... loading ...
ہمارا انفرادی اور اجتماعی کردار روبہ زوال ہے ۔اُمت کا’’ تصورِحیات‘‘بدل چکا ہے ۔ہماری ساری توجہ حصولِ دولت پر ہے اس کے نتیجے میں چاہے کسی کا گھراُجڑ جائے یا مان بس ہمیں دولت چاہیے اور کچھ نہیں ۔دنیا کے حصول کے بت اور تربیت کے فقدان نے ہمارے سماج کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے ۔یہاں دولت کے حصول میں سبھی برابر ہیں بلکہ صحیح ترین الفاظ میں اس حمام میں سب ننگے ہیں چاہے حکمران ہوں یا بیورو کریٹ،صحافی ہو یا ادیب ،سیکولر انسان ہو یا لبرل لیڈر،عالم ہو یا فقیہہ،اسلام پسند ہو حریت پسند،بھارت نواز یا پاکستان نواز ،مزدور ہو یا تاجر ،وکیل ہویا ڈاکٹر در حقیقت ہمارا ’’میعارِ حیات ‘‘تبدیل ہو چکا ہے۔دانشوروں کی ایک جماعت اس کو بندوق کی کارستانی قرار دیتی ہے جبکہ اسی جنس سے تعلق رکھنے والی ایک فوج اس کا سبب غیر قانونی پیسہ کے بہاؤ والی منطق پر بضد ہے ۔دونوں کے دلائل سے ہٹ کر مجھے حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ آخر عرب سے لیکر عجم تک صرف’’ مسلمان‘‘ہی پیسہ کی وجہ سے بگڑ کیوں جاتا ہے ؟
کشمیر میں جرائم کے بڑھتے گراف پر ایک نظر ڈالنے سے انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کل تک جرم کے تصور سے کانپنے والا ’’کشمیری مسلمان‘‘کس قدر سخت دل بن چکا ہے کہ بڑے سے بڑا جرم انجام دینے کے بعد اس میں شرمندگی اور افسوس کا تاثر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔یقین نہ آئے تو چند ایک مشہور خبروں پر ایک سرسری نگاہ ڈال لیجیے ۔’’سابق وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھر نے اسمبلی فلور پر شراب پر پابندی لگانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ یہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی آمدنی ہے ،سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲ نے بچوں کے برعکس بچیوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ قبل از وقت زچہ کے جنس جاننے اور بچیوں سے بڑھتے تنفر کا سبب پرائیویٹ ہسپتالوں میں حمل گرانے جیسے شرمناک غیرانسانی، غیراسلامی اور غیر قانونی دھندے کو قرار دیدیا۔2006ء میں اس بات کے انکشاف نے ہماری شرافت کاجنازہ نکال دیا جب بھارت بھر کی تمام ریاستوں کے مقابلے میں رشوت ستانی میں ہمارا نام بہار کے بعد آیا!فضول خرچیوں میں کشمیر یوں کا کوئی ثانی نہیں ہے ،چالیس ہزار سے زیادہ بیٹیاں نکاح سے محروم صرف اس لئے ہیں کہ جہیز دینے کے لئے سرمایہ موجود نہیں ہے !بوپی اسکینڈل کل کی بات ہے جس میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ دولت مند باپ پیسے کے بل پر ’’ایم بی بی ایس ‘‘کے پرچے خرید نے کے بعد لاڈلوں کے ذریعے اپنے گھروں میں ہی حل کراکے پوری انسانیت کو خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے ہیں ۔چند روز قبل روزنامہ بلند کشمیر کے علاوہ سبھی انگریزی اور اردو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ کشمیر ی ڈاکٹر روزانہ غیر ضروری ٹیسٹ کراکے کروڑوں روپیہ کما کر بڑی دولت کماتے ہیں ۔
ایک اور پہلو پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈال لیجیے! چند برس قبل اس بات کا انکشاف کشمیر اسمبلی میں ہوا کہ کشمیر کے مذہبی اداروں کو کروڑوں روپیہ مرکزی سرکار بطور گرانٹ فراہم کرتی ہے ۔اس سے بھی حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ کشمیر میں مختلف دینی اجتماعات کے انعقاد کے لئے بھی مرکز ہی پیسہ فراہم کرتا ہے ۔2011ء میں ٹائمز آف انڈیا نے کشمیر کی ایک دینی تنظیم سے متعلق آئی بی کی وساطت سے انکشاف کیا کہ اس نے ایک ہی عرب ملک سے پانچ سو کروڑ روپیہ حاصل کر کے کشمیرمیں مسلکی تنفر میں اضافہ کردیا!پاکستان کے مختلف اخبارات نے کئی عسکری تنظیموں سے متعلق اسی طرح کے انکشافات کئے ۔حریت لیڈران سے متعلق ’’مسٹر دلت سابق را چیف‘‘کی باتوں پر یقین کیا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔بھارت نواز لیڈران تو اپنی روزی روٹی کے لئے کس حد تک جا سکتے ہیں اس کی باتیں وہ آئے روز ایک دوسرے سے متعلق کہتے ہی رہتے ہیں لہذا کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے متعلق ’’کفن چور‘‘کا لفظ سستا معلوم ہوتا ہے اس کے شواہد کے لئے ان کی ذاتی زندگی ،ان کے رشتہ دار اوردوست احباب کافی ہیں۔ زیادتی ہو گی اگر میں ایک معمولی دُکاندار کے ایم ،ایل،اے بن جانے کے بعد تبدیل ہوچکی زندگی کا ذکر نہ کروں جس نے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے کئی دوستوں سے رقم اُدھار لے کر فتح کے جھنڈے گاڑتے ہی ایسا کمال کر دکھایا کہ اگلے الیکشن میں اس نے اپنے بینک کھاتوں میں جمع شدہ رقم بیس کروڑ سے بھی زیادہ دکھائی ۔یہ تو ہوئی خواص بلکہ اخص الخواص کی بات اب ایک نظر عام انسانوں کی ان سرگرمیوں پر بھی ڈال لیجیے جن کی غیر انسانی ،غیر اسلامی اور غیر قانونی سرگرمیاں بہت کم ہی پولیس کی نگاہوں میں آتی ہیں ۔
ایک انگریزی روز نامہ میں سال 2011ء میں شائع شدہ اعداد و شمار کے مطابق مختلف لوگوں کے پاس سے تقریباً ایک کلو سو گرام افیم 450 گرام ہیروئن، 360 گرام کوکین، 70 کلو 200 گرام بھنگ، 308 کلو پاپی کے پھول اور 56 گرام بھنگ کا پودا برآمد کیا گیا۔ اسی سال پولس نے نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائکو ٹراپک سبسٹینس (این ڈی پی ایس) ایکٹ کے تحت 190 معاملات درج کیے۔ پولس نے کل 300 لوگوں کو گرفتار کیا جبکہ 247 افراد پر مقدمہ قائم کیا گیا اور 32 لوگ حراست میں لیے گئے۔ اس کے علاوہ پولس نے نشہ پیدا کرنے والی دواؤں کی 3861 بوتلیں، 10327 گولیاں اور انجکشن جبکہ 2022 نشہ آور کیپسول ضبط کیے۔ اسی طرح پولس نے وادی میں مختلف مقامات سے 2011ء کے دوران 104 کلو 243 گرام چرس، 5860 کلو 100 گرام فوکی اور 6 کلو 380 گرام براؤن شوگر، 251 کلو بھنگ، 1488 کلو پاپی کے پھول، 200 گرام بھنگ کا پودا ضبط کیا۔ اسی سال پولس نے نشہ پیدا کرنے والی دواؤں کی 6519 بوتلیں، 8827 گولیاں اور انجکشن اور 2760 نشہ آور کیپسول ضبط کیے۔ سال 2011ء کے دوران پولس نے’’ این ڈی پی ایس ایکٹ ‘‘کے تحت 263 معاملے درج کیے، 317 لوگوں کو گرفتار کیا، جبکہ 182 افراد مجرم ٹھہرے اور 37 لوگوں کو پولس نے حراست میں لیا۔ایک سینئر پولس افسر نے کالم نگار سے بات کرتے ہو ئے کہا کہ ’’عام ادراک کی بنیاد پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر سال جتنی زمینوں پر نشہ آور پودوں کی کاشت ہوتی ہے پولس، ایکسائز اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے افسران کو اس کے صرف ایک ہی حصہ کا علم ہو پاتا ہے‘‘۔ اس افسر نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سال 2011ء میں سات ہزار سے آٹھ ہزار کنال زمین پر پھیلی کاشت تباہ کر دی گئی۔ اس سے آپ بڑی آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنی بڑی زمین پر ان نشہ آاور پودوں کی کتنی کاشت ہوئی ہوگی ور جو تباہ نہیں کی جاسکی اس کی مالیت کتنی ہوگی؟
یہ ہے سرسری طور پرلیا گیا ایک چھوٹا سا جائزہ ہمارے اس سماج کا جہاں میں اور آپ رہتے ہیں ۔جس میں گویا ہم سب برابر ہیں ۔یہاں گناہ یا جرم وہ انجام دیتا ہے جس کو انسانی اور قانونی نگاہوں سے بچ جانے کا یقین ہوتا ہے ۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ وہی دھوتا ہے جس کو اس کا کنارہ نصیب ہوتا ہے ۔جس کے منہ سے ’’توبہ توبہ ‘‘کی چیخ و پکار آپ کو سنائی دیتی ہے اس کو یہ ’’مفت شراب‘‘نصیب نہیں ہوتی ہے !باہر سے آنے والے لوگوں کو کشمیر کا سماج ایک نظر میں بڑا صاف و شفاف نظر آتا ہے مگر اندر کی سچائی سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ سماج کا ایک بھی طبقہ اس دھندے سے بچا ہوا نہیں ہے ۔پیسہ اپنی ذات میں برا نہیں ہے مگر اس کو حاصل کرنے کے لئے ہر جرم کو نیکی تصور کرتے ہو ئے ’’قوم و ملت کو بیچنا‘‘یا ’’کسی کا حق مارنا‘‘کسی لعنت سے کم نہیں ہے ۔اسلام نے ہمیں دولت کمانے سے منع نہیں کیا ہے البتہ اس کو مقصد حیات یا مطمح نظر بنانے کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی ہے۔نبی کریمﷺ نے جن دس صحابیوںؓ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی ہے انہیں ’’عشرہ مبشرہ‘‘کہتے ہیں ان میں دو صحابی مدینہ کے بڑے دولت مند انسان تھے۔ ایک حضرت عثمان غنیؓ اور دوم حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ۔
ہمارے اندر تضادات بھی کم نہیں ہیں ہم ایک طرف مسلم اکثریتی ریاست کی آزادی کے ترجمان بھی ہیں وہیں دوسری طرف بھارت سے روزانہ امداد ملنے کے خواستگار بھی ۔ آزادی نعمت کبریٰ کا نام ہے اورغلامی لعنت کبریٰ کا۔آزادی عطیہ خداوندی ہے اور غلامی عذابِ الٰہی۔آزادی’’ ارتقاء ِصفاتِ انسانی‘‘ہے جبکہ غلامی ’’تغیرصفاتِ حمیدہ‘‘کا پیش خیمہ۔ہمارے ہاں پوری تحریک پر مباحثے کا خلاصہ بھارت،امریکہ،برطانیہ ،چین اور پاکستان کے علاوہ مسلم ممالک کی بے حسی اور عدم دلچسپی یا کم دلچسپی پر ختم ہوتا ہے ،گویا ہم حالات کا تجزیہ کرتے وقت محدود نظریئے سے صورتحال کو دیکھ کر نجومی کی طرح چند ایک اٹکلیں مار کر بات ناموافق سیاسی حالات پر ختم کرتے ہیں ۔حالانکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ عالم ارضی سے بہت دور مخلوق کے فیصلے کوئی اور طاقت ور ذات کرتی ہے ۔جس کے اشارے سے زمین ہلتی ہے،مردہ زندہ ہوتا ،زندہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے ،بادل برستا ہے ،بجلی چمکتی ہے ،پہاڑ پر سکون رہتے ہیں ،سمندر خاموش اور اس کو گھیری ہوئی زمین کائنات میں لٹکی ہوئی ہے ۔اس کے ہاں انسانوں سے متعلق اس محدود زندگی میں چند معین اصول ہیں کہ میری مدد تب آتی ہے جب اس کے لائق کوئی اپنے آپ کو بنا لے۔ اس لئے کہ یہ ’’نصرت‘‘عالم ارضی کے تمام اشیاء سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے !جب کوئی قوم اپنے پاکیزہ عقائدوکردار اور اعلیٰ اخلاق سے اس کی حقدار ہو جاتی ہے تو ہم ان کے حالات بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ انبیاء کرامؑ کے مشن کی بحث چھیڑتے ہوئے خلافت و امامت کی بات تو کرتے ہیں مگر منزل کا حصول شیطانی راہوں اور طریقوں سے چاہتے ہیں یہ گزشتہ قوموں کے جرائم سے بھی بڑا جرم ہے ۔
2014ء کا سیلاب کل کی بات ہے جب سارا کشمیر طوفانِ نوح ؑ کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ہم سب بہ یک زبان اپنے جرائم اور بد کرداری کا اعتراف آپ کرتے تھے مگر جوں ہی یہ آفت ٹل گئی ہم نے اپنی پرانی روش پھر اختیار کر لی۔نہ کوئی سیاستدان بدلا نہ ہی کوئی بیوروکریٹ اور نہ ہی کوئی عالم بدلا نہ ہی کوئی جاہل ؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس قوم کا چہرہ اس قدر داغدار ہو ،جس کا کوئی انگ گنا ہوں سے نہیں بچتا ہو ، جس میں بے حسی ہی حس بن چکی ہو ،جس کے ہاں معروف منکر اور منکر معروف بن گیا ہو ،کیا ایسی متضاد کردار کی حامل قوم کو دنیا کی کوئی طاقت اس عذاب سے نجات دلا سکتی ہے جس کے نزول سے قبل’’ پیمانہ حیات‘‘ہی بدل جاتا ہے !جس کے آنے سے پہلے اجتماعی بے حسی میں غرق کیا جاتا ہے ۔جس کے دھیمی رفتار کو کور عقل ’’حیاتیاتی تبدیلیوں‘‘کے چٹکلوں میں گم کردیتا ہے !جس میں دانشور اندھا ،عالم جاہل ،جاہل ناصح اور کمینہ رہبر و رہنما ہوجاتا ہے ۔جس میں ’’احتساب‘‘سے نفرت اورتوبہ سے وحشت آنے لگتی ہے اور اس کی بات کرنے والوں کو عوام ’’احمق‘‘ تصور کرتی ہے ۔
ہم مسلمان ہیں اور ہمیں ہمارے ’’باخبر پیغمبرﷺ‘‘نے اندھیرے اور تاریکیوں میں نہیں چھوڑا تھا ۔ایک ایک آنی والی مصیبت ،اس کے اسباب اور علاج سے باخبر کیا تھا مگر ہم وہ بد نصیب ہیں جنہیں اندھیرے میں روشنی اور غلاظت میں پاکیزگی نظر آتی ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ایک دور وہ آئے گا جب عورتیں بے حیا اور باغی جبکہ نوجوان مفسد بن جائیں گے اور دین کے غلبے کی جدوجہد تر ک کر دی جائے گی ،جب معروف و منکر کی تلقین ترک ہی نہیں بلکہ معروف سے روک کر بالجبر منکر پر عمل کرایا جائے گا،جب نیکی بدی اور بدی نیکی بن جائے گی ،آپؐ نے فرمایا مجھے میرے اﷲ نے فرمایا( جب آپ کی امت اس مرحلے پر پہنچ جائے گی )تو میں انھیں ایسے عذاب اور فتنے میں مبتلاکردوں گا کہ امت کا دانشمند اور دانشور (حل کرنے کے لئے)حیران و پریشان ہو جائے گا یعنی اﷲ تعالی انھیں حل تک پہنچنے نہیں دے گا یا حل نہیں سجھائی دے گا ۔(بحوالہ طبرانی،مفہوم الحدیث)
آپ پورے عالم اسلام پر نگاہ ڈال لیجیے آپ کو اس حدیث کاعملی ظہور نظر آئے گا عالم اسلام سے دو منٹ کے لئے صرفِ نظر کرتے ہو ئے اپنے ہی خطے میں لوٹ کر دیکھ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ ساری قوم بشمول لیڈر اور دانشورظاہری رکھ رکھاؤ پر متوجہ تو ہے پر اس باطن پر نہیں جس کی اﷲ کو ضرورت ہے ۔اس کے ہاں ا گر چہ ظاہر کی بھی اہمیت ہے پر جو مقام باطن کا ہے وہ ظاہر کا نہیں، اس لئے کہ باطن میں بسنے والا بادشاہ ظاہر پر حکومت کرتا ہے اور جب انسان کا اندرون پاک ہوتا ہے تو اعضائے بدن طوعاََیا کرہاََاس کی اطاعت کرتے ہیں ۔جرائم کا بڑھتا ہوا گراف نظر انداز کر کے گویا اجتماعی خود کشی کرنے کا من بنایا جا رہا ہے ۔اگر ہم کل کو بھارت کے سیاسی تسلط سے آزاد ہو بھی جائیں جو اﷲ کے لئے اور قوموں کی تاریخ میں بڑی بات نہیں ہے تو بھی ہمارا کردار نہ بدلنا مستقل ایک چیلنج کی شکل اختیار کر لے گا جیسا کہ ہم سے قبل بنی اسرائیل فرعون کی غلامی اور پھر اس کے تسلط سے آزادی کے بعد اﷲ کے ہاں محمود اور مقبول قرار نہیں پائے بلکہ انفرادی اور اجتماعی باغیانہ روش کے نتیجے میں آزادی کے باوجودابدی ’’ذلت و مسکنت‘‘میں مبتلا کر دیئے گئے ۔
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس آج(منگل کو) پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں شروع ہو گا، اجلاس میں مسئلہ کشمیر، مسلم امہ کو درپیش معاشی، سیاسی اور ثقافتی چیلنجز کیساتھ اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی غورکیا جائے گا۔ کانفرنس میں 150سے زائد قراردادیں منظور ہ...
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا، عالمی براردی کو افغان حکومت کے ساتھ ''کچھ لو اور دو'' کی بنیاد پر کام کرنا چاہیے۔امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان افغانستان اور طالبان حکومت سے متعلق بات ک...
حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی سلامتی پالیسی میں دفاع ، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبو ں پر مستقبل کا تصوردینے کی کوشش کی گئی ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں سی پیک سے متعلق منصوبوں میں دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے، نئی پالیسی کے مطابق کشمیر ب...
وادیٔ نیلم میں مسافر بس کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایاگیا ، تین شہری موقع پر شہید ، زخمیوں میں شامل سات افراد ہسپتال میں دم توڑ گئے گزشتہ روز ہندوستانی فوج نے اپنے 3 فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی تھی اور ٹوئٹ میں اس کارروائی پر شدید ردعمل دینے کی دھمکی دی تھی بھارتی افواج کی...
پاکستان بار بار یہی بات دہرارہا ہے لیکن بھارت فوجی قبضے اورتسلط پراَڑاہوا ہے ،نتیجہ آنے تک مقد س اورجائزجدوجہد جاری رکھیں گے بھارتی مظالم کے آگے سینہ سپر87سالہ ناتواں بزرگ لیکن جواں عزائم اورمضبوط اعصاب کے مالک چیئرمین آل پارٹیز حریت کانفرنس انٹرویوپینل:شیخ امین ۔مقصود من...
ظلم و جبر پر عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک ہے،پاکستانی قیادت کو سمجھنا چاہیے مذاکرات اور قراردادوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مجاہدین کو وسائل مہیا کیے جائیں جب دنیا ہماری آواز نہیں سن رہی تو پھر ہمارے پاس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہی آخری آپشن ہے،سید صلاح الدین کا ایوان صحا...
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج کا خیال تھا کہ وہ انتہائی مطلوب حریت پسند رہنماکی موت کا جشن منا ئیں گے، مٹھا ئیاں با نٹیں گے اور نئی کشمیری نسل کو یہ پیغام دیں گے کہ بھارت ایک مہان ملک ہے اور اس کے قبضے کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ ختم کرنا جا نتے ہیں۔ لیکن انہیں کشمیر...
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...
یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...
زندہ قوموں کی زندگی کارازصرف ’’خود احتسابی‘‘میں مضمر ہے۔ جو قومیں احتساب اور تنقید سے خوفزدہ ہو کر اسے ’’عمل منحوس‘‘خیال کرتی ہیں وہ کسی اعلیٰ اور ارفع مقصد کو حاصل کرنے میں بھی ناکام رہتی ہیں۔ احتساب ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے کسی فرد، جماعت اور تحریک کی کامیابی اور ناکامی کا صحیح...
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...