... loading ...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو نشانہ بناکرافغانستان میں قیام امن کی کوششوں پر اچانک پانی پھیر دیا۔ ملا اختر منصور کو نشانہ بنانے کے بعد امریکیوں نے اسکا یہ جواز پیش کیا تھا کہ طالبان رہنما افغانستان میں امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ان ہی الفاظ میں امریکی صدر اوباما نے ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
اس معاملے میں سب سے حیرت انگیز رویہ کابل کی اشرف غنی انتظامیہ کا تھا جس نے طالبان کو دھمکی کے انداز میں کہا تھا کہ وہ امن مذاکرات کریں ورنہ ملا اختر منصور کے انجام کو یاد رکھیں۔۔۔!! یا للعجب ۔۔جو عناصر کابل میں موجود اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کرسکتے وہ طالبان رہنماؤں کو اس قسم کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملا اختر منصور مذاکرات کے لئے آمادہ تھے تو پھر کس بات کو خطرہ محسوس کرکے امریکیوں نے ان کے خلاف کارروائی کی؟ اس سلسلے میں ذرائع کے مطابق امریکیوں کے نزدیک ملا اختر منصور کا سب سے بڑا جرم روسی قیادت کے ساتھ روابط استوار کرنا تھا۔
اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ گزشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے آغاز پرسوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ اور مغربی یورپ پر چھائے صہیونی دجالی نظام کو اس بات کا یقین ہوچلا تھا کہ مشرقی آرتھوڈکس کلیسا کے حامل روس اور مشرقی یورپ کو دائمی پسپائی سے دوچار کردیا گیا ہے اور نئی صدی درحقیقت امریکی بالادستی کی صدی ہے۔ جس نے مزید پیش قدمی کرکے باقی ماندہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے۔ نئی صدی کے آغاز میں نائن الیون کا واقعہ درحقیقت ایک طرح سے امریکا کی جانب سے طبل جنگ تھا جو اس نے اپنی عالمی پیش قدمی کے لئے بجادیا تھا۔ اس کے بعد اسے اسی افغانستان میں تمام تر قوت کے ساتھ اپنی بالادستی کا ثبوت مہیا کرنا تھا جہاں صرف ایک دہائی قبل سوویت یونین کو ہوا میں تحلیل کردیا گیا تھا۔ یوں نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی اور اس کے صہیونی دجالی اتحادیوں کا تسلط درحقیقت سوویت روس کی شکست کا اصل ’’ڈراپ سین‘‘ ہوتا اور واحد ’’سپر طاقت‘‘ کی عالمی حکمرانی کا اعلان واشنگٹن سے نہیں بلکہ کابل پر امریکی تسلط سے ہوتا۔ لیکن 2005ء کے بعد ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘‘ کے مصداق صورتحال نے جگہ بنانا شروع کردی۔
یہ وہ وقت ہے جب ایک طرف چین اور دوسری جانب پوٹن کی قیادت میں اقتصادی محاذ پر آہستہ آہستہ پیش قدمی شروع کردی تو دوسری جانب افغان طالبان نے ملا عمر مجاہد کی قیادت میں منظم ہوکر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لئے افغانستان میں آگ بچھانا شروع کردی تھی۔ دوسری جانب عراق کو اپنی لپیٹ میں لینا نائن الیون کے ڈرامے سے پہلے ہی منصوبے کا حصہ بن چکا تھا اس لئے افغانستان میں کیسی ہی صورتحال کیوں نہ ہوتی امریکا کے لئے عراقی معاملے سے پیچھے قدم ہٹانا مشکل تھا اور وہی ہوا ،افغانستان کے بعد امریکا عراق پر چڑھ دوڑا۔ اس یقین کے ساتھ کہ عراقی عوام امریکی فوج اور اس کے صہیونی اتحادیوں کے لئے پھولوں کے ہار لئے کھڑے ہوں گے لیکن یہاں پر بھی سارا کھیل الٹا پڑ گیا۔امریکا صدام حکومت کا خاتمہ کرنے میں تو کامیاب ہوگیا لیکن عراقی مجاہدین نے افغان طالبان کی طرح سخت گوریلا جنگ میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ امریکا افغانستان اور عراق میں اپنی عالمی سیادت کے تاثر کو بچانے میں مصروف رہا تو دوسری جانب روس اور چین اقتصادی پیش قدمی کرتے ہوئے شام اور شمالی افریقا تک جاپہنچے ۔یہ سب کچھ صرف اس لئے ممکن ہوسکا تھا کہ افغانستان اور عراق کی صورتحال نے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو گلے سے پکڑ لیا تھاجنگ کی طوالت ہمیشہ جارح قوت کی تباہی کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور یورپ میں تیزی کے ساتھ کساد بازاری میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
