... loading ...
ہم پہلے غالب میر اور ذوق کا موازنہ کرتے تھے۔ یہ ادبی معاملہ تھا۔ بعد میں انیس و دبیر کی بات ہونے لگی۔ یہاں عقیدت نے ادب کا دامن تھام لیا تھا۔بعد میں گاندھی اور محمد علی جناح کی بات ہونے لگی تو دونوں طرف کے باسیوں نے حب الوطنی کی اپنی اپنی من پسند عینک سے ان دو گجراتیوں کے محاسن کو جانچا ۔ ان دنوں ا حساس کم تری کی اک تازہ سی لہراٹھی ہے ابھی۔۔بہت سے نکھٹو اس کھونٹے کو تھام کر اس احساس کو سوشل میڈیا پر ٹھونسے جارہے ہیں کہ مدر ٹریسا کی خدمات عبدالستار ایدھی سے بہت بڑی تھیں ۔اس خیال کے بوجھ میں آئے ہوئے لوگ ہمارے عبدالستار ایدھی کو “فادر ٹریسا” کہنے لگے ہیں۔
جان لیجیے کہ یہ مدر ٹریسا کی غیر ضروری پزیرائی ، ایدھی صاحب کا مرتبہ کم کرنے والی بات ہے۔وہ جب کسی موضوع کو چھیڑتے اور اور اس کا معاملہ کرتے ہیں تو جان لیں کہ ان کا میڈیا اندر سے مذہبی ہے اور باہرسے سیکولر۔وہ غیر مذہبی لہجے میں اپنا ایجنڈا ایک خوش اسلوبی سے آگے دھکیلتا رہتا ہے۔اس کے برعکس ہمارا میڈیا اندر سے مفاد پرست اور فرقہ پرست بھی ہے ۔ اس کے چنیدہ افراد سیکولر لب و لہجے میں پرچار کرتے ہیں۔ خوف خمیازہ سے اپنے گھناؤنے عزائم کا کھل کر اظہار نہیں کرتے مگر اپنی اپنی اس دبی دبی منافقت کے بھی بڑے ٹکا کر دام وصول کرتے ہیں۔
ایدھی صاحب نے تن تنہا اس معاشرے میں جہاں لوگ معمار کو بھی دیوار کے ساتھ چنواتے ہیں۔ یہاں عشق کرنا اور اچھا کام کرنا ایسا ہے کہ آپ نے اپنے پیچھے کوئی بلا لگا لی ۔لوگ آپ کی نو رنگی اجلی دیوار پر اس احساس کمینگی کے تحت پان کی پچکاری اس لیے تھوکتے ہیں کہ اس سے ان کی وہ دیوار بھلے اجلی نہ ہو ،آپ کی دیوار بدنما ضرور دکھائی دے گی ۔ایسے میں کسی نے انہیں ایک دو ہزار روپے کی گاڑی لے کر دی ۔ اسے انہوں نے ایک ایمبولینس کا روپ دیا۔ ان دنوں ایمبولینس خال خال دکھائی دیتی تھی ۔پرانے کراچی کی تنگ گلیوں میں ایدھی صاحب کی ایمبولینس دھڑلے سے مریض کو بروقت ہسپتال پہنچا دیتی تھی۔ یوں ایک چھوٹی سی این جی او کی ایدھی فاونڈیشن کے نام سے ابتدا ہوئی۔ یہ کسی بھی تنہا فرد کے حوالے سے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی این جی او ہے۔
دنیا بھر میں این جی او ز میں پانچ چھ بڑے نام ہیں (پاکستان کی حد تک ہماری اکثر نام نہاد این جی اوز کی ہمارے دوست افضل رضوی ایک ہی جملے میں بساط لپیٹ دیتے ہیں کہ این جی او کا پاکستان میں مطلب یہ ہے کہ لمبی ہو ، گوری ہو، انگریزی بولتی ہو اور کسی طاقتور سیاست دان یا بیوروکریٹ کی بہو، بیٹی یا ادھیڑ عمر کی فتنہ ساز بیوی ہو۔) پاکستان کے قیام سے بھی پہلے یہاں چرچ مشنری آئے۔جنہوں نے تبلیغ کو فروغ دینے کے لیے تعلیم اور صحت کے شعبے کو اپنایا۔ سیالکوٹ اور ڈسکہ کے وہ نچلی ذات کے ہندو جو قیام پاکستان کے وقت چار میل پیدل چل کر امتیازی سلوک کے خوف سے ہندوستان نہیں گئے۔انہیں ہمارے رائیونڈ کے پراڈو اور پیجرو کے سوار تبلیغی دین داروں نے پیر کی جوتی سمجھ کر نظر انداز کیا تو روم نے یورپ سے عیسائی مبلغوں کو افواج در افواج بنگلہ دیش ، پاکستان، انڈونیشیا اور مصر بھیجا۔ انہوں نے ان جوتیوں کو صاف کرکے سر پر سجا دیا۔سوہارتو ، انور السادات اور لیاقت علی خان کی بیگمات ان ہی Converts میں سے تھیں ۔ انڈونیشیا میں تو ان کی فضائیہ کے پاس اتنے جہاز نہیں جتنے اس عظیم اسلامی مملکت میں چرچ کے پاس ہیں ۔اس لیے کہ تبلیغ کے لیے دو ردراز جزائر تک بھی پہنچنا ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش ، پاکستان، انڈونیشیا اور مصر ان چار ممالک میں تبلیغ کرنے والوں کو چرچ کی Heirarchy میں جلد ترقی مل جاتی تھی کیونکہ یہ فوج کی زبان میں Hard Stations سمجھے جاتے تھے۔ یہاں خدمات سر انجام دینے والوں کو چرچ میں مجاہدین اعلی ٰ مانا جاتا ہے ۔آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ دنیا کا طاقتور ترین عہدہ امریکی صدر کا نہیں بلکہ پوپ یعنی پاپائے روم کا ہے۔ وہ دوسو کروڑ لوگوں کے لیے دین میں حرف آخر ہیں۔انہیں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ کارڈینل منتخب کرتے ہیں۔ جس طرح ہماری قومی اسمبلی کا ہر مسلمان ممبر جس کی عمر پینتالیس برس ہو وہ وزیر اعظم اور صدر بننے کا اہل ہے، اسی طرح اس کالج آف کارڈینلز کا بھی ہر ممبر پوپ بن سکتا ہے۔ کم از کم دو پوپ کے انتخاب میں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان مملکت کا کاڑدینل کورڈیروامیدوار اور ووٹر رہا۔اس کی بدقسمتی یہ رہی کہ اس وقت پاکستان سے پوپ کا منتخب ہونا مغربی عیسائیت کے اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات میں نہ تھا۔
چرچ سے ہٹ کر مملکت خدا داد میں جلوہ افروز ہونے والی ریڈ کراس تھی( جسے پاکستان میں جب سے ضیاالحق کے دور میں ہلال احمر کہہ کر مشرف بہ اسلام کیا وہ ہاتھ کی گھڑی اور محکمۂ ڈاک کی طرح غائب ہوگئی۔) اس میں چونکہ’’ کراس ‘‘کا امتیازی لاحقہ موجود ہے لہذا اس کی مذہبی وابستگی کے بارے میں کچھ مزید تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں۔اس کی ایک جڑواں بہن The Salvation Army ہے جو کرسچن چرچ سے وابستہ ایک بین الاقوامی خیراتی ادارہ ہے جسے فوجی انداز میں کھڑا کیا گیا ہے۔ ریڈ کراس ویٹیکن یعنی کیتھولک چرچ سے وابستہ ہے تو127 ممالک میں غریب غربا کو خوراک اور پرانے کپڑے فراہم کرنے والی The Salvation Army پروٹسنٹ چرچ کی Siamese Twin ہے۔ پاکستان میں لنڈا بازار اسی کے جمع کیے اور فروخت شدہ کپڑوں سے آباد ہیں ۔ایک تنظیم’’ گرین پیس ‘‘بھی ہے ۔جس کا مرکزی دفتر ہالینڈ کے دارا لخلافہ ایمسٹرڈم میں ہے۔ اس کا واحد مرکز و محور ماحولیات ہے۔اس کے علاوہ Médecins Sans Frontières (ایم ایس ایف) جو ہنگامی حالات میں متاثرین جنگ اور آفات کو طبی امداد فراہم کرتی ہے۔ حماس بھی ایک این جی او تھی جسے اسرائیل نے یاسر عرفات کی پی ایل او کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لیے بنایا تھا وہ اب بیوہ غریب بہن کی طرح فلسطینیوں کے مفادات کی نگران ہے۔
اب آتے ہیں ہم ماتا ٹریسا کی جانب۔
