وجود

... loading ...

وجود

مسخرے

بدھ 22 جون 2016 مسخرے

mirza

یہ ہونا تھا! پاکستان کو اس کی تاریخ اور تہذیب سے کاٹنے کے ایک طویل اور مسلسل چلے آتے منصوبے میں ذرائع ابلاغ کا کردار کلیدی ہے۔ اس لیے یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ پیمرا حمزہ علی عباسی پر پابندی کو مستقل برقرار رکھ پاتا۔ درحقیقت اس نوع کے اقدامات کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ اقدام عوامی دباؤ کو وقتی طور پر کافور کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ پیمرا کی طرف سے حمزہ علی عباسی پرعائد وقتی پابندی نے اُس دباؤ کو خاصی حد تک کم کر دیا ، جو عوام میں حمزہ علی عباسی کے خلاف پیدا ہوا تھا۔ اب پیمر انے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے آج ٹیلی ویژن کو معذرت کی ہدایت کے ساتھ ٹی وی میزبانوں پر سے پابندی ہٹانے کی نوید بھی دے دی ہے۔ بنیادی مسئلہ معذرت کا نہیں ایک خاص طرح کی تربیت کا ہے۔ مسخرے جب سماج، تاریخ ، مذہب اور تہذیب سے ہاتھ صاف کرنے لگیں تو وہ اپنے ساتھ معاشرے کو بھی ہیجان میں مبتلا کرتے ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ پیمرا تمام ٹیلی ویژن کے مالکان کو موضوعات کے اعتبار سے ماہرین کی طرف رجوع کرنے کا پابند بناتا۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ ٹیلی ویژن کی دنیا سے پاکستانی سماج کو مذہب کے حوالے سے جس ژولیدہ فکری کی طرف دھکیلنا ہے ، اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ٹی وی کی دنیا پر مسخرے حکمرانی کریں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم نوجوان اپنی تاریخ کے ساتھ مکمل مناسبت پیدا کریں۔ اور وہ اپنی فکر کو جذبات کے بجائے جذبے سے پیش کریں۔ مرزائیوں کے خلاف مسلمانوں کا مقدمہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہے۔ اور تاریخ کے دوام میں صداقت کی پوری آب وتاب کے ساتھ کامیاب ہے۔ اِسے کسی حمزہ علی عباسی کے سوال یا لبرل اور سیکولر فکر کے نام پر انتہا پسند مسلم مخالف دانشوروں کی متعصبانہ یلغار سے کوئی خطرہ نہیں۔

مذہبی ذہنوں کو پراگندہ کرنے کرنے کے لیے الزام ودشنام کا مزاج بھی اسی مرزا کے ذریعے پیدا کیا گیا تھا۔ جو آریہ سماجیوں سے مناظروں میں اُبھارا گیا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ان مناظروں نے ہی اُس راج پال جیسے لوگ پیدا کیے تھے جو بعد میں شاتم رسولﷺ بن کر سامنے آئے۔

مرزا غلام احمد نے 1880ء میں اپنے غیر معمولی ہونے کا اعلان خود کو ’’ملہم من اﷲ‘‘ قرار دے کر کیا تھا۔ پھر اُس کی کتاب براہینِ احمدیہ میں مجدد ہونے کا دعویٰ سامنے آیا۔ اگلے گیارہ برسوں تک وہ مختلف دعوؤں کی قے کرتا رہا۔ اور برصغیر میں خود کو منوانے کے لیے ٹامک ٹوئیاں مارتا رہا۔ اُس کا مسئلہ بھی کچھ ٹی وی اینکرز کی طرح تھا جن کے پروگرام کی ریٹنگ نہیں آتی۔ مرزائیت کی ریٹنگ برصغیر کے مسلمانوں میں صفر تھی۔ اس عالم میں مرزا غلام احمد نے 1891ء میں اپنے لیے مسیح موعود کا دعویٰ کیا۔ اور’’ظل نبی‘‘ کی اصطلاع استعمال کی۔ تب مسلمان اُسے حقارت سے دیکھنے لگے۔ مرزا غلام احمد نے امکانات کی دنیا کو مزید وسیع کرنے کے لیے ایک اور دعویٰ بھی کیا۔ اُس نے سیالکوٹ میں نومبر 1904ء میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے خود کو کرشن کی مانند قراردیااور کہا کہ وہ ہر مذہب کے اوتار ہیں۔ دعوؤں کی دنیا میں یہ ایک انوکھا دعویٰ تھا۔

مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے تب انگڑائی لے لی تھی۔ وہ علمائے کرام ہمارے سروں کے تاج ہیں جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی مرزائیت میں موجود ،ردِ اسلام کی بو محسوس کرلی تھی۔ علمائے کرام نے مرزا غلام احمد کے متعفن خیالات پر اپنی فقہی آراء 1890ء میں دینا شروع کردی تھی۔ تب شاید حمزہ علی عباسی کے ابا میاں کے ابامیاں بھی پیدا نہ ہوئے ہوں گے۔ حمزہ علی عباسی کون سا انوکھا سوال اُٹھا رہے ہیں۔ سارے سوالوں کے جواب تب دے دیئے گیے تھے۔ ریاست کے قیام سے پہلے اور بعد میں اس پر ایک مسلسل بحث رہی ہے۔ مرزائیوں کے متعلق تمام فیصلے مسلمانوں کے اجتماعی شعور سے اُٹھے ہیں اور متفقہ رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد یہ مسئلہ صرف قومی اسمبلی میں نہیں گیا بلکہ یہ مختلف عدالتوں میں مختلف عنوانات سے زیربحث آتا رہا ہے۔ منہ میں مستقل قے رکھنے والے چند بدبودار لوگوں کی نئی آزادر وی اور بہکی بہکی زندگی کا بوجھ مسلمانوں کا اجتماعی شعور کیوں اُٹھائے۔وہ اپنی جدیدیت اور اپنی آزادروی کے بوجھ میں خود ڈبیں ڈوبیں۔

اگر بیدار مسلم ذہنوں کو سازشوں کے تانوں بانوں کو سمجھنے کی فعال کوشش کرنی ہو تو اُنہیں مرزا غلام احمد کی زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ انگریز کے اس کاشتہ پودے کے بیج کیسے ڈالے گیے؟ مختلف عیسائی مشنریز سے اولاً مناظرے بازی کا آغاز اسی شخص نے کیا تھا۔ کسی کو حیرت نہ ہونی چاہئے کہ یہ جن انگریزوں کا ایجنٹ تھا وہ سب عیسائی تھے۔ مگر اُسے اُن ہی عیسائی مشنریز سے مناظروں میں اُبھارا

گیا۔ سادہ مسلم ذہن اس مناظرے کی لت میں ایک لذت کشید کرنے لگے۔ اور اِس ماحول میں مرزا غلام احمد کے لیے قبولیت کے راستے پیدا کیے گیے۔ مذہبی ذہنوں کو پراگندہ کرنے کرنے کے لیے الزام ودشنام کا مزاج بھی اسی مرزا کے ذریعے پیدا کیا گیا تھا۔ جو آریہ سماجیوں سے مناظروں میں اُبھارا گیا۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ان مناظروں نے ہی اُس راج پال جیسے لوگ پیدا کیے تھے جو بعد میں شاتم رسولﷺ بن کر سامنے آئے۔ ان مناظروں کے ذریعے انگریز دراصل خاتم النبی حضرت محمد مصطفیﷺ کے حوالے سے بدگوئی کی ایک ایسی مہم پیدا کرنا چاہتے تھے جو ’’جواب آں غزل‘‘ کے طور پر دکھائی دے، اور مناظرے بازی کے باعث قابل برداشت بن جائے۔ اس طرح انگریز مسلمانوں کی سرکاردوعالم ﷺ سے اٹوٹ محبت کو پگھلانا چاہتے تھے۔ ایک صدی بیت گئی، مگر مسلمانوں کے ذہنوں سے تصور مصطفیﷺ ، دلوں سے حب مصطفیﷺ ،لبوں سے ذکر مصطفیﷺ ، ہاتھوں سے عَلم مصطفیﷺ، اور مقاصد سے اتباع مصطفی ﷺ کو ایک درجے بھی کم نہ کیا جاسکا۔ اس کے لیے ہر نوع کی تحریک کو اُبھارا گیا۔ یہاں تک کہ جد ید قومی ریاستوں کو مذہب سے بڑھ کر عقیدہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جس میں جدید قومی ریاستوں کو اسلام سے اوپر اور اُس کے عقائد کو ریاست کے لیے قابل تنسیخ حالت میں حکمرانوں کے ہاتھ میں تھمانا شامل رہا۔حکمران بھی وہ جو پہلے سے عالمی فرمان میں مغربی حکمرانوں کے حاشیہ برادر ہیں۔ (حضرت علامہ جاوید غامدی کی پوری فکر اسی نکتے کے گرد گھومتی ہے۔ جس پر عالم اسلام کے درد مند مفکرین زبردست محاکمے کا کام کر رہے ہیں ۔ )

ایسی تمام تحریکیں جو مسلمانوں میں پیداکی گئی اُس کا اوّلین مقصد مسلمانوں کے سیاسی آرڈر کو غیر متوازن کرنا رہا ہے۔ آج قادیانیوں کے حق میں سوال اُٹھائے جانے کے مقاصد بھی یہی ہیں۔ آج کے مسلم نوجوانوں کو معلوم نہیں کہ کس طرح مرزائیوں نے پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کی فتح پر شادیانے بجائے تھے اور سقوط خلافت عثمانیہ پر جب حضرت علامہ اقبالؒ آنسو بہا رہے تھے ، تو یہ جشن مسرت منا رہے تھے۔ مرزائیوں کے خلاف اولین مزاحمت کرنے والے مولانا ظفر علی خان اب کسی کو یاد نہیں رہے۔ مرزائیت کے فکری محاکمے کے لیے اُن کے گراں قدر مقالے،اور فکاہیہ نظموں پر مشتمل ارمغان قادیان کہیں گم ہے۔بعد ازاں جماعت احرار نے مرزائیت کے خلاف ایک زبردست محاذ بنایا۔ اور مسلمانوں کا اجتماعی کفارہ اداکیا۔ اس تحریک کی خاطر جماعت احرار نے برصغیر میں بے اندازہ سیاسی نقصان اُٹھایا مگر سرکار دوعالمﷺکی ختم نبوت کا مقصد اوڑھے رکھا۔عطااﷲ شاہ بخاریؒ کے الفاظ کے جادو نے مرزائیت کا جادو توڑا۔وہ اس فتنے کے خلاف خاتم النبی حضرت محمدﷺ سے وفا کی تصویر بن گیے۔ شورش کاشمیری کی قبر کو اﷲ نور سے بھردے، اُنہوں نے اس تاریخ کو مختلف حوالوں سے محفوظ کیا۔ اور اپنے آپ کو اس مقصد سے والہانہ پیوستہ رکھا۔ مولانامودودی ؒکے بے مثل قلم نے اس مسئلے کو قادیانی مسئلہ کے نام سے ایک کتاب میں پوری طرح بے نقاب کیا۔جدید مسلم ذہنوں کو دلیل کی جو آنچ درکار تھی، وہ آپ کے معجز بیاں قلم نے مہیا کی۔

مرزائیوں کو مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت قرار دینے کا سہر ا دراصل علامہ اقبالؒ کے سر ہے ۔وہ اُنہیں یہودیوں کا مثنیٰ(فوٹوکاپی) کہتے تھے۔ انہوں نے 10جون 1935ء کو اسٹیٹسمین میں ایک بیان کے ذریعے مرزائیت کے متعلق اپنی فکر کا خلاصہ پیش کرکے اُنہیں مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت باور کرادیا تھا۔اس سے ذرا قبل حضرت علامہ اقبالؒ نے 21جون 1932ء کو پنڈٹ جواہر لال نہرو کے نام ایک خط لکھا، جس میں اُن کے مقالات سے مرزائیوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے ہمدردی کے تاثر کے رفع ہونے پر مسرت کا اظہار کیا گیا۔ علامہ اقبالؒ نے اس خط میں دوٹوک طور پر لکھا کہ

’’میں اس باب میں کوئی شک وشبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ احمدی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔‘‘

میرزائیوں اور مسلمانوں کے مابین فکری مجادلے کی ایک پوری تاریخ ہے۔ اس تاریخ کے درمیان علمائے حق اور مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کھڑے ہیں جو یقینا حمزہ علی عباسی سے ذرا زیادہ ہی پڑھے لکھے ہوں گے۔ تاریخ کے اس ورق کو پوری طرح کھولنا ضروری ہے جو حضرت علامہ اقبالؒ کی ہم آہنگی میں عدالت عالیہ لاہور کے ایک ریٹائرڈ منصف مرزا سر ظفر علی نے دلائل کی گوٹاکناری کرکے تاریخ کے سپرد کردیا۔ جس میں واضح کیا گیا تھا کہ قومیں نبوتوں کی بناء پر وجود پاتی ہیں۔ اس دلیل سے مرزائیوں کو مسلم قوم سے پرے دھکیل دیا گیا تھا۔ تب پاکستان معرض وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔ ریاست کی طرف سے کسی کو کافر کہنے کا سوال بھی کھڑا نہیں ہواتھاجب مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے اُنہیں کھڑے کھڑے خود سے دور دھکیلا تھا۔ ان کے مکروہ چہروں پر پڑا نقاب نوچ لیاتھا۔ مرزائیت کے حوالے سے مسلمانوں کا یہ شعور اپنے پورے شرح صدرکے ساتھ تب بھی پوری طرح راسخ تھا جب اُن کی سیاسی وحدت روبہ زوال تھی۔ مگر اُن کی دینی وحدت نے اُنہیں بچائے رکھا۔ جدیدیت پسندوں کے نام پر سامنے آنے والی ناپختہ مگر مفاد آشنا مخلوق کو ابھی یہ باور کرانا مشکل ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے جب کبھی سیاسی وحدت پائی ہے تو اُس کی محرک دینی وحدت رہی ہے۔ اور انگریزوں نے جب بھی دینی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی ہے تو اُس کا مقصد سیاسی وحدت کا خاتمہ رہا ہے۔ آج کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔

جہاں تک اُس ریٹنگ کے مارے مسخرے کے سوال کا معاملہ ہے ، توہر سوال کا جواب رکھنے والی اس قدر عظیم تاریخ وتحریک کے سامنے پہلے وہ لڑکا اپنے سوال کے حق کو تو ثابت کرے!!!!!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر