... loading ...
۲۱ مئی پاکستان اور چین کے درمیان باہم تعلقات کی شاندار مثال کے ۶۵ سال مکمل ہونے کا دن ہے۔ باہم شراکت داری کے اس بے مثال سفر کی بنیاد باہمی احترام ، ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور تعاون پرہے۔ بلاشبہ ساڑھے چھ عشروں پر محیط یہ تعلقات نہ صرف وقت کے ساتھ آنے والی بہت سی تبدیلیوں کے باوجود مستحکم رہے ہیں بلکہ اس تعلق میں زیادہ سے زیادہ مضبوطی آتی جارہی ہے۔
گو IPS کے تحقیقی پروگرام میں پاک چین تعلقات شروع ہی سے اہمیت کا عنوان رہے ہیں لیکن ۲۱ویں صدی کے آغاز میں جب چین ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر سامنے آیا اور اس کی سیاسی قوت میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا تو IPS نے ان تعلقات کو مضبوط تر بنانے ، ان کا دائرہ وسیع کرنے اور ان میں ہمہ پہلو گہرائی لانے کے لیے مسلسل مختلف اقدامات تجویز کیے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خاص طور پر پچھلے عشرے سے، دونوں ممالک کی قیادت نے ان تعلقات کی وسعت اور مضبوطی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے بہت سے اداراتی اور بنیادی ڈھانچوں پرمبنی کاموں کا آغاز کیا ہے۔اقتصادی ترقی کے لیے پانچ سالہ فریم ورک کا معاہدہ ، توانائی کے شعبے میں تعاون کافریم ورک، آزاد تجارت کامعاہدہ، کرنسی تبادلہ کاپروگرام وہ اقدامات ہیں جنہوں نے اقتصادی راہداری جیسے عظیم منصوبے کے لیے راہ ہمورا کی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبے کو بجاطورپر پانسہ پلٹ دینے والا منصوبہ (game changer) کہاجارہا ہے، اس حوالہ سے ہم یہ فخرمحسوس کرتے ہیں کہ IPS ان اداروں میں شامل ہے جنہوں نے ان تعلقات کے ۶۰سال پورے ہونے پر ۲۰۱۱ ء میں ہی اس ویژن کو متعارف کرایاتھا۔ اس موضوع پر چین کے دو اہم اداروں کے ساتھ منعقدہ کانفرنس کی نمایاں تجاویز میں کہا گیا تھا کہ ’’ ۔۔۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ دوستی کی اس روح کوآئندہ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل کریں۔ آنے والے عشروں کی منصوبہ بندی کریں اور تعاون کے روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ نئے مواقع بھی تلاش کریں‘‘۔
ہم نے خاص طور پرواضح کیا تھا کہ ’’ ۔۔۔ چین کی پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری سے اگر پاکستان فائدہ اٹھا رہا ہے، تو چین کو بھی سرمایہ کاری اور توانائی کی اس گزرگاہ سے بے پناہ فائدہ ہوگا جو پاکستان اسے مہیا کر رہا ہے۔ خاص طورپر چین کے مغربی علاقے کے لیے۔‘‘ ہم نے یہ بھی زور دیا تھا کہ ’’ معلومات اور کمیونیکیشن کے ایسے ذرائع بنائے جائیں جو ہموار، محفوظ اور تیزرفتا ر ہوں۔ نیز یہ کہ ترقی یافتہ اور کم لاگت والے ذرائع آمدورفت اور اقتصادی ڈھانچے میں ترقی بھی ضروری ہے‘‘۔
بظاہر تو CPECدوطرفہ معاملہ ہے ، لیکن آنے والے وقتوں میں علاقائی اور عالمی سطح پر جیوپالیٹکس تناظر میں اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔ یہ چین کے دوبڑے منصوبوں OBOR (ایک پٹی، ایک سڑک) کے لیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے مشرق وسطیٰ ، خلیج اور افریقہ اور جنوبی اور وسط ایشیا کے مابین آسان، کم لاگت اور تیز رفتاردوطرفہ رابطے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ افغانستان، ایران اور بھارت کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ہونے والی ترقی ان ملکوں کے ساتھ تعلقات پربھی اثرانداز ہوگی جبکہ چین اور وسط ایشیا تو براہ راست اس سے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس قدر ہمہ پہلو، عظیم اور طویل المدتی منصوبے کے لیے مالی، سیاسی اور سماجی طور پر ایک بڑی سرمایہ کاری اور اداراتی نظام بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب خطے کی مجموعی سیکوریٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ سیکوریٹی کی صورت حال کو بھی ایک چیلنج سمجھا جارہا ہے جو اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس منصوبے کی جزئیات پراتفاق رائے کے مسائل اور خود پاکستان اور چین کے درمیان جزئیات پراختلافات کو اس منصوبے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے دلائل کے طورپر پیش کیاجاتا ہے۔ کچھ لوگ تو اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ چینی دوستوں کی نیت پرہی شبہ کرنے لگتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی چیلنج کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے تاہم واقعات وحقائق کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر جو لوگ سیکوریٹی کی صورت حال پر سوال اٹھاتے ہیں وہ بڑی آسانی سے یہ بات بھلا دیتے ہیں کہ جب اس منصوبے کے بارے میں سوچا گیا اور پہلی مرتبہ اس کا اعلان کیاگیا تو سیکوریٹی کی صورتحال اس سے کہیں بدتر تھی جیسی کہ آج ہے۔ وہ یہ بھی نظرانداز کردیناچاہتے ہیں کہ جنگجوؤں کے خلاف جاری حالیہ آپریشنز نے یقینا ان کی صلاحیت میں کمی کر دی ہے۔ مزید یہ کہ ایک سپیشل سیکورٹی ڈویژن بھی بنایا جارہا ہے جو اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلقہ معاملات کی خاص طورپر دیکھ بھال کرے گا۔
اسی طرح بظاہر سیاسی اتارچڑھاؤ بھی پاکستان کے حالات کے تناظر میں ایک معمول کاعمل ہی قرار دیناچاہیے۔یہ بات اس وقت چھپی ہوئی نہیں تھی جب اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان ہوا تھا ۔پاکستان کے سیاسی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، کسی بھی کام کے آغاز کے لیے خاص طورپر جس میں بہت کچھ داؤ پر لگاہو، عوامی بحث ومباحثے کو کوئی بہت غیرمعمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے ۔
اسی طرح خطے کے پرانے تنازعات اور اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس قسم کے خدشات غیرمتوقع نہیں کہ دونوں ممالک کے حریف اسے ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ بظاہر ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ ایسے واقعات ہوں جو خواہ بظاہر CPEC سے براہ راست متعلق نہ ہوں لیکن مجموعی طور پر عدم استحکام کا تاثر پیدا کرسکیں۔ اس طرح منصوبے کے تحفظ، استحکام اور سیکوریٹی کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں۔نتیجتاً غلط فہمیاں پیدا ہوں اور متنازعہ امور پر بحث ومباحثے شروع کراکرجودونوں ممالک کے اندراوردونوں ممالک کے مابین بھی تقسیم یا عدم اعتماد پیدا کرسکتے ہیں ، فضا کو خراب کیاجاسکتا ہے۔
چنانچہ ملک کے اندر اور آس پاس ہونے والے واقعات میں ، جو بظاہر انفرادی دکھائی دیتے ہیں باہمی ربط سمجھنا مشکل نہیں رہتا ۔ اس حقیقت کاادراک یقینی طورپر اس صورتحال سے نمٹنے کا حل بھی پیش کرتا ہے یعنی دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد کویقین کی حدتک قائم رکھا جائے۔ عمل درآمد کے میدان میں جہاں ہر ہرشعبہ توجہ کا متقاضی ہے، وہاں سب سے اہم باہمی اعتماد کی روح ہے جس کا تحفظ ہونا چاہیے اور اسے مزید بڑھانا چاہیے۔
عملی اعتبار سے یہ ’مرغی پہلے یا انڈہ ‘والامعاملہ ہے۔ کوئی بھی انفرادی واقعہ یا انفرادی واقعات کا کوئی سلسلہ منفی یا مثبت کسی بھی اعتبار سے عوامی رائے اور اقتصادی راہداری منصوبے کے تحفظ پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ہمہ جہتی اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ غیرمتوقع خطرات کابھی مقابلہ کیاجاسکے۔
منشیات اور انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہوں سے نمٹنے کی حکمت عملی اس تناظرمیں سمندری حدود سے متعلقہ امور کی دیکھ بھال بھی بہت اہم ہے۔ قدرتی آفات سے تحفظ اور ان آفات سے بروقت نمٹنے کی صلاحیت پیداکرنا، اگرچہ safety network کاحصہ ہے لیکن اسے سیکوریٹی کی منصوبہ بندی کے ساتھ مربوط ہوناچاہیے ۔ا سی طرح ملک میں سیاسی احتجاج کے لیے آمدورفت اور کمیونیکیشن کے اہم ذرائع کو روک دینے اور سڑکوں کو بند کردینے کے رجحان کو بھی روکا جانا چاہیے۔ یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ KKH اور اسی طرح کے دوسر ے مقامات سیاسی مطالبات کو منوانے کے لیے استعمال نہ کیے جائیں۔
دوسری جانب تمام شراکت داروں کو کسی بھی ناپسندیدہ یا غیرمتوقع صورت حال پیش آنے کی صورت میں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ یہ ضروری ہے کہ نظریات کوبدلنے یا اس پرقائم رکھنے کے لیے نئے نئے مواقع کی موجودگی میں جغرافیائی سیاست پرمستقل نظر رکھی جائے جو آج کی دنیا میں جنگ کی بنیادی حکمت عملی بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سفارت کاری، پراکسی وار، ملک کواندرونی طور پر کمزور کرنے اور ملک کے اندر تعلقات خراب کرنے کے لیے سافٹ پاور کے استعمال پربھی نظررہنی چاہیے۔
اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے پروپیگنڈے پرمبنی خیالات کو پیش کیے جانے کا بھی توڑ نکالاجائے۔ ہمیں اس بات کااحساس کرنے کی ضرورت ہے کہ ساحلی علاقے ، خاص طور پر گوادر کاضلع یا اسی طرح CPEC منصوبے سے متعلقہ بہت سے علاقے، جن میں گلگت ، بلتستان بھی شامل ہیں ،پاکستان کے انتہائی غیرترقی یافتہ علاقوں میں شامل ہیں۔ان علاقوں میں صحت،تعلیم، روزگار کی فوری فراہمی اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کی تربیت کے ذریعے بہت سے غلط مفروضوں کو دُور کرنے میں مدد ملے گی۔ مختلف پروجیکٹس پر کام کرنے والی کمپنیوں کو یہ ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے متعلقہ علاقوں میں CSR کے تحت مقامی کلچر اور روایات سے مطابقت رکھنے والے منصوبوں پرکام کریں۔
اقتصادی راہداری منصوبے پرکام آگے بڑھانے کے لیے باقاعدہ اور مربوط پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مہمات بھی ہونی چاہییں۔ میڈیا سے متعلق حکمت عملی بناتے وقت اس منصوبے سے متعلق منفی رپورٹنگ اور تجزیے کافوری اور بروقت نوٹس،مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔ اہل عقل ودانش اوررائے سازوں کوعمومی اور باقاعدہ آگاہی دیتے وقت شفافیت بھی مثبت عمل کوپروان چڑھانے اور منفی باتوں کامقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
اس تناظر میں یہ بات قابل اطمینان ہے کہ رائے عامہ کے تمام ہی جائزے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں چین کے متعلق رائے عامہ مثبت اور اعتماد پرمبنی ہے۔ PEW رپورٹ (نومبر۲۰۱۵) کے مطابق ۸۶فیصد پاکستانی چین کے متعلق مثبت رویہ رکھتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف ۲۰۱۵ء تک مخصوص نہیں ہے، درحقیقت یہ ۲۰۰۵ء سے ایسا ہی ہے جب PEW نے اس سوال پر اپنا سروے شروع کیاتھا۔
پاکستان اور چین کی ہمالیہ سے بلند ہوتی ہوئی دوستی کی جڑیں نہ صرف تاریخ میں موجود اورتجربات میں پیوست ہیں بلکہ مستقبل کے امکانا ت میں بھی پنہاں ہیں،کئی ایک ملکوں کے سینوں پر مونگ دلتی چلی آرہی ہے ۔وہ جن کا خیال ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں اور روایتی دوستوں کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے تع...
چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...
پاکستان میں میری ٹائم کے مواقع سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں 200 ناٹیکل میل کے اندر 1000 کلو میٹر کے علاقے میں معدنیات ، سمندری خوراک کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ یہ علاقہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کل رقبے سے بھی زیاد...
پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ’ذمہ داریوں کی یادداشت‘ (میمورینڈم آف آبلیگیشنز) پر دستخط کرکے تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل کر لی۔تفصیلات کے مطابق تاشقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں چھ رکن ممالک کے وزرائے خارجہ ، تنظیم کے سیکریٹری جنرل او...
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں آئندہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں سینئر ماہرین اقتصادیات نے پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب اعداد و شمار میں حکومت اور آئی ایم ایف کی غلط بیانیوں کو قرار دیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئندہ...
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اقتصادی راہداری منصوبے کو عوام کی زندگی بدلنے کا حامل قراردیتے ہوئے اس کی حفاظت کے لئے پاک فوج کے عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے سی پیک اسپیشل سیکورٹی ڈویژ...
چین میں خارجہ پالیسی کی اہم ترین آوازوں میں سے ایک کا کہنا ہےکہ چین کے اتحادی بہت کم ہیں اور حقیقت میں صرف ایک ملک ہے جو چین کا حقیقی اتحادی ہے، وہ ہے پاکستان۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں بیجنگ کی سنگ ہوا یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ڈائریک...
وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت پاک چین اقتصادی راہداری پر پیدا ہونے والے تحفظات کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبوں کی مشاورت سے راہداری منصوبے کا مغربی روٹ جولائی 2018 تک مکمل کرلیا جائے گا۔جبکہ وزیراعظم کی زیرصدارت ایک اسٹیئرنگ کمیٹی بھی قا...
پاک-چین اقتصادی راہداری کے قیام کے سلسلے ایک اہم قدم پاکستان میں نئے ریل راستوں کی تعمیر اور پرانے ٹریکس کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق حکومت نے ان دونوں کام اہم کاموں کے لیے منصوبہ تیار کرلیا ہے جس کے تحت گوادر سے کوئٹہ اور جیکب آباد تک نیا ریلوے ٹریک بھی بچھا...