... loading ...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی سی تھی جو اس وعدے پر واپس گیا کہ ’’آپ کی گزارشات واشنگٹن پہنچا دی جائیں گی‘‘۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا یہ بیان کہ ’’امریکہ خود غرض دوست ہے، مطلب ہو تو گلے لگاتا ہے ‘‘۔ سرتاج عزیز شریف اور قابل احترام شخصیت ہیں لیکن عمر کے اس حصے میں انہیں ایک ناکام عاشق کی مانند یہ شکوہ زیب نہیں دیتا۔ مشیر خارجہ عمر کی جس طویل شارع سے گزر کے آئے ہیں وہ خود اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارا اور امریکہ کا رشتہ کبھی دوستوں والا تھا ہی نہیں کیونکہ دوستیاں تو برابر کی سطح پر کی جاتی ہیں ایک طرف ایک ایسا ملک جس کی معیشت بیس ہزار ارب ڈالر کے مساوی ہے اور ایک ہم ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ سو ارب ڈالر سے قرضے تجاوز کرگئے تو سرخ لائن عبور ہوجائے گی۔۔۔ اس موازنے سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا اس تعلق کو دوستی کہا جاسکتا ہے؟ ہمارا اور امریکہ کا رشتہ تو ایک دوکاندار اور گاہک کا سا رہا ہے امریکہ اپنے مفادات کے تناظر میں حالات اور امکانات کا ایک جہان تشکیل دیتا ہے اور ہم علاقائی سطح پر ان امکانات کی ایک دکان سجاتے ہیں یوں ’’ذاتی مفادات‘‘ کا ایک ایسا سستا بازار معرض وجود میں آجاتا ہے جس میں قوم اور ملک کے منافی سودے ڈالروں میں ہوتے ہیں اب اگر خریداری کے دوران ’’گاہک‘‘ ہم سے مسکرا کر بھی بات کررہا ہو تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ ہمارا دوست بھی بن گیا۔۔۔ اسے تو سودے سے غرض ہے۔ امریکیوں کے خیال میں اب ان کی ’’ضروریات کی چیزیں‘‘ ہمارے پڑوسی کی دکان میں وافر مقدار میں موجود ہیں تو اس نے وہاں کا رخ کرلیا اس پر بے وفائی کا شکوہ ۔۔ چہ معنی دارد؟
گزشتہ پندرہ برس کی دکانداری میں یہ ثابت ضرور ہوگیا کہ ہم اچھے دکاندار بھی ثابت نہ ہوسکے امریکہ نے ہماری امداد کے نام پر گزشتہ پندرہ برسوں میں ہمیں بتیس ارب ڈالر دیے, جس کا بڑا حصہ مغربی بینکوں اور دبئی کی زینت بن گیا لیکن کوئلوں کی اس دلالی میں ملک اور قوم کا سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوگیا اور پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہری اور فوجی جوان شہید کردیے گئے۔ پندرہ برس کسی بھی ملک اور قوم کے لئے انتہائی قیمتی وقت ہوتا ہے لیکن جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کی طوالت کی خاطر مال کے ساتھ ساتھ بہت سے پاکستانیوں کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت فروخت کردیا، اس بات کا اعتراف موصوف خود اپنی کتاب میں بھی کرچکے ہیں، یوں پاکستان کو نصف صدی پیچھے دھکیل دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بش اور سینٹرل کمانڈ کے جنرل زینی کو اپنے ذاتی دوست باور کروانے والے مشرف کو دبئی سے امریکی ویزا بھی میسر نہیں ، کہاں گئے صدر بش اور جنرل زینی؟ مقام عبرت ہے اگر کوئی سمجھے۔
2008ء کے بعد دوستی کے نام پر اس سودے بازی کی عالمی مارکیٹ میں مشرف تو اپنی دکان بڑھا گئے لیکن بین الاقوامی بندوبست کے تحت ’’جمہوریت کے نام پر جو این آر او زدہ سیٹ اپ زرداری گروپ اور شریف خاندان کی شکل میں پاکستان پر مسلط کیا گیا اس نے رہی سہی کسر نکال دی اور پہلی مرتبہ جمہوریت کی آڑ میں اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں پاکستان کے مفادات کے خلاف ایک گھناؤنی سازش معرض وجود میں آگئی اب اگر کوئی اس سازش کے خلاف بات کرے تو اسے جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسا صاف محسوس ہوتا ہے کہ این آر او کے ذریعے جس نام نہاد جمہوری سیٹ اپ کو پاکستان پر مسلط کیا گیا اس کا واحد مقصد ملک کے قرضوں کو سرخ لائن کے اس پار لے جانا مقصود تھا جہاں وطن عزیز کو عالمی سطح پر مالیاتی طور پر دیوالیہ قرار دے کر اسے جوہری صلاحیت اور اثاثوں سے دستبرداری کے نام پر بلیک میل کیا جاسکے۔
