... loading ...
پچھلے دنوں ہمارے ہاتھ یکے بعد دیگرے دو کتابیں لگیں۔
پہلی تو مشہور زمانہ جاسوس کم فلبی کے بارے میں تھی۔’’اے سپائی امنگ فرینڈز ‘‘ مصنف بین میکن ٹائر اور جان لا کیئرے۔اس کی تعریف ٹوئیٹر پر وکرم سود صاحب نے کی تھی۔موصوف دو سال کے لیے را کے چیف رہے ۔ 2003ء میں ریٹائر ہوئے۔اُن کا تعلق ہندوستان کے محکمہ ڈاک سے تھا۔ ہمارے محکمہ ڈاک کے اعلیٰ افسران بھی اُن کی طرح ایک ہی مقابلے کے امتحان سے آتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ چونکہ ہر صوبے کے چیف سیکرٹری ، ہوم سیکرٹری اور وزرائے اعلیٰ ، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور سول سروس کے گرو گھنٹال اسٹیبلشمنٹ سکیرٹری کا تعلق عام طور پر پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس ( سابقہ سی ایس پی ،ایک مدت تک ڈی ایم جی اور اب پی اے ایس) سے ہوتا ہے اس لیے یہ قدرے ناممکن ہے کہ پوسٹل سروس کے بڑے کورے لٹھے جیسے بے لطف ،کفن مزاج افسر کواس کا ہم منصب پی۔اے۔ ایس گروپ کا ساتھی، ایک ماہ سے پہلے ملاقات کا شرف بخشے۔چہ جائیکہ کہ اسے کوئی ایسی دھماکہ پوسٹنگ عطا کرے۔
یہ پاکستان میں خیال تازہ کا فقدا ن ہے کہ اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے چاہے وہ آئی بی ہو یا ایف آئی اے ،ان میں افسران اور سربراہان کی تعیناتی کی تان پولیس پر آن کر ٹوٹ جاتی ہے۔ جب کہ ایم آئی فائیو اورسکس میں مارکس اینڈ اسپنسر جیسے اسٹور کی ان خواتین کو جو گاہکوں کی چوریاں پکڑتی تھیں یعنی ایلین اور فلورا سالومن ۔ایلین، کم فلبی کی دوسری بیوی اور فلورا ایلین اور فلبی دونوں کی مشترکہ دوست تھی ان دونوں خواتین نے ہی کم فلبی اور اس کے دیگر چار دوستوں کے روسی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے کی اطلاع سب سے پہلے ایم آئی فائی میں اپنے دوستوں کو دی تھی۔جب کہ ان اداروں کے اہم افراد وہائٹ اور ایلیٹ اور ملی مو جیسے سکہ بند جاسوس اس کھوج میں ناکام رہے تھے۔
’’کاؤ بوائز‘‘ (یادوں کی شاہراہ پر )کے مصنف ہندوستان پولیس سروس کے افسر اور ایڈیشنل سیکرٹری کیبنٹ بہو کوٹومبی رامن ہیں۔ وہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے( جو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ہی حصہ ہے ) سربراہ تھے۔ اپنے عرصۂ ملازمت کے وسط میں انہیں خفیہ ادارے کے سن 1968 میں قیام کے وقت ہی موزوں سمجھ کر منتخب کرلیا گیا جہاں وہ کل چھبیس برس خدمات سر انجام دینے کے بعد کیبنٹ سیکرٹریٹ چلے گئے تاکہ اپنے تجربات کی روشنی میں پالیسی سازی کے کام میں مدد کرسکیں۔یہ کتاب لکھنے کے لیے بی رامن جی کو تیرہ سال انتظار کرنا پڑا۔ تب تک انگریزی محاورے کے حساب سے پل کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا تھا۔
بی رامن کی یہ کتاب میجر جنرل وجے کمار سنگھ کی کتاب’’ India’s External Intelligence: Secrets of Research and Analysis Wing RAW جو سن2007 میں شائع ہوئی تھی، کے دو سال بعد شاید امیج بلڈنگ کے اہتمام کے طور پر شائع ہوئی۔ جنرل سنگھ کی کتاب میں’’ را ‘‘پر بہت تنقید کی گئی ہے۔ جنرل سنگھ بھارت کے 24 ویں چیف آف آرمی اسٹاف تھے ۔ ان دنوں بھارت کے وزیرامور مملکت برائے وزارت خارجہ ہیں اور سشما سوراج جی سے صبح شام ڈانٹ کھاتے ہیں جو ان کی فل ٹائم وزیر ہیں۔ بھارت میں اس پتی پُرس ( شوہر مرد) کو بہت ابھاگیہ(بدقسمت) سمجھا جاتا ہے جو گھر پر بیوی کی اور دفتر میں اپنی خاتون باس کی جھاڑ کھائے۔
وہ ’’را‘‘ میں چار برس تک باہر سے ملازمت کے لیے ایک اعلی عہدے پر لائے گئے تھے۔ انہوں نے اس ادارے میں بے شمار خامیاں دیکھیں اور ان کو کھل کر اپنی کتاب میں بیان کیا جو عین ممکن ہے ایک طرح کا جال فریب یعنی Smoke -Screen ہو یعنی نت نئی تنصیبات کے بارے میں دوسرے اداروں کو دھوکا دینے کے لیے لکھی گئی ہو ۔کچھ جانوروں کا اپنی جان بچانے کی ٹیکنک میں دھول اڑانا، سینہ پھلانا اور دُم سے پانی کو گدلا کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ وی کے سنگھ کی اس تنقید کو ’’را‘‘ کے افسران نے دل پر لے لیا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ جنرل سنگھ جی تو یہ سنکت کھپیہ (signal intelligence) میں وشیش اگھیہ (ماہر) تھے ،اُن کو ہماری را کا کیا پتہ؟
سو انہوں نے بی رامن جی کو کہا کہ ہماری ’’را ‘‘ کا اصل میدان تو اس کی مانو بدھی یعنی(human intelligence) ہے ۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت تو ہمارے اپنے کاؤ جی ہیں ۔سو کاؤ اور ان کے ٹولے کے بارے میں انگریزی میں لکھو تو Cow Boys بنتا ہے۔ جینز میں ملبوس، ترچھا ہیٹ جمائے،کمر سے پستول لٹکائے، مارلبرو سیگریٹ کے اشتہاروں کے مرد ماڈل جیسا گھوڑے پر بیٹھا پیکر مردانگی۔ بس ایسی ہی کوئی کتاب لکھو کہ دہلی کے کھجوری باغ اور حوض خاص کی گلیوں بجائے کنگ رینچ۔ٹیکساس کے راکی ماؤنٹین کے ہرے بھرے میدانوں اور ان میں بے نیازانہ زیست کرتے کاؤ بوائز کی یاد آجائے۔ یہ کتاب کچھ ایسی ہی ہے۔
بہت دن ہوئے۔قریباً سولہ سال سے بھی اوپر ، ہم اور جنرل حمید گل جن کے ہم بڑے مداح تھے ان کی ویسٹ رج والی رہائش گاہ پر بیٹھے تھے ۔ ہم انہیں شیشے میں اتار رہے تھے کہ وہ کتاب لکھیں،انہیں وقت کی کمی کا گلہ تھا، وہ پہلے میدان حرب کے شہسوار تھے۔جنرل صاحب شاید وہ پہلے فوجی تھے جو ایم آئی اور بعد میں آئی ایس آئی کے سربراہ رہے تھے ۔
بعد میں بہکا بہکا سا گفتار کا جان لیوا قرینہ بھی آگیا تھا ۔ہم نے کہا وہ کیسٹ ریکارڈ کرکے ہمیں بھجوادیں گے ہم مسودہ انہیں باب در باب نظر ثانی کی خاطر بھیج دیں گے۔کتاب کا نام بھی انہیں بھلا لگا تھا ’’حرب مسلسل‘‘ ۔تب تک رالف پیٹر کی
Endless War: Middle-Eastern Islam vs. Western Civilization
شائع نہ ہوئی تھی ۔ایسا نہ تھا کہ جنرل صاحب کے علم میں یہ نہ تھا کہ ان کے دو عدد ماتحت ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں جو پاکستان کے خفیہ اداروں کے افغانستان کے تناظر میں کردار اور ان سے متعلقہ افراد کا احاطہ کریں گی یعنی بریگیڈئر یوسف کیAfghanistan: The Bear Trap: The Defeat of a Superpower
اور بریگیڈیئر ارشاد احمد ترمذی کی حساس ادارے۔
جنرل صاحب وعدہ وفا نہ کرسکے لہذا ع ان کہی ہی رہ گئی وہ بات، سب باتوں کے بعد۔وہ کتاب لکھتے تو بہت سے لوگ بغلیں جھانکتے دکھائی دیتے جو اب بہت معتبر دکھائی دیتے ہیں۔اب تو ہر ہفتے افغانستان ، جہاد اور القاعدہ پرہی کوئی نہ کوئی کتاب آجاتی ہے۔
ہم نے نیویارک میں کتابوں کی مشہور دکانThe Strands پر جب خوش نما بی بی سے پوچھا کہ افغانستان یا آئی ایس پر کوئی نئی کتاب تو اس نے ہمیں بالکل ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ساس داماد کو پہلی ملاقات میں اپنی صاحبزادی کے رشتہ کے لیے ہاں کہنے سے پہلے دیکھتی ہے۔چند ہی لمحات میں جب اسے اپنی گستاخ نگاہی کا احساس ہوا تو کمال عیاری سے کھل کھلا کر کہنے لگی Our busiest section.But you dont look like aTaliban
ہم نے بھی اسے جتایا کہ
No .I am a scriptwriter for Hollywood. Tell me if you ever want to work for movies.
واقعات کے چیدہ چیدہ بہکے بہکے تسلسل میں کتاب بڑی احتیاط سے اپنے محسن عظیم کی زندگی کی ’’را‘‘ سے وابستگی کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ محسن رامیشور ناتھ کاؤ تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے زمانے میں یہ ہندوستان کے آئی بی کے خارجہ ونگ کے چیف تھے ۔کتاب 71 کی جنگ،مشرقی پنجاب کی خالصتان تحریک،مقبوضہ کشمیر کی شورش،اندرا گاندھی کی ایمرجنسی روس کی آمد پر افغانستان کے بین الاقوامی میدان جنگ بننے کا احاطہ کرتی ہے مگر اس احتیاط اور تفاخر کے ساتھ کے حقائق کے وہی پہلو سامنے آئیں جو حالات حاضرہ سے بے ضرر طور پر جڑے ہوں یا جن میں بھارتی ادارے کی برتر کارکردگی کا پہلو نکلتا ہو۔اس میں کوئی اگر بغور مطالعہ کرنا چاہے یا ہمارے جیسا استاد ، نو واردان مدرسۂ مخبرات سے تختیاں لکھوائے تو وہ انہیں یہ بتائے گا کہ ہندوستان کے مختلف وزرائے اعظم یعنی اندرا گاندھی (جن کے عہد زریں میں یہ خفیہ ادارہ ری سرچ اینڈ انالیسس ونگ کے نام سے وجود میں آیا جسے اس کے مخالفین اس کے مخفف کی رعایت سے بلکہ وہاں تعینات افسروں اور ان کے ذریعے بیرونی ممالک میں کور پوسٹنگ لے کر جانے والے افسران جو اکثر لوٹ کے بھی نہ آئے ۔اس ادارے کو ریل ٹیوز اینڈ اسوشیٹس ونگ بھی کہتے تھے ) سے لے کر مرار جی ڈیسائی،راجیو گاندھی،وی پی سنگھ، چندرا شیکھر،نرسمہا راؤ نے اس ادارے سے اپنی خارجہ اور داخلی سلامتی کی پالیسی سازی میں کیا کیا کام لیا؟
(جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...