... loading ...
پاناما لیکس سے بھی بہت پہلے2008ء میں امریکی بینکار بریڈلے برکن فیلڈ نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سوئس بینک یو بی ایس میں امریکی ساہوکاروں کے20ارب ڈالر موجود ہیں جو ٹیکس چوروں نے جمع کرائے تھے۔ اس انکشاف کے بعد امریکی تحقیقاتی اداروں نے تفتیش کی تو بات سچ نکلی۔ سوئس بینک مجرم ثابت ہوا اور اسے780 ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ بینک نے خفیہ اکاؤنٹ رکھنے والے امریکیوں کے نام بھی بتا دیے تھے۔ پھر اپریل 2013ء میں بھارتی سرمایہ داروں کا چرچا ہوا۔ بھارت کے اخبار انڈین ایکسپریس نے عالمی کنسورشیم برائے تحقیقاتی صحافت (آئی سی آئی جے) کے ساتھ تحقیق کی تو 612بھارتی شہری بے نقاب ہوئے جن میں وجے مالیا جیسی قدآور شخصیت بھی شامل تھی۔ ان تحقیقات کی بنیاد 25 لاکھ خفیہ دستاویزات تھیں جن میں170ملکوں کے افراد کے بیرون ملک اثاثوں کا ذکر تھا۔2013ء کے آف شور لیکس میں جن اہم شخصیات کے نام شامل تھے ان میں فلپائن کے سابق صدر فرڈیننڈ مارکوس کی بیٹی ایمی مارکوس آذربائیجان کے صدرالہام کا خاندان، جارجیا کے سابق سربراہ بڈزینا اور ان کی بیوی سمیت بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے رشتہ دار قاضی ظفراللہ شامل ہیں بھارت نے آف شور کمپنیاں رکھنے والے شہریوں کے لیے ’’تعمیلی اسکیم‘‘ شروع کی تھی جس میں637شہریوں نے59 ارب روپے حکومت کو جمع کرائے تھے۔ یہ موٹی رقم ٹیکس چوری کی تھی۔ یہ اسکیم 30 ستمبر 2015ء کو اختتام پزیر ہوئی جس کے بعد اثاثے ظاہر نہ کرنے والوں کے لیے سخت سزاؤں اور جرمانوں کا اعلان کیاگیا۔ ’’تعمیلی اسکیم‘‘ 90دن کے لیے تھی۔
آئی سی آئی جے اب ایسا مستحکم ادارہ بن چکا ہے جس نے دنیا بھر کے کرپٹ اور ٹیکس چور بدعنوان دولتمندوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ان میں حکمران، تاجر، صنعتکار، سرکاری افسران سب شامل ہیں اب تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اعتراف کرلیا ہے کہ انہوں نے1983ء میں ٹیکسوں سے بچنے کے لیے لندن میں آف شور کمپنی بنائی تھی چونکہ وہ برطانوی شہری نہیں تھے۔ اس کمپنی کے ذریعے انہوں نے ایک فلیٹ خریدا تھا جسے بعد ازاں فروخت کرکے سارا پیسہ قانونی طریقے سے پاکستان منتقل کردیا تھا۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف کے خاندان کا نام بھی پاناما لیکس کی آف شور کمپنیوں میں شامل ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ شریف خاندان نے یہ آف شور کمپنیوں ٹیکس چوری اور بدعنوانیوں کے پیسے سے بنائی ہیں۔ یہ پاکستانی قوم کا پیسہ ہے اور اسے واپس پاکستان آنا چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی نظام کے سرخیل کیا یہ پیسہ واپس آنے دیں گے؟ کرپشن اور ٹیکس چوری کا پیسہ قانونی نہیں ہوتا۔ سوئٹزرلینڈ سمیت یورپ میں آف شور کمپنیاں بناکر دولت چھانے والوں کا پیسہ عموماً واپس نہیں آتا۔ اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئی ہے۔ اس کی سچائی اور صداقت ابھی سوالیہ نشان ہے تاہم صورتحال کو جاننے کے لیے اس کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
کیا یہ سب ہنگامہ جو پوری دنیا میں پاناما لیکس کے بعد برپا ہوا ہے، یہ سب ایک اچانک رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ جرمنی کے ایک اخبار کے پاس خفیہ معلومات کا ایک پلندہ آتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں مانگی جاتی۔ اخبار ان معلومات کو تصدیق کے لیے ایک بہت بڑی این جی او ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلزم‘‘ کو بھیج دیتا ہے۔ حیرت ہے کہ پھر بھی معاوضہ طلب نہیں کیا جاتا اور دنیا بھر کے صحافی جو اس این جی او کے ممبران ہیں ان معلومات کی تصدیق میں لگ جاتے ہیں۔ ایک سال کی محنت اور تگ و دو کے بعد پونے دو کروڑ خفیہ دستاویز تصدیق کے مراحل سے گزرتی ہیں اور پھر ایک دن اچانک دھماکا ہو جاتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں تھرتھرا جاتی ہیں۔ ایک فہرست ان لوگوں کی خفیہ آمدنی کی سامنے آتی ہے جو ان ملکوں میں عزت دار سمجھے جاتے ہیں۔ سیاست دان، تاجر، صنعتکار، ان سب کی خفیہ دولت اور ٹیکس چوری، رشوت، کرپشن اور جرم سے کمائے ہوئے سرمائے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔
یہ سب نہ تو اتنا اچانک ہوا ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسا خیراتی کام تھا کہ سب کا سب مفت ہو گیا۔ اس سب کو کثیر سرمائے کی فراہمی سے ممکن بنایا گیا اور ایسا کرنے کے پیچھے ایک مقصد تھا۔ یہ کوئی سیاسی شعبدہ بازی کا کھیل تماشا نہیں بلکہ دو اور دو چار کی طرح بولتی ہوئی معاشی ضروریات پر مبنی حقیقت ہے اور اسے اس وقت دنیا بھر کے بڑے بڑے سرمایہ دار ایسے جانتے ہیں جیسے آسمان پر چمکتا سورج۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے، کون کروا رہا ہے، کس نے سرمایہ فراہم کیا اور آخر کار ان لوگوں کے خفیہ سرمائے کے ساتھ کیا کیا جانے والا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے تجارتی مراکز میں بیٹھے سرمایہ داروں کے منہ پر صرف ایک ہی نام ہے جو اس سارے کام کے لیے سرمایہ بھی فراہم کر رہا ہے اور اس نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اسے ایک عالمی ایجنڈا بھی بنوا لیا ہے۔ اس شخص کے بارے میں یہ حقیقت دنیا کے بڑے بڑے کاروباری حلقے جانتے ہیں کہ یہ جب چاہے اور جس وقت چاہے کسی بھی ملک کی کرنسی کی قیمت گرا سکتا ہے، بینک دیوالیہ کر سکتا ہے، حکومتیں گرا سکتا ہے۔ اس شخص کا نام جارج سوروز George Soros ہے، اور آج کل یہ نام ہر خوفزدہ سرمایہ دار کی زبان پر ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے بینک آف انگلینڈ کو 1992ء میں تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا اور برطانیہ کو اپنی کرنسی کی قیمت گھٹانا پڑی، یورپی یونین کے ایکسچینج ریٹ سے علیحدہ ہونا پڑا اور امریکی ڈالر کی گود میں بیٹھنا پڑا۔
12 اگست 1930ء کو ہنگری کے یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والے اس شخص کا نام شوارٹز گاؤرگی Schwartz Gyorgy رکھا گیا۔ چونکہ اس نام سے وہ ایک خالص یہودی کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا، اس لیے امریکا میں اس نے جارج سوروز کے نام سے اپنی شناخت بنائی۔ وہ دنیا کے تیس بڑے سرمایہ داروں میں شامل ہے۔ یہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہے جو کھلم کھلا صہیونی عالمی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں اور ایک عالمی یہودی حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اور اپنی مذہبی پیش گوئیوں پر یقین رکھتے ہیں کہ ایسا ایک دن ہو کر رہے گا۔ سوروز دنیا کا سب سے بڑا این جی او ڈونر ہے۔ ا س کی سوروز فاؤنڈیشن نے گیارہ ارب ڈالر اب تک دنیا کی مختلف انسانی حقوق، حقوق نسواں اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو دیے ہیں۔ مشرقی یورپ میں کیمونزم کے خلاف تحریکوں کو سرمایہ اسی نے فراہم کیا۔ امریکی صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں اس کا سرمایہ شامل ہوتا ہے۔ میڈیا کی خفیہ فنڈنگ اس کا معمول ہے اور اسی لیے میڈیا اسے ایک عظیم مخیر، جمہوریت کا مددگار اور عالمی امن کا خواہاں بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی معاشی پیش گوئیوں کے سلسلے میں مشہور ہے اور اس کی کتابیں، مضامین اور لیکچر دنیا بھر میں پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ اس نے 2008ء کے معاشی بحران کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ بلبلہ پھٹنے والا ہے اور ابھی اس نے جنوری 2016ء میں سری لنکا کے اکنامک فورم میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جلد ایک بہت بڑا معاشی طوفان آنے والا ہے جو دنیا بھر کی کرنسیوں کو تہہ و بالا کر دے گا۔
کاروباری حلقے اس کی بات کو جس قدر سنجیدہ لیتے ہیں اس قدر وہ کسی اسٹاک مارکیٹ کے احوال کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک کٹر صہیونی ہے جس کو سی آئی اے کی خفیہ مدد حاصل ہے، اسی لیے وہ اپنے ہر معرکے میں کامیاب لوٹتا ہے۔ پاناما لیکس کے پیچھے اسی کا سرمایہ ہے اور اسی نے اس تحقیقاتی کنسورشیم کو فنڈ فراہم کیے تا کہ ایسے ناقابل تردید ثبوت فراہم کر دیے جائیں کہ دنیا بھر کے یہ ’’عزت دار‘‘ چور اور بددیانت سیاست دان اور سرمایہ دار قابو میں آ جائیں اور پھر ان کا تمام سرمایہ ان سے چھین لیا جائے۔ سی آئی اے ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے اور سوروز کیوں اس کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے، یہ اس قدر سیدھی سی بات ہے کہ وال اسٹریٹ سے لے کر لندن اور پیرس بلکہ بیجنگ تک ہر بڑے سرمایہ دار کے دماغ میں آ چکی ہے۔ یہ دو اور دو چار کی طرح واضح معاشی حقیقت ہے۔
امریکا کا قرضہ 19 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جب کہ یورپی یونین یعنی یورو زون کے قرضے 16 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سات سال سے یورپین سینٹرل بینک صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ روس کے سیاسی منظرنامے پر آنے، چین کے معاشی طاقت بن جانے اور پھر ایران کے ساتھ مل کر ڈالر کے بجائے دیگر کرنسیوں میں خرید و فروخت کے رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔ یوں وہ محفوظ (SURPLUS) سرمایہ جو آجکل ڈالروں کی شکل میں ہے کسی اور جانب منتقل ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تیل کی کھپت کم ہو رہی ہے اس لیے پٹرو ڈالر یعنی تیل کی ڈالر میں خرید و فروخت سے جو امریکی ڈالر کی ساکھ ہے وہ ختم ہوتی جائے گی کیونکہ دیگر ذرائع پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ جو امریکی بالادستی کو صہیونی ایجنڈے سے منسلک کرتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے کہ ایک دن امریکی معاشی برتری ختم ہو جائے۔ ایسے میں صرف ایک سرمایہ ہے جو اس صورت حال میں امریکی ساکھ کو بچایا جا سکتا ہے۔ یہ ہے، مختلف ملکوں کے بددیانت حکمرانوں اور چور سرمایہ داروں کا 105 ہزار ارب ڈالر سرمایہ جو آف شور کمپنیوں کی صورت پڑا ہوا ہے۔ اس میں ہر طرح کے جرم کا پیسہ بھی شامل ہے۔ اس میں منشیات کے دھندے، اسلحے کی فروخت اور حکمرانوں کی کرپشن کا پیسہ سب شامل ہے۔ امریکا میں ہر سال 160.7 ارب ڈالر کی منشیات فروخت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں جرم سے کمائے جانے والے پیسے کی تعداد 2003ء کے اندازے کے مطابق 48 ارب پاؤنڈ تھی۔ سوئٹزرلینڈ کی فنانس منسٹری نے 1998ء میں بتایا کہ ہر سال وہاں 500 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ ڈاؤ جونز (Dow-Jones) جو سب سے بڑا معاشی تجزیہ کار چینل اور وال اسٹریٹ کی آنکھ سمجھا جاتا ہے اس کے نزدیک دنیا بھر کی جی ڈی پی کا 5 فیصد سرمایہ جرم سے کمایا جاتا ہے اور اس کی تعداد دو ہزار سے تین ہزار ارب ڈالر تک ہے۔ یہ سب سرمایہ آف شور کمپنیوں کے ذریعہ سفید کیا جاتا ہے اور پھر ان چور اور بددیانت حکمرانوں اور تاجروں کو کاروبار کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ اس سے ان ملکوں کی تجارت اور صنعت میں اضافہ ہوتا ہے، وہاں سرمایہ کاری بڑھتی ہے۔ ان چوروں کو اسی لیے اجازت دی گئی تھی لیکن اب تو معاملہ اس سودی معاشی نظام کو بچانے اور امریکی ڈالر کی حکومت کا آ گیا ہے۔
اس لیے پاناما لیکس نے ایک چھوٹا سا آغاز کیا ہے۔ یہ امریکی کانگریس میں ایک قانون کا مسودہ تیار ہو چکا جس کے تحت قومی مفاد میں لاء فرموں کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ ان سب چوروں کی جائیدادوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ ایسا ہی قانون پیروی یورپی یونین کے ملک منظور کریں گے اور پھر ان معلومات پر تحقیقات کا آغاز ہو گا۔ تمام اثاثے منجمد کر دیے جائیں گے۔ یہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ رکھنے والے بے وقوف حکمران اور سرمایہ دار جانتے نہیں کہ ان کی نوے فیصد دولت کا امریکی حکمرانوں کو بخوبی علم ہے کیونکہ وہ اپنا تمام کاروبار ڈالروں میں کرتے رہے ہیں اور ان کا سرمایہ امریکی نظام معیشت کی نظر میں ہوتا ہے۔ یہ سب صرف تین چار سال کے عرصے میں ہو جائے گا۔ تقریباً 105 ہزار ارب ڈالر امریکا اور یورپ کی قسمت بدل دے گا اور چور حکمران اور جرم سے سرمایہ کمانے والے سرمایہ دار اپنی دولت کو اپنے سامنے ان ملکوں کے ہاتھوں میں جاتے ہوئے دیکھتے رہ جائیں گے۔ آج تک کسی ڈکٹیٹر کی لوٹی ہوئی دولت کو ان ملکوں نے اسے خرچ نہیں کرنے دیا، مارکوس، پنوشے اور شاہ ایران مثالیں ہیں۔ پیرس کے بیچوں بیچ ایک بہت بلند عمارت ہے جو شاہ ایران کی ملکیت ہے، انقلاب آیا تو اسے فرانس کی حکومت نے قبضے میں لے لیا اور پوچھا بتاؤ یہ سرمایہ کہاں سے لائے۔ جواب ندارد۔ دور کھڑے حسرت سے اسے دیکھتے رہ گئے۔ یہی حال چند سالوں بعد ان لوگوں کا ہونے والا ہے جن کا نام پاناما لیکس میں ہے۔ ایک دن ہائیڈ پارک میں کھڑی شریف فیملی ان فلیٹوں کو حسرت سے دیکھ رہی ہو گی کہ یہ کبھی ہمارے تھے۔ کیونکہ وہاں یہ ثابت کرنا کہ سرمایہ کہاں سے آیا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ وہاں ٹی او آر وہ طاقتیں بنائیں گی جو اس ساری گیم پر اربوں ڈالر خرچ کر چکی ہے۔
اس رپورٹ سے قطع نظر حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ1984ء میں سعودی شاہ خالد نے امریکی بینکوں سے روپیہ نکالنے کی کوشش کی تو انہیں صاف جواب دے دیا گیا۔ اصرار بڑھا تو اس رقم کے عوض اسلحہ دینے کی پیشکش کی گئی۔ شاہ خالد بولے کہ ہماری تو کسی سے لڑائی نہیں ہے، پھر جلد ہی ایران اور عراق کی جنگ شروع کرادی گئی اور سعودی عرب کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے دفاع کے لیے امریکی ہتھیار لینا پڑے۔ زیادہ دور کی بات نہیں لیبیا کے صدر کرنل قذافی کو امریکہ کے ہاتھوں نہ صرف اقتدار بلکہ امریکی بینکوں میں جمع 30 ارب ڈالر سے بھی محروم ہونا پڑا۔ یہی حشر مصر کے صدر حسنی مبارک کا ہوا اور انہیں بھی32 ارب ڈالر اور اقتدار سے علیحدگی کا جھٹکا دیا گیا۔ تیسری دنیا کے بدعنوان حکمرانوں اور دولتمندوں کی چوری شدہ دولت کی واپسی مشکل ہی نہیں، ناممکن ہوتی ہے۔ اپنے عوام کے منہ کا نوالہ چھیننے، ان کے جسموں سے کپڑے اتارنے اور انہیں غربت، افلاس، بیروزگاری، عدم تحفظ اور جہالت کی دلدل میں دھکیلنے والے بے حس اور ظالم لوگ اپنے پیشروؤں سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے قرآن مجید میں کہا گیا ہے ’’ہم نے ان کے دلوں، سماعت اور بصارت پر مہریں لگادی ہیں‘‘ حالانکہ یہ لوگ چرائی اور لوٹی گئی یہ دولت اپنے ساتھ قبر میں بھی نہیں لے جاسکتے جہاں نہ کوئی تجوری ہوگی اور نہ ہی کفن میں جیب۔
’’دیکھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں مقرر ہیں‘‘
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...
منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...
بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...
ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...
کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...
کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...
قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حکومت مخالف اور پاناما لیکس پر احتجاج سے حکومت اب کچھ بدحواس نظر آتی ہے۔ کنٹینرز سے احتجاج اور ریلیوں کوروکنے کے عمل نے کہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت "نے باگ ہاتھ میں ہے ، نہ پاہے رکاب میں" کی عملی تصویر بنتی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی...
ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے پاناما لیکس میں سامنے آنے والے افراد سے اُن کی آمدنی کی تفصیلات مانگ لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے اس ضمن میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز شریف کو بھی نوٹس ارسال کیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشر...
پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...