... loading ...
۲مئی۲۰۱۶کو میری تحریر)وہ ورق تھا دل کی کتاب کا!!!(کے عنوان سے پاکستان کی معروف ویب سائٹ
(http://wujood.com/) میں شائع ہوئی۔اس کا ابتدائی پیراگراف ان جملوں پر مشتمل تھا۔
’’تحریک آزادی کشمیر کے عظیم رہنما اور مقبول بٹ شہید کے دست راست امان اﷲ خان طویل علالت کے بعد ۲۶اپریل کو ہم سے جدا ہوئے۔یہ جدائی اگرچہ خلاف فطرت نہیں ،لیکن میرے لئے اس حد تک تکلیف دہ تھی کہ دل نا تواں پر قابو پانا انتہائی مشکل ہوگیا۔آنکھوں سے خود بخود عقیدت و محبت کے آنسو ٹپکنے لگے۔یوں لگا جیسے میں ماں کی ما متا اور والد صاحب کی شفقت سے ،مہاجرت کے اس صبر آزما دور میں پھر ایک بار محروم ہوگیا:یہ تحریر سوشل میڈیا کے توسط سے لاکھوں قارئین کی نظر ست گزری۔تاہم مجھے خود بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ امان صاحب کی جدائی میرے لئے ایک مستقل صدمے کی حیثیت اختیار کرجائیگی۔۲۶اپریل کے بعد میرے لکھنے کا سلسلہ عملاََ رک گیا۔جس میگزین اور ویب سائٹ کیلئے میں مستقل بنیادوں پر لکھنے کا وعدہ بھی کرچکا تھا اور لکھ رہا تھا۔۔۔وہ سلسلہ بھی رک گیا۔معروف صحافی اور تجزیہ نگار وجود ڈاٹ کام کے مدیر اعلیٰ محمد طاہر کی طرف سے بار بار فون آتے رہے ،انہیں اپنی تحریریں بھیجنے کا وعدہ کرتا رہا،لیکن تا دم ایں ،وعدہ نبھانے سے قاصر رہا۔اور اس کا یہ نتیجہ نکل آیا کہ اب طاہر صاحب کی طرف سے فون آنا بھی بند ہوگئے ۔ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے میں تین کتابوں پر کام بھی کررہا تھا ،وہ کام بھی تب سے رکا ہوا ہے۔
جب بھی کسی موضوع پر لکھنے کی کوشش کی ،تو امان صاحب کی تصویر سامنے آجاتی ہے ،قلم رک جاتا ہے ،خیالات کا رخ بدل جاتا ہے اور میں صرف اور صرف ان ہی کی شخصیت میں ڈوب کر نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہوں۔نم آنکھوں سے ،خیالات کی دنیا میں جب اُن سے رخصت ہوتا ہوں ،تو پھر انہی یادوں کو اپنا سرمایہ سمجھتا ہوں۔امان صاحب سے میرے دل اور ذہن نے اتنا تعلق بنایا ہوگا،واﷲ مجھے اندازہ نہیں تھا ۔مجھے ان سے پیار تھا ۔ان کے پاس بیٹھ کر مجھے سکھ اور اطمینان ملتا تھا ،ان سے خوب باتیں کیا بھی کرتا تھا اور ان کی باتیں بھی غور سے سنتا بھی تھا ،ان کی زندگی کا ہر پہلو سمجھنے کی کوشش بھی کرتا تھا اور انکی کو ششوں اور کا وشوں کا مدح سرا بھی تھا ۔ان کی فقیری میں بوئے اسد اللٰہی بھی محسوس کرتا تھا اور ان کی غیرت اور بہادری کا قائل بھی تھا۔میرے اس تعلق سے لوگ باخبر تھے ،حتیٰ کہ قائد حزب المجاہدین سید صلاح الدین کے ساتھ جب ہم ان کی عیادت کو ان کے دفتر پہنچے تو سید صاحب نے مصافحے اور معانقے کے فوراََ بعد جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ شیخ صاحب آپ کے بڑے فین ہیں۔یہ سب جا ننے اور سمجھنے کے با وجود مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کے جانے کے بعد مجھے اس صورتحال اور اس کیفیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔جس صورتحال اور کیفیت سے میں اسوقت دوچار ہوں۔میں مانتا ہوں ان سے اختلاف کی گنجائش تھی ،اختلاف کیا جا سکتا تھا،لیکن کیا یہ بھی ایک عیاں حقیقت نہیں کہ وہ شمع آزادی بننے کے بجائے ،پروانہ آزادی بننے کے اصول پر کارفرما تھے۔ان کا اٹھنا ،بیٹھنا ،چلنا سب کچھ ایک پروانے کی مانند تھا۔وہ ایک عام تحریکی کارکن کی زندگی بسر کرتے تھے،اور کہیں یہ محسوس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ کوئی غیر معمولی حیثیت کے حا مل ہیں۔ وہ جب اس دنیا میں تھے تو ایک فقیر کی طرح زندگی گزارتے تھے اور جب چلے گئے تو اپنے پیچھے اپنی اکلوتی بیٹی کیلئے کوئی وراثت نہ چھوڑی ۔جو کچھ تھا ،تحریک آزادی کیلئے وقف کیا۔ان کی جدائی واقعی ایک المناک صدمہ ہے اور اس صدمے سے نکلنا کم سے کم میرے لئے ایک بہت مشکل کام ہے ۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے صبر جمیل عطا فرمائے اور قبلہ امان صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے خواب کو پورا فرمائے۔
تحریک آزادی کشمیر کے قائدین بھی اگر بہتر سمجھیں تو میری مخلصانہ رائے ہے کہ وہ امان صاحب کی زندگی کو راہ عمل بنائیں۔اختلاف اختلاف کا نعرہ کھو کھلا ہوچکا ہے ،اس کی آڑ میں تحریک آزادی کشمیر بے وقعت ہورہی ہے۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ،۳۱دسمبر۲۰۱۱کو معروف کشمیری دانشور رہنما اور صحافی خواجہ عبدالصمد وانی انتقال کرگئے ۔وانی صاحب الحاق پاکستان کے کٹر حامی تھے اور اس نظرئے کو دین و ایمان کا جزو لا ینفک سمجھتے تھے۔ان کی یاد میں ۶جنوری کو راولپنڈی پریس کلب میں ایک تعزیتی تقریب منعقد ہوئی ،جس میں آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان اور امان اﷲ خان بھی موجود تھے۔اس موقع پر امان صاحب نے مرحوم وانی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ وانی صاحب میرے قریبی دوست تھے،حالانکہ وہ کٹر الحاقی اور میں کٹر خودمختاری ۔دوستی کی وجہ انہوں نے یہی بیان کی کہ کسی بھی نظرئیے پر ڈٹنے والا انسان منا فق نہیں ہوتا اور ہم دونوں کی دوستی کی بنیاد بھی یہی تھی کہ ہم دونوں منا فقت سے کام نہیں لے رہے تھے۔مرحوم رہنما کی اسی سوچ کو مشعل راہ بنائیں ۔
یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ امان صاحب ہم سے جدائی کے بعد کسی تنظیم کے سربراہ نہیں رہے ،وہ امر ہوگئے اور قومی رہنما کی شکل میں ان کی زندگی کے 83سال ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔اعتکاف پر جارہا ہوں۔اﷲ تعالیٰ مرحوم قبلہ امان صاحب کے درجات بلند فر مائے،ان شا ء اﷲ عید کے بعد دل ناتواں کو صبر کی تلقین کر وں گا اورمختلف موضوعات پر قلم اٹھانے کی کو شش کروں گا۔آئیے دعا کریں کہ کشمیری قیادت رہنما بننے کے بجائے تحریک آزادی کشمیر کے کارکن بننے کو ترجیح دیں،شمع آزادی بننے کے بجائے ،پروانہ آزادی بننے کا راستہ اختیار کریں ۔اگر ایسا ہوا تو پھر وہ وقت ضرور آئیگا جب ہماری قوم آزادی کی نعمتوں سے سرفراز ہوگی۔ورنہ یہ قصہ چلتا رہے گااور ہم قائدین و رہنماوں کی ایک طویل فہرست ہاتھوں میں گھماکر اور سوشل میڈیا پر نچاکر،اپنی انا کو تسکین تو دے سکتے ہیں لیکن قوم و ملت کو اس طرح کے عمل سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اﷲ رحم فرمائے!
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ انتہائی مطلوب حریت پسند رہنماکی موت کا جشن منا ئیں گے، مٹھا ئیاں با نٹیں گے اور نئی کشمیری نسل کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت ایک مہان ملک ہے اور اس کے قبضے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ ختم کرنا جا نتے ہیں۔ لیکن انہیں کشمیر...
اڑی حملے کے بعد نریندر مودی سرکار اور اس کے زیر اثر میڈیا نے پاکستان کیخلاف ایک ایسی جارحا نہ روش اختیار کی، جس سے بھارتی عوام میں جنگی جنوں کی کیفیت طاری ہوگئی اور انہیں یوں لگا کہ دم بھر میں پاکستان پر حملہ ہوگا اور چند دنوں میں اکھنڈ بھارت کا آر ایس ایس کا پرانا خواب پورا ہوگا...
معروف کشمیری دانشور و صحافی پریم نا تھ بزاز نے 1947ء میں ہی یہ پیش گوئی کی تھی کہ اگر مسئلہ کشمیر، کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ ہوسکا، تو ایک وقت یہ مسئلہ نہ صرف اس خطے کا بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے خرمنِ امن کو خا کستر کردے گا۔ 1947ء سے تحریک آزادی جاری ہے اور تا ایں دم ی...
پاکستان اور چین کی ہمالیہ سے بلند ہوتی ہوئی دوستی کی جڑیں نہ صرف تاریخ میں موجود اورتجربات میں پیوست ہیں بلکہ مستقبل کے امکانا ت میں بھی پنہاں ہیں،کئی ایک ملکوں کے سینوں پر مونگ دلتی چلی آرہی ہے ۔وہ جن کا خیال ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں اور روایتی دوستوں کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے تع...
تاریخ گواہ ہے کہ 2002 ء میں گجرات میں سنگھ پریوار کے سادھو نریندر مودی (جو اس وقت وہاں وزیر اعلیٰ تھے) کی ہدایات کے عین مطابق کئی ہزار مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ عورتوں کی عزت کو داغدار کرنے کے علاوہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے۔ ہزاروں رہائشی مکا...
سقوط ڈھاکا ہوا۔ کشمیری درد و غم میں ڈوب گئے۔ ذولفقار علی بھٹو کو سولی پر چڑھایا گیا تو کشمیری ضیاء الحق اورپاکستانی عدالتوں کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے۔ پاکستان نے ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کی تو کشمیر یوں نے کئی روز تک جشن منایا۔ جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں شہید ہوئے تو کشمیر یوں ...
میرا خیال ہے کہ سال 1990ء ابھی تک لوگ بھولے نہیں ہوں گے جب پوری کشمیری قوم سڑکوں پر نکل آئی تھی، بھارت کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار ہر طرف ہورہا تھااوربھارت کا سارا انٹلیجنس کا نظام تتر بتر ہوچکا تھا۔ بھارتی پالیسی ساز اس صورتحال کو دیکھ کر دم بخود تھے۔ انہیں اس بات پر حیرانی ...
باور یہ کیا جا رہا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیری عوام حالات سے مایوس ہو کر تھک جائیں گے ،انہیں پُلوں ،ہسپتالوں ،ریلوے ٹریک ،سڑکوں کے نام پر ایک نئی اقتصادی ترقی کا سراب دکھا کر نظریات سے برگشتہ کر دیا جائے گا۔کشمیر کی نئی نسل اپنے بزرگوں کے مقابلے میں زیادہ عملیت پسندی کا مظاہر...
فروری کا مہینہ پاکستان میں کشمیریوں سے یک جہتی کا پیغام لے کر آتا ہے ۔پانچ فروری کو پاکستان میں کراچی سے خیبر تک اہل پاکستان کشمیری عوام اور تحریک آزادیٔ کشمیر سے یک جہتی کا اظہار جلسے جلوس کے ذریعے کرتے ہیں۔یہ سلسلہ 1990ء سے جاری ہے اور اس کی ابتداء قاضی حسین احمد مرحوم کی کال س...