وجود

... loading ...

وجود

دیوار گریہ کے آس پاس قسط (17)

منگل 28 جون 2016 دیوار گریہ کے آس پاس قسط (17)

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


 شہر جیریکو

شہر جیریکو

دنیا بھر کے قدیم شہرو ں دمشق، روم، قاہرہ ، استنبول، بغداد، لندن ، کوئیو ٹو ، دہلی ، شنگھائی اور نان جنگ تو، میں ایک بات بڑی مشترک ہے کہ ان کی آبادی اتنی کم جتنی شہر جیریکو کی ہے یعنی کل پچیس ہزار کے لگ بھگ۔ جب کہ اس کا ذکر نئی پرانی دونوں بائبلوں میں ملتا ہے ۔ وہ اسے پام کے درختوں کا شہر کہتی ہیں۔کسی بھی عرب شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا سامنا اس کے بے ہنگم ٹریفک سے پڑتا ہے۔

 شہر جیریکو

شہر جیریکو

اسرائیل کا دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مثالی نظم و ضبط اس بدنظمی پر غالب نہیں آسکا۔قادر کی گاڑی کے سامنے ایک اسکوٹر جس پر تین نوجوان افراد کا ایک بے نیاز ٹولہ سوار ہے بڑے اطمینان سے رکاؤٹ بن کر موجود ہے۔قادر نے کار کا شیشہ اتار کر اُنہیں عربی میں یاد دلایا کہ ان کے ماں باپ ان کی پیدائش سے پہلے شادی کرنا بھول گئے تو وہ جلد گھر جاکر انہیں یاد دلائیں۔ اسے اس گالم گلوچ پر کچھ خفت ہوئی تو پوچھنے لگا کہ کیا جنوبی افریقہ میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ ارے نہیں !یہ بد نظمی مسلمان ہونے کی ایک بڑی علامت ہے میرے اپنے دیس پاکستان میں بھی یہ نظارہ بہت عام ہے۔اس حوالے سے ان بچوں کے والدین کے بھائی بہن ہمارے ملک میں بہت ہیں۔ وہ میری بات سن کر زور سے ہنس پڑا۔ ایک عرصہ تک جیریکو کا شمار سب زیادہ کھودی جانے والی بستی میں ہوتا تھا۔یہ اعزاز مجھے اندیشہ ہے کہ لاہور شاید جلد ہی اس سے چھین لے۔

آثار قدیمہ کے ماہرین ہمہ وقت یہاں کچھ نہ کچھ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ شہر کا قدیم حصہ جہاں یہ کھدائی جاری ہے اسے ’’ظلِّ سلطان‘‘ کہتے ہیں ۔اس حصے کے بارے میں اندازہ ہے کہ یہ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے نوہزارسال قبل کا ہے۔شہر کے بارے میں اس کے قدیم ترین ہونے کا اعلان داخلے کے وقت ایک بورڈ کرتا ہے۔بنی اسرائیل جب یہاں مصر سے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ آئے تو ان کی مقامی آبادی کے ساتھ پہلی جنگ اسی مقام پر ہوئی تھی۔ان کی فوج کی قیادت ایک یہودی صوفی جوشوا ( Joshua )کررہے تھے۔ انہوں نے شہر کا سات دن تک محاصرہ کیے رکھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ساتویں دن جب انہوں نے مینڈھے کا سنکھ بجایا تو اس کی پھونک سے قلعے کی دیوار ریزہ ریزہ ہوکرگرپڑی۔شہر کی پوری آبادی کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا ۔کیا مرد و زن، کیا بچے، بس ایک طوائف رباب کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔ جنگ کے آغاز سے پہلے یہودی جاسوس اس کے ہاں پناہ لیتے تھے۔

ہم جلد ہی شہر کے مرکز میں آن پہنچے۔یہ قدرے اجڑا ہوا سا ہے۔اس سے ایک یاسیت سی جڑ گئی ہے۔ جیریکو کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ تاریخ کے بے رحم تھپیڑوں نے اسے ہراساں اور بے دم کردیا ہے۔اس کے حسن اور رونق انگیزی میں اگر کسی نے کبھی اضافے کی کوئی کوشش کی ہے تو وہ خلافت عباسیہ کے حکمران تھے۔ان ہی کے دور میں یہاں آب رسانی کا بندوبست کیا گیا۔زراعت کو بھی خاصا فروغ ملا۔وہ رخصت ہوئے تو یہ شہر پھر سے بے توجہی کا شکار ہوگیا۔اب بھی اس شہر کا یہی عالم ہے کہ اس کی دیواروں پر لگتا ہے اداسی بال کھولے سورہی ہے۔اس کے قہوہ خانے بے رونق ہیں اور شاہراہوں پر بے رونقی رواں دواں رہتی ہے۔یہ شہر بے حد قدامت پسندہے مجال ہے جو کوئی خاتون آپ کو یہاں بے وجہ گھومتی دکھائی دے۔ہر تیسری دکان کار میکنک کی ورکشاپ ہے۔ اس لیے کہ یہاں سبھی گاڑیاں بہت پرانی ہیں۔ہم ایک شاپنگ سینٹر میں جا دھمکے ۔اس کے ورانڈے میں دُکاندار اپنی مجلس جمائے بیٹھے تھے۔ دور دور تک گاہک کا کوئی پتہ نہ تھا۔ عبدالقادر کو دیکھتے ہی یہ سب اچھل کر کھڑے ہوگئے۔اس نے ایک نشست پکڑی اور وہاں موجود کسی نوجوان کو اشارہ کیا تو وہ میرا ہاتھ تھام کر مجھے آگ سے حفاظتی زینے سے چھت پر لے گیا۔یہاں سے ظلّ ِسلطان کے کھنڈرات بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔

چھت سے دائیں طرف دیکھیں تو آپ کو نو تعمیر شدہ فلیٹوں کا ایک جنگل دکھائی دیتا ہے جیسے کراچی کا گلستان جوہر۔چھوٹی ماچس کی ڈبیا کے جیسے بلڈنگ بلاک جنہیں نیم پختہ مٹی کی سڑکوں نے ایک دوسرے سے جدا کیا ہوا ہے۔یہیں ایک بہت بڑا ٹیلا بھی تھا جس کے دامن میں ایک مٹیالا مدھم کلیسا بھی دکھائی دیتا ہے۔ایک چیئر لفٹ کہیں سے فضا میں تیرتی ہوئی کلیسا کی جانب دکھائی دی۔ میرے نوجوان رفیق نے بتایا کہ یہ دیئر القرنطل ہے یعنیMount of Temptation۔

یہ حضرت عیسیؑ کے چھ سو سال بعد عین اس مقام پر بنائی گئی تھی۔جو امتداد زمانہ کے ہاتھوں برباد ہوگئی ۔اس مقام پر چالیس دن اور رات حضرت عیسیؑ کو شیطان ان کے مراقبے میں ورغلاتا رہا۔آپ غور فرمائیں پہاڑوں کی تینوں بڑے مذاہب اور ہندو مذہب میں بھی بڑی اہمیت ہے۔ حضرت موسیؑ نے کوہ سینا پر چالیس دن ،حضرت عیسیٰؑ نے کوہ القرنطل پر اورہمارے نبی ﷺ نے غار حرا میں اپنے روحانی سفر کے لیے اہم پڑاؤ ڈالا تھا۔ جب صلیبی جنگوں میں عیسائی غالب آئے تو یہاں انہوں نے دو عبادت گاہیں بنائیں اور اس پہاڑ کا نام قرانطہ رکھا جو اطالوی زبان میں چالیس کے ہندسے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔جیریکو مسلمانوں کے پاس حضر ت عمر ابن خطاب ؓکے دور سے چلا آرہا ہے۔ اس علاقے کی زمین بھی مسلمانوں کے قبضے میں تھی۔ان سے قدیم یونانی چرچ نے یہ زمین خرید کر جسے1895 میں موجودہ کلیسا کو تعمیر کیا۔یہاں وہ غار بھی اور وہ پتھریلی نشست بھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اس میں قیام پزیر رہے اور اس پر چلہ کیا کرتے تھے۔یہاں آپ نے چالیس دن روزے بھی رکھے۔عیسائیوں کے ایسٹر کا تہوار اس چالیس روزہ عرصۂ صوم کے اختتام پر منایا جاتا ہے۔چھت سے نیچے آن کر ہم نے قادر کے دوستوں سے رخصت لی اور اپنا سفر جیریکو کے مشرق میں جاری رکھا۔

شہر سے ذرا باہر نکلیں تو ہشام بن عبدالمالک کا محل قصر ہشام آجاتا ہے۔ اب اسے خرابات ا ل مفجر بھی کہتے ہیں ۔آپ کو یادہو تو ان کے والد عبدالمالک بن مروان مکہ کے گورنر تھے ۔ قبۃالصخری کی تعمیر عبدالمالک نے شروع کی تھی اور اس کی تکمیل ہشام بن عبدالمالک یعنی اس کے صاحبزادے کے دور میں ہوئی۔

یہاں پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے چینی سیاحوں سے بھری بس دیکھی۔ایک سیاح کو انگریزی بولتے دیکھ کر میں نے نیم دلانہ طنزیہ انداز میں پوچھ لیا تو اس نے کندھے لاعلمی سے ہلاکر اپنی بیوی کے ساتھ ایک رومانٹک پوز بنایا اور ستون کے سامنے کھڑے ہوکر دونوں نے ایک تصویر کھینچنے کی فرمائش کی۔ میں نے سوچا!پاکستان میں سی پیک منصوبے پر بُرے اثرات نہ پڑیں ،اس وجہ سے مسکرا کر تصویر کھینچ لی ورنہ میری طبیعت ان چینیوں کو مقدس مقامات پر دیکھ کر جو اُوبتی ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔

محل کے کھنڈرات سے ذرا دور اقوام متحدہ کا وہ پناہ گزین کیمپ ہے جہاں فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ۔ویسے گھر چھوڑنا ہر حال میں بہت گراں فیصلہ ہوتا ہے مگر اپنے ملک میں ہی تصویر بے کسی بن کر پناہ گزیں کا درجہ پانا یہ روح کو کچل کر رکھ دینے والا عمل ہے۔یہاں یہ گھرانے یروشلم سے بے دخل کیے جانے کے بعد ہوسٹل کے کمروں میں آباد ہیں۔ جیل کی ان بیرکوں کو چار اطراف سے ایک بلند و بالا دیوار نے احاطہ کررکھا ہے۔ان کی ناگفتہ بہ غربت اور دکھ بھری زندگی، انسانیت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے ۔یہ سوچ کر اور بھی دکھ ہوتا ہے کہ قازقستان، چاڈ، نائجراورسوڈان وہ علاقے ہیں جہاں زمین کی بہتات اور قطر، برونائی،کویت، بحرین، سعودی عرب وہ ممالک ہیں جہاں دولت کی بہتات ہے۔

میرے لیے چارممالک کے مسلمانوں کی بہتر زندگی اب ہر دعا کا حصہ ہے ۔ میری درخواست آپ سے بھی یہی ہے۔دعا نصیب بدل دیتی ہے، مظلوم کے لیے دعا بھی جہاد ہے۔ان بے چارے بے وطنوں سے زیادہ مجبور اور بے کس کوئی اور طبقۂ مسلمانان نہیں۔برما کے روہنگیا، چین کے یوغورز، شام، عراق اور فلسطین کے عرب اور کشمیری۔

ہم دونوں نے بہت کوشش کی کہ ہم اندر جاکر ان سے مل پائیں۔اقوام متحدہ کا گارڈ کسی طور نہ مانا۔ ہمیں گیٹ پر دیکھ کر چند بچے ایک بالکونی میں جمع ہوگئے۔عبدالقادر نے بتایا کہ بعض مرتبہ سیاحوں کو خصوصی انتظام کے تحت اندر جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ وہ انہیں مٹھائیاں، کھلونے ، کپڑے دیتے ہیں۔ یہ بچے ہمیں دیکھ کر اس بالکونی میں اس لیے جمع ہورہے ہیں کہ تحائف کی یہ تقسیم یقینی اور بآسانی ہو جائے۔میں نے سو شیکل کا ایک نوٹ نکال کر گارڈ کو دیا کہ وہ ان مشتاقان تحائف کو دے دے، اس نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا ۔ میں بوجھل دل سے کار میں سوار ہوا تو ان بچوں کی مایوسی دیدنی تھی

مڑتی ہوئی شاہراؤں اور بڑھتے ہوئے فاصلے ان کے معصوم وجود میری نگاہوں سے چھینے چلے گئے۔

’’فلسطین کے خبیث ، نونہالوں
میری زندگی تمہارے شور ِمسلسل سے نالاں ہے
ہر صبح تمہاری کلکاریاں میرے سکون کو غارت کردیتی ہیں
تم نے ہی میری بالکونی میں رکھا گلدان توڑ ڈالا ہے
میرے باغ کے گلاب بھی تم ہی چرا کر لے جاتے ہو
آؤ، چیخو !اس قدر چیخو کے تم خوش ہوجاؤ
یہ شور ہی میرے لیے زندگی کی علامت ہے
سارے گل دان توڑ ڈالو
سارے پھول چرالو
بس آجاؤ کہ فلسطین تمہارا ہے

(خالد جمعہ کی نظم کا غیر پابند ترجمہ)

اصل نظم
۔۔۔۔۔۔۔

Oh Rascal Children Of Gaza

Oh rascal children of Gaza,

You who constantly disturbed me with your screams under my window,

You who filled every morning with rush and chaos,

You who broke my vase and stole the lonely flower on my balcony,

Come back –

And scream as you want,

And break all the vases,

Steal all the flowers,

Come back,

Just come back…

Khaled Juma

.

Come back scream as loud as u wish
Break all the vases
Steal all the flowers
Come back
Just come back” ( a Palestinian poem)
(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر