... loading ...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ جس بدبخت مسلمان کے ذریعے یہ کام کروایا گیا ہے وہ یقینا دجالی صہیونی قوتوں کا آلہ کار تھا۔یہ وہ قوتیں ہیں جو مختلف حیلے بہانوں سے مسلمانوں کے بنیادی عقائد اور مقدس مقامات کی جانب دبے پاؤں پیش قدمی کررہی ہیں جس میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ اور سعودی عرب میں دو مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ عراق اور شام میں مقدس مقامات اور مساجد کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک طرف داعش اور اسی قبیل کی دیگر تنظیمیں ہیں جنہوں نے دین اسلام کا نام بدنام کیا تو دوسری جانب ایران کی حمایت یافتہ تنظیمیں ہیں جنہوں نے عراق، شام اور یمن میں آگ بھڑکا رکھی ہے لیکن ان تمام حالات کا فائدہ صرف اور صرف عالمی صہیونیت اور اس کی نمائندہ دجالی ریاست اسرائیل کو ہورہا ہے۔جبکہ خسارے میں صرف مسلمان ہیں چاہئے وہ سنی ہوں یا شیعہ ۔
اس حوالے سے ہم چند برس قبل امریکی فوج کے سابق سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کی جانب سے ایک انکشاف کا بھی ذکر کرچکے ہیں جس نے یقینا اسلامی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا کہ امریکی ملٹری اکیڈمیوں میں امریکی فوج کے مستقبل کے افسران کو اسلام مخالف لٹریچر میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔ ان تمام باتوں میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ امریکی اپنے فوجی افسران کو سبق دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے ان کے مقدس ترین شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو ایٹمی حملے کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔تفصیلات خاصی طویل اور خوفناک ہیں اگر یہی بات کوئی مسلمان صحافی یا محقق اپنی زبان سے کہتا تو اسے ’’نظریہ سازش‘‘ کہہ دیا جاتا لیکن اب تو یہ بات خود امریکی فوج کے سربراہ سے صادر ہوئی تھی۔ یہ وہی بات ہے جو ہم گزشتہ کئی برسوں سے اپنی تحریروں میں مختلف انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جہاں تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر دشمنان دین کے حملوں کے منصوبے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آج سے تقریبا پانچ برس قبل ہی راقم کو پاکستان کے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر سلطان بشیر الدین محمود نے آگاہ کردیا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کے حوالے سے اسٹریٹیجک پلان بنانا ہوگا کیونکہ امریکا ، اسرائیل اور ان کا صہیونی صلیبی اتحاد مسلمانوں کا مورال گرانے کی خاطر مسجد نبوی شریف کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس سلسلے میں ایسا ایٹمی حملہ کیا جاسکتا ہے جس کی جوہری لرز سے خاکم بدہن مسجد نبوی شریف کو نقصان پہنچ سکے تاکہ اس تباہی کا مشاہدہ کرکے مسلمان ہمت ہار دیں اور ان کا مورال آسمان سے زمین پر آرہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکا کی ملٹری اور سول اکیڈمیوں میں اسلام دشمن نصاب کی تعلیم گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے پھر اچانک چند برس قبل اس کا انکشاف کیوں ہوا تھا؟ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ دنیا بھر میں سیاسی اور عسکری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ’’صلاحیت‘‘ والی امریکی فوج، سی آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کو کئی برس تک یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ امریکا کی ملٹری اور سول اکیڈمیوں میں اسلام کے بارے میں کیا پڑھایا جارہا ہے۔۔۔۔ اور بعد میں امریکی ملٹری اکیڈمی میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک کیڈٹ کی شکایت پر ’’اتنا بڑا انکشاف‘‘ ہوا تھا۔۔۔امریکیوں کو یہ تو پتا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کہاں کہاں ’’دہشت گرد‘‘ موجود ہیں لیکن اس کی اپنی ملٹری اکیڈمیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس دہشت گرد لٹریچر کی تدریس کی جارہی تھی اس کا انکشاف بہت بعد میں ہوا۔۔۔!!
