس کا تلفظ ’’چار۔لس‘‘ پڑھایا گیا تھا۔ کسی نے ڈانٹ کر تصحیح کردی تھی۔ لیکن گزشتہ دنوں پی ٹی وی پر ’’چار۔لس‘‘ سن کر خوشی ہوئی کہ ہم نے گیسوئے اردو ہی نہیں انگریزی کا حشر بھی وہی کیا ہے جو انگریزوں نے برعظیم پاک و ہند کا کیا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کبھی صحیح تلفظ کے لیے معروف تھا اور صرف تلفظ صحیح کرنے کے لیے سکہ بند ادیبوں کی خدمات حاصل تھیں۔ ’’سکہ بند‘‘ لکھ تو دیا پھر خیال آیا کہ کسی نے پوچھ لیا کہ یہ کیا ہے، تو کیا جواب دیں گے، یہ کہ ایسا ہی پڑھا ہے! ایک سکہ تو پنسل میں ہوتا ہے اور ایک کبھی کبھار جیب میں بھی ہوتا ہے اور جیب بند ہوسکتی ہے۔ تاہم ’’سکہ بند‘‘ کا مطلب ہے: پختہ، معیاری، سچا۔ خود سکہ کے کئی مطلب ہیں مثلاً ٹھپا، ضرب، چھاپ، نقش کیا ہوا، ڈھلا ہوا، سرکاری منقش زر جو ملک میں چلے، طرز، روش، طریقہ، قانون، رعب داب وغیرہ۔ اسی سے سکہ بٹھانا، سکہ پڑنا وغیرہ ہیں۔ ایک عجیب مطلب سکہ قلب کا ہے، یعنی جھوٹا سکہ، وہ سکہ جو ناجائز طور پر بنایا جائے۔ یہ سکہ عربی میں چلتا ہے۔
’ق‘ کا تلفظ ’ک‘ کچھ اہلِ پنجاب سے مخصوص نہیں ہے جن کو وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ یہ کینچی (قینچی) والا کاف ہے یا کتے والا۔ یہی ’ق‘ دکن میں جاکر ’خ‘ سے بدل جاتا ہے اور قاضی جی ’خاضی جی‘ ہوجاتے ہیں۔ لیکن ماہرالقادری نے لکھا ہے کہ بعض عرب قبائل بھی قاف کی ادائیگی مختلف طریقوں سے کرتے تھے۔ ڈاکٹر ف۔ عبدالرحیم لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے سے بعض عرب قبائل ’ق‘ کو ’گ‘ بولتے تھے۔ مشہور عربی عالم لغت ابن درید جمہرہ اللغتہ میں کہتے ہیں ’’قبیلہ بنو تمیم ’ق‘ کو ’ک‘ سے ملا دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ بہت گاڑھا ہوجاتا ہے، اس طرح وہ قوم کو ’گوم‘ کہتے ہیں جو ’ک‘ اور ’گ‘ کے بیچ میں ہوتا ہے۔ بنوتمیم کی یہ بولی معروف ہے۔ اسی نطق کی رو سے عربی کا ’’القطن‘‘ (کاٹن) ہے۔ ہسپانوی میں ALGODON بنا۔ ہم نے شاید پہلے بھی لکھا تھا کہ اب بھی سعودی عرب میں ’ق‘ کا تلفظ ’گ‘ سے کیا جاتا ہے۔
چند دن پہلے جسارت کے کسی مضمون میں یہ شعر پڑھا تھا:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق
اب یہ مغاں کیا ہے؟ مُغ اردو میں بضم میم ہے، یعنی میم پر پیش ہے، تاہم فارسی میں ضمہ اور فتح (زبر) دونوں کے ساتھ آتا ہے۔ اس کے اصل معنی ہیں: آتش پرست، مجوسی۔ ایک مصرع ہے:
از مغ ترس آن زمان کہ گشت مسلمان
یعنی آتش پرست سے اُس وقت ہوشیار رہ جب وہ مسلمان ہوجائے۔ چونکہ اسلامی ملکوں میں مجوسی ہی شراب بیچا کرتے تھے اس لیے مغ کے معنی شراب فروش کے ہوگئے۔ اردو میں یہ لفظ انہی معنوں میں مستعمل ہے۔ شراب فروشوں کے بڑے کو پیرِمغاں اور شراب فروش کے لڑکے کو مغ بچہ کہا جاتا ہے۔ مغ فارسی سے یونانی میں بصورت MAGOS داخل ہوا۔ یہی میگوس عربی میں مجوس کی صورت میں داخل ہوا جس میں ’گ‘ کو ’ج‘ سے بدل دیا گیا۔ 539 قبل مسیح میں ایران کے ہخامنشی فرماں روا کورش نے بابِل (دوسری ’ب‘ کے نیچے کسرہ یعنی زیر ہے) فتح کیا۔ اس فتح کے بعد بابل میں بھی مجوسیت پھیلی۔ بابل کے باشندے پہلے سے جادو اور شعبدے بازی میں ماہر تھے اس لیے بابلی تناظر میں مغ کے معنوں میں مجوسیت کے ساتھ سحر کی آمیزش بھی ہوگئی، چنانچہ یونانی میں ’’ماگیکے تخنے‘‘ یعنی فنِ مغاں سے مراد جادو ہے۔ اسی سے انگریزی میں MAGIC (میجک) آیا اور یہ لفظ یورپ کی اکثر زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ لسانی شہادت کی رو سے مجوس اور Magician (جادوگر) کی اصل ایک ہے۔
آپ نے دیکھا پیرِ مغاں نے کیسی کیسی کروٹیں بدلی ہیں۔ اب یہ تو قارئین کو معلوم ہی ہوگا کہ ’پیر‘ فارسی میں بوڑھے کو کہتے ہیں اور عربی میں بوڑھے کے لیے لفظ ’’شیخ‘‘ ہے۔ یہ اور بات کہ پیر اور شیخ نوجوان بھی ہوتے ہیں خواہ وہ گدی نشین ہوں یا تلور کے شکار کے لیے آنے والے۔
پچھلی تحریر میں جذبات، الفاظ، تصاویر وغیرہ کی غلط طور پر مزید جمع بنانے کا ذکرکیا تھا۔ یعنی جذباتوں وغیرہ، جو ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ لیکن استاد شاعر مرزا محمد رفیع سودا نے سلاطین کی جمع ’’سلاطینوں‘‘ لکھی ہے۔ ’’مخمس در ویرانی شاہ جہاں آباد‘‘ میں شعر ہے:
مچا رکھی ہے سلاطینوں نے یہ، توبہ دھاڑ
کوئی تو گھر سے نکل آئے ہے گریباں پھاڑ
سلاطیں سلطان کی جمع ہے یعنی بادشاہ۔ تاہم فرہنگ آصفیہ کے مطابق اس کا اطلاق شہ زادہ، شاہی خاندان کا فرد پر بھی ہوتا ہے۔ سلاطین مفرد لفظ کے طور پر بھی استعمال میں آتا تھا، شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے کے معنی میں۔ اس نسبت سے اس کی جمع سلاطینوں آتی تھی۔ اب اسلحہ بھی تو واحد استعمال ہوتا ہے جب کہ یہ ’’سلاح‘‘ کی جمع ہے۔ سورہ النساء میں آیت 102 کے ترجمے میں ہے ’’اور اپنے اسلحہ لیے رہے‘‘۔ یہاں اسلحہ بطور جمع آیا ہے۔
سودا کے درج بالا شعر میں ایک لفظ ’’دھاڑ‘‘ ہے۔ قارئین کو تو اس کا مطلب معلوم ہی ہوگا کہ یہ چوروں کا جتھا، ہجوم، انبوہ، مجمع، اشد ضرورت، بے قراری، مشکل، مصیبت وغیرہ کو کہتے ہیں۔ دھاڑ پڑنا محاورہ ہے جس کا مطلب ہے: چوروں کے گروہ کا حملہ کرنا۔ دھاڑ مارنا کا مطلب ہے: ڈاکا ڈالنا، حملہ کرنا۔ اب یہ لفظ متروک ہوتا جارہا ہے۔ اسی سے دھاڑا ہے یعنی لوٹ کا مال۔ کچھ اخبارات دہاڑی کو بھی غیر ضروری طور پر دیہاڑی لکھ رہے ہیں لیکن اس کا کوئی تعلق دھاڑ سے نہیں ہے۔
اسلام آباد میں جا بیٹھنے والے عزیزم عبدالخالق بٹ بھی کچھ کچھ ماہر لسانیات ہوتے جارہے ہیں۔ زبان و بیان سے گہرا شغف ہے۔ ان کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ’’املا‘‘ کو مذکر لکھا ہے، جبکہ یہ مونث ہے۔ حوالہ فیروزاللغات کا تھا۔ اس میں املا مونث ہی ہے۔ دریں اثنا حضرت مفتی منیب مدظلہ کا فیصلہ ب...
اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی س...
ہم یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اخبارات املا بگاڑ رہے ہیں اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز تلفظ بگاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کا بگاڑ زیادہ سنگین ہے کیونکہ ان پر جو تلفظ پیش کیا جاتا ہے، نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے۔ بڑا سقم یہ ہے کہ ٹی وی پر جو دانشور، صحافی اور تجزیہ نگار آتے ہیں وہ...
مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟ عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو ن...
پچھلے شمارے میں ہم دوسروں کی غلطی پکڑنے چلے اور یوں ہوا کہ علامہ کے مصرع میں ’’گر حسابم را‘‘ حسابم مرا ہوگیا۔ ہرچند کہ ہم نے تصحیح کردی تھی لیکن کچھ اختیار کمپوزر کا بھی ہے۔ کسی صاحب نے فیصل آباد سے شائع ہونے والا اخبار بھیجا ہے جس کا نام ہے ’’ لوہے قلم‘‘۔ دلچسپ نام ہے۔ کسی کا...
سب سے پہلے تو جناب رؤف پاریکھ سے معذرت۔ ان کے بارے میں یہ شائع ہوا تھا کہ ’’رشید حسن خان اور پاکستان میں جناب رؤف پاریکھ کا اصرار ہے کہ اردو میں آنے والے عربی الفاظ کا املا بدل دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خود رشید حسن خان سے متفق نہیں ہیں۔ چلی...
لاہور سے ایک بار پھر جناب محمد انور علوی نے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’خط لکھتے وقت کوئی 25 سال پرانا پیڈ ہاتھ لگ گیا۔ خیال تھا کہ بھیجتے وقت ’’اوپر سے‘‘ سرنامہ کاٹ دوں گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اگر خاکسار کے بس میں ہوتا تو آپ کی تجویز کے مطابق اردو میں نام بدلنے کی کوشش ...
’’زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘‘…… کے عنوان سے جناب شفق ہاشمی نے اسلام آباد کے اُفق سے عنایت نامہ بھیجا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’دیرپائیں کے رفیق عزیز کا چار سالہ بچہ اپنے والد سے ملنے دفتر آیا تو لوگوں سے مل کر اسے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ آخر بولتے کیوں نہیں ہیں۔ ایک حد تک وہ یقینا درست تھا کہ ی...
عدالتِ عظمیٰ کے منصفِ اعظم جناب انور ظہیر جمالی نے گزشتہ منگل کو ایوانِ بالا سے بڑی رواں اور شستہ اردو میں خطاب کرکے نہ صرف عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی لاج رکھی بلکہ یہ بڑا ’’جمالی‘‘ خطاب تھا اور اُن حکمرانوں کے لیے آئینہ جو انگریزی کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے۔ حالانکہ عدالتِ عظمیٰ کے ا...
عزیزم آفتاب اقبال، نامور شاعر ظفر اقبال کے ماہتاب ہیں۔ اردو سے خاص شغف ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر زبان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام مزاحیہ ہے، چنانچہ ان کی اصلاح بھی کبھی کبھی مزاح کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ اتوار کو ان کا پروگرام دیکھا جس میں انہوں نے بڑا ...
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام ...
چلیے، پہلے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ سنڈے میگزین (4 تا 10 اکتوبر) میں صفحہ 6 پر ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے لیکن اس میں زبان و بیان پر پوری توجہ نہیں دی گئی۔ مثلاً ’لٹھ‘ کو مونث لکھا گیا ہے۔ اگر لٹھ مونث ہے تو لاٹھی یقینا مذکر ہوگی۔ لٹھ کو مونث ہی بنانا تھا تو ’’لٹھیا‘ لکھ دیا ہوتا...