وجود

... loading ...

وجود

’’دو کشتیوں کا سوار‘‘

هفته 09 جولائی 2016 ’’دو کشتیوں کا سوار‘‘

Mehmood-Achakzai

آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس نے سوچا کہ اس سے ایک اور خطّہ کیوں نہ تخلیق کیا جائے چنانچہ افغانستان وجودمیں آیا ۔ کوہِ ہندوکش نے افغانستان کو شمالی اور جنوبی دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے ، شمال میں فارسی بولنے والے اور ترکی النسل لوگوں کی اکثریت ہے جبکہ جنوب میں پشتون اکثریت میں ہیں۔ اسی طرح پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ تاجک اور ہزارہ قبائل آباد ہیں جن کی ناک چپٹی اور خدوخال وسط ایشیائی ہیں ، یہ کل آبادی کا 19فیصد ہیں ۔ افغانی احمد شاہ ابدالی کو اپنا ’’بابائے قوم ‘‘مانتے ہیں جس نے اٹھارویں صدی میں باقاعدہ افغان ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سے قبل اس خطّے پر کوئی باقاعدہ حکومت کبھی نہ رہی ، کچھ مختلف النسل لوگ قلیل تعداد میں یہاں آباد ضرور رہے مگر یہ کوئی ایک قوم نہ تھے ۔

اس سارے تاریخی پس منظر کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی خطّے پر ’’تاریخی حق‘‘ کے فارمولے کو تسلیم کر لیا جائے تو پوری دنیا کا نیا نقشہ تیار کرنا پڑے گا ، سندھ اور لاہور کے بعض علاقے اور کشمیر بھی افعانستان کو دینا پڑیں گے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی پھر تو پورا افغانستان ہی منگولوں کو دینا پڑجائے گا

افغانستان گزشتہ صدی کی آخری چند دہائیوں سے اب تک جنگی حالت سے دوچار ہے ، پہلے روس کا قبضہ پھر خانہ جنگی اور پھر امریکی حملے ، کہتے ہیں 80ء کی دہائی میں افغانستان میں روسی و امریکی اسلحے کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا ۔ ان حالات کے باعث گزشتہ کئی دہائیوں سے افغان شہری ترکِ وطن کرکے پاکستان کی طرف نقل مکانی کرتے رہے ، یہاں ان پناہ گزینوں کو نہ صرف سر چھپانے کی جگہیں دستیاب ہوئیں بلکہ ہر جائز و ناجائز کاروبار کے بلا روک ٹوک مواقع بھی ملے، اکثریت نے یہاں باضابطہ طریقہ کار کے برعکس ’’جُگاڑ‘‘ کے ذریعے قومی شناختی کارڈز بھی حاصل کئے اور اب یہاں نہ صرف کاروبار بلکہ باقاعدہ سیاست بھی کرتے ہیں ۔ نادرا کی تازہ ترین ڈیٹا اسکروٹنی کے مطابق بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں پختونخواہ ملی پارٹی کے پلیٹ فارم سے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والوں میں سے کم از کم 27نمائندے باقاعدہ افغان شہری ہیں ۔ افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد انکی جلی ہوئی گاڑی کے نزدیک سے پاکستانی شناختی کار اورپاسپورٹ ملنے کو پاکستان کی عسکری اشرافیہ نے اپنے لئے باعث شرم سمجھا جبکہ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام بڑی وارداتوں میں دہشت گردوں کے قدموں کے نشانات پاکستان کے قبائلی علاقوں سے آتے ہوئے پائے گئے اور پھر اس سے بھی پَرے، یہ نشانات ہمیشہ افغانستان تک جا پہنچے۔ ٹی ٹی پی کا موجودہ سربراہ معصوم پاکستانیوں کا قاتل ملا فضل اﷲ بھی خود افغانستان میں قیام پزیر ہے لہذا جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر افغانیوں کو انکے وطن واپس بھیجنے اور یہاں رہنے کے خواہشمندوں کو باضابطہ رجسٹریشن کرکے انہیں ’’ورک پرمٹ‘‘ دینے کی ایک مہم شروع کر دی گئی ہے اور نادرا نے پاکستانی پرچم کے سائے تلے چھپے بیٹھے افغانیوں کو کھوجنا بھی شروع کر دیا ہے ۔ پے در پے دہشت گردی کے واقعات سے تنگ خیبر پختونخواہ حکومت نے نہایت مستعدی کے ساتھ افغان شہریوں کو ڈھونڈ، ڈھونڈ کر پناہ گزینوں کے کیمپس تک محدود کرنے کیلئے ایک مہم شروع کی۔ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی پائیدار امن کیلئے ناگزیر ہے لیکن ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھے چند ’’معزز‘‘ اور جمہوریت کے چیمپئین ’’پاکستانیوں‘‘ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے شروع ہو گئے ہیں ۔

بلوچستان میں نواز لیگ کے اتحادی پختونخواہ ملی پارٹی کے سربراہ ’’پاکستانی نما افغانی‘‘ محمود خان کا ایک انٹرویو شہ سرخی کے طور پر شائع ہوا، اخبار کے مطابق محمود خان نے کہا کہ افغانیوں کو پاکستان کی سرزمین پر تنگ کرنا مناسب نہیں ،انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اور پنجاب وغیرہ میں جہاں بھی افعانیوں کو پریشان کیا جائے ان کو چاہیے کہ وہ خیبر پختو نخواہ چلے جائیں کیونکہ خیبر پختونخواہ تو ہے ہی افغانیوں کااور اگر انہیں وہاں بھی تنگ کیا گیا تو بھر پور احتجاج کریں گے ۔

اَچکزئی پختون قبیلہ ہے اور اس قبیلے کے افراد بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن ان کی اکثریت محب وطن ہے اسی لئے محمود خان کے انٹرویو کے مندرجات پڑھ کر خیال آیا کہ اَچک زئی قبیلے میں ایسا ’’اُچک‘‘زئی کیسے پیدا ہو گیا ۔ موصوف کی صورتحال موجودہ حکومت میں پنجابی کے محاورے ’’سسر وی تے بہنوئی وی ، بھائی تے بھرجائی وی ‘‘والی ہے ، ان کے سگے بھائی بلوچستان کے گورنر ہیں اور خاندان کے کم وبیش ڈیڑھ درجن افراد صوبے میں اہم ترین عہدوں پر تعینات ہیں گویا کھاتے پاکستان کاہیں مگر وفاداری افغانستان کی کرتے ہیں ۔ محمود خان نے اس انٹرویو کی اشاعت کے تین روز بعد وضاحت کی کہ ان کا مؤقف توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ خیبر پختونخواہ افغانستان کا ہے بلکہ یہ کہا تھا کہ خیبر پختونخواہ تاریخی طور پر افغانستان کا حصّہ رہا ہے ، اگر وہ یہ وضاحت نہ کرتے تو شاید قلم شعلے اُگل رہا ہوتا لیکن اب اس تردیدی بیان کے بعد کم از کم اتنا ضرور ہو گیا ہے کہ انہیں اس خطّے کے حوالے سے تاریخ کے اوراق پلٹ کر کچھ سکھایا جائے ۔

خیبر پختونخواہ کا درّہ خیبر صدیوں سے غیر ملکی حملہ آوروں کیلئے برصغیر کا دروازہ رہا ہے ، یونانی ،ترک، عرب، منگول اور مغل سب کے سب یہیں سے برصغیر میں داخل ہوئے ، اٹھارویں صدی میں فارس کا عظیم فاتح باد شاہ بھی درّہ خیبر سے گزر کر اس خطّے میں داخل ہوا، اس وقت قندھار غلزئی قبیلے کے زیر اثرتھا، نادر شاہ نے یہ علاقہ فتح کیا پھر جلال آباد سے ہوتا ہوا پشاور آیا اور پھر لاہور جا پہنچا، اس دوران میں اس نے مرہٹوں کو بھی بدترین شکست دی اور مغلوں کے خزانے بھی لوٹے ، کہتے ہیں فتوحات کے اس سفر کے دوران میں ایک مرتبہ وہ اپنے گھوڑے پر سوار چہل قدمی کر رہا تھا تو مفتوح علاقوں کے کچھ افراد نے اس پر چپلّیں پھنکیں جس پر وہ غضبناک ہو گیا اور تباہی مچاتا ہوا اپنی افواج لیکر واپس پلٹا، اُس نے مغلوں کا افسانوی تختِ طاؤس بھی لوٹ لیا جس پر 186قیراط کا پتھر’’کوہ ِنور‘‘ جڑا تھا، کوہِ نور کا مطلب ہے روشنی کا پہاڑ۔ وہ اس ہیرے کو اپنی پگڑی میں باندھے رکھتا تھا ، ہندوستان سے وہ واپس مغرب کی طرف گیا ، اسی نادر شاہ نے اپنے خلاف سازش کے شبہ میں اپنے سگے بیٹے رضا قولی کی آنکھیں نکلوادی تھیں، سن 1747میں مغرب کی طرف سفر کے دوران ایک رات وہ خیمے میں سویا ہوا تھا تو کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ کر اسے قتل کر دیا ، فوج میں بھگڈر مچ گئی اور اس کا اہم ترین کمانڈر احمد شاہ ابدالی اپنے چار ہزار سواروں کا دستہ لیکر قندہار چلا آیا اور یہاں کا بادشاہ بن بیٹھا ، وہ آتے ہوئے نادر شاہ کا بہت سا سونا ، جواہرات اور کوہ ِنورہیرا بھی اٹھا لایا تھا ۔ اسے کانوں میں سونے اور موتی کی بالیاں پہننے کا شوق تھا ، اسی مناسبت سے افغانستان کا بادشاہ بننے کے بعد وہ ’’دُرّ ِدُرّاں‘‘ کے لقب سے مشہور ہوا یعنی ’’موتیوں کا موتی‘‘۔ آگے چل کر اسی سے ’’درّانی‘‘ قبیلے کا بنیاد پڑی۔

احمد شاہ ابدالی نے مقامی پشتونوں کو فارغ بیٹھے رہنے سے انہیں جنگوں میں مشغول رکھنا بہترسمجھا ۔لہذا وہ کابل سے ہوتا ہوا پشاور اور پھر اٹک کے راستے لاہور سے دہلی تک جا پہنچا اس کے بعد واپس ہوا اور مغرب کی سمت بڑھتے ہوئے ہرات فتح کر لیا جہاں پہلے فارس کا قبضہ تھا۔ اس نے پلٹ پلٹ کر ہندوستان پر کم و بیش 11مرتبہ چڑھائی کی جبکہ چوتھی مرتبہ میں وہ کشمیر اور سندھ پر بھی قبضہ کر چکا تھا۔ اسکی سلطنت دریائے آمو کے کنارے سے دہلی تک اور پھر کشمیر سے لیکر سندھ وبلوچستان تک پھیل گئی تھی ، کسی جنگی مہم کے دوران اسکی ناک پر تلوار لگی اور زخم کینسر کی شکل اختیار کر گیا ، اس نے چاندی کی ناک بنوا کر لگائی مگر پھروہ سنبھل نہ سکا۔ اسکی موت 1772ء میں ہوئی، اس کے بعد اسکی اولادیں اور خاندان کے قریبی افراد محلّاتی سازشوں کے ذریعے اکھاڑ پچھاڑ کرکے 1978ء تک تھوڑے تھوڑے عرصے کیلئے حکمران بنتے رہے آخری حکمراں نادر شاہ تھا ۔ اس کے بعد وہاں کیمونسٹ پارٹی برسراقتدار آگئی تھی۔ اس سے قبل کے قابل ذکر حکمرانوں میں تیمور شاہ، امیر اکبر شاہ ، شجاع شاہ ، حبیب اﷲ شاہ وغیرہ شامل تھے، تیمور شاہ نے ہی دارالخلافہ قندہار سے کابل منتقل کیا تھا ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج نے 1788ء میں ایک زبردست جنگ کے بعد افغانستان پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا ، بعدازاں دوسال قیام کے بعد برطانوی افواج احمد شاہ ابدالی کے خاندان کے لوگوں سے خراج کی ادائیگی کے معاہدے کر کے وہاں سے نکل گئی تھیں اور وہاں شاہی خاندان کے اپنے پسندیدہ فرد حبیب اﷲ شاہ کو حکمراں مقرر کر دیا گیا تھا ۔

اس سارے تاریخی پس منظر کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی خطّے پر ’’تاریخی حق‘‘ کے فارمولے کو تسلیم کر لیا جائے تو پوری دنیا کا نیا نقشہ تیار کر نا پڑے گا ، سندھ اور لاہور کے بعض علاقے اور کشمیر بھی افعانستان کو دینا پڑیں گے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی پھر تو پورا افغانستان ہی منگولوں کو دینا پڑ جائے گا کیونکہ اس خطّے کا پہلا باضابطہ فاتح چنگیز خان تھا جس نے بلخ، ہرات ، بامیان اور غزنی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ یہاں بیس ہزار افراد قتل کروا دئیے تھے اور کہاتھا یہاں انسانوں کی آبادی نہیں ہونی چاہیے یہ جگہ میرے گھوڑوں کی چرا گاہ کیلئے اچھی ہے ، اس خطّے میں ’’خان ‘‘ کا لقب اسی کی میراث ہے۔ وہ کہا کرتا تھا دنیا میں دو ہی خان ہو سکتے ہیں ایک آسمانوں پر اور دوسرا زمین پر لیکن ذرا ٹہرئیے ۔چنگیز خان بھی کیوں اس سے بہت پہلے عظیم یونانی فاتح سکندر اعظم بھی تو یہاں آیا تھا اور اٹک کے قلعے تک آکر لوٹ گیا تھا گویا افغانستان پر سب سے پہلا حق تو یونانیوں کا ہوا ۔ محمود خان ’’اُچک‘‘ زئی کے فارمولے پر چلیں تو معلوم نہیں دنیا کے باقی خطّوں کا بھی کیا ہو ۔

1809ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طر ف سے بعض معاملات طے کرنے کیلئے افغانستان آنے والے ماؤنٹ اسٹیوارٹ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا تھا کہ افغان دلیر ، مہمان نواز ،جفا کش اور آزادی پسند ہو تے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ نہایت حریص، حاسد ، منتقم مزاج اور غارت گر بھی ہو تے ہیں ۔ محمود خان ’’اُچک‘‘زئی میں پہلی بیان کردہ صفات ہیں بھی یا نہیں معلوم نہیں مگر دوسری نوعیت کی’’خوبیاں‘‘ ان میں بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔

گفتگو یہاں سمیٹی جا سکتی ہے مگر بات ختم نہیں ہوتی ، حکومتی اتحادی کا اس نوعیت کا بیان جو پاکستان کی سا لمیت اور وحدت کو چیلنج کرتا ہو اس پر حکومتی زعما کی خاموشی مایوس کن ہے ، دانیال عزیز، طلال چوہدری ، عابد شیر علی ، پرویز رشید اور سعد رفیق جانے کہاں جا سوئے ہیں ، کونسی گھونگھنیاں منہ میں ڈال لی ہیں ۔معلوم نہیں اور خواجہ آصف کو اب شرم و حیا کیوں نہیں آرہی، یہ بھی ایک سوال ہے ، دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر اسی نوعیت کا بیان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے دیا ہوتا تو منظر نامہ کیا ہو تا ، انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایم کیو ایم کو ختم کرنے والے پہلے بھی بہت آئے یہ جو اب ’’ہیں‘‘یہ بھی کل’’تھے‘‘ ہو جائیں گے ، بادی النظر میں تو یہ قدرت کے ایک نظم کی طرف اشارہ تھا مگر ان کے خلاف ایف آئی آرز کی پوری سنچری مکمل کی گئی تھی۔ حکمرانوں کے طرز عمل کے حوالے سے فیصلہ قارئین خود کریں بس اتنا یاد دلاتا چلوں کہ 1988کے انتخابات میں پختونخواہ ملی پارٹی نے ایک انتخابی نعرہ ایجاد کیا تھا ،وہ تھا ’’دابولا نہ چترال، پشتو نستان دی ‘‘ یعنی بولان سے چترال تک پشتونستان ہے۔ اس پر نواب اکبر بگٹی نے کہا تھا کہ چترال کا تو پتہ نہیں مگر بولان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی مت ۔ اس کے بعد بلوچستان میں بلوچ، پشتون فسادات بھی ہوئے تھے اور کرفیو لگانا پڑا تھا۔

محمود خان کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ تاریخ نے کبھی کسی ایک علاقے پر ہمیشہ کیلئے کسی دوسر ے کا حق تسلیم نہیں کیا ، تاریخ حملہ آوروں کی فتوحات ، قتل و غارت گری اور ہجرت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ،بہتر ہے محمود خان افغانیوں سے کہیں کہ اب افغانستان کے حالات بہت اچھے ہو چکے، واپس چلے جاؤ اور اگر وہ خود بھی اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے ’’وطن ‘‘ کا قصد کر لیں اور قومی اسمبلی کی رکنیت اور قومی شناختی کارڈ ’’سرینڈر‘‘ کر دیں تب شاید پاکستانی قوم انہیں ایک سچا انسان سمجھنا شروع کر دے۔محمود خان دو کشتیوں کے سوار ہیں مبادا کہیں وہ مرزا صادق شرر کے اس شعر کے بمصداق نہ بن جائیں کہ

گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے


متعلقہ خبریں


چیلنج قبول کریں میاں صاحب! عبید شاہ - منگل 27 ستمبر 2016

اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...

چیلنج قبول کریں میاں صاحب!

مُردہ باد (حصّہ دوئم) عبید شاہ - اتوار 28 اگست 2016

یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...

مُردہ باد (حصّہ دوئم)

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی جلال نورزئی - منگل 16 اگست 2016

قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی

الیکشن کمیشن نے متنازع تقریر پر محمود خان اچکزئی کو طلب کر لیا! وجود - منگل 16 اگست 2016

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی متنازع گفتگو کا معاملہ سنجیدگی اختیار کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے محمود خان اچکزئی کی متنازع تقریر کے خلاف ایک شہری وحید کمال کی درخواست کی سماعت کی ۔ جس میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 19 کے تحت افواج پاکستا...

الیکشن کمیشن نے متنازع تقریر پر محمود خان اچکزئی کو طلب کر لیا!

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان جلال نورزئی - هفته 23 جولائی 2016

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھی...

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان

’’یوم ِ ظلم‘‘ عبید شاہ - اتوار 29 مئی 2016

طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...

’’یوم ِ ظلم‘‘

’’کرائے دار‘‘ عبید شاہ - جمعرات 19 مئی 2016

ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...

’’کرائے دار‘‘

سوشل کنٹریکٹ عبید شاہ - جمعه 22 اپریل 2016

اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...

سوشل کنٹریکٹ

گڈ مہاجر، بیڈ مہاجر (حصّہ دوئم) عبید شاہ - جمعه 18 مارچ 2016

ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...

گڈ مہاجر، بیڈ مہاجر (حصّہ دوئم)

گُڈ مہاجر ، بیڈ مہاجر (حصّہ اوّل) عبید شاہ - بدھ 16 مارچ 2016

فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...

گُڈ مہاجر ، بیڈ مہاجر (حصّہ اوّل)

’’ایک عجیب سی کہانی‘‘ عبید شاہ - اتوار 06 مارچ 2016

یہ کہانی اسلام آباد کے میلوڈی پارک سے شروع نہیں ہوتی۔ یہ لاہور کی زنانہ جیل کے ڈیتھ سیل سے بھی شروع نہیں ہوتی البتہ اس جیل کا صدر دروازہ وہ مقام ضرور ہے جہاں سے کہانی میں’’ ٹوئسٹ‘‘ آیا۔ کہانی شروع ہو تی ہے لاہور سے 30میل دور پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے نواحی علاقے’’اِتا...

’’ایک عجیب سی کہانی‘‘

’’فیس ویلیو‘‘ عبید شاہ - منگل 23 فروری 2016

بعض لوگ جب بھی بولیں احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ خاموشی اس سے کہیں بہتر تھی، شاید بعض صوفیاء اسی لئے خاموشی کو عبادت بھی قرار دیتے آئے ہیں واقعہ مگر کچھ بھی ہو یہ طے ہے کہ الفاظ کی حرمت تب ہی مقدم ہے جب ادا کنندہ کا اپنا عمل ان کے مفاہیم سے تال میل رکھتا ہو ۔وزیر اعظم نے ایک بار...

’’فیس ویلیو‘‘

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر