... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔
مرقدالانبیا ء میں اندھیرے کی وجہ روشنی کی عدم موجودگی نہ تھی بلکہ ایسا لگتا تھا کہ یہاں اجالے کی کسی کرن نے کبھی جھانکا ہی نہ تھا۔اس گارڈ کی فراہم کردہ موم بتی کی روشنی سے اس شدید اندھیارے میں صرف دو قدم تک دکھائی دیتا تھا۔
اجنبی قدیم مقامات پر ماہرین آثار قدیمہ اسطرح کی تنہا مہم جوئی کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ایک غلط قدم ، ایک غلط موڑ، کوئی گڑھا، کوئی کنواں، کوئی تہہ خانہ، اور آپ برسوں پرانی تاریخ کی آغوش میں ایسے پہنچ جائیں گے جیسے قرآن کی سورہ القارعۃ کے بیان میں ھاویہ کا ذکر ملتا ہے (ھاویہ یعنی دوزخ کی پاتال، تمہیں کیا پتہ کہ وہ کیا ہے، وہ چنگھاڑتی ہوئی آگ۔قرآن الحکیم کی اس تشبیہ پر قربان جایئے کہ وہ اس بدترین آگ کو گناہ گار کی ماں قرار دے رہا ہے۔وہ اسے اپنی آغوش میں ایسے سمیٹ کر رکھے گی جیسے ماں اپنے نومولود بلونگڑے کو چوم چوم کر سینے سے لگاتی ہے۔
مجھے ڈر لگا۔ دل نے کہا آ، اب لوٹ چلیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح یہاں نہیں آتے۔میں نے مڑنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ کہیں سے مجھے ایک بہت مدھر سا گیت نسوانی آواز میں سنائی دیا جس کے الفاظ تو میرے پلے نہیں پڑ رہے تھے مگر اس کی گنگناہٹ میں ایک نرم سی مانوسیت تھی۔مجھے کسی نے بتایا تھا کہ یروشلم ایک ایسا خرابہ ٔجہاں ہے جس میں انسانوں کے علاوہ بھی بہت سی انجانی مخلوق ابتدائے آفرینش سے مقیم ہیں۔آپ میری کیفیت کا سوچیں تو سہی۔ایک گہرا قدیم غار نما ، رازوں بھرے دل کی مانند عمیق اندھیرا مرقد ، وہاں تنہا میں اور واپسی کے ارادے کے ساتھ ہی نامانوس نسوانی آواز کا تجسس بھرا بلاوا۔
اب میرے کا اندر کا پاکستانی ڈاکٹر جو دنیا گھوما تھا اور باہر پڑھا لکھا اور قیام پذیر ہوکر مصلحت پسند نہ سہی معاملہ فہم ہوگیا تھا تو وہ ایک طرف رہ گیا اور کہیں سے ایک مسلمان انڈیانا جونز بیدار ہوگیا۔آواز کے تعاقب میں یہ سوچ کر کہ ع
میں نے نظروں اور قدموں کی دونوں ہی سمت اس جانب موڑ دی جہاں سے آواز آرہی تھی۔ کچھ ہی قدم چل کر ایک موڑ مڑتے ہی کہیں اک شمع موہوم جلتی دکھائی دی جسے ایک سرسراتے ہوئے سائے نے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ دل اب آخری تذبذب میں مبتلا تھا کہ اس طرف جانا موزوں ہے کہ نہیں۔وارفتگی اور تجسس شدید، بالآخر میری احتیاط اور خوف پر غالب آگیا۔
قریب پہنچنے پر نظر آیا کہ وہ ایک جواں سال یہودی دوشیزہ ہے جس نے سر کے گرد سیاہ ٹشل باندھا ہوا ہے۔ یہ قدامت پسند یہودی خواتین کا حجاب سمجھ لیں۔اس میں ان کا چہرہ اور بالوں کا کچھ حصہ کھلا رہتا ہے اور یہ اکثر عبادت کے وقت پہنا جاتا ہے۔اس بی بی کے ساتھ ہی ایک نوجوان لڑکا بھی تھا جس نے سر پر کپاہ( یہودی مردوں کی ٹوپی) اور ان کی عباد ت کے وقت پہنی جانے والی شال( تالت) اوڑھی ہوئی تھی۔
لڑکا فرش پر سجدہ ریز تھا اور لڑکی کوئی اجنبی زبان میں گیت گنگارہی تھی ۔ میرے کان عبرانی سے آشنا ہیں ۔ آپ کے کان ذرا عربی سے آشنا ہوں تو عبرانی الفاظ کی شناخت مشکل نہیں۔مجھے لگا کہ شایدیہ گیت آرمینی یا اکاڈین زبان ہے۔ انہوں نے میرے قدموں کی آواز بھی سنی ہوگی اور اضافی روشنی نے انہیں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی کا احساس بھی دلایا ہوگا مگر وہ میری آمد سے لاتعلق رہے۔اس تنہا ، گہرے اندھیرے اور پرااسرار ماحول میں ان کا یہ تغافل عارفانہ میرے لیے ایک سحر انگیز تاثر کا حامل تھا۔خاتون کے گیت میں کوئی خلل نہ آیا۔ وہ بدستور قدیمی مٹی کی ایک قدیم پتھریلی دیوار کے سامنے منہ کیے گائے چلی جارہی تھی۔
دیوار کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو مجھے اس میں کئی دراڑیں دکھائی دیں۔اس طرح کی بڑی بڑی دراڑوں کو یہودیوں نے قبریں بنانے کے لیے بھی ماضی قدیم میں استعمال کیا ہے لیکن وہاں کسی باقاعدہ معبد کے نشان نہ تھے ۔گیت ختم ہوتے ہی وہ لڑکا اٹھا اور اس لڑکی کے ساتھ میری موجودگی سے بے اعتنائی برتتے ہوئے نظر بچا کر جانے لگے تو میں نے یہودی شلوم دے مارا۔لڑکی نے اسی سنجیدگی سے میرے شلوم کا جواب دیا تو میں نے جرات کرکے پوچھا کہ اس جگہ سے میں ناواقف ہوں آپ کے پاس اگر چند منٹ ہوں تو مجھے کچھ بتائیں۔
’’آپ کوئی سیاح ہیں؟‘‘ لڑکی نے شستہ انگریزی میں پوچھا
اس نے اپنے بھائی کو ٹہوکا دے کر روکا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے بولی ’’میں ربیکا ہوں اور یہ میرا بھائی جیکب ہے۔یہودی عقیدے کے مطابق یہ بارہ ثانوی درجات رکھنے والے انبیا کا مرقد ہے۔تاریخ اور آثار قدیمہ دونوں سے ہی یہ بات ثابت ہے کہ یہاں حاگی،مالاشی اور زکریا کی قبور ہیں۔
میں اب تک دو مزارات اس کے علاوہ بھی دیکھ چکا ہوں جن کے بارے میں حضرت زکریا کے مزار ہونے کا کہا جاتا ہے۔نہیں وہ دو زکریا تو ہمارے اہم انبیا major prophets میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ تیسرے زکریا ہیں۔میں نے کسی انجان دیہاتی کی مانند سر ہلادیا اور ادھر ادھر دیکھا تو کئی چھوٹے چھوٹے مرقد مجھے مختلف راستوں سے جڑے اس زیر زمیں غار میں نظر آئے۔ میں نے جرات کرکے پوچھ لیا ’’کہ وہ کونسی منقبت گنگنا رہی تھی؟میں جانتا ہوں میرا سوال بے وقوفی کا ہے اوراگر آپ کی طبع نازک پر گراں گزرے تو اس جسارت بے جا کو نظر انداز کردیجئے گا۔‘‘
’نہیں‘‘ اور اس نہیں کہ ساتھ اس کی کھلکھلاتی ہنسی کی گھنٹیاں اس ویرانے کو روشن کرکے بجنے لگیں۔ایک سحر تھا جو سارے ماحول پر طاری کرکے اسے منور اور شادماں کرگیا۔ وہ بتانے لگی کہ ’’ہم نبی مالاشی کی اولاد ہیں(مجھے شیخ نائف نے بعد میں بتایا کہ یہ اہل یہود کے ہاں نبی سمجھے جاتے ہیں،عربی میں انہیں مالاخی کہتے ہیں) ’’ یہ منقبت ان کی شان میں تھی ۔ یہ قدیم عبرانی زبان کا گیت ہے جو اسرائیلی خواتین ان کی شان میں گنگناتی ہیں‘‘۔
’’اس کے معنی کیا ہیں؟‘‘ میں نے اس حسن مہربان و باعلم سے جاننے کے لیے فوراً ہی سوال کرلیا
’’ساون آیا اور برس کے چلا گیا
فصلیں کٹ گئیں،موسم بیت گئے
اب درخت پر زیتون کے پھل جگمگاتے ہیں
پر نبی مالاشی ۔ تمہاری یاد ہے کہ میرے دل سے جاتی ہی نہیں‘‘۔
تقدیس ،تحریم، تمکنت اور یادوں سے لتھڑے اس وجود ِدلربا ئی کو چھوڑ کر میں بھی مرقد الانبیا سے باہر نکل آیا۔ وہ دونوں بہن بھائی بھی کسی اور سمت چل پڑے۔آہستہ آہستہ جب میں جبل الزیتون سے نیچے اترا تو وہاں ایک شاندار مزار دکھائی دیا ۔
یہ حضرت عیسیٰ ؑکی والدہ بی بی مریم کا مرقد عالیہ ہے۔
قرآن الکریم نے تو ایک پوری سورت نہ صرف آپ کے نام سے موسوم کی ہے بلکہ آپ کا مرتبہ اور تذکرہ اس شان و شوکت سے کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔قرآن الحکیم میں آپ وہ واحد خاتون ہیں جو باقاعدہ نام سے مذکور ہیں۔ نہ حوا، نہ زلیخا، نہ فرعون کی اہلیہ آسیہ بی بی، نہ ہی رسول اکرم ﷺ کے گھر کی کسی خاتون کا نام سے تذکرہ ہے۔شیخ احمد دیدات اس نکتے کو بیان کرکے عیسائی مبلغین کو چت کردیتے تھے۔کیونکہ مروجہ عقیدے کے حساب سے وہ ہمارے نبی کریم سے قریباً ساڑھے سات سو سال پہلے ہوگزری تھیں اور اگر وہ عیسائیوں کے لیے محترم تھیں تو قرآن کو انہیں ان کے مروجہ ضوابط کے طور پر ایک دشمن خاتون شمار کرنا چاہیے تھا کیونکہ عیسائی بھی دعوت اسلام کے اور ہمارے نبی محترم کے بڑے مخالف گروپوں میں سے ایک تھے۔
قرآن الکریم میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 42 کے حوالے سے جب فرشتے مریم کے پاس پہلی بار نوید مسیحا لے کر آئے تو وہ خوف زدہ تھیں جس پر انہیں اﷲ کی جانب سے یہ مرتبہء عظیم عطا کیاگیا کہ اﷲ نے آپ کو منتخب کیا، پاکیزہ بنایا اور آپ کو دنیا کی تمام خواتین پر فوقیت دی۔اس کے برعکس بائبل کی یوحنا کی دوسری کتاب کی چوتھی لائن میں وہ بھی ان کے اعلی ترین کنگ جیمز ورژن میں بتایا گیا کہ حضرت مریم اپنے پڑوسیوں کے مطالبے پر (جن کے ہاں دعوت میں شراب ختم ہوگئی تھی اور وہ مہمانوں کے سامنے خفت سے بچنا چاہتے تھے ان کی درخواست تھی کہ حضرت عیسیؑ کوئی معجزہ دکھائیں اور شراب کی مقدار پوری ہوجائے ) جب بی بی مریمؑ اپنے نبی بیٹے سے معجزے کی فرمائش کرنے پہنچیں تو وہ اپنے حواریوں کے ساتھ مصروف تعلیم تھے۔ انہیں والدہ محترمہ کی دخل اندازی اس موقع پر ناگوار گزری اور انہوں نے اپنی دالدہ سے کہا ’’ اے عورت میرا تمہارا کیا تعلق ہے؟جان لو کہ ابھی تمہارے معاملات پر دھیان دینے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے‘‘ دیدات صاحب کہا کرتے تھے کہ ایک نبی کو چھوڑیں کیا کوئی بھی شخص اپنی والدہ کی اپنے رفقاء کے سامنے ایسے تحقیر کرے گا۔
بائبل میں حضرت عیسیؑ کے مصلوب ہوجانے کے بعد بی بی مریم کا ذکر بھی غائب ہوجاتا ہے کہ ان کا کیا بنا کیونکہ بائبل کے مطابق سیدنا عیسیؑ کے مصلوب کیے جانے کے وقت اُن کی عمر کل 33 برس تھی۔ان کی جائے مدفن کا بھی کوئی تذکرہ نہیں۔مصلوب ہوتے وقت بائبل کے مطابق سیدنا عیسیؑ نے اپنے حواری یوحنا (JOHN) کواپنی والدہ کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔یوحنا کو بعد میں فلسطین سے علاقہ بدر کردیا گیا تھا۔وہ روایت کے بموجب بی بی مریم کو ساتھ لے کر شہر Ephesus جو اُن دنوں یونان کے زیر تسلط تھا وہاں جا بسے تھے ۔ یہ علاقہ موجودہ زمانے میں ترکی کے شہر ازمیر کا قصبہ ہے۔ جہاں آپ کا چھوٹا سا مکان آج بھی زائرین مقام تحریم سمجھ کر جاتے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...