... loading ...
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھیجا جائے وہ یہاں آرام سے رہیں گے ‘‘۔ محمود خان اچکزئی کے ان خیالات پر ملک بھر میں غضب کا شور اٹھا۔ ٹی وی چینلز پر اینکر زبرس پڑے، اخبارات کے صفحات پر بے نام اور نامور لکھاریوں کے کالم شائع ہوئے۔ حتیٰ کہ ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کی بازگشت بھی ہوئی۔ دیکھا جائے تو محمود خان اچکزئی نے کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ اس طرح کے خیالات وہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی جماعت کی تبلیغ و اشاعت کا ایک نکتہ ہی یہ ہے کہ پاکستان کے پشتون علاقے تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہیں۔
افغانستان پر سویت یونین کے قبضے کے بعد بلوچستان کے پشتون علاقوں اور خیبر پشتونخوا بشمول فاٹا کو افغانستان کا حصہ بنانے کی خواہش نے تقویت پکڑی۔ تب ان کی تبلیغات میں زبردست اضافہ ہوا تھا۔ پیش ازیں ستر کی دہائی میں جب سردار داؤد افغانستان کے صدر تھے، پاکستان کے اندر پشتون علیحدگی کی مسلح تحریک شروع کی گئی۔ ’’پشتون زلمی‘‘ نامی اس تنظیم کو افغانستان میں مسلح تربیت دی جاتی۔ بھارت اور سویت یونین مالی و حربی تعاون کرتاتھا۔ اس تنظیم نے خیبر پشتونخوا اور بلوچستان میں کافی خون خرابہ کیا۔ بلوچ علیحدگی کی تحریک بھی انہی دنوں سراٹھا چکا تھی۔ ان کے درمیان پاکستان سے آزادی کی قدر مشترک تھا۔ پشتون قوم پرست برملا متحدہ افغانستان کے پرچارک تھے۔ روسیوں کو افغانستان میں منہ کی کھانی پڑی، تو ڈیورنڈ لائن کے اِس پار خاموشی چھا گئی۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی قبضے نے پھر امید دلائی جب’’ امارات اسلامیہ افغانستان‘‘ کی قوت مجتمع ہو ئی، پیہم عملیات شروع کردیں تو کسی کو برملا اظہار کی جرأت نہ ہوئی۔ تاہم محمود خان اچکزئی کئی بار اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان ان کا ملک ہے جبکہ افغانستان مادر وطن ہے۔ یعنی بر سر عام پاکستان کو ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ افغانستان یقینا تمام پشتونوں کا مادر وطن ہے اور محمود خان اچکزئی کی یہ بات درست ہے کہ نہ صرف خیبر پشتونخوا بلکہ بلوچستان کے پشتون علاقے افغانستان کا حصہ تھے حتیٰ کہ کوئٹہ بھی جسے احمد شاہ ابدالی نے والی قلات میر نصیر خان اول کی والدہ کو بطور چادرتحفہ میں دیا۔ تاریخ بلوچستان کے مصنف، لا لہ ہتورام لکھتے ہیں کہ’’ کو ئٹہ زمانہ قدیم سے حکومت قندھار کا حصہ رہا چنانچہ اب تک زیادہ اقوام افغان یعنی کاسی، بازئی، درانی اور یاسین زئی وغیرہ اس علاقہ میں آباد ہیں‘‘۔ 26مئی 1879 میں انگریز نے معاہدہ گندمک کے ذریعے سبی، پشین، لورالائی، ژوب، تھل چوٹیالی، کرم اور خیبرسمیت دیگر علاقے والی افغانستان سے ہتھیا لئے تھے۔ تب یعقوب خان، افغانستان کے امیر تھے۔ کوئٹہ پر 1877میں انگریز قبضہ کرچکے تھے۔ حکومت ہند کی ایک قرار داد کے ذریعے 21فروری 1877ء کو بلوچستان ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا اور کوئٹہ کو صدر مقام کا درجہ دیا گیا۔ میجر سنڈیمن کی گورنر جنرل کے ایجنٹ کے حیثیت سے تعیناتی ہوئی۔ جب انگریز آئے تو کوئٹہ(قلعہ یا میری ) میں خان قلات کا نائب تعینات تھا۔ مختصر سی پیادہ فوج اور دو توپوں پر مشتمل توپ خانہ موجود تھا۔ ۔ یعنی کوئٹہ کا علاقہ ریاست قلات کی علمداری میں تھا۔ کسی میں اس بڑی طاقت کے سامنے مزاحمت کا دم نہ تھا۔ اس قبضے کو انگریزوں نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ’’ کوئٹہ پر قبضہ خان ِ قلات اور بلوچستان کے تمام سرداروں کی رضا مندی سے صرف’’ تین سو آدمیوں‘‘ کی قوت سے پر امن طور پر مکمل ہوا‘‘۔ ما بعد1883 میں انگریزوں نے کوئٹہ کی نیابت کو جملہ حکمرانی کے ساتھ پچیس ہزار روپے سالانہ پر خان قلات سے حاصل کرلیا۔ اسی کے ساتھ تیس ہزار روپے سالانہ کے ساتھ دائمی اجارہ پر ’’بولان‘‘ کے تمام حصے بھی حاصل کرلئے۔ یاد رہے کہ1879ء کی انگریز افغان جنگ میں دس ہزار فوج بولان اور کوئٹہ کے راٍستے قندھار گئی اور کوئٹہ میں پانچ ہزار فوج ضرورت کے پیش نظر رکھی گئی۔ انگریز نے ریاست قلات اور افغان علاقوں کو روسی خطرے کے سدباب کی غرض سے حاصل کیا تاکہ ان کی پیشقدمی روکی جائے، نیز افغان ریاست کو سکیڑنا اور محدود کرنا تھا۔ اور کوئٹہ کا حصول ایک بڑی فوجی چھاؤنی کے قیام کیلئے تھا جہاں قبضہ کے ساتھ ہی چھاؤنی قائم کردی گئی۔ جو اِس وقت بھی قائم ہے۔ 12نومبر1893 میں امیر افغانستان عبدالرحمان اور انگریزوں کے درمیان سرحدوں کے تعین کا معاہدہ ہوا۔ حکومت ہند کی طرف سے حدبندی کمیشن کے سربراہ ’’سر مور ٹیمر ڈیورنڈ‘ تھے، اس سرحدی پٹی کو ڈیورنڈ لائن اس مناسبت سے کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس معاہدے میں واخان سے لے کر ایرانی سرحد تک افغانستان اوربر طانوی ہند کے درمیان سرحد کی نشان بندی کی گئی۔ ۔ امیر عبدالرحمان اپنی خود نوشت میں سرحدوں کے تعین کی اہمیت خود بھی بیان کرتے ہیں تاکہ انگریز آئندہ کوئی تجاوز نہ کرے۔ ادھر روس کے ساتھ بھی سرحدوں کی حد بندی ہوئی۔ امیر عبدالرحمان نے اگرچہ اطمینان کا اظہار کیا، مگر انگریز ایک طاقتور غاصب تھا۔ اس خاطر یہ معاہدہ کرکے بہ امر مجبوری افغان علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یوں پشتون برطانوی ہند اور افغانستان میں تقسیم ہو گئے۔ محمود خان اچکزئی کی یہ بات بھی درست ہے کہ پشاور افغانستان کا 1820 تک سرمائی دار الحکومت تھا .۔ سکھوں کے قبضے کے بعد جلال آباد کو افغانستان کا سر مائی دارالخلافہ بنایا گیا۔ دریائے آمو سے انڈس تک افغان سلطنت پھیلی رہی ہے۔ جب ’’سید احمد شہید ‘‘ہندوستان سے آئے تو انہوں نے اپنی دعوت اور سکھوں کے خلاف جہاد کیلئے مقامی پشتون قبائل کو لکھا۔ تب یہ علاقے کسی نظام کی بجائے بکھرے ہوئے تھے۔ امیر افغانستان کا تصرف بھی تھا۔ دریائے سندھ کے پار سکھوں کی یلغار کا خطرہ تھا، بلکہ سکھ ان قبائل سے خراج وصول کرتے تھے۔ سید احمد شہید کا مقصد دراصل سکھوں کے خلاف جہاد کرنا تھا، بہ امر مجبوری افغان لشکروں سے بھی لڑنا پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بالا کوٹ کی طرف گئے جہاں وہ، شاہ اسماعیل اور دیگر مجاہدین سمیت سکھوں کے ساتھ معرکے میں شہید ہوگئے۔ پشاور کے حاکم سلطان محمد خان تھے۔ اس شخص کو سکھوں کی حمایت حاصل تھی۔ وہاں کے عوام نے حتیٰ کہ غیر مسلم تاجروں نے بھی سید احمد شہید کو پشاور میں رکنے کی درخواست کی تھی، کہ وہ ان کی ہر طرح سے مدد کرتے رہیں گے۔ بالا کوٹ کی شکست کے بعد سکھوں کا باجوڑ تک مکمل راج قائم ہوگیا۔ بعد ازاں یہ علاقے سکھوں سے انگریز کے زیر قبضہ آگئے۔ غرض انگریزوں نے بولان کے ساتھ نصیرآباد اور نوشکی کے علاقے بھی اجارہ پر حاصل کرلئے تھے۔ چنانچہ افغانستان اور ریاست قلات سے چھینے گئے علاقوں کو1887 میں برٹش بلوچستان کا نام دے کر الگ انتظامی یونٹ بنایا گیا جس کا سربراہ ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کہلاتا تھا۔ مری بگٹی کے علاقے بھی برٹش بلوچستان میں شامل کئے گئے یعنی یہ خطہ برٹش اور ریاستی بلوچستان میں منقسم ہوا۔ تقسیم کے بعد یہی تقسیم رہی حتیٰ کہ ون یونٹ کے بعد یہ تقسیم ختم کرکے صوبہ بلوچستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تاریخ کے لحاظ سے یہ بھی درست ہے کہ ہندوستان پر برطانوی قبضے کے بعد برٹش انڈیا نے جب اپنا پہلا سفیر افغانستان تعیناتی کیلئے بھیجا تو اس نے سفیر کی حیثیت سے 1805 میں اپنی سفارشات کے کاغذات پشاور ’’بالا حصار‘‘ میں افغان امیر’’ شاہ شجاع ‘‘کے دربارمیں پیش کئے۔ اس سفیر نے بعد ازاں ایک کتاب ’’دی کنگڈم آف کابل‘‘ لکھی۔
