... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلی تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ہمارے اور اُن کے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے۔ اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا۔ یہ ان کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجود ہے۔
انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ اور تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے۔
یہاں سے آدھا میل سے کچھ زیادہ فاصلے پر یعنی Garden of Gethsemane واقع ہے۔باغ کی دیکھ بھال آج بھی بہت عمدہ انداز میں کی جاتی ہے ۔ Gethsemane آرمینی زبان کے لفظ Gad-Šmanêکی یونانی شکل ہے اس کا مطلب زیتون کا تیل نکالنے کا کولہوہے۔ممکن ہے اس طرح کا صنعتی اہتمام اس زمانے میں وہاں موجود ہو۔باغ میں موجود کچھ درختوں کی قدامت کا اندازہ انہیں دیکھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ دیگر درختوں کی نسبت ان میں سے کسی کی عمر کا صحیح تعین اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ زیتون کے درخت میں حلقے یعنی رنگ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان کی carbon dating نہیں کی جاسکتی ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ گیارہویں صدی اور بارہویں صدی میں لگائے ہوئے پودے ہیں جو بلاشبہ انہیں تاریخ کے قدیم ترین زیتون کے درخت ہونے کاامتیاز بخشتی ہے۔
یہیں پر ذرا ہٹ کرChurch of All Nations یعنی کلیسۂ آلام ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بڑے بڑے پتھروں کے درمیان حضرت عیسیٰؑ نے اپنی گرفتاری سے پہلے رات بھر عبادت کی تھی۔ وہ یہیں سے گرفتار ہوئے تھے۔ذرا سا آگے جاکر انتہائی بائیں جانب ایک پگڈنڈی آپ کو الطور کی بلندی پر لے جاتی ہے۔یہ ڈھلوان بہت کھڑی ہے۔میری ایک عمر چونکہ کوہ پیمائی اور ٹریننگ میں گزری ہے لہذا میری ٹانگیں اور پھیپھڑوں کو یہ چیلنج قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں،میں فوراً ہی چڑھائی شروع کردیتاہوں ،میدان میں ٹیکسیاں ہیں جو سیاحوں کو بیس شیکل کے عوض پہاڑ کی چوٹی پر لے جاتی ہیں۔ چالیس منٹ بعد میں اسی چوٹی پر جاپہنچتا ہوں۔
یہاں پر اب میرے سامنے ایک عمارت ہے جسے عرب کنیسۃ الصعود کہتے ہیں لیکن عیسائیوں میں اس کو Church of Ascension کے نام سے پکارا جاتا ہے۔یہاں ایک چٹان ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ حضرت عیسیٰ یہاں سے آسمانوں میں تشریف لے گئے۔اس چھوٹی سی ہشت پہلو عبادت گاہ Aedicule کو اسی چٹان پر اس طرح سے تعمیر کیا گیا۔عیسائیوں کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نشان تو اس چٹان پر یسوع مسیح کے دونوں ہی قدموں کے تھے مگر سلطان صلاح الدین ایوبی یہاں سے چٹان کا وہ حصہ توڑ کر اقصیٰ لے گیے جس پر بائیں پاؤں کا نشان تھا۔مسجد اقصیٰ کی انتظامیہ اور مسلمان مورخ اس الزام کو یکسر رد کرتے ہیں۔ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ تین صدیوں تک تو یہ عمارت بے نام و نشان رہی تھی۔ اس کا کوئی پرسان حال بھی نہ تھا۔ اس دوران اگر کسی نے یہاں توڑ پھوڑ کی ہو اور عین ممکن ہے وہ اسے لے اڑا ہو۔ ابتدائی عیسائی پیروکار یہاں چھپ چھپا کر حضرت عیسی ؑ کے مصلوب ہونے کے بعد اپنی عزاداری اور عبادت کے لیے جمع ہوتے تھے۔
