... loading ...
پہلی قسط میں کاؤ بوائز کا سر ورق اور اس کی تشکیل کا بیانیہ ادھورا رہ گیا تھا سو دونوں حاضر ہیں۔آغاز یہیں سے کرتے ہیں۔
1962 ء میں بھارت کو چین سے جنگ میں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تب مسز اندرا گاندھی کے والد پنڈت جواہر لال نہرو بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ہندوستان کو چین کی عسکری طاقت کا بالکل اندازہ نہ تھا۔چین بھی ان دنوں مریخ کی طرح کا کوئی دور افتادہ سیارہ لگتا تھا بس فرق یہ تھا کہ چیئرمین ماؤ زے تنگ کے مقابلے میں مغربی میڈیا جواہر لال نہرو کو زیادہ جانتا پہچانتا تھا۔
نہرو کے زمانے ہی میں بھارت کو چین کے خلاف معلومات اکھٹی کرنے اور استعمال کرنے کے لیے کاؤ صاحب کی نگرانی میں ڈائریکڑیٹ جنرل آف سیکورٹی بنایا گیا۔ امریکا اور برطانیہ کے خفیہ اداراوں نے اس کی تشکیل میں ان کی بڑی مدد کی۔فرانس کی خفیہ ایجنسی SDECEکے سربراہ الیکژنڈر دے مراناش Count Alexandre de Marenches تو رامیشور کاؤ جی کے زمانے میں یہ امداد اور بھی بہت کھل کر ملی۔
جب 1966 ء میں اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنیں تو ان کے سامنے اپنے والد کے دور کی چین سے جنگ میں شکست کی سبکی بھی تھی اور اس کا بدلہ ظاہر ہے وہ چین سے لینے کی پوزیشن میں تو نہ تھیں لیکن 1965 ء کی پاکستان سے جنگ کی تلخیاں بھی ان کے ذہن سے محو نہ ہوپائی تھیں۔ انہوں نے پاکستان کو خصوصی ہدف بنانے کے لیے کے ہندوستان کے انٹیلی جنس بیورو کو تقسیم کرکے21 ستمبر1968 کو ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (R.A.W) بنایا۔ رامیشور ناتھ کاؤ جی کو اس کے بانی سربراہ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
مسز اندرا گاندھی ا ن کے ساتھ اپنے وزیر اعظم والد کی خصوصی مگر نجی مشیر کے طور پراکثر رابطے میں رہتی تھیں۔ کاؤجی بھارت کے انٹیلی جنس بیورو میں اس وقت خارجہ ونگ کی جگہ تشکیل دیے گئے ڈائریکڑیٹ جنرل آف سیکورٹی کے سربراہ تھے۔ وہ ان کی شخصیت کی وجاہت ،راز داری، وفاداری،ذہانت اور خود کو غیر اہم بنا کر رکھنے کے اہتمام والی خوبیوں سے بڑی متاثر تھیں۔
والد کے زمانے میں ہی اندرا گاندھی کو بطور سیاستداں اور خاتون ایسے بے شمار مردوں سے واسطہ پڑتا تھا جو اُن پر ہندوستانی ناری جان کر حاوی ہونے اور چھاجانے کی کوشش کرتے تھے ۔اس کے برعکس کاؤ صاحب جو طویل القامت، ذہین،کم گو ، وجیہ اور بے حد معاملہ فہم افسر تھے ،ان کا انداز ذرا من موہنا تھا ۔ وہ شمع کی ماننداہل انجمن سے بے نیاز ایک آتش گمنام میں چپ چاپ جلتے رہنے کے عادی تھے۔ ان کے دلکش سراپے میں مسز اندرا گاندھی کو جمیز بونڈ کے خالق آئن فلیمنگ کی جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں۔جو برطانوی نیول انٹیلی جنس کے ایک بڑے افسر ہونے کے علاوہ خواتین کے معاملے میں بھی بڑے Lady Killer سمجھے جاتے تھے۔انہیں اپنی اکثر محبوباؤں پر ’’رضاکارانہ جسمانی تشدد ‘‘کے حوالے سے بھی مخصوص دل چسپی رکھنے والے حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔ ان کی اپنی ہی شخصیت کے کچھ ایسے وصف تھے یعنی غیر جذباتی ہونا، شدید دباؤ اور خطرے کی حالت میں بھی اپنا Composure قائم رکھنا ،خواتین پر جلد حاوی ہوجانا، دلفریب و بے رحم مگر ایک جان لیوا دلیر اور عیش پسند پیکر مردانگی ہونا یہ تمام عناصر انہوں نے اپنے کردار جیمز بونڈ میں بھی سمودیے ۔
وزیر اعظم اندرا گاندھی نے را کے قیام کے روز اول سے ہی کاؤجی کو خصوصی طور پر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کا فریضہ سونپا ۔ مشہور مصور اور سائنسداں لیونارڈو۔ ڈا۔ ونچی کا کہنا تھا کہ’’ کائنات ایک مسلسل تسلسل کا نام ہے۔جس میں حالات، واقعات اور افراد آپس میں جڑے ہوتے ہیں‘‘۔
اس کتاب میں گو ایک ذہین ماتحت بی رامن کی جانب سے اپنے افسر عالی مقام کی ویسی ہی مدح سرائی کی گئی جیسی مرزا غالب مجبور و بے کس شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کی کیا کرتے تھے مگر میرے بیانیے کا منتہا و مقصود پاکستان کا تذکرہ ہے۔یہی میرے لیے ساغر و بادہ ہے۔آئیے لیونارڈو ۔ ڈا ۔ونچی کے مذکورہ بالا مشاہدے کو سامنے رکھ کرــ’’ راــ‘‘ کی پاکستان کے حوالے سے اسی کتاب اور اضافی تجزیے سے باتیں کریں ،لیکن ایک ذرا مزید تذکرہ اس کے خالق رمامیشور کاؤ جی کابھی ہوجائے۔جس طرح پاکستان کی چار کمانڈو والی ایس ایس جی رجمنٹ کو 1956ء میں انیسویں بلوچ کے کرنل کمانڈنٹ ابوبکر عثمان مٹھا(جن کا تعلق بمبئی کے میمن سیٹھ سر قاسم سلیمان مٹھا کے خاندان سے تھا )نے تشکیل دیا تھا ۔ وہ بعد میں میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اُن کی شخصیت کے اثرات ایک طویل عرصے تک اس ادارے پر غالب رہے۔ وہ ایک بے حد دلیر ،جفا کش ، Dare -Devil ، No-Nonsense حد درجہ ایماندار ، پروفیشنل افسر تھے۔مشن کے دھنی تھے۔ ان میں خوف خدا بھی بہت تھا تو دنیا کی بہترین نعمتوں کو برتنے کے باوجود سادگی اور غریب پروری بھی تھی۔ان کی تشکیل کردہ یہ نئی ایس ایس جی رجمنٹ عرصے تک ان ہی کی طرح کا سیکولر اور عسکری ادارہ بن کر رہی ۔ان کے بعد جو بھی اس ادارے کا سربراہ بنا وہ ان کے ہی افکار اورکردار کی کسی حد تک تقلید کرتا ہوا پایا گیا ۔ اس کا سب سے جیتا جاگتا پرتو (کچھ اوصاف کو منہا کرکے ) آپ کو جنرل پرویز مشرف اور میجر جنرل امیر فیصل علوی کی رنگ برنگی شخصیات میں ملتا ہے ۔یہ دونوں جنرل مٹھا کے بعد اس ادارے کے سربراہ رہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ’’را‘‘ اور کاؤ جی کی شخصیت کے اثرات کا بھی رہا۔اس خفیہ ادارے کے قیام کے عرصہ تین برس تک جنرل یحییٰ اور ان کے بدکار ساتھیوں کورا کی مشرقی پاکستان میں شازشوں اورریشہ دوانیوں سے زیادہ تھل تھل کرتی خواتین کی عشوہ طرازیوں میں دل چسپی رہی۔را کے سربراہ کی گپ چھپ کام کرنے کی عادت کا مسز اندرا گاندھی نے بھلے سے دل کھول کر نوٹس لیا ہو لیکن 1969 میں پاکستان میں اقتدار پر قابض ہونے والے ٹولے نے اسے محمد شاہ رنگیلا کی طرح دفتر بے معنی جان کر غرق مئے ناب ہی رکھا ۔’’را‘‘ مشرقی پاکستان کے سقوط کو اپنا سنہری کارنامہ گردانتی ہے۔
اس گمنام اور بے شہرت وجود کا خود بھارت میں بھی سرکاری طور پر ادراک بیوروکریسی کو ان کے ریٹائرمنٹ کی چوتھائی صدی بعد ان کی چتا جلاتے ہوئے ہوا ۔ رمامیشور کاؤ جی بہت کم آمیز تھے۔بہت کم افراد اس آخری سفر میں ان کو الوداع کہنے آئے تھے۔مشرقی پاکستان کے سقوط اور بنگلہ دیش کے قیام کے معاملے میں کاؤ بوائے اس کے ڈانڈے1956 میں آئی ایس آئی کے ناگا لینڈ کی امداد سے جوڑتی ہے جب انہوں نے وہاں کے باغی لیڈر فیزو کی باقاعدہ امداد کا آغاز کیا۔کہنے کی حد تک یہ بات درست ہوسکتی ہے مگر اندرا گاندھی کے ہاں اس کے عوامل بہت نجی و نفسیاتی تھے۔
ویسے تو نہرو خاندان کی خواتین مذہبی معاملات میں بہت کشادہ دل تھیں مگر یہ سب کچھ نجی سطح پر تھا۔نہرو خاندان کو جنگوں میں دو مرتبہ سبکی ہوئی ،پہلے باسٹھ کے اوائل میں چین کے ساتھ اور پھر پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ۔ دونوں مواقع پر ان جنگوں اور ان سے مرتب شدہ اثرات کو جانچنے کا مسز اندرا گاندھی کو براہ راست موقع ملا تھا ۔ پہلی جنگ میں وہ اپنے والد کی مشیر تھیں ۔ہماری ایوب خان کی نسیم اورنگ زیب،بے نظیر بھٹو اور مریم صفدر کی مانند دختر اوّل اور حرف آخر کی طرح۔دوسری جنگ میں وہ لال بہادر شاشتری کی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات تھیں۔
سچ پوچھئے تو 1965 ء کی جنگ بنیادی طور پر پرانے جنگی ساز و سامان کی اور پروپیگنڈا کی جنگ تھی۔پاکستان کا سیاہ سفید میڈیا اور اس کا تھکا ماندہ ریڈیو یہ جنگ جیت گیا اس کے کراچی کی بسوں جیسے سیبر جنگی جہاز (جنہیں کراچی کے بعض مقامات پر نصب دیکھ کرہماری ایک دوست انہیں فوجی طیاروں کی مینا کماری کہتی تھی)افواج صف شکن میں دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ یہ جنگ پاکستان نے جیتی ہے۔یہ سبکی بھی اندرا گاندھی نہ بھلا پائیں۔کسی نے ان کے کان میں شاید یہ زہر بھی گھولا ہو کہ شہر تاشقند میں ان کے چھوٹے سے بنارسی وزیر اعظم لال بہادر شاشتری کو پاکستانیوں نے سی آئی اے کی اعانت سے روس میں زہر دے کر مارا ہے۔ہمارا ایک دوست کہتا ہے عورت اور بندوق سے احتیاط کرو کیا پتہ بھری ہوئی ہو۔ یوں مسز اندرا گاندھی دو طرح سے بھری ہوئی تھیں۔ ایک تو چین سے جنگ ہار کر، دوسرے ہم بے سرو سامانوں سے پروپیگنڈا اور پرانے سامان سے لڑی گئی جنگ کی ہزیمت اٹھا کر۔ ہمیں وہ بہت کم تر جانتی تھیں۔وہ تحقیر جو کم تر حیثیت کے ممالک، فوج یا فرد کے ہاتھوں ہو۔ اس کا گھاؤ بہت گہر ا ہوتا ہے۔
ممکن ہے انہیں بائبل کی کتاب ڈینیل کی لائن 24:15 ABOMINATION OF DESOLATION کا بھی علم ہو۔جس میں اُن کے نبی ڈئینل نے کہا تھا کہ’’ ایسا وقت آئے کہ کم تر لوگ تم پر غالب آجائیں تو مقابلے کی بجائے پہاڑوں کی جانب فرار ہوجانے میں ہی نجات ہے‘‘۔یہ لائن یروشلم کے قلعے کا نگران بشپ سوفورنئیس Sophronius اشک و غم سے نڈھال اس وقت بڑ بڑا رہا تھا، جب وہ قلعے کی چابیاں کسی سپاہی کے حوالے کرنے کے بجائے سیدنا عمرؓ بن خطاب کو دینے پر مصر ہوا تھا ۔وہ معاہدہ شکست ایک ایسے بادشاہ کے ساتھ تشکیل دینا چاہتا تھا جس کا طرز بود باش فقرا کی مانند سادہ اور بے خوف و بے نیا ز انہ ہو۔ سیدنا عمرؓ بن خطاب اس شان سے آئے کہ شہر یروشلم میں داخل ہوئے تو اس وقت اونٹ کی نکیل تھامنے کی باری آپ کی تھی ۔سواری کا اس فاصلے پر حق آپ کے غلام کا تھا۔یروشلم میں بارش کی وجہ سے آپ کے ثوب پر کیچڑ کے چھینٹے بھی پڑے ہوئے تھے۔یہ منظر دیکھ کرسوفرنیئس بے حد مرعوب ہوا۔
اندرا گاندھی بڑی بے رحم، محتاط، منتقم مزاج اور صبر کرنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے بھانپ لیا کہ 1971 میں حضرت عمرؓ کے پیروکاروں کے پیرو کار جنرل طاؤس و رباب ہیں نہ کہ شمشیر و سناں۔یہ کم عقل اور بے راہ رو ٹولہ سیاست کے اس طوفان کو سمجھ ہی نہیں پارہا جو دسمبر 1970 کے عام انتخابات نے برپا کیا ہے، لہذا انہوں نے مشرقی پاکستان کا قصہ ہی پاکستان کے نقشے سے پاک کرڈالنے کا منصوبہ رو بہ عمل لانے کی ٹھان لی۔اس وقت جنرل مانک شا ہندوستانی فوج کے اور ایف کے رستم جی بارڈر سیکورٹی فورس کے سربراہ تھے۔ یہ دونوں پارسی فوجی ہندوستان میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔بین الاقوامی پروازوں پر بھارت سے اڑان پر پابندی سے لے کر ملک کے مشرقی حصے میں عوام کی ایک بڑی اکثریت کا بغاوت پر اترآنا اور وہاں ایک شورش و انتشار کا طوفان کھڑا ہوجانا جس کی وجہ سے عوامی جذبات پاکستان کے خلاف ہوگئے اور حکمرانوں کی ملکی معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے میں ناکامی تک کئی عوامل مشرقی پاکستان کے علیحدگی کے ذمہ دار قرار دیے جاسکتے ہیں مگر اندرا گاندھی کی سیاست کاری بطور وزیر اطلاعات اوران کے اپنے دور میں وزارت اطلاعات میں شعبہ نفسیاتی اور ثقافتی جنگ کا قیام (جس کے ذریعے پاکستان کو ساری دنیا میں نہتے شہریوں پر فوج کے مظالم کے پروپیگنڈے سے بے حد بدنام کیا گیا۔ مگر بعد میں شائع ہونے والی کتب نے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ان مظالم کی قلعی کھول دی)یہ اور دیگر چھوٹے بڑے کئی عوامل تھے جنہیں مجموعی طور پر اس سلسلۂ شکست و سقوط کا ذمہ دار ٹہرایا جاسکتا ہے۔
پاکستان نے اندرا گاندھی سے اس کا بدلہ کیسے لیا ،یہ بھی بہت دل چسپ کہانی ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں سفارتی رکھ رکھاؤ سے کام لینے کی ضرورت نہیں۔جب وزیر اعظم مودی جی بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر ببانگ دہل ایک عالم کے سامنے اعتراف کرسکتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی آزادی اور مکتی باہنی کے روپ میں ہندوستانی افواج کو مشرقی پاکستان میں لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا تو ہم کیوں شرمائیں کہ مشرقی پنجاب میں کیا ہوا؟ہم نے ساز اس لیے مجبوراً سنبھالا تھا کہ وہاں سے غزل پہلے ہی چھیڑی جاچکی تھی ۔
کاؤ بوائز کے بیان میں یہ باتیں ویسے بیان نہیں کی گئیں ۔سیب تو کئی سروں پر نیوٹن سے پہلے بھی گرے تھے ۔ یاد ہے نا لیونارڈو ڈا ونچی نے کہا تھا کہ کائنات میں ایک مسلسل تسلسل ہے۔حالات ، واقعات اور افراد آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...