حقیقت یہ ہے کہ یہ انکشاف نہیں تھابلکہ اسلامی دنیا کو ایک وارننگ ہے اور یہی اسلام دشمن قوتوں کا طریقہ واردات بھی ہے جس کے تحت امریکا نے اپنے آئندہ کے صہیونی صلیبی دجالی اتحاد کے خبث باطن کو ظاہرکیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کی اتحادی مغربی دجالی قوتوں نے مشرق وسطی میں پلان کے مطابق پورا اسٹیج تیار کرلیا ہے۔ اب انتظار صرف پاکستان کے جوہری ہاتھ پیر باندھنے کا ہے۔جس کے لئے ایک طرف پاکستان کے اندر مختلف قسم کی سیاسی لبرل اور باطنی قوتوں کے ذریعے افراتفری پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری جانب بھارت کو تجارت اور مذاکرات کے نام پر منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جارہا ہے۔
اس لئے بالعموم تمام مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستانی قوم کویہ سمجھ لینا چاہئے کہ مقدس مقامات میں ہونے والے حالیہ واقعات کوئی حادثاتی واقعہ نہیں بلکہ ایک ’’بڑی وارننگ‘‘ ہے۔ جہاں تک انکشاف کی بات ہے تو یہ انکشاف آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل جزیرۃ العرب کے صحراء میں اﷲ رب العزت نے رسول پاک ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن کریم میں کیا تھا جو سورۃ المائدۃ میں درج ہے۔
یا ایھا الذین امنوا لا تتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض، ومن یتولھم منکم فانہ منھم، ان اﷲ لا یھدی القوم الظالمین۔ المائدۃ 51
اے ایمان والو ایسے یہود ونصاری کو دوست نہ بنانا جو آپس میں دوست بن چکے ہوں اور جوتم میں سے انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں سے ہوگا، بیشک اﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
مسلمانوں کو اب اس حقیقت سے باخبر ہوجانا چاہئے کہ قرآن کریم جس قدر اکیسویں صدی کے دوران اپنے آپ کو کھول کر بیان کرتا ہے اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ دنیا آج جس قسم کے حالات سے دوچار کردی گئی ہے قرآن کریم میں اس کی واضح تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں لیکن اس معرفت کے خزانے تک پہنچنے کے لئے چند مندرجہ ذیل علوم تک رسائی ضروری ہے اس انکشاف کو اگر سیاق وسباق سے سمجھنا ہے تو اس کے لئے فلسفہ تاریخ History of philosophy، قرآن کریم کا نظام المعنی System of meaning، علم آخر الزمان Islamic eschatology، نظریہ معرفت epistemology، علوم سیاسیات political science اور بین الاقوامی سیاسی امور International political affairsتک مکمل رسائی ازحد ضروری ہے۔جب کوئی مسلمان ان علوم پر دسترس حاصل کرکے قرآن کریم کے نظام المعنی تک پہنچے گا تو اسے مشرق وسطی میں ہونے والے واقعات عجیب نہیں لگیں گے نہ ہی وہ افغانستان اور پاکستان کی موجودہ صورتحال پر انگشت بدنداں ہوگااور نہ ہی اسے سابق امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیمپسی کے ’’انکشاف‘‘ سے کوئی حیرت ہوگی۔
آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل جب سورۃ المائدہ کی یہ آیات نازل ہوئی تھیں جس میں مسلمانوں کو یہود اور نصاری کے آپس کے اتحاد سے دور رہنے کی سختی سے تلقین کی گئی تھی اس وقت یہود اور نصاری کے باہمی تعلقات کا یہ عالم تھا کہ یروشلم پر رومی عیسائیت کا پرچم لہرا رہا تھا۔ یہودیوں کو اس ارض مقدس سے نہ صرف دیس نکالا دیا جاچکا تھا بلکہ انہیں دوبارہ اس طرف رخ کرنے کی بھی سختی سے ممانعت تھی اور یروشلم کا نام بدل کر ایلیا رکھ دیا گیا تھا۔ اس لئے اس وقت کے زمینی حقائق اور قران کریم میں درج یہ آیات دو مختلف تصاویر پیش کرتی ہیں یہ سلسلہ اٹھارویں صدی کے آخر تک یونہی چلا ہے کہ یہود اور نصاری کے درمیان ناقابل فراموش دشمنی کی کیفیت رہی کیونکہ ویٹی کن کی کیتھولک عیسائیت ہو یا مشرق کلیسا کی آرتھوڈکس عیسائیت ، سب یہودیوں کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قاتل قرار دیتے تھے لیکن اچانک اور انتہائی پراسراریت کے عالم میں اٹھارویں صدی کے آخر میں اور انیسویں صدی کے شروع میں یہود اورمغربی نصاری کے درمیان ایک غیر محسوس اتحاد تشکیل پاتا ہے۔ یہی وہ اتحاد ہے جب 1917ء میں پہلی جنگ عظیم کے بعد اسی یہود اور نصاریٰ صہیونی اتحاد کے بل بوتے پرترک عثمانوی خلافت اسلامیہ ختم کی گئی اور برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور کے ذریعے نیویارک میں ’’بالفور ڈیکلریشن‘‘ پاس کرکے مقبوضہ فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی قرارداد منظور ہوئی اور ٹھیک نصف صدی بعد یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد مقبوضہ فلسطین میں قوموں کی تاریخ کی سب سے بڑی بدیانتی بروئے کار لاتے ہوئے باہر سے لائے گئے صہیونیوں کو اسرائیل کے نام پر ریاست قائم کرنے کا حق دے دیا گیا۔ یہ سب کچھ مغربی عیسائیت کے پرچم تلے ہورہا تھاکیونکہ سرمایہ صہیونی یہودیوں کا تھا اور عسکری قوت برطانیا ، فرانس اور امریکا کی شکل میں عیسائیوں کی تھی۔ یوں وہ صہیونی صلیبی اتحاد کھل کر سامنے آگیا جس کا ’’انکشاف‘‘ ڈیڑھ ہزار برس قبل اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں کردیا تھا اور مسلمانوں کو اس اتحاد سے دور رہنے کی تلقین کی تھی اور ساتھ ہی خبردار بھی کردیا تھا کہ ’’۔۔۔۔ اور جو تم میں سے انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں سے ہوگا، بیشک اﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔یہی وہ عسکری اتحاد ہے جو اب نیٹو کی شکل میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران اس صہیونی دجالی اتحاد کا افغانستان کے خلاف ساتھ دے کر ملک اور قوم کے لئے جو فصل بوئی ہے وہ اب پوری طرح سر اٹھا چکی ہے۔ ’’جرم خاموشی‘‘ کے نام پرقوم ٹارگٹ کلنگ ، بے پناہ مہنگائی، بجلی، گیس اور تیل کی قلت اور اس کی قیمتوں میں گرانی ، کاروبار کی تباہی اورکرپٹ حکمرانوں کی شکل میں بھگت رہی ہے اور حکمران بین الاقوامی سطح پرملک اور قوم کے لئے شرمندگی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود قوم کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔’’بیشک اﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ ۔۔ اﷲ رب العزت کے نزدیک ظالم صرف وہ نہیں ہے جو صرف دوسروں پر ظلم کرے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بھی اس کے نزدیک ظالم ہی ہیں۔
یہ صہیونی صلیبی اتحاد درحقیقت اسلام کے خلاف ایک بڑی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس میں شمالی افریقا سے لیکر مشرق وسطیٰ اوروہاں سے لیکر جنوبی مشرقی ایشیا تک پھیلی ہوئی مسلم ریاستوں پرعسکری اور معاشی تسلط قائم کرنے کے لئے منصوبہ بندی شامل ہے۔یہ وہ وقت تھا جب مسلم دنیا میں آنے والے کڑے وقت کے لئے لام بندی کی جاتی اور مسلمان نوجوانوں کو اس اعصاب شکن کڑے وقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا جاتا لیکن ہوا کیا کہ ڈالروں کی چمک نے حکمرانوں کو یہ کہنے پر مجبور رکھا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ ہے‘‘۔ صرف پاکستان کی حالت دیکھ لی جائے کہ پندرہ برس تک اس کے حکمران افغانستان کے نہتے مسلمانوں کے خلاف نیٹو کی چاکری کرتے رہے اور جب افغانستان کی معاملہ کسی نتیجہ خیز صورتحال کی جانب مڑنا شروع ہوا تو خطے میں بھارت، ایران اور کابل انتظامیہ کا اتحاد تشکیل دے کر پاکستان کے راستے میں مزید کانٹے بچھانے کی تیاریاں کی جانے لگی ہیں۔۔۔ افسوس صد افسوس ۔۔ یہ ہے صلہ پندرہ برس کی غیر مشروط چاکری اور پچاس ہزار سے زائد شہری اور عسکری شہادتوں کا۔۔۔ اﷲ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ’’ یہود ونصاری کبھی تم سے راضی نہیں ہوں گے حتی کہ تم ان کے دین پر نہ آجاؤ‘‘۔۔ ۔ یہاں دین سے مراد یہود اور نصاری کا باطل نظام ہے۔