ہم مسلمانوں کے عیسائیوں سے جو تین بنیادی اختلاف ہیں ان میں ایک تو حضرت عیسی ؑکا مصلوب ہونا، دوسرا عیسائیوں کا انہیں اﷲ کا بیٹا قراد دینا اور تیسرا تثلیث کا مسئلہ ہے۔حضرت عیسیؑ کے دنیا میں آخری مقام قیام کی رو سے اس کی عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کے ہاں مقدس حیثیت ہے لیکن مسلمان قرآن کی رو سے ان کا آسمانوں میں اٹھایا جانا بہت وسیع المعنی تناظر میں تسلیم کرتے ہیں۔ قرآن الکریم اس حوالے سے رَفعہُ اﷲُ‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔
یہاں ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ قرآن کا بیانیہ بے حد تکریم کا ہے یعنی سورۃ النساء کی آیت نمبر 157-158 ’’ اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے عیسی ابن مریم کو جو اﷲ کے پیغمبر تھے قتل کردیا ہے۔وہ جان لیں کہ نہ تو وہ قتل ہوئے نہ ہی مصلوب بلکہ انہیں اس حوالے سے شبے میں مبتلا کردیا گیا تاکہ وہ باہمی اختلاف میں پڑجائیں اور شکوک و شبہات میں گھرے رہیں وہ اسی کی پیر وی میں بھٹک رہے ہیں اور وہ اس سے لاعلم ہیں لیکن یہ امر مصدق ہے کہ عیسیٰ کو ہرگز قتل نہیں کیا گیا۔اﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔ بے شک اﷲ غالب اور حکیم ہے۔‘‘
صلاح الدین ایوبی نے یروشلم فتح کرنے کے بعد اس کو ایک مسجد میں بدل دیا تھا لیکن اپنی اس غلطی کا احساس ہونے پر اُنہوں نے اسے اس کی پرانی حیثیت پر بحال کردیا اور مسجد اس کے قریب ہی ایک خالی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔
اس کلیسا کے متولی عیسائی عرب ہیں۔جب میں وہاں سے کوئی نذرانہ دیے بغیر لوٹنے لگا تو انہیں بہت بُرالگا۔میں نے اس خیال سے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیاں جذبۂ خیر سگالی کو میری اس کنجوسی کی وجہ سے کوئی کاری ضرب نہ لگے ،جلدی سے جیب سے کچھ شیکل نکالے اور قدمچۂ مبارکہ کے قریب رکھے نذارنہ بکس میں انڈیل دیے ،جس کی دید سے متولی کی روحانی مسکراہٹ عود کر آئی۔انہوں نے بہت زور سے اپنا دایاں انگوٹھا چٹان پر رگڑا اور میرے ماتھے پر گناہوں سے بخشش کا تلک لگا دیا۔میں نے بھی عافیت اسی میں جانی کے میں اپنا رہا اسلام بچا کر مسکراتے ہوئے الٹے قدموں سینے پر ہاتھ رکھے، اظہار عقیدت سے نیم خمیدہ کمرکیے باہر نکل آؤں۔میری نگاہیں ان ہجوم متولیان پر تھیں جن کے چہرے پر اب ایسی یقین دہانی ان کی بوڑھی آنکھوں، مڑے تڑے لبوں اور بے ترتیب طویل ڈاڑھیوں سے چھن کر آرہی تھی گویا ان کی اس خاک شفا و نجات نے میرے وجود پر گہرا روحانی اثر ڈالا ہے۔