مسئلہ افغان مہاجرین اور اس آڑ میں پشتون علاقوں کے لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کرنا ہے جس پر اس وقت سیاست گرم ہے اور اسی پس منظر میں محمود خان اچکزئی گویا ہوئے۔ اچکزئی کہتے ہیں کہ ’’جب ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی افغان وطن تقسیم ہوا تو ہم افغانستان کے شہری نہیں رہے لیکن ہم افغان ہیں ‘‘ (2جولائی2016ء ) محمود خان اچکزئی کی زبان سے سننے کو ملا کہ ’’قائداعظم، علامہ اقبال، باچا خان، خان شہید (عبدالصمد خان اچکزئی) اور ہند میں گاندھی سمیت دوسرے رہنماؤں نے انگریز کے خلاف آخر تک جدوجہد کی ‘‘(9جولائی) چونکہ میں پہلی مرتبہ ان کی زبان سے سن رہا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے انگریز کے خلاف برصغیر کی آزادی کیلئے جدوجہد کی ہے۔ اور مجھے واقعی دلی خوشی ہوئی۔ وگرنہ قائداعظم کو انگریز کے ایجنٹ کے لقب سے پکارا جا تا ہے۔ ۔ خیبر پشتونخوا کو افغانستان کا حصہ قرار دینے پر وزیراعلیٰ خیبر پشتونخوا پرویز خٹک زیادہ برہم ہوئے تھے۔ اس بناء پر محمود خان اچکزئی نے پشتونوں کے عظیم جنگجوں کے شاعر خوشحال خٹک کا حوالہ دیاکہ ’’پرویز خٹک جو میرے انٹرویو کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے اور ناراض ہیں تو ان کے دادا خوشحال خٹک نے پندرہویں صدی میں جب محسوس کیا کہ پشتونوں کی خود مختاری کو مغل حکمران سے خطرات لاحق ہیں تو خوشحال خٹک نے یہ مشہور شعر کہا کہ ’’درست پشتون لہ قندھارہ تر اٹکہ۔ ۔ سرہ یود ننگ پہ کار پٹ اور اشکار‘‘ (یعنی ننگ اور غیرت کے کام میں قندھار سے لیکر اٹک تک تمام پشتون ایک اور متحدہ ہیں۔ ) (2جولائی2016) بہر حال محمود خان اچکزئی پاکستان کو اپنا ملک کہتے اور تسلیم کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔بھارت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ کسی تصادم سے بھی گریز نہ کرے ۔چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے مسائل و تنازعات کے فوری حل پر تو جہ دے ۔بلوچستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ یہ سوچنا ہو گا کہ ا...
چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...
پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئ...
قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی متنازع گفتگو کا معاملہ سنجیدگی اختیار کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے محمود خان اچکزئی کی متنازع تقریر کے خلاف ایک شہری وحید کمال کی درخواست کی سماعت کی ۔ جس میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 19 کے تحت افواج پاکستا...
کوئٹہ کے نوجوان باکسر محمد وسیم نے ورکنگ باکسنگ کونسل انٹرنیشنل سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیت کر عالمی شہرت حاصل کرلی۔ یہ مقابلہ جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں ہوا۔ مد مقابل فلپائن کا باکسر’’ جیتھر اولیوا‘‘ تھا جس کو آسانی سے مات دیدی گئی۔ محمد وسیم یہ ٹائٹل جیتنے والا پہلا پاکستانی باکس...
8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...
ملک میں جمہوریت یرغمال ہے۔ بلوچستان کے اندر سرے سے منظر نامہ ہی الگ ہے۔ جمہوریت کا ورد کر کے حکمران اتحادی جماعتیں قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔سوچ سمجھ کر خطرناک کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ جب حاکم اندھے، گونگے اور بہروں کی مثال بنیں تو لا محالہ تشہیر کسی کی ہی ہو گی۔ بالخصوص پشت...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے23سے29اپریل تک چین کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کے قائد تھے۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی اور وفاقی سیکرٹری مواص...
افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے گیارہ اعلیٰ افسران کو بد عنوانی ثابت ہونے کے بعد ملازمتوں سے برطرف کر دیا۔یہ افسران مزید صرف میڈیکل اور پنشن کی مراعات سے مستفید ہو سکیں گے۔ باقی تمام مراعات سزا کے طور پر لے لی گئی ہیں۔فوج کے افسران کے خلاف کارروائی یقینا ایک قوم...
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں افغانستان میں پشتونستان تحریک کو سرکاری سرپرستی میں بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ سال میں ایک دن ’’یوم پشتونستان‘‘ کے نام سے منایا جاتا۔ یہی عرصہ خیبر پشتونخوا(صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں تخریب اور شرپسندی کا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پر ایک خفیہ تحریک ...