دوسری جانب اسرائیل مشرق وسطی میں اپنا دجالی اسٹیج مکمل طور پر سجا چکا ہے۔ پہلے تیونس ، مصر اور لیبیا سے شروع ہونے والی صورتحال یمن اور شام تک پوری آب وتاب کے ساتھ پہنچی اس کے بعد جان بوجھ کر روس کو اس خطے میں پھنسانے کے لئے شام کا محاذ گرم کردیا گیا اور کود کارروائی سے اجتناب برتنے کی پالیسی اختیار کی اس سلسلے میں جو بہانے تراشے گئے وہ یہ تھے کہ شام کی حکومت کے پاس روس کا دیا ہوا جدید ترین ’’ائیر ڈیفنس سسٹم‘‘ ہے جس سے نیٹو کے طیاروں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ جنگی علوم سے واجبی سی جان پہچان رکھنے والا بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ عراق کی صدام انتظامیہ کے پاس جس قسم کا جدید ائیر ڈیفنس سسٹم تھا ،اس کے مقابلے میں شام کے پاس انتہائی فرسودہ اور ستر اور اسی کی دہائی کا اسلحہ تھا جب نیٹو طیاروں کو عراق میں زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا تو شام میں بھلا ایسی صورتحال کیسے پیدا ہوسکتی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام کا معاملہ ابھی مزید کچھ دیر لٹکانا مقصود ہے ۔ بہت کم افراد اس بات سے واقف ہیں کہ شام میں جنگ درحقیقت کریمیا اور یوکرین کی پراکسی جنگ ہے جس میں ایک طرف امریکا ، مغربی یورپ اور اسرائیل ہیں تو دوسری جانب روس ہے جبکہ شام کے اندر متحارب گروپ یا تنظیمیں محض مہروں کا کام دے رہے ہیں۔
دوسری جانب مسلمانوں کا مورال گرانے کے لئے ان کے مقدس مقامات کو نشانا بنانے کی سازش اپنی جگہ ہے۔ اس شیطانی کام کے لئے دجال کا سب سے بڑا ہتھیار جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی شکل میں ہے اسے استعمال کرتے ہوئے ’’مصنوعی زلزلے‘‘ HARRP کے ذریعے بھی مسجد اقصی کو شہید کیا جاسکتا ہے تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ یہ سب معاملہ’’ قدرتی آفات‘‘ کے نتیجے میں رونما ہوا ہے اور اب اس کی جگہ مسلمانوں کو دوبارہ مسجد اقصیٰ تعمیر نہیں کرنے دی جائے گی کیونکہ یہ متنازع علاقہ ہے۔ صہیونیوں کی اس ناپاک سازش کی وجہ سے جس وقت عرب نوجوان کا خون کھولے گا اور ردعمل کی ایک بڑی تحریک سر اٹھائے گی ۔ اس صورت میں دشمنان اسلام اپنے اس ناپاک ترین منصوبے کی جانب رجوع کریں کے جس کے لئے انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ملٹری اور سول اکیڈیمیوں میں تیاری شروع کررکھی ہے یعنی مسلمانوں کے مقامات مقدسہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو خاکم بدہن نقصان پہنچایا جائے۔ اس موقع پر امریکا، صہیونی صلیبی اتحاد نیٹو اور اسرائیل تین بڑے عالمی محاذ کھول سکتے ہیں جن میں سے پہلا محاذ شمالی افریقا ہوگا جس میں مصر اور سوڈان کو ’’اسلامی انتہاء پسندی‘‘ کے نام پر نشانا بنایا جائے گا ۔ دوسرا محاذ مشرق وسطی ہوگا جہاں عربوں کے تیل کے ذخائر پر اسرائیل امریکا اور نیٹو کی مدد سے قبضہ جماکر روس اور چین کی تیل کی سپلائی روک کر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے گا تاکہ چین براستہ پاکستان اور اس کے بعد جبوتی کی جانب سے مشرق وسطی اور افریقامیں سر نہ نکال لے تاکہ اس طرح یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس ) سے اپنی عالمی سیادت کا اعلان کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہوسکے کیونکہ منصوبہ بندی کے تحت امریکاکی اقتصادیات پہلے ہی زوال پزیر کردی گئی ہے اور عنقریب ڈالر کی حیثیت ردی کے کاغذ سے زیادہ نہیں رہے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بات یاد رہے کہ اسرائیل کی عالمی سیادت کا دورانیہ برطانیا اور امریکا کی عالمی سیادت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ تیسرا بڑا محاذ پاکستان اور افغانستان کے علاقے میں کھولنے کا منصوبہ ہے اور اس میں سب سے زیادہ صہیونیوں کی گلے کی ہڈی پاکستان بنا ہوا ہے کیونکہ عالمی صہیونی قوتوں کو اندازہ ہے کہ اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت پر سب سے بڑی ضرب اسی خطے سے لگ سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے داخلی معاملات کو انتہائی نازک دور میں داخل کردیا گیا ہے، بلوچستان میں صرف بھارتی ایجنسی ہی نہیں بلکہ اب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی یہ بات آچکی کہ بلوچستان میں اس وقت دنیا کی بہت سے خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔بھارت کے ساتھ’’ مصالحت‘‘ کی تحریک اور بھارت کے معاملے میں وزیر اعظم نواز شریف کو چپ کا روزہ رکھوانا بھی اس صہیونی منصوبے کا حصہ ہے ورنہ ایک ایسا ملک جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہو وہاں کے مظلوم عوام کا بہمانہ قتل عام کیا جارہا ہواور پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک لیا ہو وہ بھلا پاکستان کو کیونکر تجارت میں اپنا ساتھی بنائے گا بلکہ اس کے ذریعے سے پاکستان کی رہی سہی تجارت کا بھی بیڑا غرق کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے کیونکہ موجودہ حکمرانوں کے ذریعے بجلی اور گیس کی بندش اور گرانی نے پہلے ہی پاکستان کی تجارت اور اقتصادیات پر کاری ضرب لگادی ہے۔ اس لئے پاکستانی مارکیٹ کو ہڑپ کرنے کا اس سے زیادہ سنہرا موقع بھارت کو مل ہی نہیں سکتا۔
مشرق وسطی اور شمالی افریقا میں ہونے والی ’’بڑی تبدیلی‘‘ کے ردعمل کے طور پر روس اور چین مزاحمت پر اتر سکتے ہیں کیونکہ ان دونوں خطوں میں روس اور چین کی بے پناہ سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔ اس لئے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج ابھی نہیں نکلے گی کیونکہ اس نے ایک طرف پاکستان سے نمٹناہے تو دوسری جانب روس اور چین کے سامنے ان کی سرحدوں کے قریب ایک ’’ڈیفنس شیلڈ‘‘ کے طور پر خدمات انجام دینا ہیں۔ اسی منصوبے کے تحت امریکا مشرقی یورپ میں پولینڈ کے مقام پرروس کے خلاف ’’میزائل شیلڈ‘‘ پروگرام کی تکمیل کے لئے کام کررہا تھا جو ناکامی کی وجہ سے اب کچھ عرصے بعد شمالی عراق اور شمالی شام پر مشتمل ’’نئی کرد ریاست‘‘ میں انجام دی جائے گی۔
آنے والے وقت کے اس مختصر ترین جائزے کے بعد اس بات کو سمجھنا اب مشکل نہیں ہے کہ امریکا اور یورپ کی ملٹری اکیڈیمیوں میں اسلام دشمن نصاب کیونکر پڑھایا جارہا ہے اور کن معاملات کے لئے امریکی اور مغربی عسکری کمانڈروں کو تیار کیا جارہا ہے اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ان کے اہداف کیوں بنے ہوئے ہیں۔جلد آنے والا وقت ’’ غافلوں‘‘ کو حیران کردے گا۔ اس کام کی ابتدا انہوں نے گمراہ قسم کے مسلمانوں کے ذریعے کردی ہے ابھی وقت ہے کہ دجالی صہیونی منصوبے کی چاپ کو پوری طرح سنتے ہوئے مناسب انتظام کرلیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ یہود ونصاری کے صہیونی اتحاد کی عسکری شکل نیٹو کا ساتھ دینے والے اﷲ رب العزت کے اس فرمان کے مطابق ہوں گے’’ اے ایمان والو ایسے یہود ونصاری کو دوست نہ بنانا جو آپس میں دوست بن چکے ہوں اور جو تم میں سے انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں سے ہوگا، بیشک اﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کی پہلی حج پرواز پی کے 743 کراچی سے بدھ کی صبح 291 عازمین حج کو لے کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئی۔ ترجمان پی آئی اے کے مطابق کراچی ائیرپورٹ سے پی آئی اے کی پہلی پرواز پی کے 743 سے 291 عازمین حج مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ڈائریکٹر پی ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
دہشت گردوں نے رمضان المبارک کے آخری عشرے کی مبارک ترین ساعتوں میں مقدس ترین سرزمین سعودی عرب کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے شہر قطیف میں مسجد کے قریب ایک خودکش حملہ ہوا جس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تاہم مدینہ منورہ میں خودکش دھماکے کے نتیج...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...