... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلی تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ہمارے اور اُن کے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے۔ اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا۔ یہ ان کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔
انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ اور تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے۔
===========
تقدس اور خوش نصیبی کے ان جذبات نے کہ اﷲ نے مجھے یہاں حاضری کی سعادت دی ،میں حیرت و تقدیس کا مارا ،احاطۂ قبلہ اوّل میں، مغلوب کھڑا ہوں ۔حاتم کی باتیں ایک عجب عالم سرشاری میں مجھے سنائی دے رہی ہیں۔یہ اقصی القدیم انبیا کی مسجد ہے یہاں حضرت خضر علیہ السلام بھی مغرب کی نماز پڑھنے آتے ہیں۔وہ مجھے ارد گرد کا محل وقوع سمجھا رہا ہے۔یہ حضرت ابراہیمؑ کا کنواں ہے۔
یہ محراب وہ ہے جسے کے سائے میں آپ اکثر نماز پڑھا کرتے تھے۔یہ محراب وہ ہے جہاں حضرت بی بی مریم ولادت مسیح سے پہلے عبادت فرماتی تھیں،جہاں حضرت ذکریاؑ نے 80 برس کی عمر میں جب بیٹے کے دعا کی تو ان کے ہاں حضرت یحییٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔ یہاں کئی بے اولاد جوڑے عبادت کرنے آتے ہیں۔بہت آہستگی سے میری رگیں اس تقدس کو اپنے آپ سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں جو اس مقام عالی سے منسوب ہے۔میرا ارادہ ہے کہ میں دھیمے دھیمے اس تاثر کو اپنے اندر مزید سموں لوں مگر حاتم اس پر رضامند نہیں۔ ہمیں یہاں سے جلد رخصت ہوجانا چاہیے، ہمیں کیا پتہ یہاں آنے والی اگلی ہستی کون ہے؟اس کا لہجہ راز دارنہ اور انداز کچھ کچھ پرا سرار ساہے ۔ایسا جیسا کسی ایوان اقتدار سے جڑے اُن مقربین کا ہوتا ہے جو آنے جانے والوں کے مقام اثر و رسوخ کو سمجھتے تو ہوں مگر شرکت رازداری سے محروم ہوں۔
میرے پاس اس کی بات ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔میں بوجھل قدموں اور الجھی ہوئی سانسوں سے کسی مریض قلب کی مانند سیڑھیاں چڑھتا ہوا اس کے پیچھے چل پڑتا ہوں۔ وہ صخرہ ( وہ چٹان جہاں سے رسول اکرم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے اور جس کے اوپر وہ مشہور سنہری گنبد موجود ہے جو جابجا تصاویر میں دکھائی دیتا ہے ) کی جانب جانے سے پہلے احاطے کے مختلف مقامات کی جانب مجھے لے جارہا ہے۔یہ جو ایک اکھاڑہ(amphitheatre ) آپ دیکھ رہے ہیں جس کے ساتھ دو بڑے بڑے قدیم کمرے ہیں۔ یہ وہ قید خانہ ہے جہاں کسی شیطان جن سے حضرت داؤد علیہ السلام نے کشتی کرکے اسے پچھاڑا تھا اور پھر ان میں اسے قید رکھاتھا۔یہ جن ایک لوک داستان کے بموجب تین دن بعد کسی گارڈ کو رشوت دے کر قید سے فرار ہوگیا۔
چلتے چلتے ہم ایک اور شکستہ گنبد کے نیچے آگئے ۔اس پر گھاس اُگی ہے اور بے ترتیب ٹہنیاں ادھر ادھر سے نکل آئی ہیں۔یہاں حضرت سلیمانؑ کی نشست ہوتی تھی ۔ یہیں ان کا انتقال ہوا تھا۔یہیں وہ عصا تھامے کھڑے تھے کہ ان کے اس عصا کو دیمک کھاگئی اور وہ کھڑے کھڑے گر پڑے یہ منظر دیکھ کر وہ جن جو اس عمارت کی تعمیر میں مصروف تھے اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ ان پر حکومت کرنے والے نبی اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ وہ فرار ہوکر قریبی کوہ عزازیل پر پہنچ گئے۔
سیدنا سلیمان ؑ سے پہلے جنوں اور انسانوں کے نبی جدا جدا ہوتے تھے۔ سیدنا سلیمان ؑ سے ہمارے پیارے نبیﷺ تک تمام مخلوق کے ایک ہی نبی رہے۔اسی لئے ہمارے نبیﷺ کو وہ مقام رفعت عطا ہوا کہ آپ کو رحمتہ اللعالمین کے شاندار لقب سے پکارا گیا۔ تمام جنوں کو ہدایات کا پیغام لینے کے لیے انسانوں کے نبیوں اور رسولوں کے اتباع کا حکم دیا گیا۔ میں نے جلدی سے پوچھ لیا کہ سیدنا سلیمانؑ کا مزار مبارک کون سا ہے؟
اس کا جواب کوئی وثوق سے نہیں دے سکتا ۔ بہت سے لوگوں کا گمان ہے کہ ان کا مدفن اسی احاطے میں موجود ہے۔ میری اپنی برسوں کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ وہ اس احاطے میں مدفون ہیں جو مسجد الاقصی اور مسجد براق کا درمیانی صحن ہے۔اہل یہود البتہ مُصر ہیں کہ وہ حضرت داؤد ؑ کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔مجھے لگا کہ حاتم کو واقعی ان اردگرد کی عمارات اور دین سے متعلق بہت معلومات ہیں۔
یہ مسجد براق کہاں ہے؟میرے سوال کے جواب میں وہ مجھے جلدی جلدی ایک طرف لے جانے لگا مگر ایک دم ایک چھوٹی سی رہائشی عمارت کے پاس رک گیا۔آپ انہیں حجرے کہہ لیں ۔یہ شاید کسی زمانے میں ملازمین کے کوارٹر ہوں گے۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں ۔جہاں امام غزالی نے اپنی شہر ہ آفاق کتاب احیائے العلوم تخلیق کی ۔یہ بے نشاں کمرے، امام غزالی جیسا عالم بے مثال، احیائے العلوم جیسی مستند کتاب اور پھر وہی سورۃ الاسرا کی پہلی آیت ،ہمارے نبی محترم محمد ﷺ کامسجد الحرام سے مسجد الاقصی کا ساڑھے سات سو میل کا اس دور کا سفر جو ایک رات میں طے ہوا ،انہیں اپنی چند نشانیاں دکھانا اور یہ بھی انکشاف کہ اس کے اردگرد کے ماحول میں بڑی برکات ہیں۔ مجھے پختہ ایمان آگیا کہ یقینا یہ کوئی معمولی جگہ نہیں۔
ہم ایک مرتبہ پھر اقصیٰ کے صحن سے گزر کے ایک اور جانب بڑھ گئے۔ایک بہت بڑے خالی احاطے کی جانب اس نے اشارہ کیا کہ یہود انہیں حضرت سلیمانؑ کا اصطبل کہتے ہیں۔یہ سراسر لغو ہے۔ میرے اندازے کے مطابق حضرت سلیمان ؑیہیں کہیں مدفون ہیں۔ جب عید اور جمعہ کے دن نماز کے لیے مسجد اقصیٰ بھر جاتی ہے تو یہاں بھی نمازیوں کے لیے صفیں بچھا دی جاتی ہیں۔
یہاں سے آگے بڑھ کر دو سو میٹر بائیں جانب جا کر ہم ایک تنگ سے زینے کے پاس جاپہنچے۔یہ زینہ بہت آہستگی سے مسجد براق کی جانب اتر جاتا ہے۔ویسے تو اس مسجد کو بھی اقصی القدیم ہی میں شمار کیا جاتا ہے مگرعثمانی خلافت کے زمانے میں یہاں نہ جانے کیوں ایک دیوار کھینچ کر دونوں کو علیحدہ کردیا گیا۔یہ مسجد وہ مقام ہے جہاں آپ ﷺ نے اپنی سواری براق کو مکہ المکرمہ سے یروشلم آمد پر باندھا تھا۔وہ یہاں سے جب پچاس میٹر کے لگ بھگ آگے بڑھے تو 25 جلیل القدر انبیا کی ایک تعداد نے آپ کا استقبال کیا۔ایک ایسا لوہے کا رنگ آج بھی یہاں دیوار میں نصب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہی وہ کھونٹا ہے جس سے براق کو باندھا گیا تھا۔ مسجد کے دائیں ہاتھ والی اس دیوار کی عین پشت پر یہودیوں کی دیوار گریہ واقع ہے۔ میں نے یہاں دو رکعت نفل پڑھیں اور بہت خاموشی سے اس کھونٹے کے نیچے بیٹھ گیا۔اتنی ساری تاریخ جو براہ راست میرے عقیدے اور میرے نبی محترمﷺ کے حوالے سے مجھ تک اس قدر سرعت سے بڑھی چلی آرہی تھی اس کے بارے میں دھیمے دھیمے میں نے سوچنا شروع کیا ۔مجھے لگا کہ حاتم کو کم از کم یہاں سے باہر لے جانے کی کوئی عجلت نہیں۔ میرا اندازہ درست نکلا مجھ سے ایک مختصر سی اجازت لے کر وہ غائب ہوگیا۔ تیس منٹ بعد جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ عرب تھا۔ یہ عبدالرحمن ہیں،اس مسجد کے منتظم ۔ان کا حال ہی میں دل کا آپریشن ہوا ہے ۔ان کی طبیعت پچھلے چند دنوں سے ٹھیک نہیں۔ میں نے سوچا کہ آپ کی موجودگی کا بطور ہارٹ اسپیشلسٹ فائدہ اٹھا لیں۔ میں نے بہت توجہ سے ان کا عارضہ سنا۔ مشکلات کا احوال جان کر انہیں کچھ مفید اور تسکین بخش مشورے دیے۔ ویسے تو اسے طبی اصطلاح میں placebo یعنی غیر طبی تسلی کہا جاتا ہے مگر اس کا مریض پر بہت خوشگوار اثر بھی ہوتا ہے۔ اکثر دل بھی پتنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ پتنگ بازی کی اصطلاح میں ہوا میں آجائیں تو خود بہ خود اڑنے لگتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ ہمارے بزرگ عبدالرحمن صاحب کا بھی ہوا۔میرے تجویز کردہ placebo کے بعد چہکنے لہکنے لگے۔فوراً ہی عربی کافی لینے دوڑ پڑے ۔کافی کی گرماہٹ اور خلوص کی خوشبو کے زیر اثر میں نے ایک ایسا بابِ الفت بلا سوچے سمجھے کھول دیا جو میرے مزاج اور پیشہ ورانہ تربیت سے بہت الگ اورہٹ کر ہے۔
میں نے انہیں پیشکش کردی کہ میں مزید سات دن یہاں ہوں۔کسی مفت طبی مشورے یا معالجے کی ضرورت ہو تو مت ہچکچانا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کو بہ کو پھیل گئی بات مسیحائی کی۔ یوم رخصتی تک ہر دن بیس سے چالیس مریض مسجد الاقصی میں دل و جگر تھامے میرے منتظر ہوتے تھے۔ میں انہیں مسجد الاقصیٰ کے باہر ایک چھوٹے سے کمرے میں مفت طبی مشورے دیتا تھا اور قیمتی دعائیں بطور معاوضہ مجھے ملا کرتی تھیں۔ یہ تشخیص ، یہ معالجے، یہ مشورے ، کہاں میں ،کہاں یہ مقام، اﷲ اﷲ !! اب مڑکر دیکھوں تو یہ مجھے اپنے طبی کیرئیر کی معراج لگتے ہیں۔ایسی پیشہ ورانہ تسکین اس سے پہلے مجھے کبھی محسوس نہیں ہوئی۔
عبدالرحمن کی کافی کے فوراً بعد جب ہم مسجد البراق سے باہر نکلے توقبۃ الصخریٰ جگمگارہا تھا۔اس کی شاندار عمارت سے ایک غرور فاتحانہ عیاں تھا۔ مشہور مسلمان سیاح ابن بطوطہ بھی یہاں آیا تھا اس نے اس عمارت کے لیے 14ویں صدی میں لکھا تھا،’’اس کا غیر معمولی حسن، اس کی پختگی،اس کا وقار اور اس کی تعمیر میں وحدانیت کا تاثر اپنی مثال آپ ہے۔اس کی اندرونی اور بیرونی سجاوٹ ناقابل بیاں ہے۔اس کی تعمیر میں سونے کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔جو بھی اسے دیکھتا ہے، مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے ۔ کبھی اس کے گرد بجلیاں کوندتی محسوس ہوئی ہیں تو کبھی یہ ایک بقعۂ نور محسوس ہوتی ہے۔(جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...