... loading ...
(ادارہ وجود ڈاٹ کام عطا الحق قاسمی کا تہہ دل سے شکرگزار ہے کہ اُنہوں نے اپنے کالم کے ذریعے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ اُن کا ایک حقیقی محاسبہ کیا جاسکے۔ وجود ڈاٹ کام اُن کے کالم کی”برکت” سے اُن کے تعاقب کا اعلان کرتا ہے۔ ان سطور کو پڑھتے ہوئے زیرلب مسکرانے والے تمام دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ کام ہم خوش دلی سے نہیں کررہے۔ تاریخ صحافت کی اس امانت کولوٹاتے ہوئے ایک بھاری بوجھ ہم اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں۔ اگر یہ مسئلہ صرف عطاالحق قاسمی کی ذاتی زندگی تک محدود رہ کر قومی اداروں اور سیاست وصحافت میں اپنا آپ عریاں نہ کررہا ہوتا تو ہم بھی ان کے کردار سے اُٹھنے والے تعفن کے بھبھکوں سے بچنے کے لیے ناک پر رومال باندھ کر آگے بڑھ جاتے۔ مگر جب چار طرف تاریکیوں کے چمگاڈر ناچ رہے ہوں، جب حرص قومی کردار کو کھانے لگے، اور جب ہوس بڑھاپے میں جوانی کے شوق پال کر صحافت کی آبرو بھی تارتار کرنے پر تُل جائے تو جنوں کو اپنا پرچم بنا کر چاک گریباں کے ساتھ خود ہی میدان عمل میں کودنا پڑتا ہے۔ عطاالحق قاسمی کا سامنا اپنے ہی کردارکی مہلک نشیب کی تھاہ میں اُتر کر بت کدہ اوہام کی ویرانیوں سے پڑنے والا ہے۔ وہ اس کے لیے تیار رہیں۔ اُن کے کالموں کے استنباط واستخراج کے اُصول خود اُن کی اپنی تحریروں میں شرمندگی کا سامنا کرنے والےہیں۔ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خاموشی سے لحد میں اُتر جاتے ہیں اور اُن کا نامہ اعمال فرشتے بیان کرتے ہیں ، مگر اجتماعی زندگی کو اپنی پستی سے پست کرنے والوں کے نامہ اعمال اُن کی اپنی زندگی میں ہی اُن کے سامنے وحشت کی ڈھمال ڈالنے آجاتے ہیں۔ بس اس کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔ اُن کی زندگی کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرنے والا توفیق بٹ کا یہ کھلا خط دراصل عطاالحق قاسمی کے کتاب کردار کی تمہید کا ایک نقطہ بھی نہیں، اِسے تمہید کے فقرہ اول کے طور پر پڑھیئے، آئندہ دنوں میں دل دہلادینے والے انکشافات ،ثبوتوں کے ساتھ قارئین کی خدمت میں قسط وار پیش کیے جائیں گے۔ عطاالحق قاسمی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے کالم میں لکھے گئے الفاظ سے کمزور کردار کے اُن لوگوں کو ڈرائیں جنہیں وہ اپنے گناہوں میں شریک رکھتے ہیں۔ ہم وہ نہیں جن کے پینٹوں پر پڑے خم دفتر کے کمروں کی روداد سناتے ہیں، اور جسے وہ جمہوریت کے لیے جدوجہد باور کراتے ہیں!!!!!!!!! (ادارہ )
محترم جناب عطا الحق قاسمی صاحب، السلام علیکم!
آپ کو خط لکھنے کا ارادہ تو نہیں تھا مگر پھر سوچا “ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں تو عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے”۔ آپ کا ایک کالم پیر 8 جولائی کو شائع ہوا ہے جس میں آپ نے میرا نام لیے بغیر کچھ جملے میرے بارے میں لکھے ہیں اور پھر بہت سے لوگوں کو فون کرکے بتایا بھی ہے کہ یہ جملے توفیق بٹ کے بارے میں لکھے گئے ہیں۔ یہ یقیناً ان جملوں کا ردعمل ہے جو میں اپنے کالموں میں آپ کے بارے میں لکھتا رہا اور ان میں آپ کا “اصل چہرہ” نمایاں ہوتا رہا، جس کی شکایت کئی بار آپ نے میرے ایڈیٹر سے بھی کی۔ اب جب کہ آپ نے اپنے کالم میں میرے ایڈیٹر کو “شریف النفس” لکھ دیا ہے (حالانکہ وہ واقعی شریف النفس ہیں) تو میں اپنے شریف النفس ایڈیٹر کو کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ اس لیے کالم کا جواب کالم میں دینے کے بجائے اس خط کا سہارا لے رہا ہوں۔
میرا خیال تھا کہ جو “ٹیکہ” میں اپنے اکثر کالموں میں آپ کو لگاتا ہوں اس کا “درد” آپ نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا، مگر آپ کا 8 جولائی کا کالم پڑھ کر خوشی ہوئی کہ ان “ٹیکوں” سے آپ کو اچھا خاصا “افاقہ” ہو رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے اپنے پیارے شریف حکمرانوں کا غصہ آپ نے مجھ پر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ شریف برادران پر آپ کا غصہ بالکل بجا ہے۔ انہیں حکومت میں آئے اتنے روز گزر گئے اور ابھی تک آپ کو ناروے کا سفیر مقرر نہیں کیا گیا حالانکہ جس طرح بہت سے افسروں کی تقرریاں ان کے حکومت میں آنے سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھیں تو آپ کی تقرری بھی پہلے ہی ہوجانا چاہیے تھی۔ آپ اکثر فرماتے ہیں کہ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد آپ کو آفر کی گئی تھی کہ آپ چاہیں تو آپ کی سفارت کاری قائم رہ سکتی ہے۔ آپ یہ آفر کس نے کی تھی؟ کسی روز اس کا نام بھی بتا دیں تاکہ آپ کے قارئین کھلے دل سے آپ کی اس بات کا یقین کرلیں۔ کہیں ایسا تو نہیں اب کے بار شریف برادران نے آپ کو ابھی تک سفیر اس لیے نہیں بنایا کہ انہیں پتا چل گیا تھا کہ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی آپ اپنی سفارت کاری پر قائم رہنا چاہتے تھے اور اس کے لیے اس شخصیت کے ذریعے آپ نے کوشش بھی کی تھی جس کے گورنر پنجاب بننے کی خبریں سامنے آنے پر اس کے خلاف قلم کاری بھی آپ نے کی ہے۔
ویسے کچھ روز پہلے تک یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ آپ کی شدید خواہش اور کوشش پر آپ کو گورنر پنجاب بنانے کے برے میں سنجیدگی سے سوچا جا رہا ہے۔ شریف برادران نے شاید پہلی بار “سنجیدگی” سے سوچا ہے جس کے نتیجے میں آپ کو گورنر پنجاب نہیں بنایا گیا۔ اور اب ایک “بیرونی شخصیت” (جس کے مال پر اکثر برطانیہ میں آپ موجیں کرتے رہے ہیں) کو گورنر پنجاب بنائے جانے کی خبریں آئیں تو آپ کو اتنی تکلیف ہوئی کہ پورا ایک کالم لکھ مارا۔ خیر میں آپ کے لیے دعاگو ہوں کہ عمر کے اس حصے میں بھی آپ کو ناروے یا تھائی لینڈ کا سفیر ہی مقرر کیا جائے عمر کے جس حصے میں آپ کو سعودی عرب کا سفیر ہونا چاہیے کہ کم از کم اس سے عمرے اور حج کی سعادت بھی آپ کو نصیب ہو جائے گی، جس کے بعد انسان کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، چاہے سمندر کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ بطور اعزازی چیئرمین لاہور آرٹس کونسل اور ناروے کے سفیر کے طور پر جو “کارنامے” آپ نے کیے اس پر دو حج آپ کو الگ سے کرنا پڑیں گے!
خیر اب میں آتا ہوں ان جملوں کی طرف جو 8 جولائی کے اپنے کالم میں میرا نام لیے بغیر آپ نے لکھے۔ سب سے پہلی بات آپ نے یہ لکھی “ایک صاحب جو ایک کالج میں پڑھاتے ہیں ایک نئے اخبار میں کالم کے بجائے “گالم” لکھتے ہیں۔” ۔۔۔۔۔ مجھے فخر ہے کہ میں ایک کالج میں پڑھاتا ہوں “ویلیاں” نہیں کھاتا۔ آپ کو یاد ہوگا آپ کی تقرری بھی ایک کالج میں پڑھانے کے لیے ہی ہوئی تھی مگر ریکارڈ گواہ ہے کہ جو وقت آپ کا کلاس روم میں گزرنا چاہیے تھا، ملکی و غیر ملکی مشاعروں، تقریبات اور ڈرامے وغیرہ لکھنے میں گزر جاتا تھا جبکہ آپ کے شاگردان عزیز آپ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔
ایک بار اپنے ایک شاگرد سابق صوبائی وزیر چوہدری عبد الغفور کے بارے میں آپ نے لکھا کہ ایک تقریب میں جب انہوں نے آپ سے کوئی خدمت پوچھی تو آپ نے فرمایا کسی کو یہ مت بتانا کہ تم میرے شاگرد ہو۔ وہ بیچارہ تو خود ہی کسی کو نہیں بتاتا تھا مگر جو اس کی “حرکتیں” تھیں جیسا کہ آپ نے بھی لکھا کہ موت کے کنویں میں وہ ڈانس وغیرہ کیا کرتا تھا تو لوگ خود ہی سمجھ جاتے ھے کہ وہ آپ کا شاگرد ہے۔ ویسے ایک بار کسی کو اس نے بتا بھی دیا تھا کہ وہ آپ کا شاگرد ہے۔ اتنی گالیاں اس اعتراف پر اس بیچارے کو پڑی تھیں کہ شاید اسی وجہ سے اب کے بار الیکشن میں پارٹی نے اسے ٹکٹ بھی نہیں دیا جبکہ اس سے قبل وہ وزیر بنا دیا گیا تھا۔ شاید اس لیے اس وقت تک آپ نے اپنے کالم میں یہ انکشاف نہیں کی تھا کہ وہ آپ کا شاگرد ہے۔ دوسرا شاگرد آپ کے اپنے ہی انکشاف کے مطابق سہیل ضیاء بٹ ہے۔ کیسے کیسے “کمال” شاگرد پیدا کیے ماشاء اللہ آپ نے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا “معاشرہ” آپ کا شاگرد ہے۔ ویسے آپ کے اے ایم او کالج سے نکلتے ہی اس کی حالت بہتر ہونا شروع ہوگئی تھی اور اب یہ تاریخی تعلیمی ادارہ اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔
میرے جس “پروفیشن” کا تذکرہ آپ نے اپنے کالم میں ایک “طعنے” کے طور پر کیا مجھے اس پر فخر ہے جبکہ آپ کا “اعزاز” یہ ہے کہ “پیغمبرانہ پیشے” کو خیرباد کہہ کر ناروے میں سفیر بن کر چلے گئے تھے اور یہ تاریخ کا سب سے بڑا فائدہ تھا جو کسی حکمران نے اپنی “کاسہ لیسی” پر کسی کالم نویس کو دیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی سے اٹھائے جانے والے فوائد اس کے علاوہ ہیں۔ جب آپ اپنے بیٹے کے پنجاب حکومت میں تبادلے کے لیے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے در پر حاضریاں دے رہے تھے تو انہی دنون سچ لکھنے کے جرم میں اسی وزیر اعلیٰ کے حکم پر سرکاری گھر سے مجھے نکالنے کے لیے پولیس اور مجسٹریٹ میرے سر پر سوار تھے۔ ملک کے تقریباً تمام بڑے قلم کاروں نے اس موقع پر میرے حق میں آواز بلند کی۔ جناب مجید نظامی خصوصاً جناب مجیب الرحمٰن شامی، جناب عارف نظامی، جناب رحمت علی رازی اور جناب سعید آسی نے وہ کردار ادا کیا جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ جناب عطا الرحمٰن، جناب اجمل نیازی اور جناب آفتاب اقبال تو باقاعدہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس گئے اور ان سے گزارش کی کہ وہ اس زیادتی کا نوٹس لیں۔ ان تمام قلم کاروں کے پرزور احتجاج پر وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ آپ واحد قلم کار تھے جو اس موقع پر خاموش رہے۔ آپ نے تقریباً ہر دور میں فائدے اٹھائے، اس کے باوجود آپ چاہتے ہیں کہ ایسے کالم نگار کے طور پر آپ کو تسلیم کیا جائے جس نے کسی حکومت سے کبھی ایک دھیلے کا فائدہ نہ اٹھایا ہو۔
مگر آپ کو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ شعر آپ کا ہے!
آپ نے لکھا میں ایک “نئے اخبار” میں لکھتا ہوں۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس اخبار کو شروع ہوئے دو سال گزرنے والے ہیں اور دو سال پرانے اخبار کو “نیا اخبار” نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ کچھ اچھی روایات اس اخبار نے ضرور اپنائی ہیں۔ ایک جن میں یہ بھی ہے کہ لکھنے کی مکمل آزادی یہاں حاصل ہے اور مجھے پتہ ہے آپ کو اس کی اچھی خاصی “تکلیف” ہے۔
پولیس افسران سے میرے تعلقات کا حوالہ بھی آپ نے اپنے کالم میں دیا۔ آپ کو شاید یاد نہیں یہ لت مجھے آپ ہی نے ڈالی تھی۔ میں جب طالب علم تھا اور ادارہ ہم سخن ساتھی کا صدر تھا تو اس وقت کے لاہور کے ایس پی سٹی سے میرا تعارف آپ ہی نے کروایا تھا اور پھر اس پولیس افسر کو ادبی تقریبات میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنے پر اصرار بھی آپ ہی کرتے تھے۔ اس وقت کا “برقع اسکینڈل” بھی آپ بھول چکے ہوں گے، جس میں آپ کا نام بھی آ رہا تھا اور اسی ایس پی سٹی نے آپ پر “خصوصی مہربانی” فرمائی تھی، حالانکہ اس کی شہرت یہ تھی کہ وہ کسی کی سفارش مانتا ہے نہ کسی کو ناجائز فائدہ دیتا ہے اور استادوں کو تو وہ باقاعدہ “مرغا” بنا دیا کرتا تھا۔ مگر آپ چونکہ استاد کم کالم نگار زیادہ تھے تو اسی وجہ سے اس کی “خصوصی شفقت” کے حقدار ٹھہر گئے، جس پر آپ مجھے ساتھ لے کر اس کا شکریہ بھی ادا کرنے گئے تھے۔ آپ نے اپنے کئی گناہوں میں مجھے بھی زبردستی شریک کرنے کی کوشش کی حالانکہ میں آپ کو بھائی جان کہتا تھا اور اکثر اوقات آپ میرا تعارف اپنے چھوٹے بھائی کی حیثیت کرواتے تو میں سوچتا “بڑے بھائی” ایسے ہوتے ہیں؟
آپ کو یاد ہوگا میرا آپ سے باقاعدہ اختلاف اس وجہ سے ہوا تھا کہ حبیب اللہ روڈ پر واقع میرے نو تعمیر شدہ گھر (جس میں ابھی ہم شفٹ بھی نہیں ہوئے تھے) میں ایک ٹی وی اداکارہ کو لے کر آپ آ گئے تھے تو میں نے عرض کیا تھا بھائی جان پرسوں ہم نے شفٹ ہونا ہے اور کل اس گھر میں قرآن خوانی ہے تو آج میں اس کی صفائی کروانے آیا ہوں گند ڈلوانے نہیں آیا۔ بس اس بات پر آپ مجھ سے ایسے ناراض ہوئے جیسے میں نے آپ کی “مردانگی” چھین لی ہو۔ میں ہمیشہ آپ سے کہتا تھا بھائی جان مجھے اپنا غلام بنا کر رکھ لیں مگر میں آپ کے لیے وہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتا جو کم از کم آپ اپنے بیٹے یاسر سے نہیں لے سکتا۔
خیر یہ ایک انتہائی تکلیف دہ داستان ہے جس کی مزید تفصیلات بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ مگر شکر ہے اللہ نے آپ کے عذاب سے جلد ہی چھٹکارا دلا دیا اور پھر اتنی عزت دی جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے تو ٹھیک طرح پڑھنا بھی نہیں آتا تھا، اللہ نے مجھے لکھنا سکھا دیا اور اس کے لیے میں جناب مجیب الرحمٰن شامی کا بھی شکر گزار ہوں جن کے کاندھے پر بندوق رکھ کر آپ نے جلائی حالانکہ برادرم نوید چوہدری کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شامی صاحب نے میری، اجمل نیازی یا کسی اور کی ذات پر نہیں ان “رویوں” پر تنقید کی تھی جس کے نتیجے میں صحافت بدنام ہو رہی ہے۔ آپ نے مجھے “گالم نگار” قرار دیا، اس کی وجہ یقیناً یہی ہے کہ میں نے کئی بار آپ کے اس کردار پر روشنی ڈالی ہے جس کے مطابق آپ کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔ اس کے لیے میں نے ہمیشہ مہذب الفاظ استعمال کیے، جو آپ کو “گالیوں” کی طرح اس لیے لگے کہ اس سے آپ کی شخصیت کے کچھ “خفیہ پہلو” نمایاں ہوگئے تھے۔
جہاں تک شامی صاحب کا تعلق ہے تو انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ میرے کالم کی کوئی بات انہیں ناگوار گزرے تو “چھوٹے پن” کا مظاہرہ کرنے کے بجائے فون کرکے ڈانٹ ڈپٹ کر لیتے ہیں اور اس کا انہیں پورا حق ہے کہ صحافتی کامیابی کا جتنا سفر اب تک میں نے مکمل کیا ہر گز مکمل نہ کر پاتا اگر میرے پہلے “گالم” کو اپنے اخبار میں وہ جگہ نہ دیتے۔ میری زندگی کی چند “شرمندگیوں” میں سے ایک یہ بھی ہے کہ روزنامہ پاکستان کو مجھے خیرباد کہنا پڑ گیا تھا جبکہ نوائے وقت کو خیرباد کہتے ہوئے آپ اپنے دوستوں کو فخر سے بتاتے تھے کہ “جنگ کے میر شکیل الرحمٰن اپنی “ایک کلومیٹر لمبی کار” میں میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور منت سماجت کے علاوہ اتنی بڑی آفر کی کہ انکار کرنے میرے لیے ممکن نہ رہا۔” آپ کی ساری عمر مفادات کے حصول میں گزری جبکہ آپ اس عالم دین کے صاحبزادے ہیں جس کا علم اور مقام مرتبہ آپ سے ہزار گنا زیادہ تھا مگر سوائے عزت اور نام کے پیچھے وہ کچھ نہیں چھوڑ کر گئے، جبکہ آپ کے پاس اتنا کچھ ہے کہ آپ کی اگلی سات نسلیں شریف برادران کی کاسہ لیسی نہ بھی کریں تو آسانی سے زندگی گزار سکتی ہیں!
مورخہ 8 جولائی کے کالم میں آپ نے یہ بھی لکھا کہ میں اپنے کالموں میں طوائفوں سے زیادہ گندی زبان استعمال کرتا ہوں۔ میرا اٹھنا بیٹھنا چونکہ طوائفوں میں نہیں ہوتا تو میں ان کی زبان سے بھی واقف نہیں ہوں۔ آپ سے گزارش ہے کہ میرے کسی ایسے کالم کی نشان دہی فرما دیں جس میں طوائفوں سے زیادہ گندی زبان استعمال ہوئی ہو۔ ایک بھی ایسا کالم آپ کو مل گیا تو خدا کی قسم کالم نگاری کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دوں گا۔ طوائفوں کے ساتھ تعلقات رکھنا، انہیں ایم پی اے بنوانا اور ان کے اعزاز میں تقریبات سجانے کا شرف کسے حاصل ہے؟ یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ وہ اداکارہ اب ایم پی اے ہے جسے لے کر آپ میرے نو تعمیر شدہ گھر میں گند ڈالنے آ گئے تھے اور میں نے اس گندگی کی “پہرے داری” سے انکار کرکے پہلا پتھر آپ کی جھوٹی انا پر پھینکا تھا جس کے بعد آپ نے کئی نجی محفلوں میں میری ذات کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا اور اب یہ سلسلہ تحریری طور پر بھی شروع کردیا ہے۔
ایسے نہیں ہوتا قاسمی صاحب! میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں آپ کے چنگل سے آزاد ہوگیا ہوں۔ میرا ذکر ایک “بڑے شاعر اور ادیب” کے طور پر بھی اپنے کالموں میں آپ کرتے رہے ہیں، حالانکہ میری “ادبی اوقات” سے آپ اچھی طرح واقف تھے۔ کیا میرے بارے میں تمام جھوٹ آپ “مفت” میں لکھتے رہے؟ میں آپ کو کہتا نہیں تھا بھائي جان اس انداز میں میری تعریف نہ کیا کریں کہ خوشی کے بجائے مجھے شرمندگی ہونے لگے؟ یہ سب آپ کیوں کرتے تھے؟ گھر سے جو رقم مجھے کتابیں، کپڑے یا جوتے وغیرہ خریدنے کے لیے ملتی وہ بھی آپ کی خدمت میں نچھاور کر دیتا تھا اور آپ اس رقم سے بیرون ملک ان شاعروں، ادیبوں اور دولت مندوں کے اعزاز میں تقریبات منعقد کرواتے تھے جن کے خرچے پر آپ کو باہر جانا ہوتا تھا اور واپس آ کر ان کی مدح سرائی میں کالم بھی لکھنے ہوتے تھے۔ مگر یہ اعزاز بیرون ملک مقیم انہی شاعروں اور ادیبوں کو ملتا تھا جو مشاعروں وغیرہ کے بھاری معاوضوں کے علاوہ کچھ اور “خدمات” بھی آپ کے لیے انجام دینے کے قابل ہوتے تھے۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں آپ مظفر وارثی یا شہزاد احمد سے بڑے شاعر تھے؟ بیرون ملک منعقدہ مشاعروں کے منتظمین شہزاد احمد اور مظفر وارثی سے زیادہ معاوضہ آپ صرف اس لیے ڈیمانڈ کرتے تھے کہ واپس آ کر منتظمین کے لیے خوشامدی کالم بھی لکھنے ہوتے تھے۔ یعنی اگلا مشاعرہ بھی پکا کرنا ہوتا تھا۔ اس حوالے سے اکثر اوقات آپ حسن رضوی مرحوم کو انتہائی گھٹیا اور کمینہ شخص قرار دیتے تھے لیکن میں تو “موقع کا گواہ” ہوں کہ آپ اس سے دو قدم آگے ہی تھے۔ ایک بار ناروے اور برطانیہ کے مشاعروں میں آپ مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اپنی ٹکٹ کے پیسے میں نے خود ادا کیے، بعد میں پتہ چلا کہ منتظمین نے میری ٹکٹ کے پیسے بھی دے دیے تھے جو مجھے بہرحال نہیں ملے تھے۔ پاکستان میں آپ ایک انتہائی محب وطن قلم کار کے طور پر جانے جاتے ہیں، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب لندن میں شاعر بخش لائل پوری کے گھر منعقدہ ایک “خصوصی محفل” میں کچھ لوگ پاکستان کے خلاف بکواس کر رہے تھے اور آپ اس لیے خاموش تھے کہ میزبان بڑے شوق اور اہتمام سے آپ کی “خدمت” میں مصروف تھا۔ میں احتجاجاً سے اٹھ کر باہر آ گیا تھا اور آپ نے اتنی زحمت بھی نہیں کی تھی کہ اپنے “چھوٹے بھائی” جس کی عمر صرف 25 برس تھی اور وہ پہلی بار بیرون ملک آیا تھا کو منا کر اندر لے آتے۔ مرحوم شاعر خالد احمد یقیناً ایک گریٹ انسان تھے جو بخش لائل پوری کے گھر سے باہر آ کر میرے ساتھ کھڑے ہوگئے اور محفل ختم ہونے تک ساتھ رہے۔ آپ نے تو اس گریٹ انسان کو بھی نہیں بخشا کیونکہ اس نے بھی نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے کچھ کالموں میں آپ کے چہرے سے نقاب ہٹایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ قاسمی صاحب دل بہت بھرا ہوا ہے۔ مجھے تو وہ لمحہ بھی نہیں بھولا جب آپ کے بھائی ضیا الحق قاسمی کی وفات پر تعزیت کے لیے آپ کے پاس گیا تو آپ نے میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جیسے آپ کے بھائی کی موت کا سبب میں بنا تھا۔ میری والدہ محترمہ کے انتقال پر افسوس کے لیے میرے گھر آنے کی توفیق آپ کو ہوتی تو میں بتاتا اخلاقی روایات کے مطابق گھر چل کر آنے والوں کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے۔ آپ یقیناً بڑے کالم نگار ہیں کاش آپ کا ذاتی کردار بھی آپ کے کالم جتنا ہوتا۔ میرے بارے میں جو کچھ آپ نے لکھا اس سے میری عزت میں تو کوئی کمی نہیں ہوئی مگر آپ کے “بڑے پن” کا پول ایک بار پھر کھل گیا۔
اور ہاں یاد آیا، اگلے روز برادرم نجم ولی کے مقبول پروگرام “نیوز نائٹ” کی ریکارڈنگ کے لیے میں سٹی 42 گیا تو جناب نوید چوہدری نے مجھے اپنے کالموں کا وہ مجموعہ عنایت فرمایا جس کی رونمائی کو بنیاد بنا کر میرے اور اجمل نیازی کے خلاف وہ زہر آپ نے اگلا جو جانے کتنے برسوں سے آپ کے دل و دماغ میں موجود تھا۔ آپ کو چاہیے ایک کالم اب نوید چوہدری کے خلاف بھی لکھیں کیوں کہ اپنے کالموں کا جو مجموعہ انہوں نے مجھے عنایت فرمایا اس پر لکھا ہے “کھرے الفاظ کے ساتھ سچ کی آواز بلند کرنے والے کالم نگار برادرم توفیق بٹ کے ذوق مطالعہ کی نذر”۔ برادرم نوید چوہدری نے اپنے حق میں لکھا جانے والا آپ کا وہ کالم یقیناً نہیں پڑھا ہوگا جس میں آپ نے مجھے “گالم نگار” قرار دیا ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور یہ توفیق عطا فرمائے کہ چھوٹوں کے مقابلے پر اترنے کے بجائے ان پر شفقت فرمائیں۔ میں آخر میں آپ کا ایک اور شعر آپ کی نذر کرتا ہوں
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ نہیں سکتے ہم
جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے
“بھونڈوں” اور جگنوؤں میں بہت فرق ہوتا ہے جناب، جو آپ نے کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا!
توفیق بٹ
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...
اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...
وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...
دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...
ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے شہر قائد میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 کا دورہ کیا اور دوست ممالک کی فعال شرکت کو سراہا ہے ۔پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری دفاعی نمائش آئیڈیاز 2024 ...
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے وفاقی دارالحکومت میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی جس کے تحت کسی بھی قسم کے مذہبی، سیاسی اجتماع پر پابندی ہوگی جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو شہر میں احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے ۔تفصیلات کے مطابق دفعہ 144 کے تحت اسلام آباد میں 5 یا 5 سے زائد...
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان نے علی امین اور بیرسٹر گوہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دی ہے ۔اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے طویل ملاقات ہوئی، 24نومبر بہت اہم دن ہے ، عمران خان نے کہا کہ ...
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملکی سیکیورٹی میں رکاوٹ بننے اور فوج کو کام سے روکنے والوں کو نتائج بھگتنا ہوں گے ۔وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ہر پاکستانی سپاہی ہے ، کوئی یونیفارم میں ...