وجود

... loading ...

وجود

دیوار گریہ کے آس پاس (13)

هفته 18 جون 2016 دیوار گریہ کے آس پاس (13)

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپردِ قلم کرنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے، اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا تھا جو اُن کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔ انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ و تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے ۔


مرقدالانبیا ء میں اندھیرے کی وجہ روشنی کی عدم موجودگی نہ تھی بلکہ ایسا لگتا تھا کہ یہاں اجالے کی کسی کرن نے کبھی جھانکا ہی نہ تھا۔اس گارڈ کی فراہم کردہ موم بتی کی روشنی سے اس شدید اندھیارے میں صرف دو قدم تک دکھائی دیتا تھا۔

اجنبی قدیم مقامات پر ماہرین آثار قدیمہ اسطرح کی تنہا مہم جوئی کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ایک غلط قدم ، ایک غلط موڑ، کوئی گڑھا، کوئی کنواں، کوئی تہہ خانہ، اور آپ برسوں پرانی تاریخ کی آغوش میں ایسے پہنچ جائیں گے جیسے قرآن کی سورہ القارعۃ کے بیان میں ھاویہ کا ذکر ملتا ہے (ھاویہ یعنی دوزخ کی پاتال، تمہیں کیا پتہ کہ وہ کیا ہے، وہ چنگھاڑتی ہوئی آگ۔قرآن الحکیم کی اس تشبیہ پر قربان جایئے کہ وہ اس بدترین آگ کو گناہ گار کی ماں قرار دے رہا ہے۔وہ اسے اپنی آغوش میں ایسے سمیٹ کر رکھے گی جیسے ماں اپنے نومولود بلونگڑے کو چوم چوم کر سینے سے لگاتی ہے۔

مجھے ڈر لگا۔ دل نے کہا آ، اب لوٹ چلیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ سیاح یہاں نہیں آتے۔میں نے مڑنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ کہیں سے مجھے ایک بہت مدھر سا گیت نسوانی آواز میں سنائی دیا جس کے الفاظ تو میرے پلے نہیں پڑ رہے تھے مگر اس کی گنگناہٹ میں ایک نرم سی مانوسیت تھی۔مجھے کسی نے بتایا تھا کہ یروشلم ایک ایسا خرابہ ٔجہاں ہے جس میں انسانوں کے علاوہ بھی بہت سی انجانی مخلوق ابتدائے آفرینش سے مقیم ہیں۔آپ میری کیفیت کا سوچیں تو سہی۔ایک گہرا قدیم غار نما ، رازوں بھرے دل کی مانند عمیق اندھیرا مرقد ، وہاں تنہا میں اور واپسی کے ارادے کے ساتھ ہی نامانوس نسوانی آواز کا تجسس بھرا بلاوا۔

اب میرے کا اندر کا پاکستانی ڈاکٹر جو دنیا گھوما تھا اور باہر پڑھا لکھا اور قیام پذیر ہوکر مصلحت پسند نہ سہی معاملہ فہم ہوگیا تھا تو وہ ایک طرف رہ گیا اور کہیں سے ایک مسلمان انڈیانا جونز بیدار ہوگیا۔آواز کے تعاقب میں یہ سوچ کر کہ ع

یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں۔

میں نے نظروں اور قدموں کی دونوں ہی سمت اس جانب موڑ دی جہاں سے آواز آرہی تھی۔ کچھ ہی قدم چل کر ایک موڑ مڑتے ہی کہیں اک شمع موہوم جلتی دکھائی دی جسے ایک سرسراتے ہوئے سائے نے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ دل اب آخری تذبذب میں مبتلا تھا کہ اس طرف جانا موزوں ہے کہ نہیں۔وارفتگی اور تجسس شدید، بالآخر میری احتیاط اور خوف پر غالب آگیا۔

HEAD SCARF TISCHEL WORN BY JEWISH GIRLS

قریب پہنچنے پر نظر آیا کہ وہ ایک جواں سال یہودی دوشیزہ ہے جس نے سر کے گرد سیاہ ٹشل باندھا ہوا ہے۔ یہ قدامت پسند یہودی خواتین کا حجاب سمجھ لیں۔اس میں ان کا چہرہ اور بالوں کا کچھ حصہ کھلا رہتا ہے اور یہ اکثر عبادت کے وقت پہنا جاتا ہے۔اس بی بی کے ساتھ ہی ایک نوجوان لڑکا بھی تھا جس نے سر پر کپاہ( یہودی مردوں کی ٹوپی) اور ان کی عباد ت کے وقت پہنی جانے والی شال( تالت) اوڑھی ہوئی تھی۔

کپاہ( یہودی مردوں کی ٹوپی)

کپاہ( یہودی مردوں کی ٹوپی)

عباد ت کے وقت پہنی جانے والی شال( تالت)

عباد ت کے وقت پہنی جانے والی شال( تالت)

لڑکا فرش پر سجدہ ریز تھا اور لڑکی کوئی اجنبی زبان میں گیت گنگارہی تھی ۔ میرے کان عبرانی سے آشنا ہیں ۔ آپ کے کان ذرا عربی سے آشنا ہوں تو عبرانی الفاظ کی شناخت مشکل نہیں۔مجھے لگا کہ شایدیہ گیت آرمینی یا اکاڈین زبان ہے۔ انہوں نے میرے قدموں کی آواز بھی سنی ہوگی اور اضافی روشنی نے انہیں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی کا احساس بھی دلایا ہوگا مگر وہ میری آمد سے لاتعلق رہے۔اس تنہا ، گہرے اندھیرے اور پرااسرار ماحول میں ان کا یہ تغافل عارفانہ میرے لیے ایک سحر انگیز تاثر کا حامل تھا۔خاتون کے گیت میں کوئی خلل نہ آیا۔ وہ بدستور قدیمی مٹی کی ایک قدیم پتھریلی دیوار کے سامنے منہ کیے گائے چلی جارہی تھی۔

دیوار کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو مجھے اس میں کئی دراڑیں دکھائی دیں۔اس طرح کی بڑی بڑی دراڑوں کو یہودیوں نے قبریں بنانے کے لیے بھی ماضی قدیم میں استعمال کیا ہے لیکن وہاں کسی باقاعدہ معبد کے نشان نہ تھے ۔گیت ختم ہوتے ہی وہ لڑکا اٹھا اور اس لڑکی کے ساتھ میری موجودگی سے بے اعتنائی برتتے ہوئے نظر بچا کر جانے لگے تو میں نے یہودی شلوم دے مارا۔لڑکی نے اسی سنجیدگی سے میرے شلوم کا جواب دیا تو میں نے جرات کرکے پوچھا کہ اس جگہ سے میں ناواقف ہوں آپ کے پاس اگر چند منٹ ہوں تو مجھے کچھ بتائیں۔

’’آپ کوئی سیاح ہیں؟‘‘ لڑکی نے شستہ انگریزی میں پوچھا

اس نے اپنے بھائی کو ٹہوکا دے کر روکا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے بولی ’’میں ربیکا ہوں اور یہ میرا بھائی جیکب ہے۔یہودی عقیدے کے مطابق یہ بارہ ثانوی درجات رکھنے والے انبیا کا مرقد ہے۔تاریخ اور آثار قدیمہ دونوں سے ہی یہ بات ثابت ہے کہ یہاں حاگی،مالاشی اور زکریا کی قبور ہیں۔

