... loading ...
استعفے کا مطالبہ پاکستان کے وزیراعظم سے ہورہا تھا اور بات برطانیہ جاپہنچی۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی پر ریفرنڈم ہوا۔52فیصد شہریوں نے حق میں اور48فیصد نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ یوں محض 4فیصد کے فرق سے علیحدگی پسند جیت گئے نہ کوئی شور اٹھا‘ نہ ہنگامہ ہوا‘ نہ ریلیاں‘ جلسے جلوس اور دھرنے دیئے گئے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل رکھنے والوں کے ساتھ تھے۔ خوش دلی کے ساتھ جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے استعفا دیدیا۔ پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ کرپشن کے سب سے بڑے اسکینڈل پاناما لیکس میں وزیراعظم کا خاندان ملوث بتایا جاتا ہے۔ اس پر ہنگامہ برپا ہے۔ اپوزیشن کا سرفہرست مطالبہ وزیراعظم کا استعفا ہے۔ عید کے بعد دمادم مست قلندر کی اندرون خانہ تیاری جاری ہے لیکن استعفے کی آواز کہیں سے نہیں آتی۔ کراچی میں دن دیہاڑے لیاقت آباد جیسے گنجان آباد علاقے میں مدحتِ رسولؐ اور مغنی خواجگان امجد فریدصابری کو گولی مارکر شہید کردیاگیا ان کی اہلیہ کو بیوہ اور چھوٹے بچوں کو یتیم کردیاگیا۔ وہ قوالی کے فن میں یکتائے زمانہ اور اپنے آباؤ اجداد کی میراث کے والی تھے لیکن اس سریلی آٓواز کو بارود برسانے والوں نے خاموش کردیا۔ دوسری طرف سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ ایڈووکیٹ کو سرشام کلفٹن کے مصروف ترین کمرشل علاقے سے اغواء کرلیاگیا۔ پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے سارے حربے آزمانے کے باوجود انہیں بازیاب نہ کرسکے لیکن ان دو بڑی وارداتوں کے بعدبھی کہیں سے بھی استعفے کی صدا بلند نہیں ہوئی۔ کلفٹن کے دو اعلیٰ پولیس افسروں کو واردات کے بعد معطل کیاگیا لیکن دبئی سے آنے والی کال پر اگلے ہی دن انہیں بحال کردیاگیا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے۔ اسے پھلنے پھولنے دیا جائے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس مین جان ومال‘ عزت وآبرو کوئی شے محفوظ نہیں ہے‘ سپریم کورٹ نے اسے’’بادشاہت‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ ’’بادشاہ لوگ‘‘ کہتے ہیں کہ کرپشن کا مسئلہ قائداعظم کے دور میں بھی تھا۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ چونکہ بانی پاکستان کے دور میں بھی تھا لہذا اس ’’تاریخی یادگار‘‘ کو اسی طرح سے جاری رہنا چاہئے۔ سندھ کے وزیر خزانہ مراد علی شاہ اگلے ہی لمحے اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بے باکی سے فرماتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں سب سے بڑی رکاوٹ نیب ہے۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون سے ’’کام‘‘ ہیں جن میں نیب رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ نیب کرپشن کو روکنے کا ادارہ ہے۔ یہی کردار سندھ کے وزراء اور افسروں کو برالگ رہا ہے۔ 21ارب روپے کے لاڑکانہ ترقیاتی منصوبہ کا کیا بنا؟ پیسہ کہاں گیا؟ سندھ کے دیگر ترقیاتی منصوبوں کا کیا بنا؟ صوبہ موئنجودڑو بنتا جارہا ہے سرکاری زمینوں کی بندربانٹ سے لے کر محکموں کے فنڈ تک لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ نیب کی ان سب پر نظر ہے۔ اس لئے مراد علی شاہ کو سندھ میں نیب کا وجود ناپسند ہے۔ بلدیہ کراچی کا بجٹ بلوچستان سے زیادہ ہے۔ سونے کی اس چڑیا پر پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت اور بھائی بہنوں کا قبضہ ہوچکا ہے لیکن شہر کی ترقی کیلئے نہیں کہ اس ضمن میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ سرجانی ٹاؤن سے ٹاور تک ’’گرین لائن میٹرو منصوبہ‘‘ بھی وزیراعظم اور وفاقی حکومت کی امداد سے بنایا جارہا ہے۔ کئی سال بعد کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کو بحال کرکے سوک سینٹر اس کی تحویل میں دے دیاگیا ہے اور کے ایم سی پھر راندۂ درگا ہ ہے۔ کے ڈی اے کے مقررکردہ ڈائریکٹر جنرل ناصر عباس کے پاس ڈائریکٹر لینڈ کاعہدہ بھی ہے۔ ان کی دلچسپی اس عہدے میں زیادہ ہے۔ کے ڈی اے کے پاس ابھی فنڈز نہیں ہیں۔ سب کچھ لینڈ ڈپارٹمنٹ میں ہے۔ کراچی کے بلدیاتی اداروں پر ’’قابضین‘‘ کو اگر شہر کی ترقی عزیز ہوتی تو آج لاڑکانہ‘ نوابشاہ اور خیرپور کھنڈرات کی بجائے’’پیرس‘‘ بن چکے ہوتے۔ سندھ میں ’’بادشاہت‘‘ کا بھانڈا تو اس جعلی پولیس موبائل نے بھی پھوڑ دیا جو سندھ اسمبلی کے باہر مشکوک حالت میں کھڑی تھی۔ جس پر جلی حرفوں میں پولیس لکھا تھا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ آصف زرداری کے بہنوئی فضل اﷲ پیچوہو کے پرائیویٹ گارڈوں کے زیر استعمال پرائیویٹ گاڑی تھی۔ فضل اﷲ پیچوہو سندھ حکومت کے سیکریٹری تعلیم ہیں جن کا کلہ ان کے برادر نسبتی نے مضبوط سے گاڑ دیاہے۔ سندھ صوبے کی اس بادشاہت کو جاری رکھنے کیلئے پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط بحال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس مقصد کیلئے گزشتہ دنوں آصف علی زرداری لندن سے دبئی تشریف لائے۔ کئی دن قیام کیا۔ فوج کی حمایت میں بیان دیا۔ امریکہ اور افغانستان کے موضوعات پر اسٹیبلشمنٹ کے موقف کی تائید کی۔ اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کو دبئی بلاکر وزیراعظم نوازشریف کے خلاف بیانات اور تقاریر میں مصالحہ تیز کرنے کی تاکید کی۔ ان تمام کارروائیوں کے باوجود جب اسٹیلشمنٹ نے کوئی مثبت اشارہ نہیں دیا تو جھٹ سے امریکہ پہنچ گئے جہاں لاس اینجلس میں امریکی سینیٹر جان مکین سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی خبر سندھ حکومت کے محکمہ اطلاعات نے جاری کی۔ جبکہ یہ وفاقی حکومت اور دفتر خارجہ کا معاملہ تھا۔ اس سے قبل ہی پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے زیرک اور ذہین ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں اعلان کردیا کہ فوج جمہوریت کی مدد کررہی ہے۔ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام جنگجوؤں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نوازشریف کو ٹیلیفون کرکے صحتیابی کی مبارکباد دی اور پھولوں کاگلدستہ بھی بھجوادیا۔ آرمی چیف خود جرمنی اور چیکو سواکیہ کے دورے پر تھے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے یہ اقدامات اس پراپیگنڈے کا توڑ ثابت ہوئے جس میں کہا جارہا تھا کہ فوج نوازشریف اور جمہوریت کے خلاف ہے۔ اس طرح امریکی سینیٹروں کو غلط تاثر دینے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی سے پیپلزپارٹی کو لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا جو زرداری دور میں ہی امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے جنہوں نے تھوک کے بھاؤ بلیک واٹر جیسی امریکی تنظیموں کے ویزے جاری کئے اور جن کو پاکستان سے فرار کرانے کیلئے اس وقت کے صدر مملکت آصف زرداری کو کئی گھنٹے چکلالہ ایئرپورٹ پر رکنا پڑا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ اس زمانی میں صدرآصف علی زرداری پر بھی استعفے کیلئے بڑادباؤ تھا لیکن وہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدد سے بآسانی اپنے5سال گزار گئے۔ اس وقت سندھ حکومت بدنامی کی بلندی پر بیٹھی بیساکھیوں کے سہارے اپنی مدت پوری کرنے کی سمت گامزن ہے۔ ہمارے جمہوری نظام میں چونکہ استعفے کا رواج نہیں ہے لہذامشہور قوال امجدفریدصابری کا قتل ہو یا چیف جسٹس کے بیٹے کا اغواء‘ حکومت روایتی عمل سے آگے کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔ وزیراعلیٰ یا وزیرداخلہ کا استعفا تو بہت دور کی بات ہے۔