... loading ...
عید گزر گئی ۔۔۔۔۔کہا جارہا تھا کہ ’’کراچی آپریشن‘‘کی رفتار ’’بلٹ ٹرین‘‘کی طرح تیز ہوجائے گی ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا گھر تک پیچھا کرکے انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا لیکن ایسا ’’گرجدارآپریشن ‘‘فی الحال ہوتا نظر نہیں آرہا۔۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ وفاق میں ’’سیاسی آپریشن‘‘ہوگا۔۔۔۔۔ احتساب کا آتش فشاں پھٹ پڑے گااور بیشتر کرپٹ افرادلاوے میں بہہ جائیں گے ۔۔۔۔۔لیکن تاحال اسلام آباد اور کراچی دونوں جگہ سناٹے ہیں اور شور ہے تو صرف بارش کا۔
کراچی کیلئے کہا گیا تھا کہ عید کے بعد ہونے والا آپریشن اپنے مقاصد کے لحاظ سے بھرپور ہوگا ۔۔۔۔۔دہشت گردوں کیلئے زمین تنگ کردی جائے گی ۔۔۔۔۔یہ بھی اشارے ملے کہ آپریشن کی شدت اتنی تیز ہوگی کہ لوگ لیاری گینگ وار کیخلاف ’’آن دی اسپاٹ آپریشن‘‘کو بھی بھول جائیں گے۔۔۔۔۔اور شہر میں امن قائم ہوجائے گالیکن جب بعض قوتوں نے کراچی میں اتنے ’’پاورفل ‘‘آپریشن کی منصوبہ بندی کی تو انہیں سمجھ آئی کہ سندھ پولیس کے ہوتے ہوئے بہت سارے اہداف حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔۔۔۔۔سندھ پولیس صوبائی حکومت کی وفادارہے جبکہ دوسری قوت کو چوہدری نثار کنٹرول کررہے ہیں۔۔۔۔۔گو کہ آپریشن کے بیان کردہ مقاصد مثبت بھی تھے اور کراچی کے مفاد میں بھی ۔۔۔۔۔لیکن محسوس یہ ہوا کہ جنگ سے پہلے اختیارات کی جنگ ہوگی جس کا نتیجہ آپریشن کے راستوں کو متعین کرے گا ۔۔۔۔۔کراچی اتنا بڑا شہر ہے کہ اسے غیر مقامی اور ’’اجنبی‘‘پولیس کنٹرول کر ہی نہیں سکتی اور رینجرز کے پاس نہ تھانے ہیں اور نہ ہی’’ ہیومن انٹیلی جنس نیٹ ورک ‘‘ کہ وہ گلی گلی پر قابو پاسکیں۔۔۔۔۔دنیا بھرمیں کہیں بھی پیرا ملٹری فورسز پولیس کی مدد کے بغیر اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکتی ہیں ۔۔۔۔۔اس کیلئے انہیں مقامی سپورٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔مشرقی پاکستان میں اسی قسم کا ناکام تجربہ ہم کرچکے ہیں ۔۔۔۔۔کراچی آپریشن اسی رفتار سے جاری رہے گا یا اس میں تیزی آئے گی اس کا جواب آئندہ ’’شکار‘‘سے ہی ہوسکتا ہے۔
کراچی آپریشن کے اثرات اسلام آباد کو بھی متاثر کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔کہنے والے کہتے ہیں کہ علاج کے بعد واپس لوٹنے والے حکمرانوں کا منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان کی’’ غیر مرئی قوتوں‘‘ کو کراچی میں الجھادیا جائے ۔۔۔۔۔تمام ’’فوکس‘‘کراچی پر کرلیا جائے ۔۔۔۔۔ ’’ٹکرز‘‘سے بریکنگ نیوزکے حصول کیلئے میڈیا بھی اپنی ڈی ایس این جیز کراچی کی سڑکوں پر دوڑاتا رہے۔۔۔۔۔تاکہ حزب اختلاف کی قوتوں کا متحدہ محاذ اسلام آباد کے ’’لال قلعے ‘‘پر جو چڑھائی کا منصوبہ بنارہا ہے اس کی شدت میں کمی آجائے۔۔۔۔۔اب چند دنوں میں یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ پہلی باری سندھ کی آتی ہے یا پھر اسلام آبادکی؟
اسلام آباد کے باخبر حلقوں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ دباؤ اتنا شدید ہوگا کہ وفاق کے مضبوط قلعے بھی لرزنے لگیں گے اور ہانکا اتنا طاقتور ہوگا کہ بچاؤ کے راستے بھی شاید ہی بچ سکیں۔۔۔۔۔ابتداء میں ’’چالاک لوگوں‘‘کی حکمت عملی یہ نظر آرہی ہے کہ حملہ آور اپوزیشن میں اختلافات کے چھید کئے جائیں ۔۔۔۔۔تاکہ وہ ان کو پرکرتے رہیں اور مزید وقت مل جائے ۔ دوسرے مرحلے میں پیپلز پارٹی کو ڈرا دھمکا کر(سوئس مقدمات کے حوالے سے )یا پھر بہلا پھسلا کر چارٹر آف ڈیموکریسی پر لایا جائے گا اور ایک بار پھر مشہور زمانہ ’’مفاہمت‘‘کا فارمولا ’’اپلائی ‘‘ کردیا جائے ۔۔۔۔۔لیکن کراچی میں کہا جارہا ہے کہ ساری لڑائی ‘کشمکش‘بے چینی اور گراؤ‘بچاؤکے اس حتمی معرکے میں پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ ’’بارگیننگ ‘‘کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ’’گندے کپڑے‘‘دھلوالئے جائیں۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی اب تک’’ ڈبل گیم‘‘کھیل رہی ہے۔ خورشید شاہ نے اسحق ڈار کو آسرے میں رکھا ہوا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم کے پیچھے لگادیا گیا ہے ۔۔۔۔جبکہ اعتزاز احسن کے بیرسٹر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں تیسرے راستے پرکھڑا کردیا گیا ہے ۔۔۔۔۔اب کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو ہوگا ۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے پاس دو آپشن بچے ہیں اول یہ کہ وہ سندھ حکومت کو بچالے اوراس کیلئے پیپلز پارٹی آپریشن کی رفتار تیزکرے تو زیادہ بہتر ہے لیکن کم از کم موجودہ رفتارجاری رکھنا بہت ضروری ہوگا۔۔۔۔۔دوئم یہ کہ مقتدر قوتوں سے معاہدہ کرکے 9سال کے بعد بذریعہ انتخابات بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بناسکتی ہے کیونکہ بلاول کی اِس وقت عمر 26سال ہے اور 9سال بعد ہی وہ آئین کے مطابق وزیراعظم بن سکیں گے کیونکہ آئینِ پاکستان میں وزیراعظم کی عمر35سال ہی درج ہے۔۔۔۔۔بینظیر بھٹو نے بھی تواسی طرح پرویز مشرف سے وزیراعظم بننے کا معاہدہ کیا تھا لیکن وہ وقت سے پہلے شہید ہوگئیں۔۔۔۔۔خود میاں نواز شریف ‘پرویزمشرف سے دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ کرکے چلے گئے تھے ۔۔۔۔۔ویسے سب سے زیادہ معاہدے بھی پاکستان میں ہی ہوتے ہیں
دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنا بچاؤ کیسے کرتی ہے ؟پیپلز پارٹی اس لڑائی میں کیا حاصل کرے گی ؟عمران خان اور ایم کیو ایم اپنے کونسے پتے کب کھیلیں گے ؟ق لیگ بھی سرگرم ہے اس کی چال کیا ہوگی؟اس تما م تر صورتحال کا اندازہ آنیوالے دنوں میں ہوجائے گا۔
کراچی میں یہ بحث بھی چل رہی کہ موجودہ ’’جاگیردارانہ برانڈ جمہوریت‘‘اپنی بقا کی جنگ میں خود کو بچاپائے گی یا پھر ایسی ’’برانڈڈ جمہوریت‘‘ ہمیشہ کیلئے رخصت ہوجائے گی ۔۔۔۔۔پاکستان میں جمہوریت ناکام نہیں ہورہی بلکہ پورا نظام بیٹھتا جارہا ہے ۔۔۔۔۔اور جب کوئی نظام ناکام ہوتا ہے تونیا متبادل نظام آتا ہے یا پھر کوئی اور نظام ڈھالنا مجبوری بن جاتا ہے۔
کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ جمہوریت کا نعرہ لگانے والے پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد پر نہیں کرتے ۔۔۔۔۔یہ ’’پری الیکشن دھاندلی‘‘ہے جو عوام کیساتھ ہر انتخابات میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔حلقوں کی تقسیم کا مفادپرستانہ’’فارمولا‘‘ندی‘نالوں‘نہروں‘سڑکوں اور جاگیردارانہ مرضی کے تحت کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ملک میں ہر دو‘تین سال بعد مردم شماری کی ایک نئی تاریخ آجاتی ہے ۔۔۔۔۔خانہ شماری کا اعلان ہوتا ہے ۔۔۔۔۔لیکن نہ لوگوں کی گنتی ہوتی ہے اور نہ ہی گھر گنے جاتے ہیں۔۔۔۔۔آج کے کمپیوٹرائزڈ دور میں مردم شماری کی ضرورت کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔جس کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے وہ مردم شماری میں آگیا اور جس کے پاس ’’ب‘‘فارم ہے وہ خانہ شماری کے معیار پر پورا اترتا ہے ۔۔۔۔۔گھر کے سربراہ سے لے کر بچوں کی گنتی بھی آپ آسانی سے کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔اور جس کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں تو وہ پاکستانی شہری کیسے ہوسکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔اُس کوتو گننے کی ویسے ہی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔۔۔۔۔لیکن سب سے پہلے تو یہ طے کیاجائے کہ اتنے افراد کی تعداد پرقومی اسمبلی کا حلقہ بنے گا اور اتنے افرادصوبائی حلقے میں ہونگے۔۔۔۔۔جس دن ایسا ہوگیا احساس محرومی ختم ہوجائے گا ۔۔۔۔۔فنڈز کی تقسیم آسان ہوجائے گی اور ہر ووٹر کو اپنا حق بآسانی مل سکے گا ۔۔۔۔۔نئے صوبے بنائے جائیں بلکہ ہوسکے تو صوبے ختم کرکے ریاستیں بنائی جائیں ۔۔۔۔۔سرکاری طور پربنائی گئی ظفر احمد انصاری کی رپورٹ موجود ہے کہ ہرڈویژن کو صوبہ بنادیا جائے ۔۔۔۔۔جب افغانستان میں34اور امریکہ میں 50ریاستیں ہیں ۔۔۔۔۔روس کے اتنے ٹکڑے ہونے کے باوجود بھی اب بھی اس کے 46صوبے ہیں ۔۔۔۔۔کیا پاکستان میں 20یا 25صوبے بھی نہیں بن سکتے ؟ جب بھارت نئی دہلی سٹی کو ایک صوبہ بناسکتا ہے تو ہم سیکڑوں مربع میل پر محیط ڈویژن کو صوبہ کیوں نہیں بناسکتے؟
پاکستان میں صنعتی اور زرعی معیشت پر مبنی صوبوں کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔بھارت ایک سیکولر(لادین )ملک ہے لیکن مشرقی پنجاب کی تقسیم ہوئی تو خاموشی سے اکثریتی سکھوں کا الگ ‘ہندوؤں کا الگ اور مکس آبادی کا علیحدہ صوبہ بنایا گیا ۔۔۔۔۔تقسیم میں تمام مذاہب کا خیال رکھا گیا ۔۔۔۔۔ملک کو ذہانت سے چلایا جاتا ہے ڈنڈے سے نہیں ۔۔۔۔۔آئندہ چند ماہ میں زوالِ اسلام آباد ہوتا ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔اور اگر ہوتا ہے تو نیا نظام آئے گا یا اسی گلے سڑے ‘بدبودار نظام پر ہی عوام کو گزارا کرنا پڑے گااور ملک قرضے مانگتے ہوئے عالمی سطح پرمعاشی ترقی کے قریب بھی آسکے گا یا دور کھڑے رہ کر ترقی یافتہ ممالک کیلئے تالیاں بجاتا رہے گا۔
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
ایم کیو ایم کے 140 دفاتر مسمار کرنے کے بعد کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے دفاتر گرانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ انتظامیہ نے یہ فیصلہ شاید اس لیے کیا ہے کہ ایم کیوایم مخالف تنظیم کے دفاتر گرانے سے متعصبانہ اقدامات کا تاثر ماند پڑجائے گا۔ ایم کیوایم پاکستان نے اپنے دفاتر کی مسماری...
ایم کیو ایم کی حالت اِس وقت ایسی ہے جو سونامی کے بعد کسی تباہ شدہ شہر کی ہوتی ہے... نہ نقصان کا تخمینہ ہے نہ ہی تعمیر نو کی لاگت کا کوئی اندازہ ...چاروں طرف ملبہ اور تصاویر بکھری پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم میں ابھی تک قرار نہیں آیا... ہلچل نہیں تھمی... اور وہ ٹوٹ ٹوٹ کر ٹوٹ ہی رہی ہے۔ ...
کراچی میں دو دن میں اتنی بڑی تبدیلیاں آگئیں کہ پوراشہر ہی نہیں بلکہ ملک بھی کنفیوژن کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگے، میڈیا ہاؤسز پر حملے ہوئے، مار دھاڑ کے مناظر دیکھے گئے، جلاؤ گھیراؤنظر آیا اور بالآخر ایم کیو ایم کے اندر ایک بغاوت شروع ہوگئی۔ فاروق ستار نے بغیر کسی مزاحم...
وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر یاد دلادیا کہ کراچی لاوارث یتیم لاچاراوربے بس شہر ہے...کراچی کے مختصر ترین دورے کے دوران نواز شریف صاحب نے نہ ایدھی ہاؤس جانے کی زحمت گوارا کی نہ امجد صابری کے لواحقین کودلاسہ دیا۔ جس لٹل ماسٹر حنیف محمد کو پوری دنیا نے سراہا ،نواز شریف ان کے گھر بھی ...
ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ’’تم لوگوں ‘‘کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے۔ کراچی اور ح...
نئے وزیر اعلیٰ مرادعلی شاہ کے تقرر سے سندھ عملی طور پردو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔۔۔۔۔سندھ میں ’’خالص سندھی حکومت‘‘قائم ہوچکی ہے۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء کے لسانی فسادات کے بعد یہ تسلیم کیا تھا کہ سندھ دو لسانی صوبہ ہے اور سندھ میں آئندہ اقتدار کی تقسیم ا...
سندھ حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ وزیرداخلہ کو فارغ کردو، اس پر فلاں فلاں الزام ہے۔ الزامات کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ لاڑکانہ میں رینجرز نے وزیر داخلہ کے گھر کے باہر ناکے بھی لگائے، ان کے فرنٹ مین کو قابو بھی کیاگیا، لیکن رینجرزکی کم نفری کا فائدہ اٹھاکر، عوام کی مدد سے، سندھ...
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے خورشید شاہ نے ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین بیان دیا کہ سندھ میں امن پولیس نے قائم کیا ہے اور باقی کسی ادارے کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رینجرز کو اختیارات ضرور دیں گے مگر قانون اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، انہوں نے رینجرز ...
کراچی کا امن ایک بار پھر شدید خطرے میں ہے۔ دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر فوجی اہلکاروں کونشانا بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آزما فوج کو بھی وہ شہروں میں چیلنج کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب فوج آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن میں اپنی کامیابیوں کا ت...
عبدالستارایدھی کی وفات نے کراچی میں خوف کی فضا طاری کردی ۔ غم کے بادل چھا گئے ہیں ۔پورا شہر ہکا بکا ہے کہ اس شخص کا سوگ کیسے منائیں جو اپنا نہیں تھا لیکن اپنوں سے بڑھ کر تھا ۔ اس کی موجودگی سے ایک آسرا تھا، ایک امید بندھی ہوئی تھی۔عبدالستار ایدھی ایک شخص کا نام نہیں، کراچی میں اس...
کراچی میں دو دن بارش کیا ہوئی‘ سندھ حکومت کی کارکردگی ’’دھل‘‘ کر سامنے آگئی۔ برسوں سے بارش کو ترسے کراچی والے خوش تھے کہ بارش ہو گئی... شہر چمک جائے گا... آئینہ بن جائے گا‘ لیکن افسوس صد افسوس! عوام کے ارمان خاک میں مل گئے۔ بارش میں نہانے کے خواب... سیر و تفریح کے منصوبے... شاپنگ...