1929 میں مدر ٹریسا کو اندر سے ایک آواز سنائی دی کہ لوریٹو کانونٹ آئرلینڈ کو خیر باد کہو۔ تمہیں تو دور ہندوستان میں بیمار اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ چرچ کے حکم سے وہ پہلے دارجلینگ آئیں ۔ یہاں انہوں نے ایک بڑا چرچ بھی قائم کیا اور استانی بن کر رہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان بھر میں عیسائی مشنریوں کی یلغار شروع ہوگئی تھی۔دو نسلیں ان کے قائم کردہ اور مدرسوں (Convent of St Joseph) اور مدرسہ حضرت اسٹیفن جہاں سے ہمارے صدر ضیا الحق نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اُن سے مستفید ہوتی رہیں۔ انہیں اب اپنے مشنری اداروں کے قیام میں کوئی مشکل نہ تھی۔ ابتدا میں وہ مدرسہ ٔبی بی مریم بنگالی میڈیم St. Mary’s Bengali Medium School of Conventمیں بطور استانی جی کام کرتی رہیں۔7؍ اکتوبر 1950 کو انہو ں نے Missionaries of Charity کی باقاعدہ بنیاد رکھی ،جس کا براہ راست انتظامی تعلق کلکتہ کے بڑے چرچ Archdiocese of Calcutta سے تھا۔
یہ چونکہ روز اول سے ہی بنگالیوں کی دکھی انسانیت کے چرچ کے طفیل دکھوں کا مداوا ڈھونڈ رہی تھی لہذا کلکتہ کے باسیوں نے ان کو کوئی خاص پزیرائی نہ بخشی۔ روتے دھوتے پنڈت نہرو جیسے روشن خیال وزیر اعظم کے ایما پر1962 میں انہیں سماجی خدمات پر پدم شری ایوارڈ ملا۔ 1979 ء میں نوبل امن کا انعام ملنے پر بھارت کو بھی خیال آیا تو انہیں بھارت رتن سے نوازا۔ یہ بھارت کا سب سے بڑا سول اعزاز ہے جو زیادہ تر سیاسی شخصیات کو دیا جاتا ہے مگر کبھی کبھار اس میں امرتا سین ، بسم اللہ خان شہنائی نواز ، پنڈت روی شنکر ، ستیہ جیت رائے ،لتا منگیشکر اور سچن ٹنڈولکر جیسے نام بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
وہ لوگ جو مدر ٹریسا کو ایک مذہب پرست اور تبلیغی خاتون سے بڑھ کر مسیحائے انسانیت سمجھتے ہیں ان کے لیے تین ذخائر ایسے ہیں جن میں موجود معلومات ان کو اپنی سوچ کو درست سمت میں رکھنے میں مدد کرے گی۔
ایک تو بنگالی نژاد ڈاکٹر آروپ چیٹرجی ہیں ۔ انہوں نے مدر ٹریسا پر ایک سوانح حیات The Final Verdictلکھی ہے ۔ جو زمینی حقائق پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر چیٹرجی دہریے ہیں مگر کٹر ّبنگالی بھی۔ان کا خیال ہے کہ عیسائیت کے فروغ کی خاطر مدر ٹریسا کلکتہ کے غریبوں کا نام اپنے کاسۂ گدائی میں انڈیل کر ہر اچھے برے فرد اور ادارے سے فنڈز جمع کرتی تھیں اور اس سے کیتھولک مشنریوں کو ہندوستان میں بے دریغ Conversion کے لیے رقم فراہم کرتی تھیں۔ یعنی جس کا جوتا اسی کا سر۔ مدر ٹریسا کے ادارے کو کوئی یہ جتلاتا کہ ان کا اصل مقصد تو انسانوں کی خدمت کرنا ہے ۔ سادہ لوح اور کم تر درجے کے ہندوؤں کا دھرم بدلنا نہیں تو وہ اپنے دعوے کی سند کے لیے مدرٹریسا کا یہ قول ان کے گستاخ چہرے پر تھپڑ کی طرح جما دیتا کہ’’“We are not nurses, we are not doctors, we are not teachers, we are not social workers We are religious, we are religious, we are religious.”