میں اب تک دو مزارات اس کے علاوہ بھی دیکھ چکا ہوں جن کے بارے میں حضرت زکریا کے مزار ہونے کا کہا جاتا ہے۔نہیں وہ دو زکریا تو ہمارے اہم انبیا major prophets میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ تیسرے زکریا ہیں۔میں نے کسی انجان دیہاتی کی مانند سر ہلادیا اور ادھر ادھر دیکھا تو کئی چھوٹے چھوٹے مرقد مجھے مختلف راستوں سے جڑے اس زیر زمیں غار میں نظر آئے۔ میں نے جرات کرکے پوچھ لیا ’’کہ وہ کونسی منقبت گنگنا رہی تھی؟میں جانتا ہوں میرا سوال بے وقوفی کا ہے اوراگر آپ کی طبع نازک پر گراں گزرے تو اس جسارت بے جا کو نظر انداز کردیجئے گا۔‘‘

’نہیں‘‘ اور اس نہیں کہ ساتھ اس کی کھلکھلاتی ہنسی کی گھنٹیاں اس ویرانے کو روشن کرکے بجنے لگیں۔ایک سحر تھا جو سارے ماحول پر طاری کرکے اسے منور اور شادماں کرگیا۔ وہ بتانے لگی کہ ’’ہم نبی مالاشی کی اولاد ہیں(مجھے شیخ نائف نے بعد میں بتایا کہ یہ اہل یہود کے ہاں نبی سمجھے جاتے ہیں،عربی میں انہیں مالاخی کہتے ہیں) ’’ یہ منقبت ان کی شان میں تھی ۔ یہ قدیم عبرانی زبان کا گیت ہے جو اسرائیلی خواتین ان کی شان میں گنگناتی ہیں‘‘۔

’’اس کے معنی کیا ہیں؟‘‘ میں نے اس حسن مہربان و باعلم سے جاننے کے لیے فوراً ہی سوال کرلیا

’’ساون آیا اور برس کے چلا گیا

فصلیں کٹ گئیں،موسم بیت گئے

اب درخت پر زیتون کے پھل جگمگاتے ہیں
پر نبی مالاشی ۔ تمہاری یاد ہے کہ میرے دل سے جاتی ہی نہیں‘‘۔

تقدیس ،تحریم، تمکنت اور یادوں سے لتھڑے اس وجود ِدلربا ئی کو چھوڑ کر میں بھی مرقد الانبیا سے باہر نکل آیا۔ وہ دونوں بہن بھائی بھی کسی اور سمت چل پڑے۔آہستہ آہستہ جب میں جبل الزیتون سے نیچے اترا تو وہاں ایک شاندار مزار دکھائی دیا ۔

یہ حضرت عیسیٰ ؑکی والدہ بی بی مریم کا مرقد عالیہ ہے۔

Izmir mei hazrat maryam ka ghar

قرآن الکریم نے تو ایک پوری سورت نہ صرف آپ کے نام سے موسوم کی ہے بلکہ آپ کا مرتبہ اور تذکرہ اس شان و شوکت سے کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔قرآن الحکیم میں آپ وہ واحد خاتون ہیں جو باقاعدہ نام سے مذکور ہیں۔ نہ حوا، نہ زلیخا، نہ فرعون کی اہلیہ آسیہ بی بی، نہ ہی رسول اکرم ﷺ کے گھر کی کسی خاتون کا نام سے تذکرہ ہے۔شیخ احمد دیدات اس نکتے کو بیان کرکے عیسائی مبلغین کو چت کردیتے تھے۔کیونکہ مروجہ عقیدے کے حساب سے وہ ہمارے نبی کریم سے قریباً ساڑھے سات سو سال پہلے ہوگزری تھیں اور اگر وہ عیسائیوں کے لیے محترم تھیں تو قرآن کو انہیں ان کے مروجہ ضوابط کے طور پر ایک دشمن خاتون شمار کرنا چاہیے تھا کیونکہ عیسائی بھی دعوت اسلام کے اور ہمارے نبی محترم کے بڑے مخالف گروپوں میں سے ایک تھے۔

ayat 42

قرآن الکریم میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 42 کے حوالے سے جب فرشتے مریم کے پاس پہلی بار نوید مسیحا لے کر آئے تو وہ خوف زدہ تھیں جس پر انہیں اﷲ کی جانب سے یہ مرتبہء عظیم عطا کیاگیا کہ اﷲ نے آپ کو منتخب کیا، پاکیزہ بنایا اور آپ کو دنیا کی تمام خواتین پر فوقیت دی۔اس کے برعکس بائبل کی یوحنا کی دوسری کتاب کی چوتھی لائن میں وہ بھی ان کے اعلی ترین کنگ جیمز ورژن میں بتایا گیا کہ حضرت مریم اپنے پڑوسیوں کے مطالبے پر (جن کے ہاں دعوت میں شراب ختم ہوگئی تھی اور وہ مہمانوں کے سامنے خفت سے بچنا چاہتے تھے ان کی درخواست تھی کہ حضرت عیسیؑ کوئی معجزہ دکھائیں اور شراب کی مقدار پوری ہوجائے ) جب بی بی مریمؑ اپنے نبی بیٹے سے معجزے کی فرمائش کرنے پہنچیں تو وہ اپنے حواریوں کے ساتھ مصروف تعلیم تھے۔ انہیں والدہ محترمہ کی دخل اندازی اس موقع پر ناگوار گزری اور انہوں نے اپنی دالدہ سے کہا ’’ اے عورت میرا تمہارا کیا تعلق ہے؟جان لو کہ ابھی تمہارے معاملات پر دھیان دینے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے‘‘ دیدات صاحب کہا کرتے تھے کہ ایک نبی کو چھوڑیں کیا کوئی بھی شخص اپنی والدہ کی اپنے رفقاء کے سامنے ایسے تحقیر کرے گا۔

king james

بائبل میں حضرت عیسیؑ کے مصلوب ہوجانے کے بعد بی بی مریم کا ذکر بھی غائب ہوجاتا ہے کہ ان کا کیا بنا کیونکہ بائبل کے مطابق سیدنا عیسیؑ کے مصلوب کیے جانے کے وقت اُن کی عمر کل 33 برس تھی۔ان کی جائے مدفن کا بھی کوئی تذکرہ نہیں۔مصلوب ہوتے وقت بائبل کے مطابق سیدنا عیسیؑ نے اپنے حواری یوحنا (JOHN) کواپنی والدہ کا خیال رکھنے کا کہا تھا۔یوحنا کو بعد میں فلسطین سے علاقہ بدر کردیا گیا تھا۔وہ روایت کے بموجب بی بی مریم کو ساتھ لے کر شہر Ephesus جو اُن دنوں یونان کے زیر تسلط تھا وہاں جا بسے تھے ۔ یہ علاقہ موجودہ زمانے میں ترکی کے شہر ازمیر کا قصبہ ہے۔ جہاں آپ کا چھوٹا سا مکان آج بھی زائرین مقام تحریم سمجھ کر جاتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


انڈر ٹیکر کاشف مصطفیٰ - پیر 19 ستمبر 2016

جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...

انڈر ٹیکر

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط کاشف مصطفیٰ - پیر 12 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - آخری قسط

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32 کاشف مصطفیٰ - بدھ 07 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط نمبر 32

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31 کاشف مصطفیٰ - جمعه 02 ستمبر 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط: 31

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 30 کاشف مصطفیٰ - منگل 30 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس  - قسط 30

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29 کاشف مصطفیٰ - هفته 27 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 29

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28 کاشف مصطفیٰ - هفته 20 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 28

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27 کاشف مصطفیٰ - بدھ 17 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 27

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26 کاشف مصطفیٰ - هفته 13 اگست 2016

[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 26

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25 کاشف مصطفیٰ - منگل 09 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس – قسط 25

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24 کاشف مصطفیٰ - جمعرات 04 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 24

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23 کاشف مصطفیٰ - منگل 02 اگست 2016

سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...

دیوار گریہ کے آس پاس - قسط 23

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر