... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
اُس کا طرز تعمیر بھی ویسا ہی ہے۔یہاں بھی روشنی بے حد مدھم ہے۔برسوں کے دھویں نے اس کی دیواروں کو سیاہ کردیا ہے جس سے اس کی قدامت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔یہاں ایک کمرے میں جا بجا لٹکتے فانوس ،مختلف مذہبی طغرے، تصاویر اور لٹکاوے ایک عجب منظر عقیدت باندھتے ہیں مگر مزار بالکل خالی ہے۔
یہاں کسی انسان کے دفن کیے جانے کے کوئی آثار نہیں ملے۔ اس کی وجہ سے یہ خیال بھی عام ہوگیا ہے کہ اﷲ نے انہیں بھی اپنے صاحبزادے(عیسائی عقیدے کے مطابق) کی مانند براہ راست آسمانوں میں اٹھا لیا۔ اس کے لیے انگریزی کی اصطلاح “Assumed” استعمال ہوتی ہے اور جو چرچ یہاں بنایا گیا ہے اسے “Church of Assumption”. یا عربی میں کنیسۃ السیدۃالعذراء کہا جاتا ہے۔مرقد میں ماحول بہت بوجھل اور دل فگار ہے۔ جا بجا آپ کو خواتین کی آہ و بکا سنائی دیتی ہے۔ایک ماں کا درد تاریخ کے رگ و پے میں سمایا ہوا لگتا ہے۔بیٹے کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد وہ دنیا سے بالکل ہی کنارہ کش ہوگئیں تھیں اور ہمیشہ کی عبادت گزاری میں مزید تیزی آگئی تھی۔ ساڑھی اور گریہ زاری میں ملبوس ایک خاتون نے جو بظاہر مدراسی لگتی تھی، مجھے بے مصرف اور خالی الذہن جان کر ایک شمع تھما دی تو میں نے بھی اس مرقد خالی پر سلگا کر اسے رکھ دیا ۔سر جھکایا، دعا مانگی اور چل پڑا۔
کنیسۃ السیدۃالعذراء (عذرا بمعنی کنواری، بی بی مریم کے نام کا عیسائی سابقہ )سے باہر نکل کر مجھے احساس ہوا کہ پہاڑیوں کے اوپر نیچے اور شہر بھر میں گھوم کر میں کچھ تھک سا گیا ہوں ۔اس طرح کی تھکاوٹ سے جلد نجات پانے کا میرے پاس ہمیشہ کا ایک آزمودہ نسخہ کافی کے چند گرما گرم کپ ہوتے ہیں۔چرچ سے سو میٹر دور جاکر ایک چھوٹے سے کیفے پر نظر پڑی ۔ اب ہلکی ہلکی بونداباندی بھی ہورہی تھی۔یہاں بیٹھ کر میں اس سفر نامے کے لیے ابتدائی نوٹس بھی لکھنا چاہتا تھا۔
ایک خاموش کونے میں ابھی دوسرا کپ بمشکل ختم کیا تھا کہ میرے بیٹے کا فون آگیا ۔ وہ ان دنوں آسٹریلیا میں زیر تعلیم ہے ۔اس میں بھی میری بھٹکتی روح سمائی ہے۔سیر و سیاحت کا دلداہ ہے۔جاننا چاہتا تھا کہ میرے سفر کے تجربات کیا ہیں۔ہم کوئی پندرہ منٹ تک اردو میں محوِگفتگو رہے۔
ہم باپ بیٹے کی گفتگو کے دوران مجھے لگا کہ میں مسلسل ایک ادھیڑ عمر کے ایک عرب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہوں۔اس کی اس دیدہ دلیری سے بچنے کے لیے میں نے پشت اس کی جانب کرلی تاکہ وہ میرے چہرے کے تاثرات نہ پڑھ سکے۔ فون بند کرکے بمشکل تیسرا کپ اس ارادے سے بھرا ہی تھا کہ اپنے نوٹس قلمبند کرنا شروع کروں کہ ایک گرج دار آواز میں’’ السلام علیکم اور ہیلو میرا نام عبدالقادر ہے‘‘ مجھے سنائی دیا۔نگاہیں اٹھانے پر ایک سیدھا ہاتھ میرے سامنے مصافحے کے لیے دراز تھا۔ اسی ادھیڑ عمر کے عرب عبدالقادر کا ہاتھ، جو مجھے کافی دیر سے وہاں بیٹھا تک رہا تھا۔قدرے ہچکچاہٹ سے میں نے بھی دست مصافحہ دراز کیا اور اپنا نام بتایا۔اس کے چہرے پر روشنی پھیلی اور پوچھنے لگا کہ’’ کیا میں مسلمان ہوں؟ــمجھے یہ زبان جو تم بول رہے تھے بہت اچھی لگی‘‘۔میں نے جان چھڑانے کے لیے بتایا کہ’’ اس زبان کا نام ہے ’’اردو‘‘۔
اردو کا نام سن کر اس کے چہرے پر گہری سوچ کے سائے منڈلانے لگے جیسے وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو۔لفظ ’’اردو‘‘ اس دوران اس کے لبوں سے کئی مرتبہ ادا ہوا۔اچانک بے یقینی اور تذبذب کے وہ سائے چھٹ گئے۔چہرے پر ایک نئی روشنی طلوع ہوئی اور وہ کہنے لگا ’’کیا یہ وہ زبان نہیں جسے پاکستانی بولتے ہیں؟‘‘
میں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔’’کیا آپ پاکستانی ہیں؟‘‘ یہ اس کا اگلا سوال تھا۔ اب اس کی خوشی دیدنی تھی۔ پاکستان کا نام فضا میں بلند ہوتے ہی میں اب اس مسرت کا پیشگی اندازہ لگا لیتا ہوں جو فلسطینی عربوں کے وجود پر طاری ہوجاتی ہے۔وہ جھک کر عرب رسم کے مطابق میرے گال کا بوسہ لینے لگا۔’’واﷲ سنا بہت تھا مگر تم پہلے پاکستانی ہو جس کا دیدار مجھے نصیب ہوا ہے‘‘۔
اس کی وارفتگی اور والہانہ اظہار دیکھ کر مجھے گمان گزرا کہ میں تیزی سے معدوم ہوتی جنگلی حیات کی کوئی نسل ہوں اور وہ مردوں کی جین گڈال ہے (جن کا چمپینزیوں پر بڑا تحقیقی کام ہے)یہ مجھ پر زبردستی مسلط کی گئی ملاقات سچ پوچھو تو میرے لیے سرمایہ افتخار ہے اور تا دم تحریر جاری ہے۔اسرائیل میں وہی میرا معاون، سفری رہنما اور بہترین دوست ثابت ہوا۔
اس کی ایک چھوٹی سی ٹریول ایجنسی تھی جس میں اس کے کاروباری معاونین اس کے چار بیٹے اور تین عدد داماد بھی تھے۔مسلمان ہونے کے ناطے اُسے اس کاروبارکو کرنے کے لیے اسرائیل نے بطور ٹور آپریٹر کوئی لائسنس جاری نہیں کیا تھا ۔وہ بھی ہار ماننے والی روح نہ تھا۔ دھڑلے سے اپنا کاروبار چلا رہا تھا۔اسے جب یہ علم ہوا کہ میں اسرائیل میں مزید ایک ہفتے قیام کروں گا تواس نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میری سفری ترجیحات کیا ہیں؟
میں نے ایک تاسف سے کہا کہ یہاں اسرائیل میں مسلمانوں کے لیے دیکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ ایک ماہ بھی ناکافی ہوگا مگر اس کے باوجود حضرت موسیٰ ؑکا مرقد، ہیبرون، بیت اللحم،بحیرۂ مردار(Dead Sea)حضرت لوطؑ کی برباد بستیوں ،صدوم اور گم راہ (h Sodom and Gomorra ) کی باقیات، قمران کے غاراور جیریکو۔
میری سیاحت کی فہرست خواہشات کو اس نے بہت اطمینان سے سنا اورسگریٹ کے ایک لمبے سے کش سے دھواں چھوڑتے ہوئے کہا کہ’’ یہ تو کوئی خاص مشکل نہیں۔ یہ سب ایک ہفتے میں بآسانی اور جی کھول کر ہوجائے گا۔’’ اچھا ‘‘اس کی یقین دہانی پر میرا دل کھل اٹھا۔ مگر ایک کنجوس پنڈی وال کی رگ کفایت شعاری بھی پھڑک اٹھی اور میرے شوق سیاحت کا ہاتھ تھام کر ساتھ ساتھ چلنے لگی ۔میں نے بھی بلاتامل پوچھ لیا کہ اس کا کل معاوضہ کیا لوگے۔میں اپنا ہوم ورک اس حوالے سے کرکے نکلا تھا۔ پٹرول اسرائیل میں 180 روپے فی لیٹر ہے۔ایک آرام دہ ٹیکسی کا پورے دن کا معاوضہ کسی طور بھی 330 سے 350 امریکی ڈالر سے کم نہیں ہوتا۔ میں منتظر تھا کہ وہ کیا اجرت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کی اجرت کی طلبی میں ہی اس کے کچھ دیر پہلے ظاہر کیے ہوئے جذبات کی پرکھ ہوجائے گی۔
’’میرے بھائی اسرائیل میں مسافت آسان نہیں یہودی ڈرائیور ہو تو مسلمان علاقوں یعنی بیت اللحم ، جیریکو اور ہیبرون میں جانے سے ہچکچائے گا ۔مسلمان ڈرائیور کے لیے ان کے “A” علاقوں میں داخل ہونے پر پابندی ہوگی۔
میں اُس کی اس وضاحت پر جھلا کر پوچھ بیٹھا کہ’’ اس مسئلے کا آخر حل کیا ہے؟‘‘
’’ارے حل تو آپ کے سامنے ہی بیٹھا ہے۔ پریشان کیوں ہوگئے ۔میں اسرائیلی عرب ہوں۔مجھ پر یہ سفری پابندیاں لاگو نہیں۔ میرے پاس شناختی کارڈ ہے۔میری کار پر بھی تل ابیب کی نمبر پلیٹ ہے ‘‘۔ عبدالقادر نے سارا مسئلہ ہی چٹکیوں میں بلکہ سگریٹ کے دھویں میں اڑا دیا۔میں نے سوچاکہ عبدالقادر فلسطین والے کے راگ درباری کا یہ طویل الاپ شاید مجھ سے زیادہ پیسے بٹورنے کا آزمودہ سیاحتی چمت کار ہے۔سیر و سیاحت کے شوقین جانتے ہیں کہ یہ سارا کھڑاگ ریشم کے کیڑے کے تار بافی کا عمل ہے مگراس میں ریشم کا کیڑا سیاح ہوتا ہے جسے خوش اخلاقی اور غیر معمولی دل چسپی کے اظہار میں لپیٹ کر ماردیا جاتا ہے۔یہ یقینا مجھ سے ٹکا کے اجرت مانگے گا۔میں نے ایک دفعہ پھر سے اجرت کا سوال دہرایا تو اس نے شفقت سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’ یہ بتاؤ کل کہاں اور کب جاؤگے ؟ معاوضے ہم بعد میں طے کریں گے‘‘برسوں کی سیاحت گردی نے مجھے اس طرح کی کھلواڑ سے کنارہ کھینچنے کا سبق سکھایا ہے ۔ اس سے بعد میں بہت بد مزگی ہوتی ہے۔
پہلی دفعہ دل کے ماہر نے دل کا مشور ہ مانا۔ اپنی احتیاط کو بالائے طاق رکھا اور حضرت موسیٰ ؑکے مرقد عالیہ کی طرف جانے کا قصد ظاہر کیا۔
اس نے خوش دلی سے اثبات میں سر ہلایا۔میری جائے قیام پوچھی اور کل آٹھ بجے صبح لینے آنے کا وعدہ کرکے وہ چلا گیا۔میں نے اپنے نوٹ مکمل کیے ایک عدد کافی اور بکلاوا کھایا اور جب بل دینے کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں موجود بڑی بی نے کہا وہ تو عبد القادر نے ادا کردیا ہے۔
چالاکو کہیں کا۔ مجھے مکمل طریقے سے اپنے دام الفت میں پھانس کر لوٹنا چاہتا ہے۔ دل میں اس بے رحم شیطانی وسوسے نے چھلانگیں مارنا شروع کردیا۔ (جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...