... loading ...
خاک میں لپٹے ہوئے ہوئے، پیار میں نہلائے ہوئے ۔۔۔
عبدالقادر کے اس معصوم پیار کی متلاشی خاتون کو چکمہ دینے کے بعد ہم خراماں خراماں گفتگو کرتے ہوئے پکنک ایریا کی جانب آگئے۔ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں تھا جیسے ہی ہم ساحل کے قریب پہنچے عبدالقادر نے مجھے کہنی مار کر بائیں جانب دیکھنے کا اشارہ کیا۔ پہلے تو میری سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا دکھا رہا مگر ذرا غور کرنے پر دیکھا تو قطار در قطار انسانی جسموں کا ایک شیرازہ بکھرا پڑا تھا۔ یہ وہ افراد تھے جو کالی سمندری کیچڑ میں لتھڑے ہوئے غسل آفتابی کے شوق میں ساکت پڑے تھے۔
وہ کہنے لگا کہ اہل مغرب کا خیال ہے کہ اس سمندر کی کیچڑ اور پانی میں بڑی شفا اور حسن افزا خصوصیات ہیں، یہاں آن کر وہ اس کیچڑ میں لتھڑ جاتے ہیں۔ یہ کیچڑ جب ان پر سوکھ کر ایک مڈ ماسک بن جاتی ہے تو اوپر ایک قدرتی چشمہ ہے۔ جہاں وہ اسے اپنے گناہ سمجھ کر دھولیتے ہیں۔ تم اگر یہ عمل کرنا چاہو تو بتاؤ۔ مجھے قادر کی آنکھ میں دیکھ کر یقین آگیا کہ یہ اس کی بدمعاشیوں کے نئے انداز ہیں۔ ۔
’’نہیں میں رسم و رہ دنیا نبھانے کے لیے بس کچھ دیر تیروں گا یہ دیکھنے کہ لیے کہ یہ پانی کسی کو بھی ڈبوتا کیوں نہیں؟‘‘ میں نے اسے ذرا پرے کیا۔
میں نے پیراکی کا لباس پہنا اور آہستگی سے دنیا کے اس عجیب سمندر میں اتر گیا۔ آپ اگر باقاعدہ دنیا کے مختلف سمندر وں میں اس سے پہلے غسل کرچکے ہوں تو آپ کو یہ معلوم ہوچکا ہوگا کہ ہر سمندر اپنے پانی کا کچھ الگ ہی مزاج رکھتا ہے جس میں موسمیاتی اور ماحولیاتی اثرات بہت جدا ہیں۔ بحیرہ ہند کے مڈغساکر کی ہریالی میں کچھ اور تو ایران کے قریب آن کر کچھ اور مزاج ہوں گے۔ تھائی لینڈ میں اس کی مستی کچھ اور ہوگی، ڈربن جنوبی افریقامیں اس کے تیور کچھ اور۔ بحیرۂ مردار کا پانی مجھے بہت چپ چپا سا لگا جیسے اس میں تیل کی چکناہٹ ہو۔ یہ چلو بھرنے پر دیگر پانیوں کی نسبت گراں بھی محسوس ہوتا ہے۔ میں دور تک چلا گیا اور سمندر گہرا ہوتا گیا مگر یہ کیا جیسے ہی میں نے بیک اسٹروک کیا مجھے لگا کہ میں تو ایک بستر آب پر لیٹا ہوں۔ میں کوئی بہتا ہوا شہتیرہوں۔ میر تقی میر کی طرح میں نے دست طمع دراز کرنے کی بجائے دونوں کو سمیٹ کر سر کے نیچے رکھ لیا۔ پانی میں گناہ گار انگلیوں کی سی گدگداہٹ تھی جو مساج کے وقت محسوس ہوتی ہے بشرط یہ کہ مساج کراتے وقت آپ داتا دربار کے باہر کے میلے غریب غربا مالیشیوں یا استنبول کے گرانڈ بازار کے روایتی ترکی حمام کے کسی پہلوان کے ہتھے نہ چڑھے ہوں۔ مجھے بہت دیر کسی رسیوں کے جھولے hammock کے سے ہلکوروں کا مزہ آتا رہا۔ پینتالیس منٹوں کے بعدجب میں پانی سے باہر آیا تو ساحل پر عبدالقادر فرنچ سیاحوں کی ایک ٹولی کو لیے بیٹھا تھا جنہیں اس نے بہت کامیابی سے یہ باور کرایا تھا پانی کے حوالے سے میری تحقیقات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور میں نے یہاں کچھ دریافتیں بھی کی ہیں جو عنقریب مزید تحقیق کے بعدمیں کسی سائنسی جریدے میں شائع کروں گا۔ میں دنیا کا ایک بہت گنی ماہر آب و ارضیات پروفیسر ہوں۔ میرے پانی سے باہر آتے ہی وہ میری جانب لپکے۔ قادر نے مجھے آنکھ ماری ایک بوڑھا شخص جو اس گروپ کا سیاح تھا مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے عقیدت سے دہرا ہوگیا۔ اس نے اپنا نام آندرے بتایا۔ مجھے بے چینی سی ہونے لگی کہ اﷲ جانے اس نے انہیں میرے بارے میں جانے کون سے راگ سنائے ہوں گے۔ ایک سایہ دار کیبن میں جب ہم سب بیٹھ گئے تو آندرے پوچھنے لگا۔ اس کا سوال بہت اہم تھا کہ اگر قرون وسطی کے عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ یہ ذخیرہ آب اگر اﷲ کی جانب سے مطعون اور لعین ہے تو وہ اس پانی کا جو دریائے اردن اس میں گراتا ہے، اس کے بارے میں کیا کہیں گے کیوں کہ اس آب مقدس میں تو حضرت عیسیؑ نے ڈبکیاں لے لے کر یوحنا کے ہاتھوں بتپسمہ لیا تھا یعنی غسل تقدیس۔ اس سوال سے میں یقین جانیے کچھ بوکھلا سا گیا لیکن میری اس کیفیت کو بھانپ کر عبدالقادر نے عجیب توجیہہ یہ کہہ کر پیش کی کہ حیرت کی بات ہے یہی سوال میں نے بھی مقامی عرب ہونے کے ناطے پروفیسر سے پوچھا تھا اور اس کا جواب انہوں نے مجھے یہ دیا تھا۔
اہل عقیدت کو جب اس حماقت کا احساس ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دریائے اردن کا پانی تو عیسائیوں کے لیے سب سے پاکیزہ ہو ہمارے آب زم زم جیسا اور بحیرۂ مردار کا یہ پانی ملعون۔ لیکن پروفیسر نے بتایا کہ یہ پانی جو دریائے اردن کا ہے وہ سمندر کی جانب آتے آتے ہی اس میں گرنے سے پہلے ہی خشک ہو کر ریت میں مل جاتا ہے۔ اس کی یہ وضاحت سن کر عیسائی چہرے شادمان ہوگئے۔ عبدالقادر کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور سیاحوں کی آنکھوں میں میری علمیت کی دھاک کے حریری پردے جھلملارہے تھے۔
اب کہاں چلیں؟ عبدالقادر نے سگریٹ جلاتے ہوئے پوچھا:
عبدالقادر میں نے سوچا ہے کہ اس خرافات سے بچنے کے لیے آئندہ میں ہر جگہ داخلہ فیس ادا کروں گا۔
آؤ سارہ کا بت نمکین دیکھتے ہیں۔ میں نے تجویز دی۔
وہ کہیں آوارہ گردی کرنے چلا گیا ہے میں ایک سنکی امریکی سیاح کے ساتھ دو ہفتے پہلے یہاں آیا تھا۔
ہم پورا دن اس کی تلاش میں خجل خوار ہوتے رہے۔ کئی اور لوگوں سے پوچھا۔ سب نے یہی بتایا کہ سارہ یہاں کئی ہفتوں سے دکھائی نہیں دی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بحیرہ ٔمردار کی پاتال میں مدفون اپنے پرانے پڑوسیوں سے گپ شپ کے لیے گئی ہو۔
چلو تو ہم جنوب میں گمراہ اور صدوم کے خرابے کی جانب چلتے ہیں۔
صدوم کی گمراہ کن بستی کی ایک نشانی
میری تجویز پر اس کا چہر ہ ایک دم سخت ہوگیا وہاں اس منحوس و ملعون بستی کی جانب آپ کیوں جانا چاہتے ہیں؟اﷲ نے اس جگہ کو مطعون کیا ہے۔ اس بستی پر اﷲ کا عذاب آیا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ نے وہاں مسلمانوں کو جانے سے روکا ہے۔
عبدالقادر تم جانتے ہو کہ میں تاریخ کا رسیا ہوں۔ میں خود ان بستیوں کی بربادی کا مشاہدہ کرکے ان افراد کو یہ ٹھوک بجا کر باور کرانا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی خالی خولی قصے کہانیاں نہیں۔
’’ چلو ٹھیک ہے۔ ‘‘ وہ بادل نخواستہ میری درخواست پر راضی تو ہوگیا مگر اس شرط پر کہ وہ وہاں سے دور گاڑی کھڑی کریگا اور وہ میرے ساتھ وہاں تک نہیں جائے گا۔ وہاں مجھے پیدل اکیلے ہی جانا ہوگا۔
اس راستے پر چلتے ہوئے میں نے غور سے ایک ایک چٹان اور پتھریلے وجود کو دیکھا لیکن وہ سارہ نافرمان کا مجسمۂ عبرت کہیں دکھائی نہ دیا۔ وہی مجسمۂ عبرت جس کے بارے میں عرب مورخ و سیاح مقدسی نے بھی لکھا ہے کہ چالیس فٹ کا وہ بت ایک عرب عورت کا ہیولا لگتا تھا جو خوف، عبرت سکتے اور پشیمانی سے اپنی بستی کو بدترین عذاب میں مبتلا دیکھ رہی ہو۔ پچاس کلو میٹر کے قریب جاکر وہ ایک درخت کے نیچے رک گیا۔ اب اس مقام سے میں آگے نہیں جاؤں گا۔ اشارہ کرکے مجھے کہنے لگا کہ سیدھے اسی سمت میں دو کلو میٹر جاکر وہ بستی ہے اگر آپ بضد ہیں تو وہاں تک آپ کو پیدل جانا ہوگا۔
میں نے ہمت پکڑی اور چل پڑا۔ سیاحت جوان مردی کا تقاضا کرتی ہے میرے وہ دوست جو میرے جنون سیاحت پر رشک کرتے ہیں وہ خود اپنے کمرے کے باتھ روم تک کا سفر کا بھی رو رو کر کرتے ہیں۔ سامنے صحرائی سڑک، سفید اڑتی ہوئی ریت، سورج عین سر پر۔ میں چلا جارہا تھا۔ میرے پاس بس ایک فون ایک ہیٹ اور پانی کی ایک بوتل تھی۔ ریت پر چلنا کتنا مشکل کام ہے۔ اس کا احساس مجھے اس دن ہوا۔ سفر بلاوجہ طویل لگتا ہے۔ ریت بھی ناہموار ہوتی ہے کہیں گہری تو کہین واجبی سی۔ ریت میرے جوتوں میں بھی گھس گئی تھی۔ میں نے ورزشاور غذا سے اﷲ کی مہربانی سے خود کو بہت فٹ رکھا ہے مگر یقین جانیے سوا دو کلو میٹر کا یہ سفر میرے لیے بھی آزمائش تھا۔ اب مجھے مٹی کا ایک بہت بڑے پیالے جیسا خرابہ نظر آیا یہاں کوئی بورڈ نہ تھا عرب بدو اسے دشت لوط کہتے ہیں۔ یہاں صرف ٹیلے تھے مجھے لگا کہ ایک بڑے سے ٹیلے کے نیچے وہ سب بدبخت دفن تھے جوحضرت لوط علیہ السلام کے پیغام کا مذاق اڑاتے تھے اور ہم جنس پرستی کی علت میں پڑے تھے یہاں تک کہ اﷲ کا عذاب آگیا۔ مقامی بدو اسے دشت لوط کہتے ہیں مگر اسے آپ ایران اور بلوچستان کی سرحد پر واقع صحرا سے مکس اپ نہ کریں وہ بھی بہت بے رحم اور بے آب و گیا ہ ہے اور دنیا کے پچیس بڑے صحراؤں میں شامل ہوتا ہے۔
دشت لوط
مجھے یقینا خیال آیا کہ میں کسی بے نام بڑی سی قبر پر کھڑا ہوں۔ اﷲ جب کسی کو ذلت دے تو اسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔ اہل صدوم کی ذلت کی اس سے بڑی کیا علامت ہوگی کہ یہ گناہ ہی اسے شہر کے نام یعنی صدوم سے منسوب ہوگیا ہے۔ انگریزی میں مرد ہم جنس پرست کو Soddomite کہتے ہیں۔ ویرانگی میرے لیے کوئی نئی کیفیت نہیں میرے بے چین قدم مجھے الاسکا امریکاکہ ان سرد مقامات پر بھی لے گئے جن کی بستیوں میں آپ رہیں تو تین ماہ بعد آپ کو سرکار اس قربانی کا باقاعدہ مشاہرہ دیتی ہے۔ میں افریقا کے ان جنگلوں میں بھی گھوما ہوں جہاں سورج کی کرنوں کو درختوں کی شاخوں سے چھن کر آنے میں الجھن ہوتی ہے۔ یقین جانیے جو گھن اور کراہت آپ کو اس مقام پر محسوس ہوتی ہے وہ کہیں بھی شاید نہ ہو۔ جنس کے کاروبار والی ان تجارت گاہوں میں بھی جو اب بھی اﷲ کے عذاب سے محفوظ ہیں، وہاں بھی
ان کے لعنتی ہونے کا وہ احساس نہیں ہوتا جو اس مقام مکروہ پر ہوا۔ (جاری ہے)
گندھک کے سلگتے پتھر جن کی آسمان سے برسات ہوئی تھی
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...