وجود

... loading ...

وجود

کاؤ بوائز (2)

منگل 14 جون 2016 کاؤ بوائز (2)

پہلی قسط میں کاؤ بوائز کا سر ورق اور اس کی تشکیل کا بیانیہ ادھورا رہ گیا تھا سو دونوں حاضر ہیں۔آغاز یہیں سے کرتے ہیں۔

1962 ء میں بھارت کو چین سے جنگ میں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تب مسز اندرا گاندھی کے والد پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ہندوستان کو چین کی عسکری طاقت کا بالکل اندازہ نہ تھا۔چین بھی ان دنوں مریخ کی طرح کا کوئی دور افتادہ سیارہ لگتا تھا بس فرق یہ تھا کہ چیئرمین ماؤ زے تنگ کے مقابلے میں مغربی میڈیا جواہر لال نہرو کو زیادہ جانتا پہچانتا تھا۔

kao

نہرو کے زمانے ہی میں بھارت کو چین کے خلاف معلومات اکھٹی کرنے اور استعمال کرنے کے لیے کاؤ صاحب کی نگرانی میں ڈائریکڑیٹ جنرل آف سیکورٹی بنایا گیا۔ امریکا اور برطانیہ کے خفیہ اداراوں نے اس کی تشکیل میں ان کی بڑی مدد کی۔فرانس کی خفیہ ایجنسی SDECEکے سربراہ الیکژنڈر دے مراناش Count Alexandre de Marenches تو رامیشور کاؤ جی کے زمانے میں یہ امداد اور بھی بہت کھل کر ملی۔

والد کے زمانے میں ہی اندرا گاندھی کو بطور سیاستداں اور خاتون ایسے بے شمار مردوں سے واسطہ پڑتا تھا جو اُن پر ہندوستانی ناری جان کر حاوی ہونے اور چھاجانے کی کوشش کرتے تھے ۔

جب 1966 ء میں اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنیں تو ان کے سامنے اپنے والد کے دور کی چین سے جنگ میں شکست کی سبکی بھی تھی اور اس کا بدلہ ظاہر ہے وہ چین سے لینے کی پوزیشن میں تو نہ تھیں لیکن 1965 ء کی پاکستان سے جنگ کی تلخیاں بھی ان کے ذہن سے محو نہ ہوپائی تھیں۔ انہوں نے پاکستان کو خصوصی ہدف بنانے کے لیے کے ہندوستان کے انٹیلی جنس بیورو کو تقسیم کرکے21 ستمبر1968 کو ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (R.A.W) بنایا۔ رامیشور ناتھ کاؤ جی کو اس کے بانی سربراہ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

مسز اندرا گاندھی ا ن کے ساتھ اپنے وزیر اعظم والد کی خصوصی مگر نجی مشیر کے طور پراکثر رابطے میں رہتی تھیں۔ کاؤجی بھارت کے انٹیلی جنس بیورو میں اس وقت خارجہ ونگ کی جگہ تشکیل دیے گئے ڈائریکڑیٹ جنرل آف سیکورٹی کے سربراہ تھے۔ وہ ان کی شخصیت کی وجاہت ،راز داری، وفاداری،ذہانت اور خود کو غیر اہم بنا کر رکھنے کے اہتمام والی خوبیوں سے بڑی متاثر تھیں۔

کاو اندرا گاندھی کے ساتھ

کاو اندرا گاندھی کے ساتھ

والد کے زمانے میں ہی اندرا گاندھی کو بطور سیاستداں اور خاتون ایسے بے شمار مردوں سے واسطہ پڑتا تھا جو اُن پر ہندوستانی ناری جان کر حاوی ہونے اور چھاجانے کی کوشش کرتے تھے ۔اس کے برعکس کاؤ صاحب جو طویل القامت، ذہین،کم گو ، وجیہ اور بے حد معاملہ فہم افسر تھے ،ان کا انداز ذرا من موہنا تھا ۔ وہ شمع کی ماننداہل انجمن سے بے نیاز ایک آتش گمنام میں چپ چاپ جلتے رہنے کے عادی تھے۔ ان کے دلکش سراپے میں مسز اندرا گاندھی کو جمیز بونڈ کے خالق آئن فلیمنگ کی جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں۔جو برطانوی نیول انٹیلی جنس کے ایک بڑے افسر ہونے کے علاوہ خواتین کے معاملے میں بھی بڑے Lady Killer سمجھے جاتے تھے۔انہیں اپنی اکثر محبوباؤں پر ’’رضاکارانہ جسمانی تشدد ‘‘کے حوالے سے بھی مخصوص دل چسپی رکھنے والے حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔ ان کی اپنی ہی شخصیت کے کچھ ایسے وصف تھے یعنی غیر جذباتی ہونا، شدید دباؤ اور خطرے کی حالت میں بھی اپنا Composure قائم رکھنا ،خواتین پر جلد حاوی ہوجانا، دلفریب و بے رحم مگر ایک جان لیوا دلیر اور عیش پسند پیکر مردانگی ہونا یہ تمام عناصر انہوں نے اپنے کردار جیمز بونڈ میں بھی سمودیے ۔