اس معبد سے باہر نکلا تو میری نگاہ وادیٔ کیدورن سے دوسری جانب قبتہ الصخری پر پڑی۔مجھے ایک عجیب سے پر اسرار احساس نے گھیر لیا کہ، دو مختلف مذاہب ،دو مقام، ایک جیسی اہمیت،ایک جیسی اونچائی، ان کا فضائی فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہیں، یہ کیسی دو چٹانیں ہیں کہ ان پر قدم رنجہ ہوکر ان سے اﷲ کے دو برگزیدہ بندے اس کے دو پیارے نبی سائنس کو ہکا بکا چھوڑ کے اوپر آسمانوں میں چلے گئے۔اﷲ اﷲ! کیا مقدس سرزمین ہے،کیا اسرار روحانی ہیں۔ اپنی شہر آقاق کتاب ’’کشف المحجوب ‘‘ میں حضرت عثمان علی ہجویری کہتے ہیں’’ پہلے روحانیت ایک بے نام حقیت تھی، اب یہ محض ایک نام بن کر رہ گئی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں‘‘۔
اسی کلیسا کے پڑوس میں ایک مقبرہ ہے۔اکثر قدیم مقابر کی طرح اس میں بھی اصل قبر تہہ خانے میں ہے مگر اس کا تعویز یعنی قبر کی تعمیراتی علامت اوپر ہے۔اس مقبرے پر بھی تینوں مذاہب کا جھگڑا ہے۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی ایک ایسی خاتون تھیں جو نبی کی ہم منصب تھیں۔ عیسائی کہتے ہیں کہ چھٹی صدی کی یہ ایک راہبہ تھی جس نے عشق عیسیٰ میں دنیا تج دی اور کچھ مسلمان اسے حضرت رابعہ بصریؒ کا مزار مانتے ہیں۔یروشلم کے مسلمان البتہ اس سے کچھ ہٹ کر سوچتے ہیں۔حضرت رابعہ بصری کا مزار ان کے آبائی وطن بصرہ عراق میں ہی ہے۔مجھے بعد میں بتایا گیا کہ یہ دراصل رابعہ شامی کی قبر ہے ۔ ان کا ماضی بڑا داغدارتھا۔ مگر اﷲ نے ان کے دل کو پلٹ دیا ۔ایک خواب آیا ۔ ایک منظر دکھائی دیا اور یہ یہاں تشریف لے آئیں۔ جم کر اﷲ کی اس ویرانے میں عبادت کی۔ اسی وجہ سے اس مقبرے سے جڑی مسجد کا نام بھی انہیں کے اسم پاکیزہ پر یعنی مسجد رابعہ ہے یہاں ہر جمعہ کی شب ( ہماری جمعرات) کو ایک محفل ذکر منعقد ہوتی ہے۔یہ محفل ذکر یروشلم کی سب سے بڑی محفلِ ذکر الہی سمجھی جاتی ہے۔یہاں شطاریہ سلسلے کے بزرگ محفل ذکر برپاکرتے ہیں۔ ان بزرگوں میں شیخ نائف بھی شمار ہوتے ہیں۔
شطاریہ (برق رفتار)سلسلہ ویسے تو نقشبندی سلسلے کی ذیلی شاخ ہے مگر اس کے بانی شیخ عبداﷲ شطاری کا تعلق شیخ شہاب الدین سہروردی کے خانوادے سے تھا۔ اس سلسلے کی آمد پر اسے ہندوستان میں مغلیہ دربار میں بہت پزیرائی ملی۔ موسیقارتان سین اس سلسلے کے ایک بڑے بزرگ حضرت غوث کا مرید خاص تھا۔مرشد محترم اور مرید باکمال دونوں ہی گوالیار راجھستان بھارت میں ایک ہی مزار کے احاطے میں مدفون ہیں۔
میری اسرائیل آمد محض ایک تجسّس اور انجانی حقیقت سے تعارف تھا جس پر تعصب اور پروپیگنڈے کی کہر چھائی ہوئی ہے۔خیال یہ تھا کہ اپنے کچھ سوالات کے جواب مل جائیں تو شادماں و فرحاں لوٹ جاؤں گا لیکن چند ہی دنوں کے قیام میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اس سرزمین قدیم و مقدس سے ماضی میں میری ادراک و آشنائی کو اب ایک نیا رنگ و روپ مل رہا ہے۔بہت آہستگی سے تاریخ پرت در پرت میرے لیے کچھ نئے باب کھول رہی ہے۔
کلیسہء الصعودChurch of Ascension سے باہر نکلا تو خود کو میں نے ایک عجیب کیفیت جذب و خود کلامی میں پایا۔مجھے لگا کہ میری شخصیت کئی حوالوں میں بٹ گئی ہے۔جو دیکھا اور سنا وہ میرے اندر اپنے حساب سے جگہ بنا رہا ہے جس میں میرے شعور کو ایک طرف باندھ کر رکھ دیا گیا ۔ خیالات کے انہیں تانوں بانوں میں مالا کے دھاگے کی مانند الجھا ایک تنگ سی پگڈنڈی سے چلا جارہا تھا کہ دو عیسائی فلیپانا نظر آئیں، میرے دوست کہتے ہیں عام طور پر فلپانئی خواتین مردوں کو دیکھ کر خوش بھی جلد ہوتی ہیں اور مل کر اتنا ہی جلد ی مایوس بھی ہوجاتی ہیں۔مجھے بڑبڑاتا دیکھ کر زور سے ہنسیں تو میں نے اس کا الزام اپنی خود کلامی اور وحشت دل سے زیادہ ان کی فطری خوشی کو دیا اور انہیں مزید مایوسی سے بچانے کے لیے دوسری طرف مشرقی یروشلم میں عرب حصے کی جانب اُتر گیا۔ جلد ہی میں ایک ایسے ہوٹل کے پاس آگیا جس کا نام سات محراب والا ہوٹل (Seven Arches Hotelہے۔ یہ پہلے یروشلم انٹرکانٹیننٹل ہوٹل تھا۔ یہ ہوٹل کبھی اردن کے شاہ حسین کی ملکیت تھا ۔اب اسرائیلی حکومت کی متروکہ جائیداد کا بورڈ اس کا انتظام چلاتا ہے۔
یہاں سے یروشلم کا ایسا نظارہ دکھائی دیتا ہے کہ آپ پورے شہر پر ایک مکمل طائرانہ نگاہ ڈال سکتے ہیں۔دنیا میں بڑے ہوٹل اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں کہ ان کے قرب و جوار میں عوامی سہولت کا کوئی مستقل مرکز نہ ہو جہاں عوام کی آوک جاوک ہر وقت لگی رہے۔اس ہوٹل کے ساتھ ہی ایک اسکول تھا جہاں اس وقت آدھی چھٹی یعنیrecess time ہوا تھا۔اس کے درمیانہ رقبے کے صحن میں اسکارف میں ملبوس فرشتوں کی سی معصوم عرب بچیاں دوڑ بھاگ رہی تھیں۔ اسکول کے گیٹ کے باہر کچھ ٹھیلے والے بھنی ہوئی مونگ پھلی۔ گڑیا کے بال( candy-floss ) فروخت کررہے تھے۔میں ان کے دمکتے معصوم چہرے دیکھنے لگا جن پر آنے والے واقعات کے سائے اب تک نہیں پڑے تھے۔ایک سات آٹھ سال کی بچی انہماک سے ذرا دور ہٹ کر چرخے پر لپٹی سرخ رنگت کی جالے دار چینی سے بنے گئے بال حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ مجھے لگا کہ اس کے پاس اسے خریدنے کے لیے پیسے نہیں۔میں نے ایک شیکل سے اس کے لیے وہ گلدستۂ شریں خریدا اور پیش کیا تو وہ ہچکچائی، خفت سے گلابی ہوگئی اور میرے اصرار پر دونوں ہاتھوں سے اسے جلدی سے لے کر ہرن ہوگئی۔ میں جواب میں صرف شکراً ہی سن سکا۔اسکول کے دروازے پر رک کر اس نے ایک دفعہ مڑ کر مجھے دیکھا،ہاتھ ہلایا اور اندر داخل ہوکر سیاہ حجابوں کے ایک گرداب میں گم ہوگئی۔
میرے علم میں یہ بات تو بہت پہلے سے رہی تھی کہ عربوں میں سب سے خالص، بے داغ عربی زبان فلسطینی عرب بولتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ عرصہ ہائے دراز سے ان کی زبان اور ثقافت میں کسی بیرونی زبان اور ثقافت کی گھلاوٹ نہیں ہوئی۔زبان ،طرز بود و باش کے علاوہ ان کے کھانے بھی بے حد لذیذ اور مستند سمجھے جاتے ہیں۔ان کے ہاں نسوانی حسن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اتنا پاکیزہ، کھرا، دھیما دھیما ،اجلا اجلا سا حسن کہیں اور دکھائی نہیں دیتا ۔مجھے لگا ان نازنینانِ جمال افروزکو بناتے وقت اﷲ میاں نے نوبیاہتا گائے کے مکھن اور سفید بیر Accacia کے شہد سے بنایا ہوگا۔ ان کی مٹی بھی کسی صاف شفاف سرزمین سے لی گئی ہوگی۔
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...