... loading ...
پچھلی قسط میں عرض کیا تھا کہ بیگم ایدھی کی جانب سے اس حاملہ بچی کی اولاد نازلی اور رچرڈ کو دینے کے لیے ہمیں ایک دو ماہ انتظار کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔
اگلے دن وہ تینوں کسی کے ہاں کھانے سے رات کو لوٹ رہے تھے۔ واپسی پر وہ ایک ایسے راستے سے گزرے جہاں ایک کھلی جگہ پر ریسٹورنٹ تھا۔ یہاں لوگ شیشہ پی رہے تھے۔ رچرڈ نے ضد کی کہ وہ یہاں کچھ دیر بیٹھ کر شیشہ پیے گا۔ نازلی نے احتجاج کیا کہ شیشہ صحت کے لئے اچھا نہیں مگر رچرڈ نے ضد کی کہ کبھی کبھارسے کوئی فرق نہیں پڑتا اور کراچی میں تو ویسے بھی اتنا کاربن فضا میں موجود ہے کہ یورپ کے بعض صنعتی شہروں میں اس سے کم کاربن وہاں کی فضا میں ہوگا۔ وہ کہنے لگا کہ برصغیر کے کچھ شہروں میں ستر فیصد فضائی آلودگی وہاں کی گاڑیوں کی وجہ سے ہے۔
جب وہ بیٹھ کر وہاں عربی قہوہ اور شیشہ پی رہے تھے تونازلی کچھ کھوئی کھوئی اور چپ چاپ سی تھی خاکسار نے اس سے اردو میں پوچھ ہی لیا کہ وہ کیوں اتنی اداس ہے۔ ؟
نازلی نے ایک دھماکا کیا کہ’’ وہ اس لڑکی کی بچّے کو گود نہیں لینا چاہتی‘‘۔
وہ کیوں؟ میں نے اس سے استفسار کیا۔
کہنے لگی کہ “اس کا کلیجہ اس خیال سے ہی کٹ رہا ہے کہ لڑکی کے ساتھ ایک تو پہلے ہی بہت ظلم ہوا۔ وہ بمشکل موت کے منہ سے واپس آئی ہے، بچہ پیٹ میں ہونے کی وجہ سے وہ جس جذباتی کرب سے گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ ایک عورت ہونے کے ناطے وہ بہت اچھی طرح کر سکتی ہے۔ دوسرا ظلم اس لڑکی پر یہ ہوگا کہ جب بچہ پیدا ہوگا تو اس بچے کو اس سے یہ کہہ کر جدا کردیا جائے گاکہ اس کی موت واقع ہوگئی ہے اور اسے خاموشی سے دفنا دیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے ادارے والے، اُسے بچہ پہلے بھی نہ دیتے۔ اس کا جذباتی پہلو کچھ بھی ہو مگر ان کا فیصلہ دور رس، بے حد پریکٹیکل اور عمدہ ہے۔ اس کا تکلیف دہ پہلو بھی ہے مگر اس کی عملی افادیت اس کی جذباتی نا آسودگی پر بہت بھاری ہے۔ ان کی کوشش یہ ہی ہوگی کہ لڑکی واپس اپنے والدین کے پاس چلی جائے اور یہ راز کہ وہ ایک بچے کی ماں بن چکی ہے ہمیشہ کے لئے اس گھر کی چار دیواری میں دفن ہوجائے جہاں اس نے بچے کو جنم دیا۔ میرے لئے یہ سارا معاملہ ایک بہت بڑااخلاقی تضاد ہے اور میں اس سے سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ ”
اس بیان کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، رچرڈ نے کھڑے ہوکر اپنے کرتے کے دامن سے اس کے آنسو پونچھے۔
نازلی نے ہچکیوں کے درمیان اسے بتایا کہ ” اس نے آج مغرب کی نماز میں اللہ سے دعا کی ہے کہ اسے کوئی اور بچہ گود لینے کے لیے دے۔ اس لڑکی کا بچہ وہ نہیں لے گی۔ ”