’’کس نے کہا ہم نرسیں، ڈاکٹر یا استاد ہیں۔جان لیں کہ ہم سماجی خدمت کو بھی نہیں مانتے ۔ ہم اول وآخر اور درمیان میں بھی ہم صرف مذہبی ہیں‘‘
دوسری کتاب کرسٹوفر ہچنز کی ہے ۔اس کا نام ہے The Missionary Position۔ آپ کو اگر انگریزی زبان سے تسلی بخش حد تک آگہی ہے تو کتاب کا عنوان ہی آپ کو بتائے گا کہ ایک بوڑھی نن جس نے ساری عمر جنس سے پرہیز کیا ہو، اس کی سوانح حیات کے لیے یہ عنوان کس قدر توہین آمیز ہے۔اس سوانح عمری کا معاملہ بالکل ویسا ہی جیسا حسن نثار کے ٹاک شوز کا ہوتا ہے ۔ان کا لب و لہجہ ناپسندیدہ اور خود ساختہ معتبر ہستیوں کے لیے قدرے گستاخانہ مگر ان کے حقائق اپنی تمام تر Posturing کے باوجود درست ہوتے ہیں۔برطانوی صحافی ہچنز نے اپنے طنز و دشنام کا نشانہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو بھی بنایا ہے۔ چار سال قبل ان کی شائع ہونے والی کتاب “اب مزید جھوٹ سننے والا کوئی نہیں”، No One Left to Lie To نے بھی بہت طوفان اٹھایا ہے۔ وہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے رکن تھے۔ بہت جغا دری صحافی بھی تھے ۔اشرافیہ میں بے پناہ رسائی نے ان کو ایسے حقائق سے آشنا کیا جو عام لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رہتے ہیں۔انہوں نے کسنجر ، لیڈی ڈائنا اور چند معتبر شخصیات کے ان منفی پہلوؤں کو بھی طشت از بام کیا جو ان کی Public Relationing کی لیپا پوتی اور مہارت کی وجہ سے عوام پر پوشیدہ رہتے تھے ۔
ہچنز نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ مدر ٹریسا کی غریبوں کی امداد کا پاسپورٹ ان کی جنونی مذہبی وابستگی تھی۔ ان کا کار خیر کے گھوڑے پر سوار ہوکر خود کو بے سہاروں کا مسیحا ثابت کرنا ان افراد کے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا تھا جو مغربی استعمار کے ایجنٹ تھے۔ وہ اپنے مال کا کچھ حصہ بطور خیرات جھاڑ کر خود کچھ نہیں کرنا چاہتے ۔ان Celeberities کو عوامی خدمت کے اس پیکر کوتاہ یعنی مدر ٹریسا کو ٹیکس فری فنڈز کے عطیات کے عوض فوٹو سیشن کے بڑے مواقع مل جاتے تھے ۔
اپنی کتاب میں انہوں نے مدر ٹریسا کی روحانیت کے ڈرامے کا پردہ چاک کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں جب موقع ملتا تھا وہ ہیٹی کے کرپٹ ترین صدر سے ملنے پہنچ جاتی تھیں اور انہیں چرچ میں کھڑے ہوکر غریبوں کا محسن قرار دیتی تھیں۔ اسی طرح اپنے آبائی ملک البانیہ میں وہاں کے کمیونسٹ سربراہ جس کے مظالم سے البانیہ لرزتا تھا یعنی Enver Hoxha اس کی قبر پر اشکوں کا طوفان لیے ،پھول چڑھانے پہنچ گئیں۔ان کے نکارا گوا کے ایک دہشت گروپ کونٹرا سے بھی بہت قریبی تعلقات تھے اور وہ انہیں جی کھول کر امداد بھی دیا کرتا تھا۔ اسی طرح ایک اور بہت بڑے امریکی فراڈیے Charles Keating سے بھی انہوں نے پندرہ لاکھ ڈالر کا عطیہ لے کر عدالت کو اسے معافی دینے کے لیے خود خط لکھا تھا۔اس خط کے موصول ہونے پر سرکاری وکیلPaul Turley نے انہیں جواباًلکھا کہ’’ انہیں یہ جان کر بہت صدمہ ہوا کہ مدر ٹریسا اس طرح کے مجرموں کی پشت پناہی محض اس لیے کرتی ہیں کہ وہ چوری کی رقم سے انہیں عطیات دیتے ہیں، ان کا یہ عمل جرم میں اعانت کے زمرے میں آتا ہے ۔ان کے حق میں اور چرچ کی نیک نامی کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ عوام کا پیسہ اللہ کے نام پر ہڑپ نہ کیا جائے‘‘۔ وہ اس خط پر بہت ناراض ہوئی تھیں اور جواب بھی نہیں دیاتھا۔
