... loading ...
ذکر ہے پاکستان ، بنگلہ دیش، خالصتان، کراچی اور سب سے بڑھ کر ’’را‘‘ کا۔دو نقطہء ہائے نظر ہیں۔ایک تو بلوچوں،بنگالیوں، یہودی اور ایرانیوں والاہے۔ وہ کہتے ہیں بدلہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔بلوچ بدلہ لینے کا عہد اس طرح کرتے ہیں کہ سرسوں کے تیل والے مٹکے میں پورا بازو گیلا کرتے ہیں پھر وہی بازو تل سے بھرے مٹکے میں ڈبوتے ہیں بازو پر جتنے بھی تل چمٹ جائیں وہی بدلے کے لیے مواقع اور دن یا سال ہوتے ہیں۔
پہلے بنگالیوں کے جذبۂ انتقام کا ذکر ۔کیوں کہ اندرا گاندھی کے احساس ہزیمت و ہتک کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے ۔ شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان جو اس وقت بنگلہ دیش کے وزیر اعظم تھے انہیں میجر سیدفاروق الرحمن نے 15اگست 1975 کو ایک خونی انقلاب میں خاندان بھر کے افراد اور بچوں سمیت قتل کردیا تھا۔ شیخ مجیب کی صاحبزادی حسینہ واجد بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم ہیں ۔وہ اس لیے بچ گئیں کہ وہ اور ان کی ہمشیرہ شیخ ریحانہ ان دنوں ملک سے باہر تھیں۔میجر فاروق جو بعد میں کرنل کے عہدے تک پہنچ گئے تھے۔ ان کی زندگی سے آنکھ مچولی کی داستان عجیب ہے ۔ مجیب کے بعدوزیر اعظم بننے والے خوندکر مشتاق احمد جنہیں مجیب کے قتل کے بعد جب علی الصبح ان کے رشتہ دار میجر خوندکر رشید جو میجر فاروق کے بہنوئی تھے صدر کا حلف دلوانے کے لیے لینے پہنچے تو موصوف یعنی خوندکر مشتاق احمد کے خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ کم از کم ایک گھنٹہ غسل خانے میں بند رہے ۔بہانہ یہ تھا کہ پاجامے کے لیے ازار بند نہیں مل رہا تھا۔اس دوران پورا فوجی دستہ مزے سے ان کے محلے میں ادھر اُدھر ہوٹل سے ناشتہ اور انتظار کرتا رہا۔انہوں نے حلف اٹھاتے ہی ایک این آر او یعنی the Indemnity Ordinanceجاری کردیاجس کی رو سے مجیب کے قتل میں کوئی نئی تحقیق ، تفتیش یا قانونی چارہ جوئی ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔ کئی انقلابات اور انتخابات کے بعد جب حسینہ واجد 2009 ء میں تیسری بار وزیر اعظم بنیں تو تمام تر قانونی تحفظات کو جمہوریت کے چولہے میں جھونک دیا گیا اور انہیں 28جنوری 2010 ء کوپھانسی دے دی گئی۔
بیانیہ کے طو ل سے بچنے کے لیے ہم سیدھے 14؍ جون 2015 ء کو تک پہنچتے ہیں۔اس تاریخ کو بنگلہ دیش کے صدر عبدالحامد کے ہاتھوں مودی کو اٹل بہاری واجپائی جو ان ہی کی پارٹی کے لیڈر تھے ‘Bangladesh Liberation War Honour’ کا ایوارڈ دیا گیا۔مودی جی بنگلہ دیش کی جنگ میں بی جے پی کی جانب سے مکتی باہنی کے لیے رضاکار بھرتی کرتے تھے۔ بھارت میں تان سین کے علاقے گوالیار کے ہمیشہ کے شیخ رشید کی طرح کے کنوارے اٹل بہاری واجپائی جی نے جن کو ہمارے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف سے مودی جی کی طرح سے بہت خاص انسیت تھی اور جنہیں جنرل پرویز مشرف سے کارگل کرکے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا شدت سے گلہ رہا، انہوں نے حیرت ناک طور پر سقوط ڈھاکا سے دس دن پہلے بھارتی لوک سبھا میں بھارتی حکومت سے باقاعدہ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
The Kaoboys & RAW: Down Memory Lane کے مصنف اور کاؤ صاحب کے معتمد خاص جناب بی۔ رامن صاحب رقم طراز ہیں کہ را کے حلقوں میں خصوصی طور پر اور چار سو عالم میں عمومی طور پر یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ چاپلوسی میں مرد آہن مرد حق ضیا الحق اپنا جواب آپ ہیں۔ وہ صبح ناشتے کے بعد ہندوستان کے وزیر اعظم سے فون پر اکثر بات کیا کرتے تھے۔’’را ‘‘ ان کے فون ٹیپ کرتی تھی۔مرارجی ڈیسائی کو جنہوں نے خیر سے 95 برس کی پکی پکائی عمر پائی۔اپنی حکیمانہ معلومات اور آیورویدک دواؤں کے استعمال و اثرات سے آگاہی پر بڑا ناز تھا ۔ ان سے جب ضیا الحق ان نسخوں کی افادیت پر بات کرتے تھے تو مرارجی بھائی ڈیسائی کو بڑی مسرت ہوتی تھی۔ضیا الحق اپنی آواز خلوص کی چاشنی میں ڈبوکر پوچھتے تھے ’’ڈیسائی جی ایکسی لینسی دن میں اپنا پیشاب کتنی دفعہ پینا چاہیے۔کیا یہ صبح کا پہلا پیشاب ہو کہ یہ فیض کسی وقت بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ ‘‘ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ڈیسائی جی صبح اٹھ کر پہلا کام یہ کرتے تھے کہ ایک گلاس میں اپنا پیشاب کرکے اسے غٹ غٹ پی جاتے تھے۔اس میں وہ اپنی ذہانت ، طویل عمری اور توانائی کا راز بتاتے تھے۔اسی وجہ سے مغرب میں Urine Drinking Indian (UDI)کی اصطلاح مقبول ہوئی۔
بنگلہ دیش میں مجیب الرحمن سے غداری کا بدلہ لینے کے شواہد تو ہمارے ہاں نہیں ملتے مگر نوجوان فوجی افسران کے اس انقلا بی ٹولے کو مجیب کے بھارت کی جانب بے جا جھکاؤ سے بہت شکایت تھی۔بھارت سے نمٹنے میں جس آہنی اعصاب کا مظاہرہ جنرل ضیا الحق نے کیا وہ اس کے بعد کسی پاکستانی سربراہ کے حصے میں نہیں آیا۔ایوب خان کو بھارت میں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ نہرو کے مقابلے میں وہ ذہنی طور پر بہت پس ماندہ تھے۔وہ ان سے مل کر ایسے خوش نہیں ہوتے جیسے مغربی سربراہان سے ہوتے تھے۔جنرل یحییٰ خان تو ہمہ وقت مئے ناب میں ڈوبے اور لج لجاتی خواتین کے دامان پاک باز سے لپٹے رہتے تھے۔ لہذا اُن پر تو مٹی پاؤ ۔
بھٹو صاحب بین الاقوامی تعلقات میں بہت زیرک تھے مگر ان کا مسئلہ یہ تھا کہ اندار گاندھی سے معاملات طے کرتے وقت ان دونوں رہنماؤں کی انا ،خود اعتمادی ،قابلیت اور one-up بننے کی ضد ، سر بازار گتکا ( ڈنڈوں سے لڑا جانے والا دیسی مارشل آرٹ جو آپ کو دس محرم کے سنی جلوسوں میں اکثر ناگن چورنگی اور دس نمبر لیاقت آباد پر ایک عرصے تک مہاجر بزرگوں کی وجہ سے دیکھنے کو مل جاتا تھا) کھیلنے لگ جاتی تھی۔یوں ان کہی ہی رہ جاتی تھی وہ بات سب باتوں کے بعد۔
جنرل ضیا الحق اس حوالے سے پاکستانی سربراہان میں سب سے پر اعتماد اور عیار تھے۔بھارت کو جس دیدہ دلیری اور سمجھداری سے انہوں نے پنجابی محاورے میں نکڑے لگایا وہ اعزاز پاکستان کے کسی سربراہ کو پھر نصیب نہ ہوپایا۔افغانستان میں روسی مداخلت کی وجہ سے جب ان کے معاملات امریکا سے ٹھیک ہوگئے اور افغانستا ن میں روس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے خفیہ ادارے ایک ناگزیر ضرورت بن گئے تو ان اداروں اور اس سے وابستہ افراد نے لاطینی امریکا اور چاڈ اور نائجریا جیسے دور افتادہ ممالک کو بھی اپنی جولان گاہ بنالیا۔ پہلے ہی سال میں جنرل ضیا نے امریکا کو یہ باور کرادیا کہ ہمارے مشرقی بارڈر پر موجود بھارت تو روس اور اٖفغانستان میں نور الدین ترکئی اور ببرک کارمل کا بڑا حامی ہے اس سے جداگانہ طور پر نمٹنے کے لیے آپ کو ہمیں خصوصیleeway دینا ضروری ہوگا۔
پاکستان نے خالصتان کے حوالے سے دل چسپی تو مشرقی پاکستان کے دنوں میں ہی لینا شروع کردی تھی مگر اس کے سربراہ جگجیت سنگھ چوہان اندرا گاندھی کے سن 1977 میں انتخابات ہار جانے اور مرارجی بھائی ڈیسائی کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد لندن سے بھارت منتقل ہوگئے ۔ان کا خیال تھا کہ وہ یہاں رہ کر اپنا کاروبار سیاست چمکائیں گے مگر شومئی قسمت سے 1980 میں اندرا گاندھی دوبارہ بھارت کی وزیر اعظم بن گئیں اور وہ واپس لندن چلے گئے۔
خالصتان تحریک نے بھارت کو بہت تنگ کیا۔ خالصتان کو ایک مستقل تحریک تخریب میں بدلنے کی ناکامی میں پاکستان کی بدقسمتی کئی طرح سے آڑے آئی کہ پاکستان کے پاس بنگلہ دیش طرز کا کوئی جدا گانہ مملکت کا ماڈل خالصتان کے حوالے سے نہ تھا۔بنگلہ دیش کو مجیب جیسا فائر برانڈ لیڈر میسر تھا اور اس کے علاوہ ایک ہزار میل دشمن کا علاقہ دونوں حصوں کے درمیان حائل تھا۔بنگلہ دیش کی ایک بڑی اکثریت پاکستان سے علیحدگی کی حامی تھی جبکہ خود مغربی پاکستان کے دو بڑے لیڈر بھٹو اور ولی خان اور کسی حد تک جماعت اسلامی بھی مشرقی پاکستان کی اس طور سے علیحدگی کی حامی ہوگئی تھی کہ مغربی پاکستان کی نسبت وہ اپنی کامیابی کے امکانات بنگلہ دیش میں زیادہ دیکھتی تھی۔حسینہ واجد اس راز نہاں کو خوب سمجھتی ہیں۔وہ جماعت اسلامی اور خالدہ ضیا کے گٹھ جوڑ کے ہاتھوں زک اٹھا چکی ہیں۔ لہذا وہ چن چن کر ان تمام لیڈروں کو تختہ ٔدار پر بھیج رہی ہیں جو ان کے والد اور ان کے غیر مذہبی نظریات کے برعکس ایک اسلامی بنگلہ دیشی تشخص کو سیاسی نعم البدل کے طور پر مقابلے میں کھڑا کرسکیں۔
پاکستان کے خفیہ اداروں کی یہ ایک ایسی بڑی کامیابی تھی ۔یہ بات آپ کے لیے باعث حیرت ہو کہ جہاں ایک طرف مشرقی پنجاب میں سی آئی اے نے ’’را‘‘ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہوا تھا وہیں برما میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے یہ دونوں خفیہ ایجنسیاں جڑواں بہنوں کی طرح ہم آہنگ تھیں۔
کاؤ صاحب اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہی رول سنبھال چکے تھے جو آج کل اجیت ڈووال جی کا مودی جی کی کچن کیبنٹ میں ہے یعنی مشیر امور سلامتی ۔ وہ بھاگم بھاگ واشنگٹن پہنچے ۔ریگن صاحب کی صدارت میں جارج بش سینئر نائب صدر تھے مگر کاؤ جی سے ان کی خصوصی انسیت اس وقت سے تھی جب ایک سی آئی اے اور دوسرے ’’را‘‘ کے چیف تھے۔دونوں ایک دوسرے کو پسندکرتے تھے۔جارج بش کاؤ صاحب کی وکالت کے بعد ریگن کو ہاتھ ہولا رکھنے پر قائل کربیٹھے اور بھارت کو ایک تصویر مظلومیت بنا کر پیش کیا۔ اس دوران دو باتیں بہت اہم ہوئیں۔
جب سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے جن کو اندرا گاندھی نے اپنے وزیر داخلہ گیانی زیل سنگھ کے کہنے پر مشرقی پنجاب کی سیاست میں ایسے ہی کھڑا کیا تھا جیسے سندھ میں جماعت اسلامی کی طاقت کے خاتمے کے لیے ضیا الحق اور غوث علی شاہ نے ایک اور شہری جماعت کو ہوا دی۔ بھنڈراں والے جلد ہی مرکزی حکومت کے تسلط سے آزاد ہوگیا اور جب اس کے خلاف باہر رہ کر پر تشد د تحریک چلانا ممکن نہ رہا تو وہ سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل میں پناہ گزیں ہوا۔را اور آئی بی مسز اندرا گاندھی کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ ایک فوجی آپریشن اس جگہ ناگزیر ہے۔اس جگہ پاکستان کے کئی جاسوس اور ایس ایس جی کمانڈو موجود ہیں۔ ان کی گرفتاری یا موت ہمیں سندھ اور بلوچستا ن کو پاکستان سے کاٹنے میں مدد دے گی۔جون 3 تا6سن 1984 کے آپریشن بلیو اسٹار میں بہت بگاڑ ہوا۔نہ صرف بہت سے مقدس صحیفے اور نوادرات برباد ہوئے اور عبادت گاہ کو بڑا نقصان پہنچا بلکہ پاکستانی فوجی یا ایجنٹ تو چھوڑ کوئی اسلحہ بھی نہ ملا البتہ اس کا خمیازہ اندرا گاندھی کو یہ بھگتنا پڑا کہ اُنہیں 31اکتوبر1984کو ان کے دو سکھ گارڈز نے ہلاک کردیا بلکہ دو سال بعد سن 1986 میں جنرل ایس اے واڈیا کوپونے میں ہلاک کردیا گیا جہاں وہ اپنی ملازمت کے اختتام پر زندگی گزار رہے تھے۔ اپنی اس ناکامی کا را نے یہ بدلہ لیا کہ بشری زیدی ٹریفک حادثہ جو کراچی میں 14 مئی1985 کو ہوا ۔ اس میں خالصتان کا بدلہ کراچی میں لیا ۔ہم سمیت جو افسران اس وقت کراچی کی انتظامیہ سے وابستہ تھے وہ اس بات سے واقف تھے کہ ان فسادات کی پشت پر بے شمار سلیپر سیل تھے ۔ یہ سیلز ہر اس ادارے اور کارروائی پر غالب آگئے جہاں عوامی خدمات( جیسے بجلی ، فائر بریگیڈ ، ہسپتال،پولیس، ایمبولینس، پانی، سیوریج گوشت دودھ کا کاروبار) اور وسائل کی بھرمار تھی ،جنہیں را نے بہت سرعت سے جگادیا اور جو آج بھی کسی بڑے موقع کی تلاش میں ہیں تاکہ کراچی کو پھر سے ایک میدان کارزار بنایا جائے۔
(ختم شد)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...