رچرڈ نے اس سے درخواست کی کہ ” کیا وہ کچھ اور بندوبست نہیں کرسکتا۔ ؟”
نازلی کہنے لگی وہ تین دن بعد واپس فرینکفرٹ چلی جائے گی۔ اگر کل کچھ ہوجائے تو اچھا ہے وہ دو دن کے لئے رچرڈ کو پرانا لاہور دکھانا چاہتی ہے۔
خاکسار چونکہ صبح خود تو سرکاری طور پر مصروف تھا لہذا وہ نعیم اور عنبرین کو گاڑی کے ساتھ بھیج دے گا۔ نعیم اس کا ایک بہت سمجھدار اور تعلقات والا افسر ہے۔ وہ چاروں واپس اس ادارے کی سربراہ کے پاس جائیں، ان کو اپنی مشکل بتادیں، اللہ مسبب الاسباب ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی حل نکل آئے۔
واپسی پر انہیں اس ادارے کی کلفٹن برانچ پر رکھا ہوا جھولا دکھایا جس میں بعض دفعہ لوگ خاموشی سے اپنے بچے ڈال جاتے ہیں۔
اگلے دن جب یہ چاروں سینٹر پر پہنچے تو مسز ایدھی انہیں وہاں دیکھ کر شدید برہم ہوگئیں اور فرمانے لگیں’’ کیا سمجھتے ہو تم لوگ، بچہ لینا کوئی نانی واڑہ (نانی کا آنگن) ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ تمھارے پاس دولت ہے تو تم ساری دنیا خرید سکتے ہو، ۔ چپ کرکے یہاں کونے میں بیٹھ جاؤ جب تک میں نہ بولوں، یہاں سے ہلنا نہیں ورنہ آئندہ میرے سینٹر پر مت آنا۔ رچرڈ تو بے چارہ اس کی ڈانٹ کھا کر کمرۂ ملاقات سے باہر نکل گیا اور باہر گلیوں میں ٹہلنے لگا۔ جس معاشرے کا وہ فرد تھا وہاں گفتگو کبھی بھی ان الفاظ میں یا اس طور نہ ہوتی تھی۔
نازلی کو یہ فکر ہوئی کہ وہ ان پرانی کراچی کی گلیوں میں گم نہ ہوجائے، لہذا اس نے آنکھ کے اشارے سے نعیم کو اس کے ساتھ باہر رہنے کو کہا اور خود اس سوچ میں پڑگئی کی ادارے کی سربراہ نے انہیں سب کے سامنے ڈانٹ کو چپ چاپ بیٹھ جانے کو کیوں کہا؟
آج مسز ایدھی کا موڈ بہت خراب لگ رہا تھا۔ بچہ گود لینے کے لئے جتنے بھی جوڑے آئے ہوئے تھے تقریباً سب ہی کو ڈانٹ پڑ رہی تھی۔ نازلی نے سوچا کہ آخر میں وہ اس کا اور رچرڈ کا نہ جانے کیا حشر کریں گی۔ جب ملاقاتی ہال سے آخری جوڑا رخصت ہوا تو ا نہوں نے دروازہ بند کرنے کو کہا اور والنٹیئر کو حکم دیا کہ اس کے میاں کو بھی اندر بلالے۔ رچرڈ ڈرتے ڈرتے ہال میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے دھڑ سے دروازہ بند ہوگیا، نعیم بے چارہ ہال کے باہر ہی رہ گیا۔ نازلی کی ہمت نہ پڑی کے وہ اسے بھی اندر بلانے کا کہے۔
رچرڈ کے اندر آتے ہی وہ کچھ کہا گیا کہ جس کی وہاں موجود کسی بھی فرد کو ہرگز توقع نہ تھی۔ مسز بلقیس ایدھی نے کہا”چل تیرے کو تیرا بچہ دوں”۔ وہ انہیں عین اس جگہ لے گئیں جہاں کل ان کی ملاقات اس لڑکی، وہاں موجود بچوں اور وہاں کام کرنے والی والنٹیئرزسے ہوئی تھی۔ چند قدم کا یہ فاصلہ عنبرین، نازلی اور طیب کو بھی صدیوں کی مسافت لگا۔
جب وہ اندر پہنچے توانہوں نے ایک بی بی کو کہا ” الماس! جا وہ بچی لے آ۔ ”
وہ گئی اور برابر کے کمرے سے ہلکے گلابی Fluffyکمبل میں لپٹی ایک کومل سی بچی لے آئی جو آنکھیں کھولے اپنے نئے ماں باپ کو دیکھے جاتی تھی۔ بچی خوبصورت بھی تھی اور کمبل کو دیکھنے سے لگتی تھی کہ وہ کسی اچھے گھرانے کی تھی۔ اس کی ناف پر جو ایک کلیمپ clamp لگا تھا۔ وہ یہ ظاہر کرتا تھا کہ اس کی پیدائش بھی بحفاظت اور صحت مندطریقے سے ہوئی ہے۔ بچی کو پیدا ہوئے ایک آدھ دن سے زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔
مسز ایدھی نے نازلی کا ماتھا چوما اور آہستہ سے دعا دی کہ ” اللہ تیرا اور اس کا دونوں کا نصیب اچھا کرے۔ تیرا میاں بہت اچھا آدمی ہے، ادھر کے ہمارے مردوں جیسا وائڑہ (سندھی میمنی اور گجراتی زبان میں غیر سنجیدہ اور نخریلا) نہیں۔ کل رات کو ساڑھے دس بجے ہمارے وہ کلفٹن والے سینٹر پر ایک ٹیکسی آکے رکی۔ ہمارے سینٹر کا انچارج باہر ہی کھڑا تھا۔ جو بڑی بی بچی کو جھولے میں ڈالنے کے لئے گاڑی سے اتری تھی وہ گھبرا گئی مگر ہمارا انچارج بولا کہ میں اندر چلا جاتا ہوآپ فکر مت کرو اور بچی کو ڈال دو تو عورت نے بچی کو اس کو دے دیا اور خود چلی گئی ٹیکسی میں بیٹھ کے۔ ”
سادہ لوح نازلی نے پوچھا کہ اچھا وہ لوگ ٹیکسی میں آئے تھے۔ ؟
مسز ایدھی کہنے لگیں “اب وہ ٹیکسی میں آئے تھے کہ پانی کے جہاز میں تو اتنی پنچات(فکر) کیوں کرتی ہے۔ تو اور تیرا میاں فارم پر سائین کر اور بھاگ بچی کو لے کر۔ ایک سال بعد تو اس کا فوٹو بھیجنا۔ ‘‘
جس وقت وہ فارم پر سائین کررہے تھے ادارے کی سربراہ کہنے لگیں”یہ مالدار لوگ ادھر ٹیکسی میں آتے ہیں بچے ڈالنے، گھر کے مردوں اور ڈرائیوروں سے چھپانا ہوتا ہے بات کو، اپنی گاڑی کا نمبر بھی چھپانا ہوتا ہے نا گھیلی(پاگل)۔ ادھر یہ چھوڑ کر گئے اس کو ادھر میرے کو سیل فون پر انچارج کا فون آیا، میں بولی اس کو فوراً تو ادھر ایمبولنس میں ڈال کر پارسل کر میرے پاس۔ آج تیرا وہ بوائے فرینڈ نہیں آیا۔ کیا ناراج (ناراض)ہوگیا ہے میرے سے۔ وہ جرا (ذرا) ناجک (نازک)مزاج لگتا ہے۔ آفیسر ہے نا۔ میرا میاں اس کی بہت تعریف کرتا ہے۔ ۔ بولا کہ اپنے کو اُسکا کام جرور (ضرور)کرنا ہے۔ ‘‘
وہ ہدایت دینے لگی کہ” نوزائیدہ بچوں کو شروع میں یرقان ہوجاتا ہے وہ جائے اور پہلے اس کا ٹیسٹ وغیرہ کرائے اور وہ اس کا نام کیا رکھے گی۔ اس کے بعد میونس پالٹی(میونسپلٹی) سے اس کا برتھ سارٹی فیکیٹ(سرٹیفکیٹ) بنے گا وہ جو تیرا دوست ہے نا اس کو بولے گی تو سارا کام فون پر ہوجائے گا۔ دیکھ تیرے ساتھ اپنے دو فرشتے بھیجے ہیں نا۔ یہ مارا ماری کرکے سب کام کردیں گے۔ ہمارے ادھر آفیسروں کا بہت جور (زور) ہے۔ سمجھ لے اللہ دین کا جن ہوتے ہیں ان لوگ۔
“مبارکہ ‘‘ نازلی نے تمام تفصیلات میں صرف نام بتانے کو مناسب جانا۔
نعیم نے بچی کے ہاتھ میں پانچ سو روپے کا ایک نوٹ دیا۔ نازلی انکار کرتی رہی مگر نعیم کہنے لگا کہ یہ ہماری طرف رسم ہے۔
مسز ایدھی نے اس پر کہا کہ بچی خوش نصیب ہے۔ جس پرنازلی نے اپنا پرس کھول کر جتنے ڈالرز تھے وہ تو ان کے عطیات کے بکس میں ڈال دیئے اور پاکستانی نوٹ وہاں عملے میں تقسیم کردئیے، عملہ پیسے لینے پر رضامند نہ تھا۔ وہ یہ سب خدمت بے لوث جذبے کے طور پر کرتے تھے، مگر جب نازلی نے بہت اصرار کیا اور یہ کہا کہ یہ سب کچھ اتنی اچانک ہوا ہے، اسے اپنی اور میاں کی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا۔ اگر وہ کوئی غلطی کرے تو اس کی معافی دی جائے۔
ایدھی صاحب کے مرکز پر اس وجود متروکہ کے ایسے بھاگ جاگے کہ مبارکہ بی بی کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ اسی دن، جرمنی کا پاسپورٹ دوسرے دن بن گیا۔ آغا خان ہسپتال میں اسے کراچی کی سب سے مشہور ماہر امراض طفل پروفیسر در شہوار اکرم( جو پاکستانی مندوب منیر اکرم کی ہمشیرہ ہیں )نے اس کا خاکسار کی درخواست پر تفصیلی طبی معائنہ کیا، ہسپتال سے نکل کر یہ معصومہ سیدھی کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے بزنس سوئیٹ میں رہنے پہنچ گئی اور پاسپورٹ جاری ہونے کے پانچویں دن اپنے گھر اپنے دادا دادی کے پاس گاؤں جا پہنچی وہاں ان کی بڑی جائیداد تھی، رچرڈ ان کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے اس جائیداد کا تنہا وارث تھا بلکہ اسکی بیوہ نانی کی جائیداد بھی اسے ہی ملنی تھی جو جرمنی کی ایک مالداریہودن تھی۔
سوچ کے کئی متوازی دھارے ہیں جو ذہن میں بہتے ہیں:
نازلی اور رچرڈ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس جدوجہد میں نازلی کے اس لڑکی کے ہونے والے بچے کو گود نہ لینے کے فیصلے کا کیا کردار تھا۔
خاکسار، ندیم اور عنبرین، جو اس پوری کاوش میں شریک رہے، یہ کردار اس ایک نصیب دار وجود کو اپنے والدین تک پہنچانے میں اللہ نے کہاں سے ایک نقطہ پر جمع کردیے۔ وہ بچی مبارکہ، اسکی ماں کی بے خبری اور نصیب کا کیا کردار تھا، کیا اس کے ماں کو پتہ ہوگا کہ اس کے بچی کس ناز و نعم میں پلے گی۔ کیا زندگی میں نصیب سے بڑھ کر بھی کسی اور شے کا دخل ہے؟
ہندوستان کا مشہور اداکار راج کپور کہا کرتا تھا۔ “ماں جنم دے سکتی ہے، کرم(نصیب) نہیں دے سکتی۔ “مبارکہ کی ماں نے بھی اسے صرف جنم دیا تھا اور اسے کرم رضائے الہٰی سے ملا تھا۔
ائیرپورٹ پر جب اس نے دعا دیتے ہوئے مبارکہ کو چوما، نازلی اور رچرڈ کو گلے لگایا تو آہستہ سے وقتِ رخصت ائیر پورٹ پر اداکار راج کپور کے الفاظ دہراتے ہوئے صرف اتنا کہ ” The Show must go on! ”
سات آٹھ برس بعد نازلی اسے ایک دن اتفاقاً چارلس ڈیگال ایرپورٹ پر بیٹھی Skype پر مل گئی موسم کی شدید خرابی نے اس کی فلائٹ کا معمول درہم برہم کردیا تھا۔ اس نے بتایا کہ مبارکہ، کو خیر سے اب ساتواں برس لگ گیا۔ رچرڈ کی والدہ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد سوئٹزرلینڈ کے علاقے انٹر لاکن میں ان کے گھر منتقل ہوگئی ہیں۔ وہ سب وہاں رہتے ہیں۔ مبارکہ بھی انہیں کے ساتھ ہے۔
اسے انگلستان کی شہزادی بیٹریس، دوبئی کی شیخا حیا اور ٹینس کی مشہور کھلاڑی مارٹینا ہنگز کی طرح گھڑ سواری کا بہت شوق ہے۔ ساتویں سالگرہ پر دادی نے اسے ایک دس ہاتھ کا شیٹ لینڈ پونی (چھوٹے قد کے گھوڑے) تحفے میں دیا ہے۔ جس کا نام اس نے فرانسیسی زبان میں Filou(شریر لڑکا ) رکھ دیا ہے۔ پڑھائی میں اسے کوئی خاص دل چسپی نہیں۔
پڑوس میں رہنے والی ایک ہندوستانی فیملی کی وجہ سے ستار بجانے اور گانے میں بہت مزا آنے لگا ہے اور فلم نوبہار کا گیت اے ری میں تو پریم دیوانی میرا درد نہ جانے کوئی، موہئے پنگھٹ پر نند لال چھیڑ گیو رے اور اے دل ناداں آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے، بہت عمدگی سے گاتی ہے۔ اسکول میں تیراکی کی چیمپیئن ہے۔ اس نے جب کہا کہ مبارکہ کو یہ پرانے گانے کیوں گانے کا شوق ہے تو نازلی ہنس کر کہنے لگی کہ I think she has an archiac soul like her dad(میرا خیال ہے کہ اس میں بھی والد کی طرح کسی قدیم روح کا بسیرا ہے) وہ بھی بیتھون، شوپن اور موزارٹ کی سمفنیاں اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر سنتا ہے۔ دوسرے موسیقی جو عورت یعنی ہماری پڑوسن سکھا تی ہے اسے ہندوستان چھوڑے تیس برس سے اوپر ہوگئے۔ اسی نے اس کے لئے چھوٹی ستار بنارس سے منگوائی ہے۔
اسے ایدھی صاحب کو یا ان کی بیگم کو یہ سب بتانے کا موقع نہیں ملا۔ مجھے یقین ہے وہ یہ سب سن کر خوش ضرور ہوتے مگر یہ دونوں میاں بیوی تو نیکی کر دریا میں ڈال قسم کے لوگ ہیں جن کے لیے غالب نے کہا تھاع ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہوگا۔ ایسے کئی واقعات ہوں گے جو ان کے ان مراکز خدمات سے جڑے ہوں گے۔ ہر وہ بے آسرا اور دل شکستہ وجود جو اللہ نے ایدھی صاحب کی وجہ سے سنوارا وہ یقینا ان کے حق میں صدقہ جاریہ ثابت ہوگا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ وہ جو کذب و ریا، ظاہری حلیے کی تبدیلی، بیان کی چاشنی اور تشدد کو دین کو سمجھ بیٹھے ہیں اللہ ان کے گمراہ قلوب کو ایدھی صاحب کی تقلید میں بے لوث خدمت انسانی کی جانب پلٹ دے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...