... loading ...
ایدھی صاحب سے میری پہلی ملاقات 1983 ء کے وسط میں چھاجوں برستی ہوئی بارشوں میں ہوئی ۔تب تک بھارتی فلم ’’نمک حلال‘‘ ریلیز ہوچکی تھی۔تین موٹی کیسٹوں والا وی سی آر اور پلاسٹک کے کیس میں لپٹی نازک سی آڈیو کیسٹوں پر ہم اس کا وہ جان لیوا گانا بہت شوق سے سنتے اور دیکھتے جس میں امیتابھ بچن اور سمیتا پاٹل ایسی ہی برستی برسات میں لہرا لہرا کر گاتے ہیں کہ ع
چند دن بعد خاکسار نے جب بوڑھے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سائیں لطف علی خاصخیلی کو ازراہ تفنن کہا کہ ’’ کہ نصیب کی بات ہے ، برسات میں امیتابھ کو امیشا پاٹل جیسے لوگ ملتے ہیں ہمیں آپ اور ایدھی صاحب نصیب ہوئے۔‘‘انہوں نے قربت شاہ کے حصول میں یہ جملہ ڈی سی صاحب کو سنایا تو وہ کہنے لگے
Oh! I miss her too
ضلع غربی کے سا ئٹ والے دفتر میں ڈپٹی کمشنر خالد سعید صاحب کب سے سر تھامے بیٹھے تھے۔سولجر بازار کی موبائل بھیج کر مجھے اپنے گارڈن ایسٹ والے گھر سے طلب کیا گیا۔سرجانی کی کچی آبادی سے کچھ یہی کوئی سوا سو کے قریب خاندان برسات سے عاجز آن کر سرکاری اسکول میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ وہ کھدبداتے چینلوں والے میڈیا سے لاعلم ، سیل فون سے انجان معاشرہ تھا ۔وائرلیس بھی نہ تھے ، موت کوئی نہ ہوئی تھی ۔مگر ڈی سی اور ایس پی صبح چھ بجے سے پریشان بیٹھے تھے کہ ان کے قیام طعام اور علاج کا کیا کیا جائے۔
اس کی نسبت وہ بھی دن تھے کہ بے نظیر پر قاتلانہ حملے کے سلسلے میں ہونے والے 2007ء کے فسادات کی وجہ سے باقاعدہ وائرلیس پر پیغام دیا گیا کہ تھانے کی نفری کو علاقے میں جاکر عوام سے الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ، تھانے کے مین گیٹ بند کرکے نفری کو اندر رکھیں اور حالات کے نارمل ہونے پر نئی ہدایات کا انتظار کریں۔ضلع میں ایسے ہنگامی فنڈز نہیں ہوتے تھے۔ ڈی سی خود 1972 ء کی سفید کرولا میں نجی نمبر پلیٹ لگائے گھومتا تھا۔نہ ہری نیلی تفاخر بھری کارکردگی زیر و ظاہر کرنے والی نمبر پلیٹں تھیں نہ گن مین،اب تو ایسا لگتا ہے کہ تین چوتھائی انتظامیہ ایک چوتھائی بالائی افسران کی حفاظت میں ہلکان ہورہی ہے۔
ان بے سہارا لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کرنا تھا۔ کچھ رقم لے کر گن پوائنٹ کے خوف سے بے نیاز،مشہور سگریٹ کے۔ ٹو کے مالک مغل ٹوبیکو والے ہاشم سیٹھ آگئے تھے۔ میرا ذمہ میمن ہونے کے ناطے یہ ٹہرا کہ ایدھی صاحب سے تمام تر رابطہ میرا ہوگا۔ وہ کھارا در سے نکل کر اپنے نو تعمیر شدہ سہراب گوٹھ والے مرکز پر آنے کے لیے نکل گئے تھے۔میں انہیں لے کر دفتر آیا تو انہیں لگا کہ سیٹھ ہاشم کو غریبوں کی امداد سے زیادہ شاہ کی حضوری مطلوب ہے۔
گفتگو مختصر کرکے ڈی سی صاحب کو کہا ۔’’آپ سیٹھ کے ساتھ یہاں باقی انتظامات کرو ۔میں اور دیوان صاحب کھانے اور ڈاکٹر کو لے کر وہاں جائیں گے۔ تین دن کیمپ میں قیام اور طعام کا ذمہ ایدھی صاحب کا رہا۔ بعد میں سیٹھ ہاشم نے اپنے طور پر ان بے سہارا افراد کی کوئی امداد کی ہو تو مجھے علم نہیں۔ وہ اچھے آدمی تھے۔
15 اپریل 1985 کی وہ رات بہت بھیانک تھی۔صبح سویرے بہاری ڈرائیور راشد حسین کی منی بس نے سرسید کالج کے سامنے اس کی تین طالبات کو کچل دیا تھا ۔ہندوستان چونکہ۔گولڈن ٹمپل کے ناکام آپریشن ، اندرا گاندھی کے قتل اور ا س کے نتیجے میں دہلی میں تین ہزار سکھوں کا قتل سبھی میں پاکستان کا ہاتھ دیکھ رہا تھا۔ لہذا اس نے K for K یعنی خالصتان اور کشمیر کا بدلہ کراچی میں کی پالیسی کے تحت کراچی میں پختون مہاجر فسادات کی آگ بھڑکا دی۔ایک اندو ہ ناک حادثے کو اس نے فسادات پیہم کا روپ دے دیا۔
بوڑھے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سائیں لطف علی خاصخیلی دفتر کے غسل خانے میں ڈی سی صاحب کے دفتر میں ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر میجر جنرل شیر افضل کی اچانک آمد اور اس کے ساتھ ہی خاصخیلی صاحب کی فوری طلبی پر وہ کچھ ایسے ہڑبڑائے کہ غسل خانے میں گرے تو پہلے سے گوشت سے محروم کولہے کی ہڈی بے قدروں کی یاری کی طرح چٹخ گئی۔ باتھ روم کا دروازہ گھوڑا رے گھوڑا کی چیخوں پر ایس ایس جی کے کمانڈوز نے توڑا ۔ شلوار کا ازار بند باندھنے اور انہیں باتھ روم سے لاکر صوفے تک لٹانے کا مرحلہ بھی ان ہی آہنی ہاتھوں کے ذریعے طے ہوا۔
اس نازک مرحلے پر ایک دفعہ پھر فوری جانشین کی طلبی ہوئی تو نخل دار پر بقول میرؔ سر منصور کا ہی بار آیا۔اب کی دفعہ اتنی احتیاط ہوئی کہ خاکسار کے آستانے پر خفیہ ایجنسی کے میجر اعظم اس ہدایات کے ساتھ پہنچے کے دفتر آن کر کرفیو پاس کے انتظامات کی بجائے پہلے سیدھا اورنگی تھانے جاکر گٹر میں موجود چند لاشوں کی تدفین کا انتظام کیا جائے۔
میجر اعظم دل چسپ اور روشن خیال آدمی تھے۔ سویلین افسران سے مرعوب دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے تجویز مان لی کہ یہ پیچیدہ سا کام نرا پولیس کی بہو بیٹیوں کے بس کا نہیں ۔ اس میں کئی مراحل ہوں گے ۔ہم اورنگی تھانے سے پہلے سہراب گوٹھ کے ایدھی ہوم پہنچے۔ آمد کی اطلاع ہوئی تو فقیر منش ایدھی صاحب نے نیند سے بیدار ہوکر منہ پر پانی کا چھینٹا مارا اور چلنے کے لیے تیار ہوگئے ۔ ان کا لباس تھا ۔ملیشیا (سرمئی رنگ کا ایک سادہ موٹا کپڑا جسے غریب محنت کش پہنتے تھے) کا چوڑے پائننچوں والا گجراتی پاجامہ اور آڑا ٹیڑھا سلا ہوا کرتا ۔جس کی سامنے کی جیب کبھی ایک سیدھ میں نہ ہوتی اور سائیڈ کی جیب ہمیشہ سردیوں میں دریا کنارے پڑے مگر مچھ کی مانند منہ کھولے رہتی تھی ۔ اس سوٹ کو پہنے وہ سورہے تھے۔ یہ سوٹ ہمیشہ وہیں ایدھی ہوم کی کوئی پناہ گزین سلائی سے معمولی شد بد رکھنے والی عورت سی لیتی تھی۔اسی لباس عاجزانہ میں وہ چل پڑے۔علاقے کے گٹر میں اڑسی ہوئی لاشوں تک تھانے کا عملہ لے گیا تھا۔ کسی نے ان مزدوروں کو قتل کرکے وہاں پھینک دیا تھا۔پولیس کو کہیں سے واردات کی خفیہ اطلاع ملی تو بات آگے بڑھی۔ ایدھی صاحب نے بہ نفس نفیس خود ان ہولناک لاشوں کو گٹر سے نکالنے میں مدد کی۔ ہم انہیں لے کر عباسی شہید ہسپتال آگئے۔ایدھی صاحب کو ہماری پرانی مون سون والی ملاقات یاد تھی۔
سرکاری ملازمتوں میں میمن ہندووں سے بھی کم ہیں۔وہ اس بات پر خوش تھے کہ میں ان ہی کی طرح دو دوّنی چار کے چکر میں باپ کے کاروبار میں نہیں پڑا۔ تب تک انہوں نے میرے سارے خاندان کے کوائف نکال لیے تھے جن میں میرے کچھ بڑوں کے جو جوناگڑھ کے وزیر بھی تھے۔ ان کے نام انہیں یاد تھے۔
لاشوں میں اٹھنے والے تعفن اور کھدبداتے کیڑوں کودیکھ کر ہسپتال کا مردہ خانے اور باتھ روم کی صفائی کا عملہ بھاگ گیا۔اس مشکل کو دیکھ کر ایدھی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لاش کو غسل دینا اور کفن دفن کرنا آتا ہے؟‘‘ اس استفسار پر مجھے بڑی خجالت ہوئی۔
میری اس بے بسی کو انہوں نے ایک موقع شفقت میں بدل دیا۔ فرمانے لگے ’’ہر مسلمان مرد کو نکاح پڑھانا، دولہا بنانا، غسل دینا اور میت کو دفن کرنا آنا چاہیے۔‘‘
جانے کیوں مجھے یہ دو اہتمام کچھ بے جوڑ اور بناسنگت لگے۔میں نے کسی لمحے کے توقف کے بغیر پوچھ لیا ۔’’کس کی دولہا کی میت کو؟‘‘ میرے جواب پر انہوں نے جیب میں اڑسا ہوا موٹا سا چشمہ ناک پر ٹکایا۔ غور سے دیکھا اور اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھ دیا۔
آپ کو اگر یاد ہو کہ کچھ دیر پہلے ایدھی صاحب لاشوں کی گٹر سے برآمدگی میں کس حد تک چلے گئے تھے تو آپ کو یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ بیوروکریسی جو اپنی نازک سی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتی ۔اس کا اس بدبو سے کیا حال ہوا ہوگا۔میرے جملے پر وہ دریا ئے مہربانی پھر سے رواں ہوا اور کہنے لگے ’’میمن ہو اس لیے مجاک (مْذاق) کرلیتے ہو ۔ کھالی (خالی )بیوروکریٹ ہوتے تو ہر وکت (وقت) جیب میں تھگلے( پیوند ) لگاتے رہتے۔‘‘
میں گرم پانی ڈالتا رہا اور وہ لاشوں کو دھوتے رہے۔کیڑے جو لاشوں سے باہر نکل نکل کر ہسپتال کے فرش پر رینگ رہے تھے۔ ان کو مارنے کے لیے میرے ہاتھ میں ایک اسپرے کا کین تھما دیا گیا ،یہ کہہ کر بیورکریٹس والا اپنا مار دھاڑ کا شوق بھی پورا کرلو۔
میں نے موقع غنیمت جان کر پوچھ لیا کہ ’’ انہیں سب لوگ ایدھی کیوں کہتے ہیں؟ یہ تو ایک منفی صفت ہے۔ ہندی ،گجراتی زبان اور میمنی میں جو سندھی زبان اور گجراتی زبان کی ملی جلی بولی ہے ۔میمنی نے گجراتی کو گلے لگانے کی کوشش میں سندھی زبان کے حلق میں سوجن پیدا کرنے والے کرخت حروف صحیح، کھوکراپار اور کیٹی بندر کے اس طرف چھوڑ دیے۔ایدھی ان تینوں زبانوں میں کام چور اور سست کو کہتے ہیں۔
وہ بتانے لگے کہ اوائل جوانی میں انہیں فلمیں دیکھنے اور صبح دیر تک سونے کا بہت ہڑکا تھا۔ ماں ناراض ہوکرانہیں ایدھی پکارتی تھی۔ اب یہی نام ناک کر طرح چہرے پر سج گیا ہے ۔ میرا ایک دوست تھا بچپن میں حج کیا تھا اس لیے سب اس کو حاجی کہتے تھے بعد میں اس نے جوا کی بک چلانا شروع کردی تو سب اسے حاجی جگاری (جواری ) پکارنے لگے۔اس کے بچوں سے بھی کوئی پوچھتا کہ تمہارے والد صاحب کون ہیں تو وہ کہتے تھے حاجی جگاری۔
مولانا انہیں جنرل ضیا الحق کے دور میں پکارا جانے لگا جنہیں اپنے اقتدار کو لبادہ تقدیس اور شرف قبولیت و منزلت بخشنے کے لیے ایسے غیر متنازع ناموں کی تلاش رہتی تھی ۔ایدھی صاحب انہیں کے زمانے میں مشہور ہوئے۔ ورنہ وہ عبادات سے بہت پرے دین میں مسلک فقیری و خدمت کے قائل تھے۔ وہ ہیئت( Form) سے زیادہ روح دین یعنی Substance کے قائل تھے۔ اشفاق احمد کے ڈیرے والے بابے کی طرح ایدھی صاحب بھی بہت پہلے سے جانتے تھے کہ نماز کی قضا ہے خدمت کی کوئی قضا نہیں۔
لاشوں کو غسل دینے کے دوران میں ان کی ایک موبائل جب عباسی شہید کسی زخمی کو لے کر آئی تو انہوں نے کفن اور مارکر لانے کو کہا۔ وہ یہ سامان دے کر چلا گیا اور ہم نے کفن دفن کرلیا تو ہر لاش کے کفن پر تاریخ اور ایک نمبر اور علاقہ لکھ دیا گیا۔اس دوران انہیں یاد آیا کہ وہ پولو رائیڈ کیمرہ تو منگانا بھول گئے۔میں نے پوچھا وہ کیوں تو کہنے لگے کہ دفن ہونے کے بعد کسی کا رشتہ دار آئے تو تصویر دیکھ کر وہ پہچان سکے کہ اس کا عزیز کس قبر میں دفن ہے۔ یہ تھی وہ کامن سینس جو ان کے جذبۂ خدمت کو مہمیز و ممتاز کرتی تھی۔ میں نے کہا کہ سہراب گوٹھ فون کرلیتے ہیں ، وہاں سے کوئی لے آئے گا۔ کہنے لگے نہیں چلو تم کو پیالہ ہوٹل کی چائے بھی پلاتے ہیں۔فلم والا کیمرہ آپ چلانا ۔پولا رائیڈ میرے کو آتا ہے۔چلنے لگے تو میجر صاحب کو انہوں نے ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا۔ اس لیے کہ تب تک دو عدد اور فوجی جیپیں اعانت کے لیے آگئی تھیں۔
وہاں موجود فوجی افسران اس فقیر عالی مقام کو دیکھ کر حیرت و تحسین کے ایک بحر بے یقینی میں ڈبکیاں لگا رہے تھے ،کہنے لگے میجر اعاجم(اعظم) آپ ادھر بندوق لے کر بیٹھو۔ پھل(فل) کمانڈ کے ساتھ۔کراچی میں لاسیں( لاشیں) بھی غائب ہوجاتی ہیں۔پیالہ ہوٹل کی چائے کا اثر تھا کہ جانے کیا سہراب گوٹھ تک ایدھی صاحب طلعت محمود کا اپنا پسندیدہ گیت گنگنا رہے تھے جس سے میرے بھی کان آشنا تھے کہ
یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی تری اک ادا پر نثار ہے
مجھے کیوں نہ ہو تیری آرجو (آرزو) تیری جستجو میں بہار ہے
صبح سے کچھ دیر پہلے ہم نے میجر جنرل شیر افضل کو باور کرانے میں کامیابی حاصل کرلی کہ اس ایدھی سیٹ اپ کے لیے ایک Dedicated Frequency والے وائرلیس نیٹ ورک کی ضرورت ہے تاکہ سینٹرز اور ایمبولینسوں میں رابطہ رہے۔
(جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...