اس سارے معاملے کے دوران یعنی 2005ء کے بعد روس نے یورپ کے علاوہ افغانستان کے معاملات پر گہری نگاہ جما رکھی تھی۔ ماسکو اور بیجنگ کے خیال میں امریکا اور یورپ کا زیادہ سے زیادہ وقت تک افغانستان میں پھنسے رہنا ان کے لئے شمالی اور وسطی افریقہ میں جگہ بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین اور کریمیا کے معاملے سے نمٹنے کے لئے بھی امریکا کا افغانستان اور مشرق وسطی میں پھنسے رہنا ضروری تھا اور بعد میں وقت نے ثابت کردیا کہ روس کی یہ سوچ بالکل صحیح تھی کیونکہ نتائج بالکل اسی کی سوچ کے مطابق سامنے آئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ روس کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ روابط کی کوششیں 2010ء کے بعد سے شروع ہوچکی تھیں۔ کیونکہ روسی اور چینی اس بات سے واقف تھے کہ امریکا اب افغانستان سے جان چھڑاکر واپس بھاگنا چاہتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ کابل پر ایسی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کرے گا جو مستقبل میں ماسکو اور بیجنگ کے مفادات کی بجائے واشنگٹن کے لئے زیادہ مفید ہوجس کے لئے خطے میں نئی دہلی سیاسی پشتیبان کا کردار ادا کرے گا۔اس صورتحال سے نمٹنے کا ایک ہی راستہ باقی بچتا تھا کہ روسی اور چینی امریکامخالف افغان طالبان کے ساتھ روابط بحال کرکے صورتحال کو اپنے حق میں رکھنے کی کوشش کریں۔
یہی وہ کوششیں تھیں جس کا امریکا کو سب سے زیادہ قلق تھا۔ افغان طالبان کے سابق رہنما ملا اختر منصور اس حوالے سے روسیوں کے ساتھ روابط میں تھے بلکہ اس سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نومبر 2015میں جب روسی صدر پوٹن ایران کے سرکاری دورے پر آئے تو انہوں نے ایرانی سمندری حدود میں طالبان رہنما ملا اختر منصور سے ایک لانچ پر ملاقات کی تھی اور انہیں روس کے تعاون کا پورا یقین دلایا تھا۔ امریکی سی آئی اے اس ملاقات کا سراغ لگانے میں ناکام رہی تھی جس پر اوباما انتظامیہ سی آئی اے سے بُری طرح خفا تھی اور یہی وجہ ہے کہ ملا اختر منصور کو ٹھکانے لگانے کا ٹاسک سی آئی اے کی بجائے امریکا کی اسپیشل کمانڈو فورس کو دیا گیا تھا اور اس وقت سے ملا اختر منصور کی نگرانی کا کام بگرام عسکری بیس سے شروع کردیا گیا تھا جس کے لئے نصف درجن کے قریب ڈرون طیارے ہمہ وقت فضا میں رہتے تھے ایران سے واپسی اور اس کے راستے کے حوالے سے امریکیوں کو پہلے مخبری ہوچکی تھی۔
ذرائع کے مطابق روسی قیادت کی جانب سے افغان طالبان کے اس موقف کو سراہا گیا تھا کہ وہ امریکا اور کابل انتظامیہ سے مذاکرات اپنی شرائط پر کریں گے، دوسرے روسیوں کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ روس افغان طالبان کو افغانستان میں داعش کی کمر توڑنے کے لئے نہ صرف جدید روسی اسلحہ فراہم کرے گا بلکہ قیام امن کے بعد طالبان کے زیر اثر علاقوں میں بحالی کے کاموں کے لئے سہولیات بھی مہیا کرے گا۔ اس کے جواب میں افغان طالبان روس افغان سرحد کے قریب انتہا پسندوں کی کسی قسم کی مدد نہیں کریں گے اور نہ ہی چیچن اور ازبک انتہا پسندوں کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں پناہ دیں گے۔ امریکیوں کوخدشہ تھا کہ کابل انتظامیہ اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات کامیاب ہوگئے تو روسی افغان طالبان کی مدد سے افغانستان میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانا شروع کردیں گے جو نہ صرف اس خطے میں بلکہ مشرق وسطی میں بھی امریکا اور اسرائیل کے مفادات کے لئے جان لیوا ثابت ہوگا یہ وہ وجوہات تھیں جس کی بناپر امریکا نے ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا۔
ذرائع کے مطابق چونکہ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان رہنما الیکٹرانک آلات اطلاعات استعمال نہیں کرتے اس لئے باقی طالبان قیادت کو اپنے امیر کی موت کی خبر دیر سے پہنچی تھی لیکن خبر کی تصدیق کے بعد انہوں نے اپنا نیا امیر منتخب کرنے میں دیر نہیں لگائی۔افغان طالبان کے نئے امیرملا ہیبت اﷲ اخواندزادہ میدان جنگ میں عسکری قیادت کا زیادہ تجربہ نہیں رکھتے لیکن ایک معلم کی حیثیت سے جہادی فکر میں انتہائی پختہ شخص قرار دیئے جاتے ہیں۔ ملا عمر کے زمانے سے وہ طالبان کے انتظامی امور میں مختلف خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اشرف غنی انتظامیہ نے گل بدین حکمتیار کے ساتھ جس معاہدے کی داغ بیل ڈالی تھی وہ بھی اب خطرے میں پڑچکی ہے خاص طورپر اس صورت میں جبکہ حکمتیار نے اپنے ایک بیان میں طالبان رہنما کی ہلاکت کا سبب ایران کی مخبری بیان کرکے ایران کی جانب انگلی اٹھادی ہے۔
آئندہ کے منظر نامے کی جانب جانے سے پہلے اس بات کا جائزہ ضروری ہے کہ اگر طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ امن مذاکرات میں اقتدار کا حصہ بن جاتے تو پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری پر اس کے کیا اثرات پڑ سکتے تھے ۔ یقینی بات تھی کہ شراکت اقتدار میں طالبان کے زیر اثر علاقے زیادہ تر جنوبی افغانستان کے ہوتے جو پاکستان کے ساتھ سرحدی طور پرمتصل ہیں۔ اس سے ایک جانب تو پاکستان کی سرحدوں کے اندر دراندازی کا قلع قمع ہوجاتا تو دوسری جانب بلوچستان میں دشمنان پاکستان کے منصوبے اس طور ناکام ہوسکتے تھے کہ انہیں افغانستان کی سرحد کے اندر سے نقل وحمل کی سہولت ختم ہوجاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ روس ان علاقوں میں انسانی بحالی کے کاموں کے لئے افغانستان میں امدادی کاموں میں مدد فراہم کرتا تو دوسری جانب افغان طالبان روس کے لئے دردسری بننے والے عناصر کو پناہ فراہم کرنے سے انکار کردیتے جس کی وجہ سے اس خطے میں قیام امن کے واضح امکانات روشن ہوجاتے۔ دوسرے پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہ داری کو ایک بڑا تحفظ مل جاتا، پاکستان کی ساری توجہ بھارت سے متصل سرحدوں پر ہوتی اور چین سہولت کے ساتھ سنکیانگ سے گوادر تک اپنی اقتصادی سرگرمیاں شروع کردیتا لیکن امریکا کو یہ سب کچھ منظور نہیں۔ وہ کسی صورت پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کے بعد اقتصادی قوت میں ڈھلتا نہیں دیکھ سکتا۔ وہ بھی اس صورت میں جبکہ مشرق وسطی کا کھیل بھی اس کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔
جس کھیل کا آغاز نائن الیون کے ڈرامے کے بعد مشرقی وسطی اور جنوبی ایشیا میں کیا گیا تھاوہ کھیل اپنے حتمی نتائج کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کھیل کی باگ اس کے شروع کرنے والوں کے ہاتھوں سے بھی نکل چکی ہے۔افغانستان اور جنوبی ایشیا میں اس کھیل کے لئے بڑی قوتوں نے بھارت کو تیار کیا تھا منصوبے کے مطابق امریکاکے خطے سے نکل جانے کے بعد خطے کا ’’پردھان‘‘ بھارت ہوتا لیکن اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہ داری کا منصوبہ شروع ہوگیا جس نے خطے کے کھیل کو بڑی حد تک پلٹ دیا اور غالبا اسی شکست کا احساس ہے جس نے بھارت اور اس کی بین الاقوامی سرپرست قوتوں کو سیخ پا کیا ہوا ہے۔اس سلسلے میں ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ اقتصادی راہ داری کی تکمیل اور اس کے آپریشنل ہوجانے کے بعد پاکستان کے اندر پاکستان کے بعد سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر چین ہو گا۔یوں چین کا اسٹیک پاکستان کے لئے ’’لائف انشورنس‘‘ بن جائے گا۔اس طرح پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والی قوتوں کو پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں چین کبھی نہیں چاہے گاکہ پورے پاکستان سے گزر کر مشرق وسطی جانب گوادر کی شکل میں اسے جو بڑی اقتصادی کھڑکی میسر آئی ہے اس پر کوئی آنچ آئے ۔
شام میں بشار حکومت کو جان بوجھ کر طول دیا گیاتاکہ مشرق وسطی کو باہمی جنگوں میں بری طرح الجھانے کے بعد امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادی پاکستان پر اپنا پورا زور ڈالتے لیکن خود بعض امور میں مشرق وسطی کی صورتحال امریکاکے بھی قابو سے باہر ہوتی محسوس ہونے لگی۔ورنہ مشرق وسطی میں مرضی کے نتائج حاصل ہونے کے بعد پاکستان پر سب سے بڑا دباؤ جوہری اثاثوں سے دستبرداری کے لئے ہوتا۔اسی لئے بھارت میں انتہا پسند مودی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور وہ امریکاجس نے مودی کو وزیر اعظم بننے سے پہلے امریکا کا ویزا دینے سے انکار کردیا تھا خود اس کا صدراوباما نئی دہلی آن پہنچا مگر بعد کے حالات نے بھارت کی حیثیت انتہائی مضحکہ خیز بنا دی ہے ۔ اسرائیل خطے میں بھارت کو اپنا سب سے بڑا اتحادی تصور کرتا ہے یہ عالمی صہیونیت کا ایشیا اور جنوب مشرق ایشیا کی جانب ایک بڑا مورچہ بننے جارہا ہے۔ پاکستان پر عسکری دباؤ کے لئے بھارت کا استعمال اس سارے معاملے میں سب سے اہم کڑی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھارت کو اٹھایا جارہا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب کسی سے کوئی کام نکلوانا ہو تو اس کی بے جا تعریف اور حمایت شروع کردی جائے۔ بھارت کی ترقی کے قصے عالمی منشورات میں شائع کئے جانے لگے حالانکہ معاشی لحاظ سے انسانیت کا گلا جس قدر بھارت میں دبایا گیا ہے اس کی مثال کسی اور خطے میں نہیں ملتی ۔دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھارت ہے اور بھارت کی آبادی کا بڑا حصہ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
جہاں تک قبائلی علاقوں سے لیکر بلوچستان تک پھیلی ہوئی آگ کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ یہ آگ امریکانے چین اور گوادر کے درمیان بچھائی تھی۔ اس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ گوادر کا محل وقوع انتہائی اہم اور اسٹریٹیجک حیثیت کا حامل ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ اس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے نیٹو اتحاد کے ساتھ مل کر شام میں جس قسم کی کارروائیاں کی ہیں اس کا سب سے بڑا مقصد روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا تھا۔ آج سے چودہ برس برس قبل جس وقت روس نے مشرق وسطی میں سابقہ سوویت یونین والے کردار کے خلا کو دوبارہ پر کرنا شروع کیا تھا تو اس وقت عالمی میڈیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی گئی تھیں۔ مسلم ممالک میں لو گ اس بات سے شاید کم ہی واقف ہوں گے کہ سویت یونین کے گرم پانیوں تک پہنچے کے خواب کو امریکا اور عالمی صہیونیت نے ایک ہوا بنا کر پیش کیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس ایک مرتبہ جہاں گھسا تھا وہاں سے کبھی نہیں نکلا تھا۔ اس ایک مثال کو بھی ڈراؤنے خواب کی طرح مسلم دنیا پر مسلط کیا گیا۔ درحقیقت یہ ایک بڑا ڈرامہ تھا جس کا مقصد سوویت یونین کو سب سے پہلے مشرق وسطی سے بے دخل کیا جانا تھا تاکہ اسرائیل کی عالمی سیادت کے سامنے کوئی بڑی قوت باقی نہ بچے۔ ستر کی دہائی کے آخر تک سابق سوویت یونین کا جنوبی یمن ، شام، عراق اور لیبیا میں خاصا اثرورسوخ تھا۔عدن کی بندرگاہ پر لنگرانداز سوویت یونین کے جنگی جہاز امریکا، اسرائیل کے مفادات کے لئے خطرہ تصور کئے جاتے تھے۔ اسی بڑے مقصد کے تحت پہلے سوویت یونین کا کانٹا نکالنا مقصود تھا، اس کے بعد باقی مسلم ممالک سے نمٹا جاناتھا۔یہ بات بھی شاید کم لوگوں کے علم میں ہو کہ سابق سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسا کر مارنے کا اصل منصوبہ برطانوی منصوبہ سازوں کا تھا۔ اس میں امریکا کی حیثیت ایک بڑے عامل کی تھی۔ مارگریٹ تھیچر اور صدر ریگن نے ایک ساتھ دو ادوار10ڈاؤننگ اسٹریٹ اور وائٹ ہاؤس میں اسی مقصد کے تحت بسر کئے تھے جبکہ پیرس میں موجود امریکی سفارتخانے کا لان ان دونوں سربراہوں کی باہمی ملاقاتوں میں منصوبے کو آخری شکل دینے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔ جو حلقے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں کردار ادا کرنے کا فیصلہ اس وقت کی پاکستانی عسکری حکومت یعنی صدر جنرل ضیاء الحق شہید اور ان کے ساتھی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن شہیدکی ذہنی اختراع تھی تو وہ ایک بڑے تاریخی مغالطے میں مبتلا ہیں۔ اگر کوئی اس سلسلے میں اس وقت کے امریکی سینیٹر چارلی ولسن کو سوویت یونین کے خلاف جنگ کا بڑا سبب سمجھ کر ’’چارلی ولسن کی جنگ‘‘ نامی کتاب تصنیف کرتا ہے تو اسے تاریخ کے بعض حقائق پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہی کہا جائے گا۔ امریکی سی آئی اے امریکی ایوان نمائندگان کو کس انداز میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے وہ سب پر عیاں ہے چارلی ولسن بھی اس ایوان نمائندگان میں سی آئی اے کا ایک ہرکارہ ہی تصور کیا جاتا تھا سب لوگ اپنی اپنی جگہ استعمال ہوئے۔ برطانیہ افغانوں کے پس منظر اور ان کے تاریخی کردار سے سب سے زیادہ واقف تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے لیکر تاج برطانیہ کے تسلط تک جب تک انگریز برصغیر میں رہا اس نے افغانوں کے بارے میں انتہائی دقیق تحقیق کی اور جاتے ہوئے اس کی خبر تک مقامی انتظامیہ یا اداروں کو لگنے نہیں دی تھی۔ برطانیہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ سوویت یونین کا افغانستان میں پڑاؤ آخری پڑاؤ ہوگا۔اس کے بعد ماسکو تک واپسی کی بریک نہیں لگے گی اور وہی ہوا ۔افغانستان کی جنگ میں افغان مجاہدین نے بے بہا قربانیاں دے کر سوویت یونین کی ا قتصادیات کا دھڑن تختہ کردیا تھا اور جب سوویت یونین تحلیل ہوا اور اس کا بچاکھچا ترکہ روس کہلایا جس کی وجہ سے تمام مشرق وسطی روسیوں کے اثرو رسوخ سے خالی ہوگیا ۔ یہی وہ نتائج تھے جو سب سے زیادہ اسرائیل کو درکار تھے۔ عالمی صہیونی دجالیت کے نفاذ کے لئے جنگ کا ایک حصہ عالمی صہیونیت نے کامیابی کے ساتھ سرکرلیا تھادوسرا مرحلہ ان قوتوں کا سر کچلنے کے لئے مختص تھا جن کے ذریعے سوویت یونین کو قبر میں پہنچایا گیا تھا جی ہاں یہ مسلمان جہادی تحریکیں تھیں۔
عالمی صہیونی دجالیت کے قیام کے لئے جنگ کا پہلا حصہ افغانستان میں سوویت یونین کو پھنسا کر شروع کیا گیا تھا اس جنگ کا دوسرا اور حتمی حصہ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد شروع کیا گیاکیونکہ عالمی سطح پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے سامنے اب ایسی کوئی قوت باقی نہیں بچی تھی جو مشرق وسطی میں عالمی صہیونیت کے مقاصد کے سامنے دیوار بن سکتی یا عرب ممالک کی عملی مدد کو آسکتی۔ روس ماسکو میں بیٹھا افغانستان میں کھائے ہوئے زخم چاٹنے میں مصروف تھا، چین اقتصادی ترقی کی خاطر کسی بھی بڑے بین الاقوامی تنازع میں پھنسنے کے لئے تیار نہیں تھا، میدان پوری طرح صاف تھا۔۔۔
اس سلسلے میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جس وقت روسی فوجیں افغانستان سے بادل نخواستہ واپس پلٹی ہیں اس وقت افغانستان میں مجاہد گروپوں کے درمیان ایک بڑی اور طویل جنگ لڑی گئی تھی جس نے ان مجاہد قوتوں کا سارا بھرم خاک میں ملا دیا تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان میں آنے والی حکومتوں کی جانب سے اور دیگر عرب ذرائع کی جانب سے بھی امریکاسے یہ شکوہ کیا جاتا رہا کہ امریکا افغانستان میں کام نکل جانے کے بعد وہاں بغیر کسی مستحکم حکومتی سیٹ اپ کے نکل گیا تھا جس کی وجہ سے اقتدار کی خاطر افغانستان میں خاصی خونریزی ہوئی تھی۔ اس کے بعد جس وقت افغانستان میں امریکا حملہ آور ہوا تو اس نے کہا کہ اب وہ افغانستان کو تنہا چھوڑ کر نہیں جائے گا۔۔۔ ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ امریکا کا سوویت یونین کی تحلیل کے بعد افغانستان سے بغیر کسی ٹھوس انتظام کے جانا ایک خاص حکمت عملی کے تحت تھا ۔امریکا یا مغربی قوتیں اتنی بے وقوف نہیں تھیں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے افغان جہادی گروپوں کو آپس میں لڑنے کے لئے چھوڑ گئی تھیں ۔آپس کی یہ تمام جنگیں اسی ’’گریٹ گیم‘‘ کا حصہ تھیں جس کے تحت سوویت یونین کو روس میں بدل دیا گیا تھا۔کیونکہ اگر سوویت یونین کے نکلتے ہی افغانستان میں ایک مضبوط حکومتی سیٹ اپ بنادیا جاتا تو افغانستان میں جہادی قوتوں کے نمائندے تمام دنیا کے مسلمانوں کے نمائندے بن جاتے اور اس سے مسلمانوں کو سربلندی نصیب ہوتی جس کا سب سے مثبت اثر’’ آزادی فلسطین کی تحریک‘‘ پر پڑتا۔ افغانستان میں آنے والے ہزاروں عرب مجاہدین کا عزم بھی یہی تھا کہ اگر وہ سوویت یونین جیسی قوت سے ٹکر لے کر اسے ٹھکانے لگا سکتے ہیں تو اسرائیل جیسی قوت ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ یہ بات عالمی صہیونیت اور ان کے چاکروں یعنی امریکا، برطانیہ کو پوری طرح معلوم تھی کہ اب جہاد کا یہ سیل بے کراں مقبوضہ فلسطین کا رخ کریگا ۔اسی لئے سب سے پہلے عالم عرب میں ان جہادی قوتوں اور مجاہدین کے حوالے سے یہ خوف پیدا کیا گیا کہ اگر یہ مجاہدین اپنے اپنے ملکوں میں واپس لوٹے تو سب سے پہلے اپنی حکومتوں کا خاتمہ کریں گے ۔ اس خوف میں مبتلا ہوکر عرب حکومتوں کی جانب سے بجائے اسرائیل کی جانب توجہ دی جاتی، ان مجاہدین کو ٹھکانے لگانے کے منصوبے وضع کرنا شروع کردیئے۔ مغربی صہیونی میڈیا نے ان کو ایک نام عطا کردیا ۔۔جی ہاں ’’القاعدہ‘‘ ۔۔۔ تاکہ ہدف کے تعین میں آسانی پیدا ہوسکے۔ اس سلسلے میں مصر کے صہیونیت نواز آمر حسنی مبارک نے سب سے زیادہ اقدامات کئے اور ردعمل کی آگ میں پورا مشرق وسطی ایک ایسی جنگ میں الجھ گیا جو مجاہدین کی منزل نہ تھی۔
دوسری جانب پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق شہید افغانستان میں مستحکم افغان حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ اس سلسلے میں انہیں سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن افغان گروپوں میں شامل احمد شاہ مسعود جیسے عالمی صہیونی ایجنٹوں نے کوئی معاہدہ پروان نہ چڑھنے دیا۔ پاکستان میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو صدر ضیاء الحق شہید سے بالا بالاروابط پیدا کرکے جینوا معاہدے پر دستخط کروا لئے گئے جس کی وجہ سے صدر اور وزیر اعظم کے درمیان ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی جو آگے چل کر جونیجو حکومت کی تحلیل پر منتج ہوئی۔ ضیاء الحق شہید کی جانب سے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کا خواب ان کی شہادت کا سبب بن گیااسی لئے ان کا طیارہ مع ان کے ساتھیوں کے تباہ کردیا گیا ۔ بستی لال کمال میں ضیاء الحق شہید کا طیارہ کیا گرا، افغانستان سے لیکر مقبوضہ فلسطین تک مسلم جدوجہد کا ایک سنہرا باب بلندیوں سے پستی کی جانب پھسل گیا ۔
نوے کی دہائی میں پاکستان بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان سیاسی اکھاڑا بنا دیا گیاجس نے وطن عزیز کو مزید نچوڑ کر رکھ دیاتو دوسری جانب افغانستان میں خانہ جنگی زوروں پر آگئی یہ خانہ جنگی پاکستان سمیت خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا بڑا سبب بن سکتی تھی کہ طالبان کے اچانک ظہور نے پستی کے اس عمل کو روک دیااور افغانستان میں ایک مدت کے لئے مثالی امن قائم کردیا گیا۔ نائن الیون کے صہیونی ڈرامے کے ساتھ ہی اس عالمی صہیونی جنگ کا دوسرا حصہ شروع کیا گیاافغانستان میں امریکا اور اس کی اتحادی صہیونی قوتوں کی آمد اسامہ بن لادن یا القاعدہ کے لئے نہیں تھی بلکہ اصل مسئلہ ’’نظام‘‘ کا تھا ۔ افغانستان کی وہ مستحکم حکومت جس کا خواب ضیاء الحق اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے ان کے ساتھیوں نے دیکھا تھا، طالبان حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پورا ہوچکا تھا۔ عالمی دجالی صہیونیت کو صاف نظر آرہا تھا کہ اس دجالی نظام کو چیلنج کرنے والی قوتیں افغانستان کو ایک مرتبہ پھر اپنا بیس کیمپ بناسکتی ہیں اس لئے ایک طرف امریکا کو یہاں پھنسایا گیا تو دوسری جانب عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا شوشا چھوڑ کر ایک مضبوط عرب حکومت کو ختم کیا گیااس کے ساتھ ہی ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے انقلابات کی فضا قائم کی گئی تھی درحقیقت یہ آنے والی ایک بڑی ’’خزاں‘‘ کا پیش خیمہ تھا اور ایسا ہی ہوا۔۔۔عالم عرب میں ایسے ڈکٹیٹر جو ماضی میں مغرب نواز رہے ہیں ان کے بھی تختے الٹ دیئے گئے اور نوبت شام تک آن پہنچی ۔کیا یہ سب کچھ اتفاقیہ ہے۔۔۔؟
اب ایک مرتبہ پھر ہم اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔ شام کا مسئلہ محض اسی لئے کھڑا کیا گیا کہ شام، ترکی، عراق اور ایران کے درمیان منقسم علاقے کردستان کو آزاد ریاست کا درجہ دے کر اسے روس کی جانب عالمی صہیونی مقاصد کا ایک اڈا بنایا جائے ہم پہلے بھی اس جانب اشارہ کرچکے ہیں کہ پولینڈ اور جارجیا میں ’’صہیونی میزائل شیلڈ‘‘ کے قیام کا منصوبہ ناکام ہونے کے بعد اب امریکا ، یورپ اور اسرائیل اس مقصد کے لئے کردستان کی آزاد ریاست کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب جیسے ہی شام میں بشار حکومت کا خاتمہ ہوگا اس کے ساتھ ہی روس کے ہاتھوں سے طرطوس کی بندرگاہ نکل جائے گی یوں تمام بحیرہ روم میں روسی جنگی جہازوں اور ایٹمی آبدوزوں کو ایندھن بھرنے کی کہیں بھی سہولت میسر نہیں رہے گی۔ یہ سارا اہتمام اس لئے کیا جارہا ہے کہ جس وقت اسرائیل ’’اسلامی انقلابات‘‘ کے خطرے کا شوشا چھوڑ کر مشرق وسطی کے تیل پر قابض ہو تو روس اور چین اپنی اقتصادیات کو بچانے کی خاطر اسرائیل کے سامنے نہ ٹھہر سکیں ۔ یہ تمام قوتیں اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ بحیرہ روم میں طرطوس کی بندرگاہ کھو جانے کے بعد روس اور چین کے لئے آخری سہارا کراچی کا ساحلی شہر اور گوادر ہوسکتا ہے جہاں سے وہ مشرق وسطی میں ا مریکا اور اسرائیل کی عالمی دہشت گردی کا جواب دے سکیں گے۔ اسی مقصد کے لئے چین کو گوادر تک پہنچنے سے روکنے کے لئے اس پورے خطے یعنی خیبر پی کے اور بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل شروع کروایاگیا۔ کراچی میں ہونے والی خونریزی کا کون ذمہ دارہے؟ سب جانتے ہیں کہ مقامی مافیا کس کے ایما پر یہ سب کچھ کرتارہا ہے۔
پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں کو اس بات کی جانب خاص توجہ دینا چاہئے کہ افغانستان کے معاملے میں کسی قسم کی کمزوری نہ دکھائی جائے۔ اس کے بعدجتنی جلد ممکن ہوسکے چین کے ساتھ مل کر اقتصادی راہ داری کی تعمیر جلد از جلد ہونی چاہئے ۔یہ پاکستان کے دفاع کے لئے بھی ضروری ہے۔اس طرح براستہ گوادر ایران یا دیگر خلیجی ممالک کے ذریعے سے تیل کی سپلائی کا زمینی راستہ مکمل طور پر بحال رہتا ہے اور اس سلسلے میں چین یہاں سے تیل کی پائپ لائن کو مغربی چین تک بھی پہنچا سکتا ہے۔اس حکمت عملی سے بھارت کے غبارے سے بھی بڑی حد تک ہوا نکل جائے گی اگر براستہ گوادر چین خلیجی ممالک اور ایران سے تیل کی پائپ لائن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پاکستان میں یہ گزرگاہ انتہائی معاشی ترقی کا سبب بھی بنے گی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خود عرب ممالک میں یہ سوچ پیدا ہوچکی ہے کہ امریکا اس خطے میں ڈبل گیم کھیل رہا ہے اور باری باری وہ ہر عرب ملک کو مفلوج کرتا جارہا ہے۔
دوسری جانب امریکاجوہری معاہدے کے ذریعے ایران سے ڈبل گیم کررہا ہے تاکہ مسلک کی بنیاد پر اسے باقی مسلم دنیا سے کاٹا جاسکے۔ اس سلسلے میں عراق اور شام میں اس کا کردار سب کے سامنے ہے لیکن جیسے ہی ایران کسی خطرے کی بو محسوس کرے گا تواس کے ساتھ ہی وہ ہرمز کی تیل کی گزرگاہ بند کرسکتا ہے جہاں سے دنیا کا ستر فیصد سے زیادہ تیل برآمد کیا جاتا ہے۔ اگر یہ گزر گاہ بند ہوجائے تو تیل کی قیمت آسمان پر چڑھ جائے گی جسے کمزور ڈالر برداشت نہیں کرسکے گا اور امریکی معیشت جو پہلے ہی کھوکھلی ہوچکی ہے دھڑام سے زمین پر آلگے گی اور معاشی بحران کی وجہ سے امریکا خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گااور اس کا عالمی قوت کا معیار باقی نہیں رہے گا۔ اب دنیا میں ایک ـ’’بڑی جنگ‘‘ کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے، سمجھنے والوں کے لئے اس میں غورو فکر کا خاصا سامان موجود ہے۔ بھارت کی جانب سے کبھی کنٹرول لائن پر فائرنگ اور کبھی مذاکرات کا اعلان کرکے خود راہ فرار اختیار کرنااس بات کی غمازی ہے کہ بھارت کی جانب سے کوئی بھی مہم جوئی کی جاسکتی ہے اور وطن عزیز کو اس کا جواب دینے کے لئے بھرپور طریقے سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...
جدید تاریخ میں جب بھی دنیا کو کسی بڑی تبدیلی سے دوچار کیا گیا تو اس سے پہلے اس عالم رنگ وبو کو ایک زبردست ـ’’جھٹکا‘‘ دیا گیا۔ اس کی مثال اس انداز میں دی جاسکتی ہے کہ جس وقت جدید تاریخ کے پہلے دور میں دنیا خصوصا مغرب کو معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں سے گزارا گیا تو پہلی عالمی جنگ کا ...