... loading ...
مئی 1886 میں امریکا کے مزدروں نے شکاگو کی سڑکوں پر اپنا خون بہا کر اپنے حقوق کے نام ایک ایسی تاریخ رقم کی تھی جس کی یاد آج بھی ساری دنیا میں ’یکم مئی‘ کے روز منائی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی بے شمار یکم مئی آئے اور گزرتے رہے لیکن گزشتہ سال اسی مہینے کی 18 تاریخ کو جس طرح صحافت سے وابستہ مزدوروں کا سرکاری سرپرستی میں معاشی قتل عام کیا گیا اس نے ایک بار پھر اس واقعے کی یاد تازہ کر دی جب آج سے 130 سال قبل امریکا میں مفاد پرست سیٹھوں کی شہہ پر سرکاری اہل کاروں نے بلا تخصیص اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والے مزدوروں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا اور بعد ازاں متعدد بے قصور رہ نما عدلیہ کے ذریعے پھانسی پر چڑھا دیے گئے تھے۔ آج بھی ریاستی مظالم ختم ہوئے ہیں نہ ہی مزدور کی تحریک کہ یہ جنگ روز اول کی طرح آج بھی جاری ہے۔
آج سے ایک سال قبل پاکستان کی صف اول کی کمپنی ایگزیکٹ کے مالک شعیب احمد شیخ اور ان کے اعلی تعلیم یافتہ ساتھیوں کو بغیر کسی عدالتی و قانونی کارروائی کے حراست میں لیا گیا تھا جو آج بھی بے قصور جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں عوام بول اور ایگزیکٹ کے خلاف ہونے والے ان ریاستی مظالم کے خلاف 27 مئی کو دوسرا ’یومِ ظلم‘ منا رہے ہیں جس کا مقصد آزادی صحافت پر ہونے والے اس حملے کے خلاف ملکی و عالمی توجہ مبذول کرانے کے علاوہ بول کے ساتھ اپنی یک جہتی کا اظہار بھی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی صف اول کی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ نے جب میڈیا کو ملک دشمن سیٹھ مافیا سے نجات دلانے اور صحافیوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ’بول میڈیا ہاؤس‘ کی بنیاد رکھی تو ملکی مفاد کے لیے کام کرنے والے عناصر سے پاکستان کی ترقی کے لیے اٹھایا گیا اتنا بڑا قدم ہضم نہیں ہوا اور بول کے خلاف میڈیا تاریخ کی سب سے بڑی سازش عمل میں لائی گئی جس سے 30 ہزار بے گناہ افراد راتوں رات روزگار سے محروم کر دیے گئے۔ اس مکروہ سازش کے تحت 18 مئی 2015 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پاکستان مخلاف عناصر کی شہہ پر بد نام زمانہ رپورٹر ڈیکلن والش کی ایک من گھڑت خبر شائع کی جس میں الزام لگایا گیا کہ پاکستان کی صف اول کی آئی ٹی کمپنی جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرنے والے ریکٹ سے وابستہ ہے۔
امریکی اخبار میں ایگزیکٹ کے خلاف اس غیر متصدقہ خبر کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ ایسا لگا ایک قیامت آ گئی اور حکومتی ادارے اس طرح ایگزیکٹ اور بول کے خلاف لپکے جیسے وہ اس موقعے کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ خبر کی اشاعت کے چند گھنٹوں کے اندر اندر بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر وفاقی تفتیشی ایجنسی ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے دفاتر پر قبضہ کر لیا، کمپنی کے بنک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے، ایگزیکٹ کے دفاتر میں ایف آئی نے لوٹ مار شروع کر دی، جب کہ شعیب احمد شیخ اور ان کے ساتھیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا گیا جو تا حال کسی قانونی کارروائی کے بغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔ تا ہم گزشتہ سال 18 مئی سے لے کر آج 18 مئی 2016 تک بول میڈیا ہاؤس نے ان تمام تر بد ترین حالات کے با وجود ہار نہیں مانی اور اپنے حق کے لیے لگا تار قانونی جنگ لڑ رہا ہے، گو کہ اس جنگ کو ایک سال سے حکومتی ایما پر جان بوجھ کر عدالتی تاخیر کا شکار کیا جا رہا ہے اور تا حال 10 ججز نا معلوم وجوہات کی بنا پر ایگزیکٹ مقدمات سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔
گزشتہ ایک سال سے جہاں حکومت ایک طرف مسلسل عدالتی کارروائیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس کے پالتو میڈیا نے بول میڈیا ہاؤس کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے اور بول کے خلاف مسلسل غیر مصدقہ، من گھڑت، جھوٹی اور حقائق کے خلاف خبریں نشر کرنے کا سلسلہ روز اول کی طرح بد ستور جاری ہے۔ ایگزیکٹ کے خلاف اس تمام تر کارروائی کا مقصد دراصل بول میڈیا ہاؤس کو نشانہ بنا کر ملک میں رہ سہی آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ کیونکہ ایگزیکٹ گزشتہ 18 سال سے شفاف طریقے سے کام کرنے کے علاوہ ملکی خزانے میں اربوں روپے کا ٹیکس جمع کر رہا تھا اور جیسا کہ امریکی عدالت انصاف کے ایک حالیہ فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ ایگزیکٹ کبھی بھی کسی طرح کے بھی غیر قانونی طرز عمل میں ملوث نہیں تھا۔
بول میڈیا ہاؤس کے خلاف ریاستی طاقت کے اندھے استعمال کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سائبر قوانین موجود نہیں ہیں چنانچہ ایف آئی اے محض دھوکا دہی کی شق 420 کے تحت ایگزیکٹ کے خلاف کارروائی کی جس میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت زیادہ سے زیادہ ایک سال سزا جب کے 10 سے 50 لاکھ جرمانہ عائد ہو سکتا ہے، مگر شعیب احمد شیخ اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے ایک سال ہو چکا ہے۔ مہذب دنیا کے لیے یہ بات نہایت حیران کن ہو گی کہ ایگزیکٹ کے خلاف چونکہ کوئی بھی متاثر سامنے نہیں آیا اس لیے یہاں ایف آئی اے کے ایک افسر سعید میمن خود ہی مدعی ہیں، خود ہی تفتیشی افسر اور خود ہی پراسیکیوٹر اور اب کسر صرف اس بات کی رہ گئی ہے کہ وہ وہ خود ہی منصف بن کر ایگزیکٹ کے خلاف فیصلہ بھی سنا دیں۔
ماتحت عدالتوں میں 24 سے زائد سماعتوں کے باوجود انصاف میں تاخیر کے عمل کو دیکھتے ہوئے بالآخر بول میڈیا ہاؤس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں ابتدائی سماعتوں میں عدالت انصاف نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنی کارروائی مکمل کر کے بول ایگزیکٹ دفاتر کو خالی کر دے۔ پاکستان کی اندھیر نگری چوپٹ راج میں ظلم، کرپشن اور انصاف کے حصول میں تاخیر کی ایک واضح علامت کچھ اور نہیں بلکہ یہاں کا عدالتی نظام ہی ہے جس کی مشین میں بنیادی طور پر وکیل چابی بھرتے ہیں۔ ایگزیکٹ کیس میں ایف آئی کے وکلاء تاخیر کے حربے ثابت کر چکے ہیں کہ بغیر کسی ثبوت، گواہ یا دلیل کے ایک نام نہاد مقدمے کو کس طرح ایک سال تک کھینچا جا سکتا ہے جس کے عوض اس کرپٹ عدالتی نظام نے بے قصور ملزمان کے معصوم اہل خانہ کے منہ سے نوالے اور ان کے ننھے بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں تک چھین لی ہیں۔ یوں تو پاکستان کا کوئی بھی شعبہ کرپشن کے عفریت سے پاک نہیں مگر حد تو یہ ہے کہ یہاں عدلیہ اور میڈیا بھی اس دیمک سے محفوظ نہیں۔ ایگزیکٹ کیس میں صبح و شام چور مچائے شور کا کھیل کھیلنے والا پاکستانی میڈیا کثیر قومی اداروں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں بک چکا ہے اور شاید میڈیا میں اب بہت کم افراد ایسے رہ گئے ہیں جو صحافت کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں میں اکثر وکلا کی روزی روٹی سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپا کر چلتی ہے۔ ایگزیکٹ کیس میں ایف آئے اے کے کرائے کے وکیل زاہد جمیل اور ان ہی جیسے دیگر ہم پیشہ عدلیہ میں کرپشن کے اس ناسور کو پھلنے پھولنے میں مدد کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں عدل کے لیے مثال تو حضرت عمرؓ فاروق کی دی جاتی ہے لیکن صرف مثال دی جاتی ہے یہاں عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس ملک خداداد کو انگریز سے میراث میں ملنے والا قانون ہی ایسا ہے کہ اس قانون میں ہی وکیلوں کے پاس سزا سے بچنے یا بچانے کے تمام راستے موجود ہیں جن کے دروازے سونے کی کنجی سے کھلتے ہیں چنانچہ جس کے پاس جتنا پیسہ ہے قانون اتنا ہی اس کا ہے۔ کوئی معاشرہ کفر کے نظام کے تحت تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتا پھر بھی ہمارے ہاں ظالم کو بچانے کے لیے قانون ہے۔ ایگزیکٹ کیس میں التوا کے ذریعے معصوم لوگوں کی زندگیوں کو جہنم سے ابتر کرنے والے یاد رکھیں کہ اسلام کے نظام انصاف میں تاریخوں کے دینے کا کوئی وجود کوئی تصور تک نہیں ہے کیونکہ وہاں فیصلہ فوری طور پر کیا جاتا ہے۔ معاشرے کو کام یابی سے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں قانون ہو اور اس قانون پر سختی سے عمل کیا جائے۔ کاش کوئی اس ملک کے وکلا کو کسی عدالتِ فاروقؓ میں لے جا کر پوچھ سکے کہ انہیں سونے کی اینٹوں کے بدلے عام آدمی کی زندگیوں سے کھلنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ آج بظاہر بول کی آواز بند کر کے عارضی خوشیاں منانے والے یا د رکھیں کتنی دہائیوں کے بعد جنرل پنوشے کو عدل و عدالت کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ قانون قدرت ہے۔ میڈیا کی شہہ پر ایگزیکٹ کیس میں سیاسی مداخلت کرنے والے اور سیاسی آقاﺅں کا حقِ راتب ادا کرنے تمام میڈیا سیٹھ ایک نا ایک روز قانون کی گرفت میں ضرور آئیں گے۔ خالقِ کائنات نے روئے زمین پر ایک طبقہ تو ایسا پیدا کیا ہے جو چاہے کسی بھی حالت میں ہو اس کا کام ظلم و زیادتی،کرپشن اور نا انصافی کرنا ہے اور دوسرا طبقہ وہ جو ان ظلم و زیادتیوں اور ناانصافیوں پر کڑھتا ہے، روتا ہے، انہیں بیان کرتا ہے مگر ساتھ ساتھ دونوں ہاتھ اٹھا کر اس کی رحمت اور غضب کی دعا بھی کرتا ہے۔ اور کون جانے کب کس کی دعا قبول ہو جائے۔
کچھ عرصہ پہلے جسٹس افتخار کے بیٹے ارسلان پر لگنے والے الزمات ہوں، جسٹس ڈوگر کی بیٹی کے نمبر بڑھوائے جانے کا شاخسانہ ہو یا ملک کے لیے جائز طریقے سے اربوں روپے زرِ مبادلہ کمانے والی صفِ اول کی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کو بغیر کسی ثبوت اور گواہ کے غیر قانونی طور پر بند کرنے کا غیر قانونی عمل یہ سب ایک ہی کتابِ کرپشن کے الگ الگ باب ہیں جن کی سطریں اس ملک کے عوام کے خون سے لکھی گئی ہیں۔پاکستان میں آزادی صحافت اور صحافیوں کو بہترین طرز زندگی فراہم کرنے کے جرم میں گزشتہ ایک سال سے بول نے جو بد ترین ریاستی مصائب برداشت کیے ہیں انہیں دیکھ کر اگر چہ افتخار عارف کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے کہ: مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے |وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ تا ہم بول ورکرز کی تاریخی جدوجہد ملکی صحافتی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔ ظلم کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو مگر ڈھل کر سحر میں بدل جانا اس کا مقدر ہے اور بہت جلد بول کی بحالی کے ساتھ نہ صرف شعیب شیخ کا خواب پورا ہو گا بلکہ حکومت نے بول ایگزیکٹ کے ساتھ جو ظلم کیے ہیں اسے ایک ایک کر کے ان تمام مظالم کا حساب بھی چکانا ہو گا اور 27 مئی کو منایا جانے والا ’یومِ ظلم‘ تمام بول والوں کے اسی عزم اور یقین کے اعادے کا دوسرا کا نام ہے کہ آزمائش کا وقت گذر چکا ہے اور بہت جلد فتح کے دن کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔
ایگزیکٹ کے چیئرمین اور سی ای او شعیب شیخ یکم ستمبر کو رہا ہو گئے، مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ اس پر پراسرار طور پر بے خبر رہے۔ پورےپاکستان کو شعیب شیخ کی گرفتاری پر ایک ہیجان میں مبتلا کردیا گیا تھا۔ اور اُن کے متعلق ایسی واہیات اور خانہ ساز خبروں کو گھڑ گھڑ کر پھیلایا گیا کہ روشن...
ایگزیکٹ کے سی ای اور شعیب شیخ نے یکم ستمبر کو رہا ہونے کے بعد گزشتہ روز ایگزیکٹ کے دفتر کا اپنی والدہ کے ساتھ دورہ کیا ۔ جہاں تمام ایگزیکٹین موجود تھے۔ شعیب شیخ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں ایگزیکٹ کے ملازمین کو یہ خوشخبری سنائی کہ ابتلا کے پندرہ ماہ میں اُن کے تمام دفاتر اور کارو...
ایگزیکٹ اور بول ٹی وی کے مالک شعیب شیخ اور ان کے 8 ساتھیوں کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔ ان میں شعیب شیخ کے علاوہ وقار عتیق، ذیشان انور اور دیگر بھی شامل ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کو دفعہ 161 کے بیان کی روشنی میں ریلیف نہیں دیا جا سکتا لہٰذا ان کی ضمانت کی درخواست...
گزشتہ ایک برس سے ریاستی اداروں کے ناحق عتاب کا شکار ایگزیکٹ کے خلاف جھوٹے مقدمات کی سماعتوں کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے جانیوالے احکامات کی روشنی میں ایف آئی اے ایگزیکٹ کی عمارتیں خالی کرکے ان کا قبضہ میسرز ایگزیٹ کے نمائندگان کو سونپ دیا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ...
طبیعت میں کسلمندی تھی ، گھرسے نکلنے کا موڈ بالکل نہ تھا مگر یکایک جنوبی افریقہ کا جوان العزم سیاہ فام بشپ دیسمند ٹوٹو(Desmond Tutu) یاد آیا جس نے زندگی غربت اورنسلی تعصب کے خلاف جدوجہد میں گزار دی اور نوبل انعام سمیت چھ عالمی اعزازات اپنے نام کئے ۔ اس نے کہا تھا If you are ne...
سندھ اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی نے بھی بول میڈیا گروپ کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ بدھ کے روز ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی ڈاکٹر مہر تاج روغانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صوبائی اسمبلی نے بول میڈیا گروپ کو غیر قانونی ہتھکنڈوں اور متنازع طریقوں سے جبراً بن...
بول اور ایگزیکٹ کے خلاف رچائے گیے پاکستانی ذرائع ابلاغ کے "سیٹھوں " کا کھیل انتہائی پرپیچ ہے۔ یہ نامعلوم رستوں سے شروع ہو کر معلوم منطقوں میں جب داخل ہوتا ہے تو یہ اندازہ لگانا دشوار ہوتا ہے کہ اس میں کون کون کیا کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟اگرچہ بول کی اب محدود انتظامیہ اپنا سارے مقدم...
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ایک غیر ملکی اخبار کی من گھڑت خبر پر ملک کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی کا میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ ایگزیکٹ اور بول سے متعلق کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا، جس میں بول ٹی وی کی طرف سے نذیر لغاری اور فیصل عزیز خان نے شرکت کی۔ دوران اجلاس سی...
پاکستان میں سرکاری اداروں کو بارسوخ افراد کے ہاتھوں استعمال کرنے کا بھیانک رجحان نوازشریف کے دور حکومت میں آخری حدوں کو چھونے لگا ہے۔ نواز حکومت میں ایگزیکٹ اور بول کوجس طرح شکار کیا گیا ہے، اور اُس میں ایف آئی اے سے لے کر قانونی نظام کی جکڑ بندیوں اور ریاستی طاقت کے جن ذرائع کو ...
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے چیئرمین کامل علی آغا نے کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ بول ٹی وی کے لائسنس کی منسوخی غیر قانونی ہے اور میری نظر میں بول ٹی وی کو این او سی و سیکورٹی کلیئرنس جاری کے بعد واپس لینا درست نہیں جبکہ پیمرا کے قائم مقام چیئرمین کے فیصلے...
بول میڈیا گروپ کو ذرائع ابلاغ کی ایک مافیا اور حکومت نے مل کر جس طرح نشانہ بنایا ہے، وہ دنیا میں اپنی مثال آپ واقعہ ہے۔ اس ضمن میں بول سے متعلق اُن تمام حقائق کو ذرائع ابلاغ میں لانے سے روکا جا رہا ہے۔ سندھ اسمبلی نے گزشتہ دنوں ایک قرارداد کے ذریعے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ...
صحافت کے لئے ایک زبردست نگراں قوت کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ ہرروز ایسے واقعات ہمارے گرد و پیش میں رونما ہورہے ہیں جسے ذرائع ابلاغ غیر جانبدارنہ طور پر رپورٹ کرنے کے بجائے اُس میں فریق بن کر سامنے آتے ہیں۔ وہ کسی بھی مقدمے کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے غیر جانبدارانہ کرد...