ian-fleming-man-behind-james-bond-andrew-lycett-cd-cover-art

وزیر اعظم اندرا گاندھی نے را کے قیام کے روز اول سے ہی کاؤجی کو خصوصی طور پر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کا فریضہ سونپا ۔ مشہور مصور اور سائنسداں لیونارڈو۔ ڈا۔ ونچی کا کہنا تھا کہ’’ کائنات ایک مسلسل تسلسل کا نام ہے۔جس میں حالات، واقعات اور افراد آپس میں جڑے ہوتے ہیں‘‘۔

کرنل کمانڈنٹ ابوبکر عثمان مٹھا

کرنل کمانڈنٹ ابوبکر عثمان مٹھا

اس کتاب میں گو ایک ذہین ماتحت بی رامن کی جانب سے اپنے افسر عالی مقام کی ویسی ہی مدح سرائی کی گئی جیسی مرزا غالب مجبور و بے کس شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کی کیا کرتے تھے مگر میرے بیانیے کا منتہا و مقصود پاکستان کا تذکرہ ہے۔یہی میرے لیے ساغر و بادہ ہے۔آئیے لیونارڈو ۔ ڈا ۔ونچی کے مذکورہ بالا مشاہدے کو سامنے رکھ کرــ’’ راــ‘‘ کی پاکستان کے حوالے سے اسی کتاب اور اضافی تجزیے سے باتیں کریں ،لیکن ایک ذرا مزید تذکرہ اس کے خالق رمامیشور کاؤ جی کابھی ہوجائے۔جس طرح پاکستان کی چار کمانڈو والی ایس ایس جی رجمنٹ کو 1956ء میں انیسویں بلوچ کے کرنل کمانڈنٹ ابوبکر عثمان مٹھا(جن کا تعلق بمبئی کے میمن سیٹھ سر قاسم سلیمان مٹھا کے خاندان سے تھا )نے تشکیل دیا تھا ۔ وہ بعد میں میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اُن کی شخصیت کے اثرات ایک طویل عرصے تک اس ادارے پر غالب رہے۔ وہ ایک بے حد دلیر ،جفا کش ، Dare -Devil ، No-Nonsense حد درجہ ایماندار ، پروفیشنل افسر تھے۔مشن کے دھنی تھے۔ ان میں خوف خدا بھی بہت تھا تو دنیا کی بہترین نعمتوں کو برتنے کے باوجود سادگی اور غریب پروری بھی تھی۔ان کی تشکیل کردہ یہ نئی ایس ایس جی رجمنٹ عرصے تک ان ہی کی طرح کا سیکولر اور عسکری ادارہ بن کر رہی ۔ان کے بعد جو بھی اس ادارے کا سربراہ بنا وہ ان کے ہی افکار اورکردار کی کسی حد تک تقلید کرتا ہوا پایا گیا ۔ اس کا سب سے جیتا جاگتا پرتو (کچھ اوصاف کو منہا کرکے ) آپ کو جنرل پرویز مشرف اور میجر جنرل امیر فیصل علوی کی رنگ برنگی شخصیات میں ملتا ہے ۔یہ دونوں جنرل مٹھا کے بعد اس ادارے کے سربراہ رہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ’’را‘‘ اور کاؤ جی کی شخصیت کے اثرات کا بھی رہا۔اس خفیہ ادارے کے قیام کے عرصہ تین برس تک جنرل یحییٰ اور ان کے بدکار ساتھیوں کورا کی مشرقی پاکستان میں شازشوں اورریشہ دوانیوں سے زیادہ تھل تھل کرتی خواتین کی عشوہ طرازیوں میں دل چسپی رہی۔را کے سربراہ کی گپ چھپ کام کرنے کی عادت کا مسز اندرا گاندھی نے بھلے سے دل کھول کر نوٹس لیا ہو لیکن 1969 میں پاکستان میں اقتدار پر قابض ہونے والے ٹولے نے اسے محمد شاہ رنگیلا کی طرح دفتر بے معنی جان کر غرق مئے ناب ہی رکھا ۔’’را‘‘ مشرقی پاکستان کے سقوط کو اپنا سنہری کارنامہ گردانتی ہے۔

اس گمنام اور بے شہرت وجود کا خود بھارت میں بھی سرکاری طور پر ادراک بیوروکریسی کو ان کے ریٹائرمنٹ کی چوتھائی صدی بعد ان کی چتا جلاتے ہوئے ہوا ۔ رمامیشور کاؤ جی بہت کم آمیز تھے۔بہت کم افراد اس آخری سفر میں ان کو الوداع کہنے آئے تھے۔مشرقی پاکستان کے سقوط اور بنگلہ دیش کے قیام کے معاملے میں کاؤ بوائے اس کے ڈانڈے1956 میں آئی ایس آئی کے ناگا لینڈ کی امداد سے جوڑتی ہے جب انہوں نے وہاں کے باغی لیڈر فیزو کی باقاعدہ امداد کا آغاز کیا۔کہنے کی حد تک یہ بات درست ہوسکتی ہے مگر اندرا گاندھی کے ہاں اس کے عوامل بہت نجی و نفسیاتی تھے۔

ویسے تو نہرو خاندان کی خواتین مذہبی معاملات میں بہت کشادہ دل تھیں مگر یہ سب کچھ نجی سطح پر تھا۔نہرو خاندان کو جنگوں میں دو مرتبہ سبکی ہوئی ،پہلے باسٹھ کے اوائل میں چین کے ساتھ اور پھر پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ۔ دونوں مواقع پر ان جنگوں اور ان سے مرتب شدہ اثرات کو جانچنے کا مسز اندرا گاندھی کو براہ راست موقع ملا تھا ۔ پہلی جنگ میں وہ اپنے والد کی مشیر تھیں ۔ہماری ایوب خان کی نسیم اورنگ زیب،بے نظیر بھٹو اور مریم صفدر کی مانند دختر اوّل اور حرف آخر کی طرح۔دوسری جنگ میں وہ لال بہادر شاشتری کی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات تھیں۔

سچ پوچھئے تو 1965 ء کی جنگ بنیادی طور پر پرانے جنگی ساز و سامان کی اور پروپیگنڈا کی جنگ تھی۔پاکستان کا سیاہ سفید میڈیا اور اس کا تھکا ماندہ ریڈیو یہ جنگ جیت گیا اس کے کراچی کی بسوں جیسے سیبر جنگی جہاز (جنہیں کراچی کے بعض مقامات پر نصب دیکھ کرہماری ایک دوست انہیں فوجی طیاروں کی مینا کماری کہتی تھی)افواج صف شکن میں دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ یہ جنگ پاکستان نے جیتی ہے۔یہ سبکی بھی اندرا گاندھی نہ بھلا پائیں۔کسی نے ان کے کان میں شاید یہ زہر بھی گھولا ہو کہ شہر تاشقند میں ان کے چھوٹے سے بنارسی وزیر اعظم لال بہادر شاشتری کو پاکستانیوں نے سی آئی اے کی اعانت سے روس میں زہر دے کر مارا ہے۔ہمارا ایک دوست کہتا ہے عورت اور بندوق سے احتیاط کرو کیا پتہ بھری ہوئی ہو۔ یوں مسز اندرا گاندھی دو طرح سے بھری ہوئی تھیں۔ ایک تو چین سے جنگ ہار کر، دوسرے ہم بے سرو سامانوں سے پروپیگنڈا اور پرانے سامان سے لڑی گئی جنگ کی ہزیمت اٹھا کر۔ ہمیں وہ بہت کم تر جانتی تھیں۔وہ تحقیر جو کم تر حیثیت کے ممالک، فوج یا فرد کے ہاتھوں ہو۔ اس کا گھاؤ بہت گہر ا ہوتا ہے۔

ممکن ہے انہیں بائبل کی کتاب ڈینیل کی لائن 24:15 ABOMINATION OF DESOLATION کا بھی علم ہو۔جس میں اُن کے نبی ڈئینل نے کہا تھا کہ’’ ایسا وقت آئے کہ کم تر لوگ تم پر غالب آجائیں تو مقابلے کی بجائے پہاڑوں کی جانب فرار ہوجانے میں ہی نجات ہے‘‘۔یہ لائن یروشلم کے قلعے کا نگران بشپ سوفورنئیس Sophronius اشک و غم سے نڈھال اس وقت بڑ بڑا رہا تھا، جب وہ قلعے کی چابیاں کسی سپاہی کے حوالے کرنے کے بجائے سیدنا عمرؓ بن خطاب کو دینے پر مصر ہوا تھا ۔وہ معاہدہ شکست ایک ایسے بادشاہ کے ساتھ تشکیل دینا چاہتا تھا جس کا طرز بود باش فقرا کی مانند سادہ اور بے خوف و بے نیا ز انہ ہو۔ سیدنا عمرؓ بن خطاب اس شان سے آئے کہ شہر یروشلم میں داخل ہوئے تو اس وقت اونٹ کی نکیل تھامنے کی باری آپ کی تھی ۔سواری کا اس فاصلے پر حق آپ کے غلام کا تھا۔یروشلم میں بارش کی وجہ سے آپ کے ثوب پر کیچڑ کے چھینٹے بھی پڑے ہوئے تھے۔یہ منظر دیکھ کرسوفرنیئس بے حد مرعوب ہوا۔

اندرا گاندھی بڑی بے رحم، محتاط، منتقم مزاج اور صبر کرنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے بھانپ لیا کہ 1971 میں حضرت عمرؓ کے پیروکاروں کے پیرو کار جنرل طاؤس و رباب ہیں نہ کہ شمشیر و سناں۔یہ کم عقل اور بے راہ رو ٹولہ سیاست کے اس طوفان کو سمجھ ہی نہیں پارہا جو دسمبر 1970 کے عام انتخابات نے برپا کیا ہے، لہذا انہوں نے مشرقی پاکستان کا قصہ ہی پاکستان کے نقشے سے پاک کرڈالنے کا منصوبہ رو بہ عمل لانے کی ٹھان لی۔اس وقت جنرل مانک شا ہندوستانی فوج کے اور ایف کے رستم جی بارڈر سیکورٹی فورس کے سربراہ تھے۔ یہ دونوں پارسی فوجی ہندوستان میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔بین الاقوامی پروازوں پر بھارت سے اڑان پر پابندی سے لے کر ملک کے مشرقی حصے میں عوام کی ایک بڑی اکثریت کا بغاوت پر اترآنا اور وہاں ایک شورش و انتشار کا طوفان کھڑا ہوجانا جس کی وجہ سے عوامی جذبات پاکستان کے خلاف ہوگئے اور حکمرانوں کی ملکی معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے میں ناکامی تک کئی عوامل مشرقی پاکستان کے علیحدگی کے ذمہ دار قرار دیے جاسکتے ہیں مگر اندرا گاندھی کی سیاست کاری بطور وزیر اطلاعات اوران کے اپنے دور میں وزارت اطلاعات میں شعبہ نفسیاتی اور ثقافتی جنگ کا قیام (جس کے ذریعے پاکستان کو ساری دنیا میں نہتے شہریوں پر فوج کے مظالم کے پروپیگنڈے سے بے حد بدنام کیا گیا۔ مگر بعد میں شائع ہونے والی کتب نے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ان مظالم کی قلعی کھول دی)یہ اور دیگر چھوٹے بڑے کئی عوامل تھے جنہیں مجموعی طور پر اس سلسلۂ شکست و سقوط کا ذمہ دار ٹہرایا جاسکتا ہے۔

پاکستان نے اندرا گاندھی سے اس کا بدلہ کیسے لیا ،یہ بھی بہت دل چسپ کہانی ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں سفارتی رکھ رکھاؤ سے کام لینے کی ضرورت نہیں۔جب وزیر اعظم مودی جی بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر ببانگ دہل ایک عالم کے سامنے اعتراف کرسکتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آزادی اور مکتی باہنی کے روپ میں ہندوستانی افواج کو مشرقی پاکستان میں لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا تو ہم کیوں شرمائیں کہ مشرقی پنجاب میں کیا ہوا؟ہم نے ساز اس لیے مجبوراً سنبھالا تھا کہ وہاں سے غزل پہلے ہی چھیڑی جاچکی تھی ۔

کاؤ بوائز کے بیان میں یہ باتیں ویسے بیان نہیں کی گئیں ۔سیب تو کئی سروں پر نیوٹن سے پہلے بھی گرے تھے ۔ یاد ہے نا لیونارڈو ڈا ونچی نے کہا تھا کہ کائنات میں ایک مسلسل تسلسل ہے۔حالات ، واقعات اور افراد آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر