... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
میرے سفری رہنما عبدالقادر حسب وعدہ ٹھیک آٹھ بجے مجھے لینے ہوٹل پہنچ گئے اور ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مرقد عالیہ کی زیارت کے لیے چل پڑے۔ایک دھیمی رفتار سے کار صحرا ئے یہودا Desert Judeanسے گزر رہی تھی۔یہ مرقد یروشلم مشرق کی جانب سے شروع ہونے والے صحرا ئے یہودا میں بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔پندرہ ہزارمربع کلو میٹر پر محیط یہ صحرا دنیا کا سب سے مختصر صحرا ہے ۔ لیکن اس کی ریت کے رنگ، اس کے ٹیلوں کی اونچ نیچ،اس کے نخلستانوں کی تسکین بخش ٹھنڈک نے ا س ارض مقدس کی طویل تاریخ کو بڑے تحمل اور رازداری سے دیکھا ہے۔اس کی زمین میں سختی اس کی ہواؤں میں بے رحم حدت اور اس میں روئیدگی کے فقدان کے باوجود یہ صدیوں سے ایک طرف تو سیاسی باغیوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے لیے ان تھک میدان کار زار بنا رہا ہے تو یہ ایسا بے مروت بھی نہیں کہ اس کے دامن میں دنیا سے کنارہ کش روحانی مراتب کے متلاشی اہلیان حق کو سایہ عاطفت نصیب نہ ہوا ہو۔
ہمارے نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام اسی صحرا میں خاک بر پا ،تلاش حق میں سرگرداں رہے۔اسی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی مراقبے کے لیے آتے رہے تو یہیں پرحضرت دا ؤد علیہ السلام کی افواج نے جیبس(عربی یبوس) کی ایک چھوٹی سی بستی کو حضرت عیسی ؑ کی پیدائش سے ایک ہزارسال پہلے فتح کیا تھا اور شہر کا نام گہوارہ امن یعنی یرو شلم رکھا تھا ۔ دریائے اُردن اس کے ایک طرف چھپتا چھپاتا بہتا بہتا بصد ندامت بحیرہ ٔمردار میں جا گرتا ہے۔ ارے یہ وہی دریائے اُردن ہے جہاں عیسائی عقیدے کے مطابق بائبل کے ایک مصنف اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام یوحنا John نے حضرت عیسیؑ کو غسل تقدس و پاکیزگی یعنی بپتسمہ دیا تھا جس سے ان کے روحانی مدارج اس قدر بلند ہوگئے تھے کہ یوحنا کو آسمانوں سے آتی ایک آواز سنائی دی کہ یہ (نعوذ باﷲ )فر زند الہٰی ہیں ۔ آپ یہ نہ بھولیے گا کہ یوحنا کا خود کا درجہ بارہ حواریوں میں سے محض ایک حواری کا ہے ۔اسی لیے موصوف کا بڑا مقام ہے۔ انہیںJohn-the Baptist یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ عیسائیوں کی نئی بائبلNEW TESTAMENT )جو ان کے ایک بڑا فرقے پروٹسٹنٹ جسے ان کے خوارج سمجھ لیں اور جن کا بڑا کلیسا، چرچ آف انگلینڈ ہے کلیسائے روم نہیں(اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چار حواریوں مارکس، متی، لوقا اور یوحنا کے حوالے سے ترتیب دی گئی ہے۔ اس لیے اس کے آغاز میں ہی چاروں کے نام سے پہلے وضاحتی عبارت The Gospel According to Mark, Mathew, John or Lucas کا سرنامہ درج ہوتا ہے۔ اس میں لفظ According کو سامنے رکھ کر تحریف اور ذاتیات کی گنجائش رکھیں۔
صحرائے یہودا کے ہی ایک کونے میں جیرکو ( Jericho ) ہے۔ اس شہر کو بھی دمشق کی ماننددنیا کا قدیم ترین شہر کہلانے پر اصرار ہے ۔روایات اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے بھی نو ہزار سال قبل سے آباد ظاہر کرتی ہیں۔ایک مقام پر ہمیں عرب بدّؤں کی کچھ چھوٹی چھوٹی بستیاں دکھائی دیں۔عربوں میں ان سے بہتر’’ منصف‘‘ کوئی نہیں بناتا۔ یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ منصف ہم نے نبیل انصاری کے گھر پر کھائی تھی ۔ یہ عرب پلاؤ کی ایک قسم ہے ۔جسے بکری کے دودھ کی دہی کی خمیر بنا کر اس میں گوشت کو ہلکے مصالحے لگا کر چند گھنٹوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے پھر اسے چاولوں پر زعفران، کاجو ، پستے کے ساتھ پھیلا دیا جاتا ہے۔ ہمیں کسی دن کسی بدو کے خیمے میں بیٹھ کر صحرا کی شام کا لطف اٹھاتے ہوئے منصف کھانے یہاں آنا چاہیے، کار کے شیشے سے میری نگاہ اس صحرا کی وسعتوں اور بے آب و گیاہ ریت کا جائزہ لینے لگ جاتی ہے۔ایک بدو چرواہا اپنی بھیڑوں کو آہستگی سے ہانکتا ہوا لے جارہا ۔ ذرا دور ایک اونٹ سڑک پر کسی ناکام عاشق کی مانند دنیا سے لاتعلق بیٹھا تھا گویاوہ ان اسرائیلی ٹینکوں کو جتلا رہا ہو کہ ع پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں ناشاد نہ کر۔یہ ٹینک اس سے ذرا فاصلے پر موجود تھے ۔ یہ علاقہ اکثر سیاسی بھونچال کا سبب بن جاتا ہے۔ یوں اب یہ ہائی سیکورٹی زون میں شمار ہوتا ہے۔
ایک زمانے تک فلسطینی مسلمان حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزار کی زیارت کی خاطر ایک جلوس کی صورت میں بطور ایک تہوار مناتے تھے۔ اس تہوار کی رسم کرد سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کی بیت المقدس کی فتوحات سے پڑی۔آپ اسے جلوس فتح مندی مان لیں۔ سارے فلسطین سے مسلمان ایسٹر سے ایک ہفتہ پہلے جمعہ کو یہاں دھوم دھڑاکے سے جھنڈے لہراتے ، حربی ترانے (جنہیں رجز کہتے ہیں) گاتے اورجشن مناتے ہوئے یہاں آجاتے تھے۔ جشن کا دورانیہ ایک ہفتے کا ہوتا تھا ۔ ان زائرین وارفتہ کے قیام اور طعام کا ذمہ مرقد عالیہ پر حرم الشریف والے وقف کے ذمے ہوتا تھا۔
یہ لطف وکرم 1920 کی پوری دہائی تک جاری رہا مگر پھر یوں ہوا کہ زائرین کا یہ اجتماع برطانوی تسلط کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور دھرنے کا روپ اختیار کرگیا۔سلطنت برطانیہ نے اس پر پابندی لگا دی۔ان کے ملک چھوڑ جانے پر اس کا پھر سے آغاز ہوگیا مگر چند سال کے امن افروز اجتماع کے بعد یہ ایک مرتبہ پھر سے میدان کارزار بن گیا کئی عرب اور یہودی ہلاک ہوگئے۔1967 ء میں جب فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا تو اس اجتماع پر پابندی سن 1997 تک جاری رہی۔ تب سے اسے منانے کی دوبارہ اجازت ہے لیکن اب اس کا وہ دھوم دھڑاکا نہیں، ہر شے بجھی بجھی اور دھیمی دھیمی ہوگئی ہے۔
آج بھی اپریل کا مہینہ ہے ایسٹر میں ابھی ایک ہفتہ باقی ہے۔ہم موسی کلیم اﷲ کے مزار کی جانب اس سڑک پر رواں دواں ہیں جو یروشلم سے جیرکو جاتی ہے۔یہی روڈ آگے بڑھ کر مکۃ المکرمہ تک جاتی ہے۔ حجاج زمینی راستے سے اسی سڑک کو استعمال کرتے تھے۔ عبدالقادر نے جب تیزی سے بائیں جانب موڑ کاٹا تو تو سامنے ایک مدھم سرخ رنگت کی مٹیالی پہاڑی دکھائی دی۔جس سے متصل حضرت موسی علیہ السلام کا مزار تھا۔