مغربی آزاد خیال حلقے انہیں اسقاط حمل اور طلاق کی مخالفت کی وجہ سے بہت تنقید کا نشان بناتے تھے اور انہیں امن کی کوششوں کی بجائے قدامت پسندی پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کا الزام دیتے تھے۔ کچھ گستاخ تو ان کی اس قدر تضحیک کرتے تھے کہ وہ تمسخراً کہتے تھے کہ اسقاط حمل اور طلاق ایسے کھیل ہیں جو وہ خود نہیں کھیلتی ہیں تو انہیں اس کے قوانین اور ضوابط متعین کرنے کا بھی کوئی حق نہیں‘‘
بھارت میں مدر ٹریسا کو اس لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ’’ غربت اللہ کا ایسا انعام ہے جس کی وجہ سے انہیں یسوع مسیح کی قربت مل جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کا دین اور دنیا سنور جاتی ہے۔ وہاں ان کے یہ الفاظ I think it is very beautiful for the poor to accept their lot, to share it with the passion of Christ. I think the world is being much helped by the suffering of the poor people
’ میرا خیال ہے غربت میں بہت حسن ہے۔غریب اسے اللہ کا انعام سمجھیں۔ مال و منال سے محرومی حضرت عیسیؑ کا وصف حمیدہ ہے۔دنیا کا سارا حسن کاروبار غریبوں کی مشکلات کی وجہ سے آباد ہے۔‘‘ ہمیشہ ہی ہدف تنقید بنتے رہے۔
آروپ چییٹرجی، کرسٹوفر ہچنز اور پاکستانی نژاد مارکسسٹ طالب علم رہنما طارق علی تینوں نے مل کر بی بی سی فور کے لیے ایک ڈاکیومینٹری بنائی تھی ۔جس کانام تھاHell’s Angel ۔ اس فلم نے مدر ٹریسا کا قد کاٹھ بہت کم کردیا تھا۔ ہچنز اور ڈاکٹر آروپ چیٹرجی کی مخالفت کی وجہ سے کیتھولک چرچ کو بہت دشواری پیش آئی ۔ یہ دونوں اس کارروائی میں مخالف گواہ کے طور پر پیش ہوئے تھے جس میں مدر ٹریسا کا کیس 2003ء میں برائے beatification ’’ سعادتِ ابدی‘‘ کا فیصلہ ہونا تھا۔ یہ ایک بے حد دل چسپ مرحلہ ہوتا ہے جس میں وفات کے پانچ برس بعد مرنے والی روحانی ہستی کو پوپ ولی اللہ کا درجہ عطا کرتا ہے۔ یہ عمل canonization کہلاتا ہے۔ایک زمانے میں تو ولی اللہ ہونے کے لیے کسی انسان کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ حضرت عیسیؑ کے پیروکاروں کو ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے تین سو سال بعد ہی سے پوپ اور ان کے مقامی رہنما کی منظوری سے ولی اللہ کا درجہ مل جاتا ،جنہیں سینٹ کہتے تھے۔ سترھویں صدی کے آخر میں اچانک عیسائیت کے چاروں بڑے فرقوں Orthodox, Oriental Orthodoxy, Roman Catholic, or Anglican Church کو احساس ہوا کہ ان کے اولیا اللہ کی تعداد تو ملا جلا کر پاکستان کے نیب زدہ سیاستدانوں سے بھی زیادہ ہوگئی ہے لہذا اس کا کچھ کرنا چاہیے لہذا پانچ سال تک امریکی سینیٹ کی سماعتوں کے مانند ان کے کرشموں اور کردار پر کھلی بحث ہونے لگی۔ان پر دنیا بھر سے اعتراضات اٹھے ۔مدر ٹریسا اور ان کے ادارے The Missionaries of Charity by Mother Teresa جسے مدر ٹریسا نے 1950 ء میں قائم کیا تھا ۔اس سے وابستہ 4,500 راہبائیں پر بھارت اور دنیا بھر سے یہ اعتراضات اٹھے کہ وہ لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں زبردستی عیسائی بناتی ہیں۔ وہ مال بٹور کر عیسائی ڈکٹیٹر وں کو لبادہ تقدیس اوڑھا کر ان کے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں۔ان کو دنیا بھر سے ملنے والی امداد میں نہ صرف بہت گھپلے ہیں بلکہ ان میں سے بعض سخی سہولت رساں تو غیر اخلاقی ذرائع سے دولت جمع کرنے میں ملوث بھی پائے گئے ہیں۔اس امداد کا بہت ہی قلیل حصہ وہ گھٹیا درجے کی طبی سہولتوں پر خرچ کرتی ہیں۔
بھارت کے مشہور مورخ وجے پرشاد نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ’’ وہ البانیہ ہی کی سہی مگر دراصل ایک ایسی گوری خاتون کا پیکر تقدیس بنی ہوئی ہیں جو اپنی پرانی کالونی میں ان سیاہ بدنما اجسام کے داغ دھونے کا سوانگ رچا رہی ہیں جو اپنی غربت اور افلاس کے مارے ہوئے ہیں۔ہندوستانی پولیس کے پاس ایسی بہت شکایت جمع تھیں، جن میں ان کے ادارے پر یہ الزام تھا کہ وہ اپنے ہسپتالوں میں مرنے والوں کو جھانسا دے کر baptize کرتے ہیں۔ 4؍ستمبر کو جب موجودہ پوپ بالاخر انہیں محض دو شہادتوں کی بنیاد پر ولی اللہ ہونے کی سند دیں گے تو اپنی سند سعادت ابدی میں وہ برازیل کی ایک ایسی جواں سال دلفریب خاتون کی دعائے مستجاب کا ذکر بھی بطور شہادت تسلیم کریں گے جس کے میاں کے دماغ میں آٹھ ٹیومر تھے۔ وہ میاں کو لے کر ہسپتال پہنچی ۔وہاں جب بے ہوشی کی دوا دینے کے بعد آپریشن تھیٹر میں دوا کی اثر انگیزی کا انتظار کیا جارہا تھا ۔خاتون وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہسپتال سے ملحق چرچ میں پادری کے ساتھ مدر ٹریسا کو وسیلہ بنا کر دعا مانگنے پہنچ گئی۔اسی دوران میاں اچانک بیدار ہوگیا اور چیختا چنگھاڑتا باہر باہر بھاگا کہ ’’میری بیوی کہاں ہے، میری بیوی کہاں ہے؟ ‘‘سرجن حیرت زدہ ہوگیا ۔اس وقت اس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا جب CAT scanمیں آٹھوں رسولیاں غائب ہوگئیں۔
آپ اس پورے کھڑاک پر غور فرمائیں اس میں مدر ٹریسا سے زیادہ بیوی کی دلفریبی ، پادری کا بھی بروقت دستیاب ہونا اور میاں کے شک کا دخل ہے۔ مذہبی افراد اور مولوی صاحبان کے پاس تو آپ اپنے میلے کپڑے بھی چھوڑتے وقت کپکپارہے ہوتے ہیں چہ جائیکہ ایسی حسین بیوی۔ ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ اس واقعے کو بیان کرنے میں دو قباحتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ کچھ مولوی اور پیر اب ہسپتالوں کے گرد ڈیرے جما لیں گے۔دوسرے “آج جانے کی ضد نہ کرو، اب آجاؤ، دیکھو نہ جاؤ اے جان من، دل نہ دکھاؤ اے جان من” قسم کے پوسٹروں کی وجہ سے ہراساں اور فوجی عدالتوں کے ہاتھوں ممکنہ احتساب سے لرزتے ہوئے درجہ دوم کے سیاست دان اور درجہ اول کے افسر مدر ٹریسا کو وسیلہ بنا کر محفل دعا نہ برپا کرادیں۔ (جاری ہے)
بھارتی حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت نے نوبیل انعام یافتہ مدر ٹریسا کے فلاحی ادارے کے بھارت بھر میں تمام اکاؤنٹس منجمد کردئیے ۔ادھر مدر ٹریسا مشنری آف چیریٹی نے بھارت بھر میں اپنے تمام اداروں کو ہدایت کی کہ وہ تنظیم کے غیرملکی فنڈز کے اکاؤنٹ کو آپریٹ نہ کریں کیونکہ بھا...
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...