... loading ...
پروگرام شروع ہوتا ہے, یہ پروگرام ہے ان مظلوم بچیوں کے نام پر ہے کہ جنہیں ” Honor killing “کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔اس پروگرام کا عنوان بظاہر انتہائی مناسب ہے ۔ اس کی میزبان ایک طرحدار خاتون نادیہ مرزا ہیں ۔ جس کے شرکاء میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا حمد اللہ ، تحریک انصاف کے میڈیا ایڈوائزرفیاض الحسن چوہان ، اے این پی سے تعلق رکھنے والے قانونی ماہر بیرسٹر مسرور شاہ اور لبرل ایکٹوسٹ (؟ )ماروی سرمد شامل ہیں۔ پروگرام کی ابتدا خاتون میزبان کی تقریر دلپذیر سے ہوتی ہے مہمانوں کا تعریف کروایا جاتا ہے اور ابتدائی تبصرے لیے جاتے ہیں …
میزبان پوچھتی ہے کہ کیا اٹھارہ بیس سال کی لڑکیوں کو زندہ جلا دینا درست عمل ہے … ؟
پہلے ماروی سرمد بولتی ہیں اور ابتدائی تبصرے میں ہی یہ بات بھی کہہ جاتی ہیں کہ ہمارے نام نہاد اسلامی معاشرے میں ایسا ہوتا ہے اور فرماتی ہیں کہ ” مذھب کو ڈھال بنایا جاتا ہے ”
(اس تبصرے سے ہی زمین ہموار کردی گئی اور پروگرام کا مجموعی ماحول بھی بنا دیا گیا ۔ صحافی حضرات سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کیسے اور کیوں کیا جاتا ہے) حافظ حمدللہ صاحب سے سوال ہوتا ہے ..
” مولانا فرماتے ہیں اس لڑکی پر اتنا ظلم ہوا ہے کہ اسکے لیے صرف مذمت کے الفاظ کافی نہیں ہیں ”
(پروگرام اچھا جا رہا ہے بنیادی نکتہ متعین ہو چکا ہے اور سب ایک صفحے پر ہیں )
مولانا تین سوال اٹھاتے ہیں
١۔ اس حوالے سے قانون سازی کیا ہے ؟
٢۔ قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا ؟
٣۔ ایسے واقعات کے عوامل کیا ہیں ؟
یہ انتہائی منطقی نکات ہیں جو اُٹھائے گیے۔ مگر یہاں سے خاتون میزبان قانون سازی کا نکتہ اچک کر قانونی ماہر بیرسٹر مسرور شاہ صاحب کی جانب پلٹتی ہیں اور ان سے سوال کرتی ہیں ۔جس پر بیرسٹر صاحب کا جواب ملاحظہ کیجیے!
بیرسٹر صاحب فرماتے ہیں مسئلہ قانون نہیں ہے مسئلہ کچھ اور ہے ۔( اب گفتگو منطق اور حقائق سے نکل کر پروپیگنڈے اور الزامات کی حدود میں داخل ہوتی ہے )
١۔ قبائلی روایات جہالت پر مشتمل ہیں ۔
(یہاں تمام قبائلی روایات کو جہالت قرار دیا جا رہا ہے )
٢۔ ان روایات کو مقتدر ادارے اسلام کے نام پر بیچتے ہیں ۔
(یعنی اسلام ان تمام قبائلی روایات کو باجوازکرتا ہے )
٣. عورتوں پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت دیکر لڑکیوں کو جلانے کی راہ ہموار کی گئی ۔
(نرا الزام۔ عورتوں کو جلانے کے واقعات قیام پاکستان سے پہلے سے اس سرزمین پر ہوتےآ رہے ہیں جبکہ ہلکے پھلکے تشدد کی بحث تو چند دنوں سے شروع ہوئی تھی )
٤. مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئے ہیں آج جمعہ کی نماز ہوئی ہے ۔
(بس یہاں سے گفتگو آؤٹ آف ٹریک ہو جاتی ہے۔ )
بازگشت ………
مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئے ہیں۔
مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئےہیں۔
مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئےہیں۔
مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئےہیں۔
مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئےہیں۔
اب یہاں رکتے ہیں ،غور کیجئے!
(صحافی حضرات متوجہ ہوں )
Media tactics provocative comments to dismantle opponent:
بحث کے دوران کس انداز میں گفتگو کو اپنے حق میں موڑا جاتا ہے اور کیسے مخالف کو ڈی ٹریک کرکے اپنا موقف ثابت کیا جاتا ہے ملاحظہ کیجئے
1. Stubbornness:
ضد اور تکرار کا اصول
—————-
You: “The moon is made of cheese.”
Opponent: “Umm. It’s a proven fact that the moon is NOT made of cheese.”
You: “The moon is made of cheese.”
Opponent: “Ok, look, I have a piece of moon ROCK at my house. It is not made of cheese. It is made of ROCK.”
You: “The moon is made of cheese.”
Opponent: “No, it isn’t. We’ve sent ships to the moon. People landed on it. They looked at it. They said it was made of ROCK. They brought back ROCK. It is made out of ROCK.”
You: “The moon is made of cheese.”
————————————————
2. Strategic Compromise:
مفادات پر سمجھوتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
You: “We should go out to eat tonight.”
Opponent: “But we ate out last night, and we need to save our money.”
You: “I don’t care. We should go out to eat tonight, and then we’ll treat ourselves and all of our neighbors to a Broadway play.”
Opponent: “But that would cost a fort:une!”
You: “Yeah, I suppose you’re right. Gosh, that would run hundreds of dollars, wouldn’t it?”
Opponent: “Yes, it would.”
You: “Ok, just dinner it is, then.”
3. Big Words:
(بڑبولاپن)
—————
“Hockey is better than football.”
“You are the manifest profusion of delusional ideology incarnate if you do not fulminate against the institution of football with great superciliousness and promulgate the preeminence of hockey.”
4. Forgetfulness:بات پلٹنا))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
You: “Virginia has never produced any good presidents.”
Opponent: “Yes it has. Actually, most of our better presidents came from Virginia.”
You: “But that’s exactly what I’m saying…I think…I dunno…I forgot.”
Opponent: “So we agree?”
You: “Yup. I’m right.”
5. Lies:
گمراہ کن جھوٹ
————-
You: “Dogs are better than cats.”
Opponent: “I prefer cats.”
You: “But cats eat babies! They dig their rabid muzzles into infants’ chests and rip their kidneys out!”
Opponent: “No they don’t!”
You: “They do! And they killed my great grandmother! Twice !”
یہ اور اس نوع کے اور بھی متعدد ہتھیار ہیں جو سامنے والے کو گمراہ کردیتے ہیں،اور بحث کے نتیجے کو دوسرے کے حق میں اس کے باوجود موڑ سکتے ہیں جبکہ وہ بات حقائق کے بالکل برخلاف کررہا ہو۔ مثلاً
Interruption , Rhymes , Taunting , Random Comments , Clearly , Subliminal Messages , The Last Word , Name Calling , Yelling , Swearing .
اس ضمن میں کچھ بدن بولی کی بھی تکنیک استعمال کی جاتی ہے جیسے
١۔ ہاتھوں کا گرا دینا
٢۔ شانوں کا اچکانا
٣۔ تضحیک آمیز مسکراہٹ
٤۔ دانت کچکچانا
٥۔ کھنکھارنا
٦۔ قہقہہ لگانا
٧۔ سر پیٹنا
اب آتے ہیں اصل گفتگو کی طرف:
یہاں سے گفتگو ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور پھر وہ ہوتا کہ جسے زنجیری ردعمل کہا جاتا ہے
یہ ایک عالمی قانون ہے کہ اگر کسی کو اسکی کسی جذباتی مناسبت کے حوالے سے ابھارا جائے بے جا تنقید سے بڑھ کر تضحیک کی جائے مضحکہ اڑایا جائے الزامات لگائے جائیں تو کسی بھی قسم کے رد عمل کی ذمہ داری ابتدا کرنے والے کے سر ہوتی ہے ۔
یہاں سے ماروی سرمد گفتگو کو اٹھاتی ہیں اور بیرسٹر مسرور شاہ صاحب کی تائید کرتی ہیں مولوی حمدللہ اُنہیں روکتے ہیں …
مگر میزبان جانبدارنہ انداز میں کہتی ہے
حافظ صاحب آپ کو زیب نہیں دیتا
حافظ صاحب آپ کو زیب نہیں دیتا
حافظ صاحب آپ کو زیب نہیں دیتا بس کر دیجئے!!
(غور کیجئے یہاں حافظ صاحب پر زور ہے تاکہ وہ اور بھڑکیں )
ماروی سرمد اس پر حافظ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے !
“جو اکھاڑ سکتے ہو اکھاڑ لو”(یہ فقرہ تو ٹی وی پر نشر ہوا ہے ، شلوار اُتارنے کی بات تو مبینہ طور پر بعد میں سامنے آئی)
مولوی حمدللہ جو کہ ایک پختون پس منظر رکھتے ہیں ضبط قائم نہیں رکھ پاتے اور معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے!!!!
نتیجہ : مولوی تو ہیں ہی بدکلام تنگ نظر عورتوں کے حقوق کے غاصب تشدد پسند وغیرہ وغیرہ !!!!
اب ہم پیچھے جاتے ہیں اور معاملہ جہاں سے خراب ہوا تھا ، سرا وہاں سےپکڑتے ہیں۔
قانونی ماہر بیرسٹر مسرور شاہ صاحب
١۔ قبائلی روایات جہالت پر مشتمل ہیں۔
٢۔ ان روایات کو مقتدر ادارے اسلام کے نام پر بیچتے ہیں ۔
٣۔ عورتوں پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کی اجازت دیکر لڑکیوں کو جلانے کی راہ ہموار کی گئی۔
٤۔مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئے ہیں آج جمعہ کی نماز ہوئی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ” قبائلی روایات جہالت پر مشتمل ہیں ” ہیں کیا جلائی جانے والی بچیوں کا تعلق قبائلی پس منظر سے تھا کیا یہ ایک نرا الزام نہیں ؟
کون سے مقتدر اسلامی ادارے ان روایات کو جائز کہتے ہیں کیا قرآن سے شادی، کاروکاری ، ونی، ولور اور جہیز کی کبھی اسلام نے حمایت کی ہے؟
” ہلکا پھلکا تشدد ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لطف کی بات یہ ہے کہ تشدد ” torture ” کا لفظ مستقل استعمال کیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ ایک مبالغہ آمیز تشریح ہے اور قرآنی آیت کی منشاء سے بھی کچھ الگ۔
غور کیجئے لفظ تشدد پر عربی زبان کا ,ش ، د ، د اسکا مصدر ہے اسکے معانی ہوتے ہیں ، جبر، شدت، غلو۔ انگریزی میں اس کے لیے لفظ استعمال ہوتا ہے torture ۔ اس کا مصدر قدیم لاطینی زبان کا لفظ ” tortura ” ہے مطلب
“Pain inflicted by judicial or ecclesiastical authority as a means of punishment or persuasion,” from stem of Latin torquere “to twist, turn, wind, wring, distort”
اب ملاحظہ کیجئے آیات قرآنی
وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ فَعِظُوْہُنَّ وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْہُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا.
(النساء ۴: ۳۴)
قرآن کریم لفظ استعمال کرتا ہے وَاضْرِبُوْہُنَّ اس کا صریح مطلب تشدد نہیں بلکہ اسے تنبیہ اور تادیب کے معانی میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے دراصل کچھ حلقوں کی جانب سے ” torture ” کی گردان کسی بہت بڑے ظلم کو ثابت کرنے کیلئے کی جا رہی ہے تاکہ اسلام کے خلاف مقدمہ قائم کیا جا سکے۔
١۔ ایک گروہ لبرلز کا ہے کہ جنہیں اسلام کی تعلیمات سے ہی بیر ہے انکے سامنے کتنی ہی خوبصورت شکل میں اسلام کو پیش نہ کر دیا جائے انہیں قبول نہیں ۔
٢۔ دوسرا گروہ ان مسلمانوں کا ہے کہ جنہیں اسلامی تعلیمات پر ہمیشہ شرمندگی کا احساس رہتا ہے اور انکی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تعلیمات اسلامی کو اتنا نرم کر دیا جائے کہ وہ موم کی ناک بن جائیں جہاں چاہیں موڑ لیجئے ۔
٣۔تیسرا طبقہ عام مسلمانوں کا ہے کہ جن کو عام طور پر ان مسائل کی سمجھ نہیں ہوتی۔
اس گردان کا مقصود دراصل ایک سائیکی تخلیق کرنا ہے کہ جو اصل میں قرآن کریم کو ہی ظالم سمجھے یہاں مقصود دراصل لا دینیت کی راہ ہموار کرنا ہے!!!
اب آتے ہیں آخری بات کی جانب۔
٤۔ مولانا شیرانی کیا چرس پی کر سوئے ہوئے ہیں آج جمعہ کی نماز ہوئی ہے۔
پہلے تو موصوف اس بات کی تحقیق فرماتے کہ پاکستان میں موجود
(دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث ، شیعہ ، جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی )
کے ماتحت چلنے والی مساجد میں کہیں بھی اسکی تردید نہیں ہوئی۔
اسکے بعد پاکستان کے ایک آئینی اور قانونی ادارے کے سربراہ کی بابت ” چرس ” (کہ جس کا استعمال قانونی جرم ہے )کے الزام کا انکے پاس کوئی ثبوت موجود تھا یا نہیں۔
دوسری طرف جو معاملہ خالص قانون کی عملداری نہ ہونے کا تھا اس میں دین کو داخل کر دینےکا مقصد کیا تھا؟
تصور کیجئے اگر اس واقعے کے خلاف مولوی حرکت میں آتا اور ان مجرمین پر اسلامی شرعی سزاؤں کا نفاذفرما دیتا تو کیا اسے ریاست کے حق میں بغاوت تسلیم نہ کیا جاتا۔
اب آپ کو متوجہ کرتا ہوں اس طریقہ کار کی جانب کہ جو اس طبقے سے مکالمے کا بہترین طریقہ ہے ۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی جس کے شرکاء میں جنرل حمید گل مرحوم اور اوریا مقبول جان شامل تھے۔ اس بحث میں یہی موصوفہ ماروی سرمد صاحبہ بھی شامل تھیں ۔
خاتون نے حسب روایت گالی گلوچ اور گھٹیا زبان کا استعمال کیا، الزامات دھرے مگر سامنے ایک تربیت یافتہ جرنیل اور ایک بہترین صحافی اور سابق بیوروکریٹ موجود تھے پھر جب دلائل کے میدان میں موصوفہ کی خوب دھلائی ہو چکی تو آخر میں جنرل صاحب نے فرمایا۔
“آپ مسکراتی بہت اچھا ہیں بس مسکراتی رہا کریں”
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تیسری شادی سے متعلق غلط خبر نشر کرنے پر پیمرا نے تیرہ نیوز چینلز پر پانچ پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی )کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ادارے کے ...