وجود

... loading ...

وجود

پاک چین تعلقات اور اقتصادی راہداری: درپیش چیلنجز اورحفاظتی اقدامات

هفته 21 مئی 2016 پاک چین تعلقات اور اقتصادی راہداری: درپیش چیلنجز اورحفاظتی اقدامات

khunjerab-pass

۲۱ مئی پاکستان اور چین کے درمیان باہم تعلقات کی شاندار مثال کے ۶۵ سال مکمل ہونے کا دن ہے۔ باہم شراکت داری کے اس بے مثال سفر کی بنیاد باہمی احترام ، ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور تعاون پرہے۔ بلاشبہ ساڑھے چھ عشروں پر محیط یہ تعلقات نہ صرف وقت کے ساتھ آنے والی بہت سی تبدیلیوں کے باوجود مستحکم رہے ہیں بلکہ اس تعلق میں زیادہ سے زیادہ مضبوطی آتی جارہی ہے۔

گو IPS کے تحقیقی پروگرام میں پاک چین تعلقات شروع ہی سے اہمیت کا عنوان رہے ہیں لیکن ۲۱ویں صدی کے آغاز میں جب چین ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر سامنے آیا اور اس کی سیاسی قوت میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا تو IPS نے ان تعلقات کو مضبوط تر بنانے ، ان کا دائرہ وسیع کرنے اور ان میں ہمہ پہلو گہرائی لانے کے لیے مسلسل مختلف اقدامات تجویز کیے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ خاص طور پر پچھلے عشرے سے، دونوں ممالک کی قیادت نے ان تعلقات کی وسعت اور مضبوطی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے بہت سے اداراتی اور بنیادی ڈھانچوں پرمبنی کاموں کا آغاز کیا ہے۔اقتصادی ترقی کے لیے پانچ سالہ فریم ورک کا معاہدہ ، توانائی کے شعبے میں تعاون کافریم ورک، آزاد تجارت کامعاہدہ، کرنسی تبادلہ کاپروگرام وہ اقدامات ہیں جنہوں نے اقتصادی راہداری جیسے عظیم منصوبے کے لیے راہ ہمورا کی ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبے کو بجاطورپر پانسہ پلٹ دینے والا منصوبہ (game changer) کہاجارہا ہے، اس حوالہ سے ہم یہ فخرمحسوس کرتے ہیں کہ IPS ان اداروں میں شامل ہے جنہوں نے ان تعلقات کے ۶۰سال پورے ہونے پر ۲۰۱۱ ء میں ہی اس ویژن کو متعارف کرایاتھا۔ اس موضوع پر چین کے دو اہم اداروں کے ساتھ منعقدہ کانفرنس کی نمایاں تجاویز میں کہا گیا تھا کہ ’’ ۔۔۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ دوستی کی اس روح کوآئندہ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل کریں۔ آنے والے عشروں کی منصوبہ بندی کریں اور تعاون کے روایتی طریقوں کے ساتھ ساتھ نئے مواقع بھی تلاش کریں‘‘۔

ہم نے خاص طور پرواضح کیا تھا کہ ’’ ۔۔۔ چین کی پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری سے اگر پاکستان فائدہ اٹھا رہا ہے، تو چین کو بھی سرمایہ کاری اور توانائی کی اس گزرگاہ سے بے پناہ فائدہ ہوگا جو پاکستان اسے مہیا کر رہا ہے۔ خاص طورپر چین کے مغربی علاقے کے لیے۔‘‘ ہم نے یہ بھی زور دیا تھا کہ ’’ معلومات اور کمیونیکیشن کے ایسے ذرائع بنائے جائیں جو ہموار، محفوظ اور تیزرفتا ر ہوں۔ نیز یہ کہ ترقی یافتہ اور کم لاگت والے ذرائع آمدورفت اور اقتصادی ڈھانچے میں ترقی بھی ضروری ہے‘‘۔

بظاہر تو CPECدوطرفہ معاملہ ہے ، لیکن آنے والے وقتوں میں علاقائی اور عالمی سطح پر جیوپالیٹکس تناظر میں اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔ یہ چین کے دوبڑے منصوبوں OBOR (ایک پٹی، ایک سڑک) کے لیے بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے ؂مشرق وسطیٰ ، خلیج اور افریقہ اور جنوبی اور وسط ایشیا کے مابین آسان، کم لاگت اور تیز رفتاردوطرفہ رابطے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ افغانستان، ایران اور بھارت کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ہونے والی ترقی ان ملکوں کے ساتھ تعلقات پربھی اثرانداز ہوگی جبکہ چین اور وسط ایشیا تو براہ راست اس سے جڑے ہوئے ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس قدر ہمہ پہلو، عظیم اور طویل المدتی منصوبے کے لیے مالی، سیاسی اور سماجی طور پر ایک بڑی سرمایہ کاری اور اداراتی نظام بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب خطے کی مجموعی سیکوریٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام اور بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ سیکوریٹی کی صورت حال کو بھی ایک چیلنج سمجھا جارہا ہے جو اہداف کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس منصوبے کی جزئیات پراتفاق رائے کے مسائل اور خود پاکستان اور چین کے درمیان جزئیات پراختلافات کو اس منصوبے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے دلائل کے طورپر پیش کیاجاتا ہے۔ کچھ لوگ تو اس حدتک چلے جاتے ہیں کہ چینی دوستوں کی نیت پرہی شبہ کرنے لگتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی چیلنج کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے تاہم واقعات وحقائق کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر جو لوگ سیکوریٹی کی صورت حال پر سوال اٹھاتے ہیں وہ بڑی آسانی سے یہ بات بھلا دیتے ہیں کہ جب اس منصوبے کے بارے میں سوچا گیا اور پہلی مرتبہ اس کا اعلان کیاگیا تو سیکوریٹی کی صورتحال اس سے کہیں بدتر تھی جیسی کہ آج ہے۔ وہ یہ بھی نظرانداز کردیناچاہتے ہیں کہ جنگجوؤں کے خلاف جاری حالیہ آپریشنز نے یقینا ان کی صلاحیت میں کمی کر دی ہے۔ مزید یہ کہ ایک سپیشل سیکورٹی ڈویژن بھی بنایا جارہا ہے جو اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلقہ معاملات کی خاص طورپر دیکھ بھال کرے گا۔

اسی طرح بظاہر سیاسی اتارچڑھاؤ بھی پاکستان کے حالات کے تناظر میں ایک معمول کاعمل ہی قرار دیناچاہیے۔یہ بات اس وقت چھپی ہوئی نہیں تھی جب اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان ہوا تھا ۔پاکستان کے سیاسی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، کسی بھی کام کے آغاز کے لیے خاص طورپر جس میں بہت کچھ داؤ پر لگاہو، عوامی بحث ومباحثے کو کوئی بہت غیرمعمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے ۔

اسی طرح خطے کے پرانے تنازعات اور اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس قسم کے خدشات غیرمتوقع نہیں کہ دونوں ممالک کے حریف اسے ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ بظاہر ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ ایسے واقعات ہوں جو خواہ بظاہر CPEC سے براہ راست متعلق نہ ہوں لیکن مجموعی طور پر عدم استحکام کا تاثر پیدا کرسکیں۔ اس طرح منصوبے کے تحفظ، استحکام اور سیکوریٹی کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کیے جائیں۔نتیجتاً غلط فہمیاں پیدا ہوں اور متنازعہ امور پر بحث ومباحثے شروع کراکرجودونوں ممالک کے اندراوردونوں ممالک کے مابین بھی تقسیم یا عدم اعتماد پیدا کرسکتے ہیں ، فضا کو خراب کیاجاسکتا ہے۔

چنانچہ ملک کے اندر اور آس پاس ہونے والے واقعات میں ، جو بظاہر انفرادی دکھائی دیتے ہیں باہمی ربط سمجھنا مشکل نہیں رہتا ۔ اس حقیقت کاادراک یقینی طورپر اس صورتحال سے نمٹنے کا حل بھی پیش کرتا ہے یعنی دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد کویقین کی حدتک قائم رکھا جائے۔ عمل درآمد کے میدان میں جہاں ہر ہرشعبہ توجہ کا متقاضی ہے، وہاں سب سے اہم باہمی اعتماد کی روح ہے جس کا تحفظ ہونا چاہیے اور اسے مزید بڑھانا چاہیے۔

عملی اعتبار سے یہ ’مرغی پہلے یا انڈہ ‘والامعاملہ ہے۔ کوئی بھی انفرادی واقعہ یا انفرادی واقعات کا کوئی سلسلہ منفی یا مثبت کسی بھی اعتبار سے عوامی رائے اور اقتصادی راہداری منصوبے کے تحفظ پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ہمہ جہتی اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ غیرمتوقع خطرات کابھی مقابلہ کیاجاسکے۔

منشیات اور انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہوں سے نمٹنے کی حکمت عملی اس تناظرمیں سمندری حدود سے متعلقہ امور کی دیکھ بھال بھی بہت اہم ہے۔ قدرتی آفات سے تحفظ اور ان آفات سے بروقت نمٹنے کی صلاحیت پیداکرنا، اگرچہ safety network کاحصہ ہے لیکن اسے سیکوریٹی کی منصوبہ بندی کے ساتھ مربوط ہوناچاہیے ۔ا سی طرح ملک میں سیاسی احتجاج کے لیے آمدورفت اور کمیونیکیشن کے اہم ذرائع کو روک دینے اور سڑکوں کو بند کردینے کے رجحان کو بھی روکا جانا چاہیے۔ یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ KKH اور اسی طرح کے دوسر ے مقامات سیاسی مطالبات کو منوانے کے لیے استعمال نہ کیے جائیں۔

دوسری جانب تمام شراکت داروں کو کسی بھی ناپسندیدہ یا غیرمتوقع صورت حال پیش آنے کی صورت میں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ یہ ضروری ہے کہ نظریات کوبدلنے یا اس پرقائم رکھنے کے لیے نئے نئے مواقع کی موجودگی میں جغرافیائی سیاست پرمستقل نظر رکھی جائے جو آج کی دنیا میں جنگ کی بنیادی حکمت عملی بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سفارت کاری، پراکسی وار، ملک کواندرونی طور پر کمزور کرنے اور ملک کے اندر تعلقات خراب کرنے کے لیے سافٹ پاور کے استعمال پربھی نظررہنی چاہیے۔

اقتصادی راہداری منصوبے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے پروپیگنڈے پرمبنی خیالات کو پیش کیے جانے کا بھی توڑ نکالاجائے۔ ہمیں اس بات کااحساس کرنے کی ضرورت ہے کہ ساحلی علاقے ، خاص طور پر گوادر کاضلع یا اسی طرح CPEC منصوبے سے متعلقہ بہت سے علاقے، جن میں گلگت ، بلتستان بھی شامل ہیں ،پاکستان کے انتہائی غیرترقی یافتہ علاقوں میں شامل ہیں۔ان علاقوں میں صحت،تعلیم، روزگار کی فوری فراہمی اور اس کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کی تربیت کے ذریعے بہت سے غلط مفروضوں کو دُور کرنے میں مدد ملے گی۔ مختلف پروجیکٹس پر کام کرنے والی کمپنیوں کو یہ ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے متعلقہ علاقوں میں CSR کے تحت مقامی کلچر اور روایات سے مطابقت رکھنے والے منصوبوں پرکام کریں۔

اقتصادی راہداری منصوبے پرکام آگے بڑھانے کے لیے باقاعدہ اور مربوط پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مہمات بھی ہونی چاہییں۔ میڈیا سے متعلق حکمت عملی بناتے وقت اس منصوبے سے متعلق منفی رپورٹنگ اور تجزیے کافوری اور بروقت نوٹس،مرکزی نکتہ ہونا چاہیے۔ اہل عقل ودانش اوررائے سازوں کوعمومی اور باقاعدہ آگاہی دیتے وقت شفافیت بھی مثبت عمل کوپروان چڑھانے اور منفی باتوں کامقابلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

اس تناظر میں یہ بات قابل اطمینان ہے کہ رائے عامہ کے تمام ہی جائزے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں چین کے متعلق رائے عامہ مثبت اور اعتماد پرمبنی ہے۔ PEW رپورٹ (نومبر۲۰۱۵) کے مطابق ۸۶فیصد پاکستانی چین کے متعلق مثبت رویہ رکھتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف ۲۰۱۵ء تک مخصوص نہیں ہے، درحقیقت یہ ۲۰۰۵ء سے ایسا ہی ہے جب PEW نے اس سوال پر اپنا سروے شروع کیاتھا۔


متعلقہ خبریں


پاک چین دوستی زندہ باد!!! شیخ امین - اتوار 18 ستمبر 2016

پاکستان اور چین کی ہمالیہ سے بلند ہوتی ہوئی دوستی کی جڑیں نہ صرف تاریخ میں موجود اورتجربات میں پیوست ہیں بلکہ مستقبل کے امکانا ت میں بھی پنہاں ہیں،کئی ایک ملکوں کے سینوں پر مونگ دلتی چلی آرہی ہے ۔وہ جن کا خیال ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں اور روایتی دوستوں کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے تع...

پاک چین دوستی زندہ باد!!!

امریکا بھارت گٹھ جوڑ جلال نورزئی - منگل 13 ستمبر 2016

چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...

امریکا بھارت گٹھ جوڑ

سمندری خوراک کے بے پناہ ذخائر کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا، ماہرین وجود - جمعه 12 اگست 2016

پاکستان میں میری ٹائم کے مواقع سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں 200 ناٹیکل میل کے اندر 1000 کلو میٹر کے علاقے میں معدنیات ، سمندری خوراک کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ یہ علاقہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کل رقبے سے بھی زیاد...

سمندری خوراک کے بے پناہ ذخائر کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا، ماہرین

پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بن گیا وجود - هفته 25 جون 2016

پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے حوالے سے ’ذمہ داریوں کی یادداشت‘ (میمورینڈم آف آبلیگیشنز) پر دستخط کرکے تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل کر لی۔تفصیلات کے مطابق تاشقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں چھ رکن ممالک کے وزرائے خارجہ ، تنظیم کے سیکریٹری جنرل او...

پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بن گیا

اعداد و شمار میں ہیرا پھیری سے ملک کی اقتصادی شماریات تباہ ہو رہی ہیں، سیمینار وجود - جمعه 20 مئی 2016

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں آئندہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں سینئر ماہرین اقتصادیات نے پاکستان کی اقتصادی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب اعداد و شمار میں حکومت اور آئی ایم ایف کی غلط بیانیوں کو قرار دیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئندہ...

اعداد و شمار میں ہیرا پھیری سے ملک کی اقتصادی شماریات تباہ ہو رہی ہیں، سیمینار

اقتصادی راہداری منصوبہ حقیقت میں بدلے گا، منصوبے کے خلاف مہم سے آگاہ ہیں۔ جنرل راحیل شریف وجود - هفته 20 فروری 2016

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اقتصادی راہداری منصوبے کو عوام کی زندگی بدلنے کا حامل قراردیتے ہوئے اس کی حفاظت کے لئے پاک فوج کے عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے سی پیک اسپیشل سیکورٹی ڈویژ...

اقتصادی راہداری منصوبہ حقیقت میں بدلے گا، منصوبے کے خلاف مہم سے آگاہ ہیں۔ جنرل راحیل شریف

دنیا بھر میں چین کا حقیقی اتحادی صرف ایک ہے، پاکستان: چینی خارجہ پالیسی ماہر وجود - بدھ 10 فروری 2016

چین میں خارجہ پالیسی کی اہم ترین آوازوں میں سے ایک کا کہنا ہےکہ چین کے اتحادی بہت کم ہیں اور حقیقت میں صرف ایک ملک ہے جو چین کا حقیقی اتحادی ہے، وہ ہے پاکستان۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں بیجنگ کی سنگ ہوا یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ڈائریک...

دنیا بھر میں چین کا حقیقی اتحادی صرف ایک ہے، پاکستان: چینی خارجہ پالیسی ماہر

اقتصادی راہداری: مغربی روٹ کی تکمیل کا وعدہ اور اسٹیئرنگ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ وجود - هفته 16 جنوری 2016

وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت پاک چین اقتصادی راہداری پر پیدا ہونے والے تحفظات کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبوں کی مشاورت سے راہداری منصوبے کا مغربی روٹ جولائی 2018 تک مکمل کرلیا جائے گا۔جبکہ وزیراعظم کی زیرصدارت ایک اسٹیئرنگ کمیٹی بھی قا...

اقتصادی راہداری: مغربی روٹ کی تکمیل کا وعدہ اور اسٹیئرنگ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ

پاک-چین اقتصادی راہداری، ریل کی نئی پٹریاں بچھانے کا منصوبہ تیار وجود - اتوار 20 دسمبر 2015

پاک-چین اقتصادی راہداری کے قیام کے سلسلے ایک اہم قدم پاکستان میں نئے ریل راستوں کی تعمیر اور پرانے ٹریکس کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق حکومت نے ان دونوں کام اہم کاموں کے لیے منصوبہ تیار کرلیا ہے جس کے تحت گوادر سے کوئٹہ اور جیکب آباد تک نیا ریلوے ٹریک بھی بچھا...

پاک-چین اقتصادی راہداری، ریل کی نئی پٹریاں بچھانے کا منصوبہ تیار

مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر