... loading ...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شکل میں سامنے آرہا ہے جس کا مظاہرہ کچھ عرصہ قبل تہران میں تینوں ممالک کے سربراہوں نے جمع ہوکر کیا اور اب کابل یاترا کے وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔ بھارت کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کی جانب سے جس وقت اس بات کا اعلان کیا گیا کہ پاکستان کا پٹھان کوٹ کے واقعے میں کوئی کردار نہیں تو اس کے صرف ایک دن بعد ہی بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اپنے بیان میں پاکستان پر الزام دھر دیا کہ پاکستان نہ صرف بھارت بلکہ اب افغانستان میں بھی دہشت گردی کی وارداتوں کا مرتکب ہورہا ہے۔
بھارتی نیوز چینل این ڈی ٹی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ’’بھارتی وزیر اعظم مودی کی جانب سے دورہ اسلام آباد کے دوران مختلف مواقع کی کھڑکی کھولی گئی تھی جو اب بتدریج بند ہورہی ہے تو ان کا جواب تھا کہ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ ان موقعوں کی کھڑکی مکمل بند نہ ہو تو اسے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مخلص ہونا پڑے گا‘‘۔۔۔!! یہ صرف عجیب منطق ہی نہیں بلکہ آنے والے دنوں میں بھارت کے رویے کی پوری طرح نشاندہی ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ بیان پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات کرنے والی بھارتی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ کے بیان کے عین ایک روز بعد آیا تھا۔ ایجنسی کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ پٹھانکوٹ ائر بیس حملے میں پاکستان کا بطور ریاست ملوث ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس سارے منظر نامے میں پاکستان کے بعض میڈیا اور اس میں ’’خدمات‘‘ انجام دینے والے ’’مخصوص بزرجمہروں‘‘ نے چپ سادھ لی جو اس سے پہلے اس واقعے کے ضمن میں بھارت کی ہاں میں ہاں ملانے میں دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق کردار ادا کررہے تھے۔
بھارت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب خطے کے تین اہم ملک بھارت، ایران اور افغانستان مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے ’’نئی صف بندی‘‘ کررہے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نئی صف بندی پاک چین اقتصادی راہ داری اور گوادر بندرگاہ کے فعال ہونے کے ضمن میں ہے جس کے لئے انہیں امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ امریکا نے شروع میں چاہ بہار منصوبے کے حوالے سے ایران اور بھارت کی پیش رفت پر اعتراضات اٹھائے تھے اور اس سلسلے میں کچھ بیانات بھی میڈیا کی زینت بنائے گئے تھے لیکن یہ سب کچھ گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کی حد تک تھا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام معاملات پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل میں روڑے اٹکانے کے لئے ہے۔ لیکن گہرائی سے دیکھا جائے تو اس کا فائدہ نہ تو بھارت کو ہے اور نہ ہی ایران اور افغانستان اس قسم کی پالیسی سے کوئی نفع حاصل کرسکتے ہیں۔ افغانستان کی حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمتیار جو افغان طالبان ملا منصور اختر کی موت سے قبل کابل انتظامیہ کے ساتھ ایک مفاہمتی معاہدے کے سلسلے میں رابطے میں تھے ،نے اب کھل کر اشرف غنی حکومت پر واضح کردیا ہے کہ چاہ بہار منصوبے کا سب سے زیادہ نقصان افغان تاجروں کو ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایران پر افغان طالبان لیڈر ملا منصور اختر کی ہلاکت میں امریکا کے ساتھ خفیہ تعاون کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس قسم کی پالیسیوں اور دوسروں کے ہاتھوں کھلونا بننے کی روش نے ہمیشہ خطے کے ممالک کو ہی نقصان پہنچایا ورنہ یہ تمام خطہ اقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے دنیا کا سب سے زرخیز خطہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔ہمیں یاد ہوگا کہ ساٹھ کی دہائی میں صدر ایوب کے دور میں پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی کا ایک معاہدہ ہُوا تھا جو آر سی ڈی کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے ان تینوں ممالک کو باہمی تعلقات، تجارت اور سیاسی امور میں ایک دوسرے کے قریب لانے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی اور پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان آر سی ڈی شاہراہ اسی جذبے کے تحت بنائی گئی تھی جس نے ان ممالک کے درمیان تجارتی رابطوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کرنا تھا اس شاہراہ کی باقیات آج بھی کراچی تا کوئٹہ اپنے سنہری ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ مغرب کے مقامی کاسہ لیسوں نے اس منصوبے کو پوری طرح پروان ہی نہ چڑھنے دیا ورنہ اگر یہ منصوبہ اس وقت مکمل ہوجاتا تو پاکستان سے براستہ ایران اور ترکی تک زمینی روابط یورپ تک جاپہنچتے اورمعاشی واقتصادی معاملات ان تینوں ممالک کے درمیان کہیں سے کہیں پہنچ جاتے لیکن امریکا اوراس وقت کے سوویت یونین کو یہ سب کچھ منظور نہ تھا جبکہ وطن عزیز کا یہ حال تھا کہ ہر سال ایک یادگاری ٹکٹ اس معاہدے کی یادگار میں جاری کردیا جاتا اور یوں بات ٹکٹ سے آگے نہ بڑھ سکی۔یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ آر سی ڈی کی تشکیل سے پاکستان ایران اور ترکی کے درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات کو مستحکم کیا جا سکے۔ دنیا میں اقتصادی طاقت اور صلاحیت کا براہ راست تعلق ملکوں کی سلامتی سے ہے۔ معاشی عدم استحکام سیاست کی بھی بساط لپیٹ دیتا ہے اور ملک کو بھی بدامنی اور بے یقینی کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ پاکستان کو غیرمستحکم کرنا امریکا بھارت سمیت پاکستان دشمنوں کا کھلا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کیلئے ان کو مقامی ایجنٹ ہر سطح پر میسر ہیں۔اب اگر غور کیا جائے کہ اس زمانے میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا تو یقینی بات ہے پاک چین اقتصادی راہ داری کا جو ڈول اب ڈالا گیا ہے کئی سال پہلے اس کی ابتدا ہوچکی ہوتی یوں سنکیانگ سے براہ راست پاکستان وایران وترکی یورپ تک اقتصادی سرگرمیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا اور خطے کے ممالک خوشحالی سے لبریز ہوتے لیکن ساٹھ کی دہائی سے لیکر آج تک کی تاریخ دیکھ لی جائے تو ہمیں اس خطے میں اغیار کی جنگیں ہی نظر آئیں کی جس کی قیمت ہم نے ادا کی۔
باقی ملکوں کے احوال کو ایک طرف رکھیں صرف پاکستان کی بات کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس قوم کو سرے سے کوئی ایسا لیڈر ہی میسر نہیں آیاجو اتنے بڑے ویژن کے ساتھ قوم کی رہنمائی کرتااور جو سیاستدانوں کی شکل میں لیڈر نما چیزیں مسلط کی گئیں وہ قوم کے لئے وعدوں وعیدکی شکل میں جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اور مغرب کے بینکوں میں لوٹ کی دولت جمع کرتے رہے۔ملکی سلامتی کے لئے ان معاشی دہشت گردوں سے نجات ملک اور قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ اختیار کرچکی ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی دجالی ملک برطانیہ اس خطے میں مسئلہ کشمیر کی شکل میں ایک ایسا فتنہ چھوڑ گیا تھا جو آنے والے وقت میں خطے میں عسکری کشمکش کا سبب بنا رہے۔ ستر کی دہائی میں جس وقت مسلم ممالک نے ایک مشترکہ پالیسی کے حوالے سے سوچنا شروع کیا تو یہاں ’’عوامی انقلابات‘‘ برپا کرکے بساط لپیٹ دی گئی اس کے بعد افغانستان میں سوویت یونین کو پھنسا کر سولہ سالہ جنگ مسلط کردی گئی جس سے خطے میں سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا یقینی بات تھی کہ ان حالات میں خطے کے ممالک سوویت یونین کے ریچھ کا سامنا کررہے تھے کسی کو بھلا اقتصادی منصوبہ بندی کا ہوش کیسے آسکتا تھا ۔ سوویت یونین سے جان چھوٹی تو خطے میں ’’دہشت گردی اور انتہا پسندی‘‘ کا بگل بجا دیا گیا اور پھر نئی صدی کے آغاز میں نائن الیون کے ڈرامے نے ایک نہ ختم ہونے والی جنگی صورتحال کا روپ دھار لیا جو افغانستان سے شروع ہوکر اب تمام مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔
اس دوران چین معاشی سرگرمیوں اور اقتصادی پیداوار کا ایک جن بن چکا تھا اور اسے اپنی اس پیداوار کو کھپانے کے لئے راستے درکار تھے جنہیں مسددود کرنے کے لئے امریکا اور یورپ کی دجالی حکمت عملی نے ایک طرف بھارت کو معاشی قوت بننے کا خواب دکھانا شروع کیا تو دوسری جانب پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کو ہوا دی جانے لگی۔ افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار سونپنے کی تیاری کی گئی تو دوسری جانب پاکستان کے اندر ایسی حکومتوں کی تشکیل ہوئی جو بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے سامنے زبان نہ ہلا سکیں اس کا بڑا ثبوت این آر او زدہ سابقہ اور موجودہ حکومتیں ہیں جو بین الاقوامی بندوبست کے تحت وجود میں لائی گئیں اور جس کی راہ مشرف جیسے عاقبت نااندیش اور خودپسند قسم کے جرنیل سے ہموار کرا دی گئی۔
اس سلسلے میں اگلا منظر نامہ کچھ اس طرح کا دکھائی دیتا ہے کہ مشرقی سمندورں یا بحرالکاہل میں چین کے بحری راستوں کو مشکلات سے دوچار کیا جائے گاتاکہ یہاں سے معاشی سرگرمیاں اسے خاصی مہنگی ثابت ہوں اور وہ عالمی مارکیٹ میں اپنا سستا سامان نہ پہنچا سکے دوسری جانب بھارت اور افغانستان کے ذریعے پاکستان میں سی پیک منصوبے کو سبوتاز کیا جاسکے اس کی واضح مثال ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات سے ہوچکا ہے۔ اب دفتر خارجہ کی جانب سے بیان آیا ہے کہ بھارت کو کلبھوشن تک رسائی نہیں دی جائے گی جبکہ اس کے اعترافات کے ثبوت اقوام متحدہ اور دوست ممالک کو پیش کئے جائیں گے۔ یہ باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن اقوام متحدہ اس سلسلے میں کیا کرے گی؟ جو خود عالمی دجالی نظام کا ایک ادنی سا مہرہ ہے۔ یہ ادارہ اگر واقعی قیام امن اور انصاف کے لئے وجود میں لایا جاتا تو کیا آج تک مسئلہ کشمیر اور فلسطین حل نہ ہوجاتے؟ کیا دنیا کو اس قدر خونریزی دیکھنا پڑتی؟
پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت بھارت کو خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ عالمی دجالی قوتوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ، یہ معاملات دنیا کے سامنے صرف ثبوت رکھنے سے حل نہیں ہوں گے بلکہ ان کے خلاف ملک کے اندر بھی سخت اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ وطن عزیز کو ایسے دشمن سے واسطہ پڑ چکا ہے جو اس ملک کے ذرائع ابلاغ تک میں رسائی حاصل کرچکا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع اور دیگر حکومتی اداروں کو کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد منہ چھپانا چاہئے تھا لیکن وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ پاکستان کے اداروں پر افغانستان اور بھارت کے خلاف طالبان کی سرپرستی کا الزام عائد کررہے ہیں۔ امریکا افغانستان کے میدان میں ہاری ہوئی جنگ سفارتکاری اور سیاسی میز پر جتینا چاہتا ہے۔ ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سامنے ’’دہشت گردی ‘‘ کے خلاف جنگ میں اپنی قربانیاں گنوا کر اسے قائل کرلیں گے تو اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ امکانات اور مفادات کی دنیا ہے یہاں دوستیاں اور دشمنیاں مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ کسی کو کچھ غرض نہیں کہ پاکستان کے کتنے شہری اور فوجی جوان اس جنگ میں شہید ہوچکے ۔ اس بات کو ذہین میں رکھنا ہوگا کہ خطے کی ’’گریٹ گیم‘‘ اس وقت اپنی تاریخ کے چوتھے دور میں داخل ہوچکی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس گیم کا جغرافیائی محور اب کھسک کر افغانستان سے پاکستان اور ایران تک پھیل چکا ہے۔ماضی کا مغرب یعنی برطانیہ جس مقصد کے تحت روس کو تاجکستان سے پرے روکنا چاہتا تھا اب وہی مغرب امریکا اور برطانیہ کی شکل میں چین کو سنکیانگ سے پرے محدود کرنا چاہتا ہے ۔
بھارت اور افغانستان کی جانب سے پیدا کردہ تازہ حالات سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں ایک طاقتور خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے اور اسے دنیا تک پہنچانے کے لئے ایک قابل اور محب وطن وزیر خارجہ کا تقرر ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر منظم سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے بھارتی پراپیگنڈے کا جواب دیا جائے۔کیونکہ آنے والے دوسال نہ صرف پاکستان کے لئے بلکہ پورے خطے کے لئے ایک بڑا امتحان لیکر آرہے ہیں ممکن ہے بہت کچھ اچانک بدل جائے۔۔۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل قریب میں سی پیک منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعدآر سی ڈی کو فعال کرنے کیلئے منصوبے میں سابقہ ممالک کے ساتھ ساتھ اس میں افغانستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، کرغیزستان کو بھی شامل کر کے ایک مضبوط وسطی ایشیائی اتحاد یا بلاک کی بنیاد رکھی جائے جو علاقائی برائے تعاون و ترقی میں ان مسلم ممالک کے درمیان ایک مضبوط کڑی کا کام دے گا اور تمام ممالک بآسانی سڑک اور ریل کے راستے مل سکتے ہیں، کئی جگہ ملے بھی ہوئے ہیں یوں باہمی طور پر ترقی و خوشحالی اور عوامی رابطوں کا نیا جہان آباد ہو گا اور پاکستان کو ان ممالک اور دیگر ممالک کو پاکستان سے بہت کچھ حاصل کرنے کا موقع میسر آسکے گا۔
بھارت میں مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، حکومت نے دہشت گرد تنظیموں سے تعلق کا الزام لگا کر مسلم مذہبی گروپ پر 5 سال کی پابندی لگا دی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مذہبی گروپ کے عسکریت پسند گروپوں سے تعلقات ہیں، گروپ اور اس ک...
اقوام متحدہ نے سابق افغان صدر محمداشرف غنی کا نام سربراہان مملکت کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر چند روز قبل 15 فروری کو نظرثانی شدہ اور ترمیم شدہ فہرست میں افغانستان کی خاتون اول کے طورپر سابق صدراشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی(بی بی گل) کا نام بھی ہٹادیا گیا...
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی جنتا کو ایک بار پھر ماموں بنادیا۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارتی وزیراعظم دہلی کے ایک مندر کے دورے پر مہمانوں کی کتاب میں تاثرات لکھنے گئے تاہم وہ پہلے سے ہی لکھے ہوئے تھے۔ نریندر مودی لکھے ہوئے تاثرات کے اوپر صرف ہوا میں قلم چلاتے رہے لیکن انہوں...
جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...
بھارتی ریاست پنجاب میں وزیراعظم نریندر مودی کے قافلے کو کسانوں نے راستے میں روک دیا۔ بھارتی وزیراعظم کو فیروزپور شہر میں کئی منصوبوں کا افتتاح اور ریلی سے خطاب کرنا تھا تاہم وزیراعظم کے قافلے کے راستے میں بھٹنڈا کے فلائی اوور پر کسانوں نے احتجاج کیا اور سڑک کو ٹریفک کیلئے بند کرد...
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پراجیکٹ (او سی سی آر پی)نے سال 2021 کی کرپٹ ترین شخصیات کی فہرست جاری کردی۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیگزینڈر جی لوکاشینکو کو منظم مجرمانہ سرگرمیوں اور بدعنوانی کو آگے بڑھانے پر 2021کا کرپٹ پرسن آف دی ایئر قرار دیا گ...
پاکستانی نمبر سے موصول ہونے والے ایک ٹیکسٹ میسج اور فون کال سے سابق مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب، سابق صدر اشرف غنی کے ساتھ اہلِ خانہ کے ہمراہ افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔امریکی میگزین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان جنگجوئوں کے کابل پر قبضے والے روز، 15 اگست کو تقریبا ایک...
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے طیارے نے دو روز قبل اٹلی کے شہر روم پہنچنے کیلئے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی اجازت سے پاکستانی فضائی حدود استعمال کی۔ سی اے اے ذرائع کے مطابق بھارتی وزیراعظم کے طیارے نے پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنے کے لیے اجازت حاصل کی تھی۔بھارتی وزیراعظ...
امریکی حکومت کے ایک نگران ادارے نے امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون پر الزام عائد کیا وہ افغانستان کی سابق حکومت اور فوج کے خاتمے اور امریکی فوجیوں کے ہنگامی انخلا سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کی جانب سے فراہم کرد...
سابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں جنگ ہار رہا تھا، اس لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے۔اشرف غنی حکومت کے افراد کو نئی حکومت میں شامل کیے جانے کا امکان تھا مگر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے سے سب ختم ہو گیا۔امریکی میڈیا کو انٹرویو میں زل...
سابق افغان صدر اشرف غنی کی سیکیورٹی عملے کے ایک سینئر رکن نے امریکا کی سرکاری ایجنسی کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس مبینہ چوری کے ویڈیو شواہد موجود ہیں۔امریکی ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق افغان صدر کابل سے فرار ہوتے وقت اپنے ساتھ 16 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لے گئے تھے...
افغانستان میں صدارتی انتخاب کے بعد نتائج کے باقاعدہ اعلان سے قبل صدر اشرف غنی کے بعد چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے بھی کامیابی کا دعوی کردیاہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انہیں اشرف غنی ...