کھیل کے اگلے حصے میں امریکہ کی کوشش ہے کہ کابل انتظامیہ، ایران اور بھارت کی شکل میں خطے میں ایک ایسی مثلث تشکیل دے دی جائے جو آنے والے وقت میں پاکستان کی پشت پر کھڑے چین کے اقتصادی مفادات کے سامنے دیوار ثابت ہوسکے ۔لیکن اس مشکل سے بڑی مشکل خود وطن عزیز کے اندر جمہوریت کے نام پر سیاستدانوں نے کھڑی کر رکھی ہے جس میں نون لیگ اور اس کے بعد پیپلز پارٹی پیش پیش ہیں۔ باقی سب چھوٹی لبرل جماعتیں درحقیقت سیاسی جمہورے ہیں، جو ان دو جماعتوں کے زیر سایہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں بھارت نوازی میں کسی طور بھی کم نہیں۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کا کیا مستقبل ہوسکتا ہے۔ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ بھارت کی آبی جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کو مستقبل میں کیا قیمت چکانی پڑ سکتی ہے وہ بس ایک بات جانتے ہیں کہ بھارت راضی ہے تو عالمی گرم و سرد پر حاوی بین الاقوامی صیہونی مافیا راضی ہے۔
اگر مشرق وسطیٰ کی سیاسی تاریخ سے آگاہی ہو تو ہمیں معلوم ہوگا پاکستان میں نام نہاد جمہوری اقدار کے نام پر جو کھیل اب یہاں کھیلا جارہا ہے اس سے ملتا جھلتا کھیل وہاں 70ء کی دہائی میں کھیلا گیا تھا ۔1978ء میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے سب واقف ہیں، یہ اس کھیل کی اس زمانے میں شکل کمال تھی۔ اس کھیل کا ہیرو مصری صدر ’’انور سادات‘‘ تھا جس کے بارے میں مشہور مصری صحافی حسنین ہیکل نے اپنی کتاب The Secret Channels میں لکھا تھا کہ ’’مشرق وسطی کی صورتحال میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرکے انور سادات امن کا شہزادہ بن کر ابھرنا چاہتا تھا‘‘۔ امریکی کوششوں سے ایک ایسی مثال قائم کی گئی تھی جس کے بعد باقی عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے رومانس میں مبتلا کرکے درحقیقت خطے میں اسرائیل کے راستے سے رکاوٹیں ختم کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا اب مصر اور دیگر عرب ممالک میں وہی عرب عسکری قوت جو کبھی اسرائیل کی دشمن تصور ہوتی تھی خود اپنے ممالک میں اسرائیل کے دشمنوں کے مقابل کھڑی ہوگئی جنہیں پہلے بنیاد پرست اور بعد میں انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ یہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا کلائمکس تھا۔۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ عرب حکومتیں جنہیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے رومانس میں مبتلا کیا گیا انہیں کیا حاصل ہوا؟ انوار سادات نے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے عرب قوم کے درمیان ایک ایسے غیر تحریری قرارداد کی خلاف ورزی کی تھی جس کا خمیازہ اسے اپنے سینے میں لگنے والی سترہ گولیوں کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ اس سے پہلے 1948ء سے لیکر سادات کی موت تک ’’عرب قوم کے اس باہمی قرار‘‘ کی خلاف ورزی کی کوشش کرتے ہوئے اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ مراسم کی شکل میں ایک عرب بادشاہ، تین عرب صدور اور پانچ عرب وزرائے اعظم اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ سادات کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے؟ امریکہ اور یورپ بڑی حد تک واقف تھے لیکن وہ سادات سے جو کام لینا چاہتے تھے وہ لے چکے تھے۔ سادات کے بعد دیگر عرب ملکوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی قیام کی ایک دوڑ لگوائی گئی بہت سے عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کی استواری کو امریکی خوشنودی سے تعبیر کیا۔ مصر اور دوسرے عرب ملکوں کے اندر رہتے ہوئے روشن خیالی کا ثبوت دینے کے لئے اسرائیل جانا لازم ٹھہرا تھا اور مصری فنکاروں نے حکومتی حوصلہ افزائی کے تحت اسرائیلی فلم انڈسٹری میں بھی مشترکہ ’’ وینچر‘‘ کئے اور خوب ’’جوہر‘‘ دکھائے (جس طرح آج پاکستانی فنکاروں کو بھارت میں جوہر دکھانے کے مواقع میسر ہیں) لیکن اس تمام کوشش کا حاصل وصول کیا تھا؟ کیا وہ مشرق وسطیٰ جسے آج ہم آگ کے شعلوں میں گھرا دیکھتے ہیں؟
کیا یہ کہانی جنوبی ایشیا کے اس خطے میں دہرانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ مسئلہ کشمیر، آبی دہشت گردی، بھارتی اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم، پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لئے افغان سرزمین کا استعمال ،کابل انتظامیہ اور ایران سے بھارت کا پاکستان مخالف گٹھ جوڑ۔۔۔ لیکن ان تمام خوفناک حقائق کے باوجود پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی غماز نہیں کہ امریکہ انہیں بھی بھارت کے ساتھ ایک اور ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ طرز کے معاہدے کی جانب دھکیلنا چاہتا ہے جس میں پاکستان کو بچے کچھے آزاد کشمیر پر اکتفا کرنا پڑے اور بھارت کی آبی جارحیت سے بھی نظریں چرانی پڑیں۔ تاکہ بھارت جو خطے میں امریکہ کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے چین کی جغرافیائی اور اقتصادی ناکہ بندی کرنے کی پوزیشن میں آجائے۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ امریکہ بیس ہزار ارب ڈالر کی معاشی قوت ہے جس کے سامنے چین سات فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ تیرہ ہزار ارب ڈالر کی ایک معاشی قوت کے طور پر بڑا چیلنج بن چکا ہے اور جو اپنی معاشی رسد کے لئے ایک طرف پاکستان کے راستے پاک چین اقتصادی راہ داری کی شکل میں گوادر اور وہاں سے بحیرۂ احمر تک ایک مضبوط معاشی زون تشکیل دینے کی جانب رواں دواں ہے۔ اسی مقصد کے تحت اس نے اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لئے افریقی ملک جبوتی میں ایک بڑا بحری اڈہ قائم کرلیا ہے۔ یہ چین کی جدید تاریخ میں چین کی حدود سے باہر پہلا بڑا اڈہ شمار کیا جاتا ہے جو دنیا کے حساس ترین بحری راستے یعنی یمن کے باب مندب تک اپنا اثر رکھے گا۔
ہم نے پہلے بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ اگر ساٹھ کی دہائی میں پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ کے قیام کا معاہدہ منصوبے کی شکل میں مکمل ہوجاتا تو ان تینوں ملکوں کی اقتصادی ترقی باہمی تجارت اور نقل و حمل کی کی شکل میں عروج پر ہوتی اور آج کا چین جب ’’پاک چین اقتصادی راہ داری‘‘ کو اس آر سی ڈی شاہرہ سے نتھی کرتا تو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف قسم کی چیزیں شاید اسلام آباد اور تہران میں قائم ہوتیں لیکن افسوس کہ علاقائی کشمکش کی شکل میں ایک طرف ایران اور ترکی کے حالات کشیدہ کردیے گئے تو دوسری جانب پاکستان اور ایران کے بیچ بھارت آن کھڑا ہوا۔
امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کی اس بڑھتی ہوئی اقتصادی پیش قدمی پر پاکستان کے علاقے میں ہی شب خون مارا جائے یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان میں مذاکرات کے نام کا ڈھونگ رچاکر خود ہی اسے سبوتاژ کرتا ہے۔ پہلے ملا عمر کی موت کی خبر افشا کرائی گئی اس کے بعد اب ملا اختر منصور پر ڈرون حملہ کرکے انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا۔ جس پر امریکی وفد کی آمد سے ایک روز قبل چین کی جانب سے بھی شدید احتجاج درحقیقت امریکہ کو اس حوالے سے سخت پیغام تھا۔
بین الاقوامی سطح پر حالات کے اس تناظر میں کیا پاکستانی سیاستدان یا حکمران خاندان جن کے نام مالیاتی بدعنوانی ، منی لانڈرنگ اور پاناما پیپرز جیسے اسکنڈلز میں گھرے ہوئے ہیں، پاکستان کے پلیٹ فارم سے عالمی صورتحال کا مقابلہ کرپائیں گے؟ یقیناً نہیں کیونکہ ان کے مفادات لوٹی ہوئی دولت کی شکل میں مغرب اور دبئی میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے نام پر زرداری گروپ نے اپنے دور حکومت میں مالیاتی فساد کی شکل میں جو گل کھلایا وہ اپنا سیاسی مستقبل تمام کر بیٹھے، اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھڑک ماری اور اس کے بعد دبئی تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، اور امریکہ اور برطانیہ تک جا پہنچے لیکن ان کی جانب سے مطلوبہ گھاس نہ پڑنے کی صورت میں موصوف دبئی واپس آچکے ہیں۔ رہ گیا موجودہ حکمران شریف خاندان تو اس کا سیاسی دور تمام ہوا چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق آدھی سے زیادہ نون لیگ قاف لیگ کی تاریخ دہرانے کے لئے پر تول رہی ہے۔
2017ء میں سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ضرور بدل جائے گا کیونکہ ملک اور قوم اس سے زیادہ اس قسم کے ’’کاروباری سیاستدانوں‘‘ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ نون لیگ کے میڈیا نورتن کچھ بھی کہتے رہیں لیکن عید الفطر کے بعد جو منظر نامہ سیاسی افق پر نظر آرہا ہے وہ بہت مختلف ہے۔ اس مرتبہ تحریک انصاف کی احتجاجی کال اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد ایسا سیاسی جھکڑ ثابت ہوسکتی ہے جو بہت کچھ بہا کر لے جائے۔
پاکستان نے امریکا میں جمہوریت سے متعلق سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ڈیموکریسی ورچوئل سمٹ 9 اور 10 دسمبر کو ہوگا۔ امریکا کی جانب سے سمٹ میں شرکت کے لئے چین اور روس کو دعوت نہیں دی گئی۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم سمٹ برائے جمہوریت میں شرکت کے لیے پاکستان کو مدعو کرنے پر ...
امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے پاکستان اور امریکا کا موقف یکساں ہے ، پاکستان کے سرکاری ٹی وی(پی ٹی وی ) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اورامریکا کے گزشتہ کئی دہائیوں سے مضبوط اور بہترین تعلقات ہیں۔ ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کولیشن فنڈ سپورٹ کے تحت ملنے والی 30 کروڑ ڈالر کی دفاعی امداد روک لی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد امریکی کانگریس کو وزیردفاع کی سفارش نہ ملنے کی وجہ سے روکی گئی۔امریکی وزیردفاع کی جانب سے کانگری...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
یوں لگتا ہے کہ امریکا کے اندر پاکستان کے خلاف ایک منظم ماحول جنم دیا جارہا ہے۔ اور مختلف طریقوں سے پاکستان پر دباؤ پیداکیا جارہا ہے۔ رواں ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی دہشت گردی ، جوہری عدم پھیلاؤ، ، تجارت اور ایشیا پیسفک سے متعلق ذیلی کمیٹیوں نے ایک مشترکہ مباحثے کا عنوان ہی یہ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...