... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
اسرائیل میں یوں تو دوران سیاحت مجھے متعدد دلچسپ ہستیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا مگر اس فہرست کا سب سے درخشاں نام بغیر کسی دقت کے عبدالقادر کے روپ میں مل جائے گا۔ فلسطین کی اگر اپنی کرکٹ ٹیم ہوتی تو میرے سفری رہنما عبدالقادر کے سارے بچے اس میں شامل ہوتے اور وہ خود اس کے چیئرمین پی سی بی ہوتے، یعنی فلسطین کرکٹ بورڈ۔موصوف گیارہ بچوں کے والد محترم اور 23 بچوں کے نانا یا دادا تھے۔اس قدر کثیر العیال ہونے کے باوجود حضرت کے طور اطوار ایک کھلنڈرے ،نپٹ ،لونڈے لپاڑوں جیسے تھے۔حس مزاح برجستہ،چبھتی ہوئی ،کٹھور اور کاٹ دار۔دو برس پہلے کہیں دل تھام کر بیٹھ گئے تھے تو بائی پاس ہوا تھا۔وہ آپریشن محض انہیں وقتی خرابی کا معالجہ لگا۔اس کے بعد کیسی احتیاط، کہاں کی چنتا، پرانے ریلوے انجن کی مانند سگریٹیں پھونک پھنک کر دھواں چھوڑتے تھے اور ہر کھانا غم نہ دارد کا نعرہ مستانہ لگا کر آخری کھانا سمجھ کر کھاتے تھے۔تمام فلسطینی عربوں کی مانند صلوۃ کی ادائیگی وقت پر کرتے تھے۔لیکن کیا مجال ہے کہ دوران صلوۃ بھی قرب وجوار سے کوئی دلنشین حسینہ گزر جائے تو اپنے سلام میں اسے بھی شامل نہ کریں ۔اس حوالے سے شیشہ ٔدل ہر وقت اُچھالتے رہتے تھے اس دویدا( ہندی میں الجھن ) کے بغیر ہی کہ، یہ کہیں روٹھ جائے گا ، یہ کبھی ٹوٹ جائے گا۔خواتین سے دل لگی اور چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں حضرت کا انداز بالکل اطالوی مردوں جیساپر اعتماد ،جرات مندانہ اور خوف خمیازہ سے بے نیاز ہوتا تھا۔ہمارے ہاں کے گیلی لکڑی کے دھوئیں یا برہا کی سیلی سیلی، سسکیاں بھرتی راتوں جیسے مردوں والا نہیں کہ بقول مصطفی زیدی مرحوم ع
حضرت موسیؑ کے مرقدعالیہ کی زیارت اور جیریکو کے سفر میں ہماری رفاقت نے زمان و مکان کی قیود کو کچھ اس سرعت سے پھلانگا کہ ہم اس عرصۂ قیام میں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے۔میرے پاس وہ تبدیلی قلب کی جراحی کے لیے آتے تو میں انہیں دنیا میں مشہور ترین جنوبی افریقا کیDe Beers کمپنی کے ہیروں سے مرصع 24 قیراط سونے کا دل لگادیتا ۔عبدالقادر کا دل نکال کر بطور ماڈل اپنے پاس رکھ لیتا اور اپنے سرجری کے طالب علموں کو بتاتا کہ مجروح اور شکستہ ہی سہی ایک اچھا انسانی دل دیکھو بالکل ایسا ہوتا ہے۔
میں جتنے دن اسرائیل میں رہا ہم دن کے آغاز سے رات کے پچھلے پہر ساتھ ہی رہے۔ہم نے کھایا ساتھ، ہنسے بھی ساتھ ہی۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میں اپنے سگار کے قیمتی ذخیرے سے اسے پینے کے لیے سگار کی پیشکش کرتا تو وہ اسے گناہ بے لذت کہہ کرٹھکرادیتا۔اس کے پھیپھڑوں کو دھونکنے کے لیے اسرائیل کے سستےNoblesse سگریٹوں میں چوری کے بوسوں کی لذت محسوس ہوتی تھی۔اس کے ساتھ کھانا کھانا بہت بڑا مرحلہ ہوتا تھا ۔بل کی ادائیگی پر وہ کسی لحاظ کے بغیر دست و گریباں ہوجاتا۔ مجھے اسے یقین دلانا پڑتا کہ میں بھی پرانا ہاشمی ہوں ،قبائلی ہوں میری بھی کچھ نسلی روایات ہیں۔کھانا کھلانا میرے لیے بھی باعث توقیر ہے۔وہ مجھے اپنا برادر گمشدہ ضرور سمجھے اور مجھ سے برادران یوسف والا سلوک نہ کرے۔
وہ مجھے اریحا ( جیریکو) سے رات گئے واپسی پر بحیرۂ مردار لے جانے کے لیے ہوٹل کے استقبالیے پر اگلی صبح چھ بجے ہی موجود تھا۔سفر کے جلد آغاز کا سبب یہ تھا کہ راستے میں ہمیں کئی چیک پوسٹو ں پر رکنا تھا۔کار میں بیٹھتے ہی عبدالقادر نے سفر کی دعائے نوح پڑھی اور ہم بحیرہ مردار کے طویل سفر پرچل پڑے۔سیاحوں ،سائنسدانوں اوراہلیان عقیدت کے لیے یہ مقام ہمیشہ سے بے حد دل چسپی کا حامل رہا ہے۔ میرے اندر یہ تینوں دل چسپیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔سیاحت مشغلہ ہے، سائنس اور تعلیم پیشہ اور عقیدت میرے تفکر کا نتیجہ ہے۔
بحیرہ مردار کو جانے Dead Sea کیوں کہتے ہیں۔سمندر تو وہ ہے بھی نہیں ۔وہ تو ایک بڑی سی جھیل ہے۔دنیا کا قدیم ترین آبی ذخیرہ جو سطح سمندر سے سب سے نچلی سطح پر ہے۔اس کے اطراف میں نمک کی پہاڑیاں ہیں۔ادھر ادھر سے بھولے بھٹکے چشمے اور ان ہی پہاڑیوں کی دراڑوں سے بہتا ہوا بارش کا پانی اس جھیل میں رستا رہتا ہے جسے باہر بہہ نکلنے کا کوئی راستہ میسر نہیں۔بحیرہ طبریا یعنی Seaof Galilee بھی دریائے اردن کے طفیل چوری چھپے اسے اپنا کچھ پانی دے دیتا ہے۔شدید گرم موسم اور خشک ہوائیں اسے بخارات بنا کر اڑاتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے برومائیڈ اور کلورین جیسے مادوں کی ایک کیچڑ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے اس میں اتنی نفوذیت یعنی osmolality ہوتی ہے کہ اس وجہ سے اس میں اجسام ڈوب نہیں پاتے۔ یہی وجہ کہ اس پانی کی کثافت سیاست دانوں کے ضمیر کی طرح ہلکی ہے۔آپ اس کی سطح پر لیٹ کر آرام سے کوئی بھی پاکستانی اخبار پڑھ سکتے ہیں جس طرح اس کی خبریں آپ میں نہیں ڈوب پاتیں ویسے ہی آپ بھی سطح آب پر ہاتھ پیر مارے بغیر تیرتے رہتے ہیں۔اس کی یہ نمکیاتی ہیئت اسے کسی بھی قسم کے جاندار کے لیے ناقابل نمو بنادیتی ہے۔اسی وجہ سے عرب اسے بحیرہ مردار کہتے ہیں۔قریب کی نمکین پہاڑیاں موسم کے ساتھ ریمپ پر اٹھلاتی ماڈلز کی مانند اپنے خدوخال بھی بدلتی رہتی ہیں۔عقیدت مندوں کو ایمان کو تقویت بخشنے کے لیے ایک ایسی ہی بڑی چٹان نے سارہ کا روپ دھار لیا ہے۔
بائبل نے حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان بیوی کو سارہ کے نام سے پکارا ہے۔ قرآن الکریم میں حضرت مریم کے علاوہ کوئی خاتون نام سے مذکور نہیں، نہ حضرت آدم اورحضرت ابراہیم علیہماالسلام کی ازواج نہ اُمہات المومنین نہ ہی ہمارے نبی پاکﷺ کی بنات العالی مرتبت۔ حتی کہ ابو لہب کی بیوی اروی بنت جمیل جو ابو سفیان کی بہن تھی اسے بھی امراتہٗ یعنی اس کی عورت کے ضمیر اشارہ سے پکارا۔
قرآن کا یہ اعجاز عظیم ہے کہ وہ بہت ہی Impersonal ہے۔ اس کے برعکس سورۃالتحریم کی آیت نمبر 66 میں حضرت نوح ؑ اورحضرت لوط ؑکی بیویوں کو ان کی نافرمانی کے باعث دوزخ کا ایندھن بنادیا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ الشعرا کی آیت نمبر 171 میں کہا گیا ہے کہ
ـ’’ ہم نے آخر کار اس کے سب اہل و عیال کو بچا لیا بجز ایک بُڑھیاکے جو مطعون افراد میں شامل تھی‘‘ مجھے لگتا ہے کہ سائنس کے فروغ سے پہلے انسانی ذہن بہت سادہ تھا۔ تخیلاتی باتوں کو زیادہ آسانی سے تسلیم کرلیتا تھا۔ایسا ہی کچھ اس چٹان والے بت کے ساتھ صحرائے یہودا میں ہوا جہاں خوف اور توہمات کے غلبے میں اس بے رحم گرد و پیش میں بائبل کا یہ بیانیہ بھی جڑ پکڑ گیا۔
صدوم اور گمراہ کی ان بستیوں کے جانب عقیدت کی جھولیاں پھیلائے ایک مخصوص طرز فکر کے سیاح اور راہ نورد شوق جوق در جوق آتے رہے۔ انہیں عقیدت کے شیرے میں لتھڑے جیالوں میں ایک صاحب جوزفس(Josephus ) بھی تھے۔ وہ یہاں پہلی صدی میں آئے تھے۔انہیں یہ نمکیاتی ٹیلے اور صدوم اور گمراہ کی عبرت انگیز داستانیں بہت عجیب لگیں۔ سب سے پہلے اُن ہی کو اس چٹان میں حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان بیوی کی جھلک دکھائی دی تھی ۔ان ہی نے یہ قصہ مشہور کردیا کہ یہ سارہ ہے ، حضرت لوط ؑکی مطعون بیوی۔ وہ بحیرہ مردار سے اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ اسے ’’ آگ کی بھٹی ‘‘ سے تشبیہ دے بیٹھا۔ اس کا پانی اسے سیاہ جھاگ اڑاتا لاوا دکھائی دیا جس پر ہمہ وقت دھوئیں کے بخارات بھرے بادل بلند ہورہے تھے ،جن کے چھینٹے ایک قہر بھری لعنت بن کر سارا کے اس بت کے چاروں طرف پڑرہے تھے۔
اس کے بعد کے اسی قبیل کے سیاحوں نے اس بیانیے کو تواتر سے فروغ دیا۔ تیسری صدی میں یہاں آئے ایک عیسائی راہب ٹرائی رس نے ایک سیاہ نابینا اژدہے کو دیکھنے کا قصہ بیان کیا جو بحیرۂ مردار کی پاتال میں ڈیرہ جما کر بیٹھا تھا۔علم حیوانیات آپ کو بتائے گا کہ بڑے سانپ زہریلے نہیں ہوتے مگر ان کے مسلز اور معدہ دونوں ہی بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ مگر مچھ جیسے سخت جان کی ہڈیاں گرفت میں آنے کے بعد ایک دفعہ میں کرچی کرچی کردیتے ہیں۔ راہب ٹرائی رس کے بقول اس اژدہے کا زہر ساری دنیا میں سب سے زیادہ موذی تھا۔ کمال یہ تھا کہ کوئی اگر اس کا ذرا سا نمونہ حاصل کرکے دنیا بھر کے سانپوں کے زہر کا توڑ بنالیا تھا یہ توڑ انگریزی میںTiriac کہلاتا اب آپ کو عربی ،اردو اور فارسی زباں میں مستعمل لفظ تریاق بآسانی سمجھ آگیا ہوگا۔
مگر اب ایک مسئلہ اور تھا عیسائی راہب کو وہ اژدھا تو دکھائی دے گیا اور اس کے زہر سے کشید شدہ توڑ بھی مل گیا مگر سارہ کا وہ نمکیلا مجسمہ کہیں دکھائی نہ دیا۔اسے گمان ہوا کہ یا تو نمک کا یہ مجسمہ بخارات میں گھل کر ریزہ ریزہ ہوگیا ہے۔اس نے پہلے سے موجود قصائص کی تصدیق اور خود معتبر لگنے کے لیے اب اس میں ایک نیا تخیلاتی تڑکا لگایا کہ اﷲ سبحانہ تعالی نے اس کی سزا میں اتنی تخفیف کردی ہے کہ اس میں اس کی روح کو لوٹا دیا ہے۔ وہ سارے علاقے میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔کبھی کبھی وہ بے قرار ہوکر بحیرہ مردار کی تہہ میں بھی چلی جاتی ہے تاکہ وہ اس تہہ میں دبی ہوئی صدوم کی برباد بستی میں اپنے گناہ گار رفیقوں کی دل جوئی کرسکے۔دین میں کچھ لوگ ایسی ایسی تاویلیں نکال لاتے ہیں کہ معصوم لوگوں کے غول کے غول انہیں مہدی، امام اور پیر سمجھ کر پیچھے چل پڑتے ہیں۔ یہ ہم بدنصیب کم پڑھے ممالک تک ہی محدود نہیں ۔ ذرا سوچیے امریکاکا ایک بہت ہی ٹونی قصبہ رانچو سانتا فے جو کیلیفورنیا میں ہے ایک سابق امریکی فوجی جسے کار چوری میں چھ ماہ جیل بھی ہوچکی تھی یعنی Marshall Applewhiteجسے بو اور ڈو کے القاب سے پکارا جاتا تھا اپنے چالیس کے لگ بھگ مالدار معتقدین کو سن 1997 میں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کی مرحوم بیوی ایک خلا ئی جہاز لے کر آرہی ہے جو دنیا کے سامنے دمدار ستارے Comet Hale–Bopp کی صورت میں نمودار ہوگا ۔ وہ دراصل جنت کے لیے ایک ایڈوانس پارٹی لینے آرہی ہے ۔سب مریدین و مشتاقان فردوس پر جو اس جہاز میں سوار ہوکر جنت میں اپنی جگہ سب سے پہلے بنانا چاہتے ہیں وہ چپ چاپ نائیکی کے نئے جوگرز، مرد سیاہ اور خواتین کھلتا ہوا جامنی ٹریک سوٹ پہن کرزہر ملا کوکو کولا میں پی کر پلاسٹک کی صاف تھیلیاں منھ پر چڑھا کر بیٹھ جائیں تاکہ وہ عالم خواب میں اس خلائی جہاز میں سوار کردیے جائیں۔ یقین جانیے ان سب نے اجتماعی خودکشی ایسے ہی کی اور یہ کوٹ ادو کی بلندی والا یا شاہ آباد رامپور کی چھوٹی سی بستی نہ تھی یہ امریکا کی بہترین ریاست کا بہترین پڑھا لکھا خوشحال علاقہ تھا۔عیسائی راہب تو جانے کیا ڈھونڈتا رہا مگر تجسس یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ صدوم اور گمراہ کی وہ برباد اور لعنت زدہ بستیاں جنہیں ہم جنس پرستی کی وجہ سے ایسے تاراج کیا گیا کہ وہ آج تک آباد ہی نہ ہوپائیں۔
کیا وہ واقعی اس سمندر کی تہہ میں چھپی ہیں یا وہ جنوب میں صحرائے یہودا کے ریت کے ٹیلوں میں مدفون ہیں۔اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں پائی جاتی۔یہ ماہرین آثار قدیمہ کے لیے ایک پہیلی ہے۔بحیرۂ مردار جنوبی سمت میں بہت کم زیر آب ہوتا ہے یہاں سے ایک طویل دلدلی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔یہاں آج بھی کوئی آبادی نہیں اور نہ ہی کبھی یہاں سے کسی بستی کی کوئی علامت ملی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ماہرین ریت کے ٹیلوں میں یہ علامات ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ابتدائی علامات سے یہ ظاہر ہونے لگا ہے کہ ریت نے احساس شرمندگی سے ان دو بستیوں کو اپنے اندر دبوچ لیا ہے۔ابھی ہم بحیرہ ٔمردار سے کچھ دور ہی تھے ۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔کافی دیر سے راستے میں چٹانوں کے جو ٹکڑے دکھائی دے رہے تھے ۔وہ بتدریج اب نمک کے ٹیلوں میں تبدیل ہوگئے تھے ۔لگتا ہے، ہم بحیرہ مردار کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے عبدالقادر سے پوچھا جو بآواز بلند کسی سے سیل فون پر بحث میں مصروف تھا۔ میرے سوال کا جواب اس نے تیزی سے بائیں جانب ایک روڈ پر موڑ کاٹ کر دیا اور بحیرۂ مردار کی پانی کی چادر تیز دھوپ میں چمکنے لگی۔ اس پر بخارات اور نہ ہی جھاگ کی کوئی علامات تھیں۔دوسری جانب اردن تھا اور ایک مناسب مقام جہان Neve Midbar beach کا بورڈ نصب تھا وہاں پر عبدالقادر نے کار پارک کرلی۔یہ مقام سیاحوں میں خاصا مقبول ہے اس کی پہلی سب سے مصدقہ علامت تو ہر طرف کھلبلاتے چینی سیاح ہیں۔کچھ عرب خاندان بھی بھیڑ کے گوشت کا بار بی کیو کررہے تھے۔چاولوں کے ابالے جانے کی اور گوشت کے بھونے جانے کی خوشبو سے میری بھوک مچل گئی۔ویسے تو وہاں پانی میں تیرنے کی سرکاری فیس اسرائیل کے 85 شیکل یعنی ہمارے ڈھائی ہزار روپے ہے مگر عبدالقادر نے ٹکٹ گھر میں بیٹھی اس حسن سوگوار تقریباًپینتیس سالہ یہودن کو اﷲ جانے عبرانی زبان میں کیا کچھ کہا کہ وہ پہلے حیرت زدہ ہوئی پھر کھلکھلا کر ہنسی ،ایک گہری توصیفانہ نگاہ مجھ پر ڈالی اور ہمیں مفت میں نہانے کی اجازت دے دی۔ مجھے لگا کہ اس نے میری جانب معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے اسے خاتون سے کہا کہ دیکھو دل کا کوئی بھروسا نہیں کبھی بھی دھوکا دے سکتا ہے ،چلتے چلتے جھٹکے مار سکتا ہے ۔ یہ تمہاری مفت سرجری کردے گا۔اگر میاں کو ٹھکانے لگا کر مجھ سے بیاہ کرنا چاہتی ہو اور یہودیوں اور مسلمانوں کے اختلاف ختم کرنا چاہتی ہو تو یہ میرا ایسا دوست ہے کہ وہ اسے دوران آپریشن ٹھکانے لگادے گا تمہارے ہاں تو عدت بھی نہیں۔ہم جلد ایک ہوجائیں گے۔
میں نے جب تصدیق چاہی تو وہ مجھے کہنے لگا کہ میں نے اسے کہا کہ سرجن کاشف ماہر امراض قلب ہے ساری دنیا میں مشہور ۔ وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ تمہارے بحیرۂ مردار کے پانی کا دل پر کیا اثر ہوتا ہے۔اچھے شیف کی طرح کھانا پہلے خود چکھنا پڑتا ہے۔تو تم نے اس معصوم یہودی عورت سے جھوٹ بولا۔ جس کے جواب میں اس نے میرا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ان پر ہمارا بہت قرضہ ہے۔میں نے اسے جتلایا کہ مرد ہونے کے ناطے مجھے اندازہ ہے کہ تم نے اس کے حسن سوگوار کی بھی بہت تعریف کی تھی۔اب وہ ایک خاص عربی انداز میں جیسے پرانی مورس کار کہیں برف پر گھسٹ رہی ہو ،کھسیانی ہنسی ہنسا۔میں نے کہا ــ’’اس ٹوٹے ہوئے سر میں تمہاری دل چسپی دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ تمہارے ارادوں میں بڑی بر بریت ہے۔مجھے تمہارے معیار حسن کے ذوق پر حیرت ہے ۔
میری اس طنز کا جواب اس نے اپنے تجربات کی پٹاری سے ایسا نکالا کہ میرے لیے وہ اک زادِ رہ بن گیا۔ وہ کہنے لگا کہ دنیا کی کوئی عورت نہ تو یہ مانے گی نہ یقین کرے گی کہ وہ بد صورت ہے، بوڑھی ہے یا غلطی پر ہے۔مرد کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ اس کی اپنے بارے میں غلط فہمی کو تقویت بخشے، مجھے علامہ اقبال یاد آگئے جو کہتے تھے :
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...