ایک حدیث مبارکہ کی رو سے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قدس شریف کے نزدیک ایک شاہراہ کے کنارے ایک سرخ پہاڑی کے دامن میں میرے بھائی نبی موسیؑ کی قبر ہے۔میں اگر وہاں ہوتا تو تمہیں اس جگہ لے جاتا۔ــ‘‘عیسائی اور یہودی اس مرقد کے نبی موسیؑ کی جائے تدفین ہونے کا دعوے کو درست نہیں مانتے۔ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر کوہ نیبو کے دامن میں ان کے مدفن کو مستند مانتے ہیں ۔ میرا معاملہ مختلف ہے ساری دنیا کے یہودی اور عیسائی اپنے اس دعوے میں اکھٹے ہو جائیں تب بھی میں تو بات اپنے نبی ﷺ کی ہی مانوں گا۔ سوچئے تو سہی کہ آج سے پندرہ سو سال پہلے وہ خاتم الانبیا ،سید المرسلین شاہراہ کے کنارے ایک سرخ پہاڑی کے دامن میں مرقد عالیہ کی نشانی بتارہے ہیں اور وہ سو فیصد اپنے محل و وقوع پر پوری اترتی ہے۔کنکروں سے اٹی ہوئی ایک چھوٹی سی سڑک پر آن کر ہم پارکنگ ایریا میں آگئے ہیں۔یہاں بھی دنیا بھر کے مزارات کی مانند زائرین کی جیب خالی کرنے کے لیے کئی کیبن ہیں جن میں مقدس نمونے برائے فروخت ہیں۔مشروبات کے بھی اسٹال ہیں۔ ایک بس سیاحوں کا گروپ لے کر آن پہنچی ہے۔ کاروباری فائدے کی امید میں ایک بدو بھی اپنا سجیلا بانکا ہری سرخ ربن اور بے حد خوبصورت بنی ہوئی مہار والا اونٹ لے آیاہے۔ سارا احاطہ غور سے دیکھیں تو بہت قدیم دکھائی دیتا ہے۔ایک اونچے مینار اور چھوٹے چھوٹے کئی گنبد ہیں۔ عبدالقادر مجھے عین اس دروازے پر لے جاتا ہے جس ہر مملوک حکمران کا یہ کتبہ نصب ہے کہ ا’’س مقام عالی کی تعمیر موسی کلیم اﷲ کے مدفن پر سلطان ظاہر عبد الفتح بیبار کے حکم پر سن668 ہجری میں کی گئی‘‘۔
اس مقام کی قدامت اور تاریخی اہمیت کا احساس آپ کو اندردا خل ہوتے ہی ہونے لگتا ہے۔ایک انجانی سی کشش ،ایک احساس تقدیس۔ بالکل ویسا ہی جیسا کہ اﷲ کے ایک بر گزیدہ نبی کے آستانہ ا ٓخر کا ہونا چاہیے۔مرکزی احاطے میں کئی عرب خانوادے موجود تھے۔ قدیم روایات کے جدید امین۔ جابجا چولہے جل رہے تھے جن پر انواع و اقسام کے کھانے پک رہے تھے۔ وہ وقف جو یہ سب انتظام ان زائرین کے لیے ماضی میں کیا کرتا تھا۔
وہ اب بکھر چکا ہے۔ایک پرانے بڑ کے درخت کے نیچے کئی بزرگ خواتین قرآن الکریم کی تلاوت کرنے میں مصروف تھیں۔ایک نوجوان لڑکی کھانا بنا رہی تھی کچھ مرد حضرات یا تو نوافل پڑھ رہے تھے یاگپ شپ کررہے تھے۔ہم بائیں جانب مڑ کر جب مسجد کے ساتھ ہی ایک کمرے میں داخل ہوئے تو سیدنا موسی علیہ السلام کا مرقد عالی دکھائی دیا۔جنگلہ تھام کروہاں بیٹھے کئی زائرین کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ہم نے بھی انکساری سے فاتحہ پڑھی اور کچھ دور ہوکر ایک کونے میں جا بیٹھے۔ عبدالقادر قرآن الکریم اٹھا کر پڑھنے لگا۔میں نے دیکھا کہ چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار اس مرقد کے چاروں طرف مسلسل ایک ستون پر چکر لگا رہی گویا کسی قسم کا طواف کررہی ہو۔ایک بڑی بی نے کمال شفقت سے مجھے اور عبدالقادر کو پہلے مٹھائی اور بعد میں ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ چند منٹوں کے بعدقادر اچانک کھڑا ہوگیا اور اعلان کیا کہ اب ہم یہاں سے رخصت ہوں گے۔میں نے احتجاج کیا کہ یہاں میرا کچھ دیر اور ٹہرنے کا ارادہ ہے۔اس نے خاموشی سے مجھے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود تیز تیز باہر کی جانب پارکنگ کی طرف چلنے لگا۔میں نے اس سے پوچھ لیا کہ ہم کہا ں جا رہے ہیں۔ ’’ تم عبدالقادر کے ساتھ ہو جو اس سرزمین کا سب سے پرانا سفری رہنما ہے۔ میرے مشورے کبھی غلط نہیں ہوسکتے۔جلدی سے کار میں بیٹھو اور چل پڑو۔میں سر نیہوڑا کر بادل ناخواستہ سوار ہوا۔اس نے گاڑی ریورس کی اور صحرائے یہودا میں ایک میل مزید جانے پر ایک چھوٹے سے شکستہ مزار کے خد و خال افق پر نمودار ہونے لگے۔اس کی پشت پر مجھے ایک چھوٹا سا گاؤں بھی دور ہی سے دکھائی دینے لگا۔اس کے مکانات کی چھتیں مٹی کی اور دروازے ٹین کی تھے۔ سامنے کا یہ منظر دیکھ کر جب میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تو وہ بتانے لگا کہ’’ یہ حضرت موسی علیہ السلام کے چرواہے تھے اس گاؤں کا نام بھی نبی موسیؑ ہے۔میں نے بغور جائزہ لیا تو پورا گاؤں بمشکل پچاس کے قریب گھروں پر مشتمل تھا۔جس کے در و دیوار اور ماحول پر غربت کے دکھ بھرے سائے منڈلارہے تھے۔’’کیا ہم واپس اسی مزار پر نہیں جاسکتے؟‘‘ میں مصر تھا۔ وہ میرے سوال کو نظر انداز کرکے گاڑی سے اُتر کر گاؤں میں داخل ہوگیا۔ایک چھوٹے سے گھر کے باہر رک کر اس نے ٹین کے دروازے پر دستک دی۔ایک شخص باہر نکلا کر آیا اور اس سے بڑی گرمجوشی سے معانقہ کیا۔اس کے بعد وہ میری جانب بھی اسی خلوص اور والہانہ انداز میں بڑھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہم دونوں کے ہاتھ تھام لیے اور زبردستی ہمیں گھر کے اندر لے جانے لگا۔گھر کے اس کمرے میں چھوٹے سے غالیچے فرش پر دراز تھے،درمیان ایک کوتاہ قد میز بالکل وسط میں رکھی ہوئی تھی۔ہمیں وہ وہاں چھوڑ کر اندر کہیں چلا گیا۔’’عبدالقادر یہ کیا تماشاہے‘‘؟ مجھے اب غصہ آنے لگا۔
’’یہ امین الحسین ہیں‘‘۔ قادر نے میرے اشتعال بھرے انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’تو؟‘‘ میری ناراضی کسی طور کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔’’ یہ اس مزار کے متولی ہیں۔سلطنت عثمانیہ کے مقامی حکمران نے سن1800 کے آغاز میں اس مزار کا انتظام و انصرام اس خاندان کے حوالے کیا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اس گھرانے کا شمار فلسطین کے سب سے متمول اور باعزت گھرانوں میں ہوتا تھا۔ان کے پر دادا یروشلم کے مئیر تھے۔اب ان کا حال ابتر ہے۔‘‘عین اسی لمحے وہ میزبان عربی کافی کی پیالیوں کی ٹرے اٹھائے اندر آگیا اور قادر سے عربی میں گفتگو کرنے لگا ۔میں نے ان کے مکالموں کی سن گن لینے کی کوشش کی تو لفظ باکستان اور دکتور کے الفاظ بکثرت سنائی دیے۔کچھ دیر بعد قادر کی آنکھوں میں ایک فاتحانہ چمک دکھائی دی اور امین الحسینی ہمارے ساتھ چل پڑے۔صحرائے یہودا کے اس کنارے پر نبی موسیؑ کے چھوٹے سے گاؤں میں جب سورج سوا نیزے پر محسوس ہورہا تھا عبدالقادر نے کہا ’’یہ ہم کو نبی موسی علیہ سلام کی اصل قبر تک لے جائیں گے جو اسی احاطے میں ایک تہہ خانے میں ہے۔‘‘
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...