... loading ...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا
If you are neutral in situations of injustice, you have chosen the side of the oppressor.
(ناانصافی کی صورتحال میں اگر آپ غیر جانبدار رہتے ہیں تو آپ نے ظالم کی حمایت کا انتخاب کیا ہے )
جھٹ پٹ اٹھا، کپڑے تبدیل کئے اورپریس کلب روانہ ہو گیا ، ابتدائی ایام صحافت کا رفیق اور استاد ِ محترم انور سن رائے صاحب کی نسبت سے میرا ’’پیر بھائی‘‘علی عمران جونئیرمنتظر تھا ۔’’ برقی مواصلاتی رابطے‘‘ کے ذریعے میں اسے گھر سے روانگی کے وقت ہی اپنی آمد کی اطلاع دے چکا تھا ۔ پریس کلب کے دالان میں ’’بول‘’ کے ملازمین کا احتجاجی کیمپ قائم تھا اور دستخطی مہم زور و شور سے جاری تھی ۔ ابتدائی گپ شپ کے بعد علی عمران جونیئر نے بورڈ کی طرف اشارہ کیا ۔ نظر دوڑائی تو معلوم ہوا قریب چار بورڈز نمایاں شخصیات کے پیغامات سے پٹے پڑے تھے ، قلم اٹھایا اور سوچنے لگا کہ کیا لکھوں، اچانک امجد صابری کی گائی ہوئی ایک قوالی کا شعر دماغ سے پھسل کرقلم تک آپہنچا۔
تاثرات قلم بند کرنے کے بعد کچھ دیر بیٹھا پھر چلا آیا ۔ بول متاثرین کے قائدین عامر ضیاء ،فیصل عزیز ، نذیر لغاری وغیرہ ہشاش بشاش چہروں کے ساتھ آنے والوں کی آؤ بھگت میں مصروف تھے اور کسی نوجوان کو ’’انقلابی کلام ‘‘ پر طبع آزمائی کی داد دی جارہی تھی ۔ احتجاجی کیمپ جاری تھا اور شرکاء کے حوصلے بلند۔ علی عمران جونیئر سے میں نے پوچھا، کتنے افراد اب تک بیروزگار ہیں ۔ جونیئر نے مسکرا کر کہا ’’پوری ٹیم انٹیکٹ ہے شاہ جی ، کچھ لوگوں نے اِدھر اُدھرمجبوراً ملازمتیں شروع کر دی ہیں لیکن جس دن بول شروع ہو گاسب لوٹ آئیں گے ، جو ایک مرتبہ ایم این اے بن جائے اسے پھر کونسلری کیسے بھائے گی‘‘۔خوب فلسفہ تھا ۔ شعیب شیخ یاد آیا وہ کہا کرتا تھا ’’آپ ہمارے یہاں ملازمت اختیار نہیں کرتے ، ایک لائف اسٹائل اپناتے ہیں ‘‘۔
سمجھ نہیں آتا کہانی خوابوں سے شروع کروں یا خوابوں کے چکنا چور ہونے کے بعد سے ۔41سالہ شعیب شیخ کراچی سینٹرل جیل کے ایک ’’سی ‘‘کلاس سیل میں قید ، آزادی کے پروانے کی راہ تک رہا ہے ۔ پورا ایک سال ہو چلا۔ ایگزیکٹ اور بول کے متاثرین نے 27مئی کو ’’یوم ظلم ‘‘ منایا ۔ گزشتہ برس اسی روز شعیب شیخ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ایف آئی اے نے اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ ، الیکٹرانک کرائمز آرڈی نینس 2002اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010کی مجموعی طور پر کل سات دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے اُسے حراست میں لیا گیا مقدمہ بعد میں درج کیا گیا ، گویا پہلے قید کر لیا اور الزامات کی تحقیقات اس کے بعد شروع کیں کہ وہ سچے ہیں یاجھوٹے۔
ایگزیکٹ اور بول کا معاملہ ہمارے معاشرے میں انصاف کی لاش کی پامالی کی ایک المناک داستان ہے ۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کو بنیاد بنا کر وہ طوفان بدتمیزی بپا کیا گیا کہ جس کی مثال مصر کے بازاروں میں بھی شاید نا پید ہو، ذر ائع ابلاغ کے چند ’’سیٹھوں‘‘ نے تو خبروں کا سارا کاٹھ کباڑ ہی ایک طرف دھر دیا ، خبر تھی کوئی تو بس یہی کہ شعیب شیخ ملک کی سب سے بڑی خبر تھا ۔ ابتداء میں معصوم وزیر داخلہ کتنے حیران ہوئے تھے کہ نجانے اس معاملے میں اتنی ’’ھائپ‘‘ کیوں پیدا کی جا رہی ہے ، اب گزشتہ ماہ خود ہی اعتراف کیا کہ ان پر بلا تحقیق کارروائی کیلئے چند میڈیا مالکان نے دباؤ ڈالا تھا ۔
ایگزیکٹ پر الزام لگا کہ انہوں نے جعلی یونیورسٹیز بنا رکھی ہیں ،نقلی ڈگریاں فروخت کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ان کے 2لاکھ سے زیادہ متاثرین ہیں ، اس الزام کی آڑ میں ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے دفاتر پر قبــضہ کرلیا جو آج تک جاری ہے ، ایف آئی اے حکام ان کے پانچ ہزار سے زائد کمپیوٹر ز کی ھارڈڈسکس نکال کر بیچ چکے ہیں ، ساڑھے نوسو سے زائد گاڑیاں منجمد کر دی گئیں ، 30ملازمین کو گرفتار کیا گیا اور ایک ہی الزام میں کراچی اور اسلام آباد میں دو الگ الگ مقدمات قائم کر دئیے گئے بعد ازاں اکتوبر میں ایک اور مقدمہ قائم کیا گیا جسمیں حوالے کے ذریعے غیر قانونی طور پر رقوم بیرون ملک منتقل کرنے کاالزام عائد کیا گیا ، اس مقدمے میں شعیب شیخ کی بیوی اور بوڑھی والدہ کو بھی ملّوث کر دیا گیا ۔ سنا ہے آج کل ایف آئی اے کے موٹے پیٹوں والے حکام ایگزیکٹ کی بلڈنگ میں کمرے چند گھنٹے کیلئے عیاش جوڑوں کو کرائے پر دیتے ہیں اور اسکی ’’حلال‘’ آمدنی سے شام ڈھلے اپنے بچوں کے بھوک سے گڑگڑاتے خالی معدوں کی تسکین کے لئے پیزا کا بندوبست کرتے ہیں ۔ واہ کیا انصاف ہے ۔
ایگزیکٹ باضابطہ طور پر سن 2006میں ایس ای سی پی میں رجسٹر ہوئی تب سے 2013تک اس پر کسی نے توجہ نہ کی ، اس عرصے میں اس کمپنی نے اپنا دائرہ کار دنیا کے 6براعظموں تک پھیلایا ، یہ پاکستان کی واحد کمپنی بن گئی جس کے دفاتر دنیا کے 120ممالک کے 1300شہروں میں قائم ہوئے، اس کے ملازمین کی تعداد 25ہزار سے تجاوز کر گئی، یہ ادارہ سالانہ ساڑھے تین سو ملین ڈالرز کا زرمبادلہ پاکستان لانے کا باعث تھا اور سالانہ 60کروڑ روپے کا ودہولڈنگ ٹیکس اد ا کر رہاتھا مگر اس کی کمبختی اس وقت شروع ہوئی جب اس کمپنی نے میڈیا بزنس میں آنے کا اعلان کیا ۔ کوے کو فاختہ تسلیم کرانا اپنا حق سمجھنے والے چند ’’سیٹھ‘’ شعیب شیخ پر جھپٹ پڑے اور اسکا پیچھا کرتے کرتے گارڈن کے دو کمروں کے اس فلیٹ تک جا پہنچے جہاں اس نے پرورش پائی تھی ۔ قصہ کوتاہ ، میڈیا کے روّیے کارونا پھر کبھی کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔فی الحال مدّعا انصاف ہے ۔
ایف آئی اے نے گیارہ ماہ کے لیت ولعل کے بعد عدالت میں جمع کرایا گیا ابتدائی چالان ہی حتمی قرار دے دیا ۔ اس دوران ایگزیکٹ کے گرفتار ملازمین کی ضمانت کیلئے کم و بیش 30عدالتی کارروائیاں ہوئیں جن میں 22مرتبہ ایف آئی اے نے اگلی کارروائی تک کی مہلت طلب کرکے سماعت منسوخ کرالی، مجموعی طورپر کل 10جج تبدیل ہوئے جن میں سے دو جج صاحبان نے تو باضابطہ طور پر سماعت سے معذرت کی خود ایف آئی اے کے چار وکلاء تبدیل ہوئے اوریہ تبدیلیاں بھی درحقیقت مقدمے کو تاخیر سے دوچار کرنے کے حربے تھے اب تک ایک بھی گواہ ، متاثرہ شخص یا ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکا ۔ اس سے قبل ماتحت عدالت کے جج نے ان ملازمین کی درخواست ضمانت یہ کہہ کر خارج کر دی تھی کہ ’’یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے ضمانت نہیں ہوسکتی ‘‘۔ اب بھلا بتائیے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے مقدمے کے ’’پروفائل‘’ کا دھیان میں رکھنا بھی ضروری ہے ۔ لعنت ہے ایسے انصاف پر ۔
کہتے ہیں جس معاشرے میں انصاف ہوتا ہو اس کی شاخیں ثمر بار اورجڑیں شاداب ہوتی ہیں ۔ ایگزیکٹ اور بول کے معاملے میں نکتہ اعتراض یہ نہیں کہ قانون شکنی کے مرتکب کسی شخص کے خلاف کس طرح کی کارروائی کی جائے بلکہ اختلاف اس پر ہے کہ محض ایک الزام کی بنیاد پر گواہان و شواہد کی عدم دستیابی کے باوجود، انصاف کے تقاضوں کے برخلاف ایک کارباری ادارے کو روند ڈالا گیا اور اب اسکی ٹوٹی کمر کے ایکسرے دیکھ دیکھ کر قہقہے لگائے جارہے ہیں۔
دیسمند ٹوٹو کی طر ح بول متاثرین کے ’’یوم ظلم ‘’ کے موقع پر ہمارے ’’بھولے ‘’ وزیر اعظم بہت یاد آئے ۔ پارلیمنٹ میں اپنے تازہ خطاب میں پانامہ لیکس کے حوالے سے موصوف نے فرمایا ’’ ایک میڈیا رپورٹ کو کسی تحقیق کے بغیر محض سیاسی عداوت ، شک اور بدگمانی کی بنیاد پر بد عنوانی اور جرم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ‘‘۔ بس یہی ایک سوال شعیب شیخ اور ایگزیکٹ و بول کے ہزاروں بے روزگار ملازمین خود میاں نواز شریف سے پوچھ رہے ہیں۔ 28مئی کا ’’یوم تکبیر‘‘ تو خاموشی سے گزر گیا مگر اس سے ایک روز قبل منایا گیا ’’یوم ظلم‘‘ اپنے جوہر میں انقلاب صفت ہے ۔ مجھے یقین ہے ایک روز انصاف ضرورہوگا۔ انقلاب کا شاعر جالِب دیکھئے کہاں یاد آیا……
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے
اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوعِ مہر تو ہو گا
یہ شب کے پاسبان کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے
اسپین میں ایک کہاوت ہے ‘ کسی کو دو مشورے کبھی نہیں دینے چاہئیں ایک شادی کرنے کا اور دوسرا جنگ پر جانے کا۔ یہ محاورہ غالباً دوسری جنگ عظیم کے بعد ایجاد ہوااس کا پس ِ منظر یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی تعداد نہایت کم ہو گئی تھی اور عورتیں آبادی کا بڑا حصہ بن گئی تھی...
یہ طے کرنا مشکل ہے کہ زیادہ قصور وار کون ہے سول حکمران یا فوجی آمر ۔ جمہوریت عوام کی حکمرانی پر مبنی نظام کا نام ہے اور مارشل لاء ایک آمر کی اپنے چند حواریوں کے ہمراہ زبردستی قائم کی گئی نیم بادشاہت کا ۔ پاکستان جمہوریتوں اور آمریتوں کے تجربات سے بار بار گزر ا ہے مگر یہ ایک تلخ ح...
آپ نے کبھی دنیا کا نقشہ غور سے دیکھا ہے ، پاکستان اور ایران کے درمیان پچکا ہوا سا ایک خطّہ دکھائی دیتا ہے ،اسی کا نام افغانستان ہے ، سرزمین ِافغانستان کے بارے میں خود پشتونوں میں ایک کہاوت ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ ساری دنیا بنا چکا تو اس کے پاس چٹانوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیا ، اس...
ایگزیکٹ اور بول ٹی وی کے مالک شعیب شیخ اور ان کے 8 ساتھیوں کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔ ان میں شعیب شیخ کے علاوہ وقار عتیق، ذیشان انور اور دیگر بھی شامل ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کو دفعہ 161 کے بیان کی روشنی میں ریلیف نہیں دیا جا سکتا لہٰذا ان کی ضمانت کی درخواست...
گزشتہ ایک برس سے ریاستی اداروں کے ناحق عتاب کا شکار ایگزیکٹ کے خلاف جھوٹے مقدمات کی سماعتوں کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے جانیوالے احکامات کی روشنی میں ایف آئی اے ایگزیکٹ کی عمارتیں خالی کرکے ان کا قبضہ میسرز ایگزیٹ کے نمائندگان کو سونپ دیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ...
سندھ اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی نے بھی بول میڈیا گروپ کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ بدھ کے روز ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی ڈاکٹر مہر تاج روغانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صوبائی اسمبلی نے بول میڈیا گروپ کو غیر قانونی ہتھکنڈوں اور متنازع طریقوں سے جبراً بن...
مئی 1886 میں امریکا کے مزدروں نے شکاگو کی سڑکوں پر اپنا خون بہا کر اپنے حقوق کے نام ایک ایسی تاریخ رقم کی تھی جس کی یاد آج بھی ساری دنیا میں ’یکم مئی‘ کے روز منائی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی بے شمار یکم مئی آئے اور گزرتے رہے لیکن گزشتہ سال اسی مہینے کی 18 تاریخ کو جس طرح ص...
ڈاکٹر راحت اِندوری کا تعلق ہندوستان کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر ’’انِدور‘‘سے ہے ، یہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی ہیں اوراِندور یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے ہیں ، دنیا بھر میں جہاں بھی اردو شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہاں انہیں بخوبی جانا پہچانا جاتا ہے ، کچھ عرصے قبل مودی...
اپنے معمول کے کاموں میں مصروف، دکانوں پر مول تول کی تکرار کرتے ، قہوہ خانوں پر استراحت آراء اوربازار سے گزرتے سب ہی لوگوں نے پکار سنی ۔ ’’اے اہل قریش ادھر آؤ۔‘‘ بار بار پکار ا جا رہا تھا لوگ چل پڑے، جمع ہوئے تو دیکھا ،عبدالمطّلب کا پوتا محمدﷺ کوہ ِصفا پر چڑ ھا نِدا لگا رہا ...
بول اور ایگزیکٹ کے خلاف رچائے گیے پاکستانی ذرائع ابلاغ کے "سیٹھوں " کا کھیل انتہائی پرپیچ ہے۔ یہ نامعلوم رستوں سے شروع ہو کر معلوم منطقوں میں جب داخل ہوتا ہے تو یہ اندازہ لگانا دشوار ہوتا ہے کہ اس میں کون کون کیا کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟اگرچہ بول کی اب محدود انتظامیہ اپنا سارے مقدم...
ایک نشئی نے کہیں سے سن لیا کہ انسان مرنے سے قبل اپنے جسمانی اعضاء عطیہ کر سکتا ہے ، اسکی موت کے بعد وہ اعضاء کسی مستحق کیلئے جینے کا سہارا بن سکتے ہیں اور اس طرح عطیہ کرنے والا مرنے کے بعد بھی نیکیاں کماتا رہتا ہے ، نشئی پوچھتا پوچھتا ایک ایسی این جی او کے دفتر جا پہنچا جو اعضاء ...
فیض حیات ہو تے تو کہتے .... آؤ کہ آج ختم ہو ئی داستانِ عشق اب ختم ِعاشقی کے فسانے سنائیں ہم گذشتہ دو ہفتوں سے ماجرا کچھ ایسا ہی ہے ، ’’خَتمِ عاشقی‘‘ کے فسانے ہی کہے جا رہے ہیں ، ہر تیسرے روز سہ پہر تین بجے کوئی نہ کوئی پتنگ کٹ کر ’’خیابان ِ سحر ‘‘پر آگرتی ہے ، اب ہا...