... loading ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلی تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقاچلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ہمارے اور ان کے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد سفر نامہ ہے اس سے قبل صرف قدرت اﷲ شہاب صاحب نے کچھ دن یونیسکو کی جانب سے فلسطین میں اپنے قیام کا احوال قلمبند کیا۔ یہ ان کی آپ بیتی شہاب نامہ میں موجودہے۔
انگریزی زبان میں قسط وار تحریر شدہ اس سفر نامے کا اردو ترجمہ اور تدوین اقبال دیوان صاحب کی کاوش پر لطف کا نتیجہ ہے۔
بھوک کا معاملہ بھی عجیب ہوتا ہے۔ آپ جب کھانا شروع کرتے ہیں تب کہیں جا کر احساس ہوتا کہ شکم محرومی کس بلا کا نام ہے۔جب میں نے دوسری مرتبہ گولاش کو پیالے میں انڈیلا تو اپنے ندیدے پن کا احساس ہوا۔میں نے اپنی خفت چھپاتے ہوئے اپنے میزبانوں ڈاکٹر کلور اور ان کے میاں ڈیوڈ کی جانب دیکھا۔ ان کے چہرے پرطمانیت بھری مسکراہٹ تھی ۔ ڈاکٹر صاحبہ ذہین ہیں۔ بے حد ذہین ۔ میرے تاثرات پڑھ کر کہنے لگی کسی بھی شیف کے لیے اس سے بہتر تعریف کوئی نہیں ہوسکتی کہ آپ اس کی پکائی ہوئی ڈش خاموشی سے ہڑپ کر جائیں ۔ویسے بھی بھوکے مسافر کو کھانا کھلانا ہمارے ہاں بھی بڑی اعلیٰ درجے کی نیکی سمجھا جاتا ہے۔مجھے لگا کہ میں نے بھی ایک بھوکے ملاح کی مانند خوب کھایا ہے۔
ڈنر کے برتن ٹیبل سے سمیٹتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ نے مجھے اور ڈیوڈ کو بالکونی کا راستہ دکھایا۔ان کا پرتعیش اپارٹمنٹ تل ابیب کے ایک مہنگے علاقے اور مشہور ترین روتھ شیلڈ بولے ورڈ پر واقع تھا۔بالکونی سے نیچے پر رونق کلب اور ریستوران اور مہنگے بوتیک قطار در قطار موجود تھے۔ڈیوڈ نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے کوٹ کی جیب سے دو عدد مونٹی کرسٹو سگار برآمد کیے ۔اسے یاد تھا کہ میں جب تعطیلات پر نکلا ہوا ہوں تو یہی سگار شوق سے پیتا ہوں۔
ڈیوڈ کو یہودیوں کا ربی(یہودی مذہبی پیشوا اس کا اردو ،انگریزی اور عربی ترجمہ وہی ہوتا ہے یعنی مولیٰ ۔انا میرے آقا، My Lord )بننے کا شوق تھا ۔ اس کے ارادے کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی یہ مجبوری بنی کہ اس کی والدہ یہودی نہ تھیں ۔ قربت الہٰی اور بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کی قابلیت کے جو سرٹیفیکٹ ان کا دار الا نائبین (Board of Deputies )جاری کرتا ہے ،اس نے والدہ کا یہودی نہ ہونے کا خفیہ عذر سامنے رکھ کر ڈیوڈ کو کئی کئی دفعہ امتحان میں فیل کیا ۔تو اس نے بھی نیا پیشہ اپنانے کی سوچی اور کاروں کی ڈیلر شپ لے کر بیٹھ گیا ۔اب وہ ایک کامیاب کروڑ پتی بزنس مین ہے۔
ـ’’ تو آپ پھرربی بننے سے رہ گئے۔؟‘‘ میں نے بھی چھیڑا
’’ہرگز نہیں ربی تو میں اب بھی ہوں ۔بس میرے پاس سرٹیفکیٹ نہیں ــ‘‘ اس نے چالاکی سے جواب دیا۔
میرے تل ابیب سے جلد رخصت ہونے کا سن کر اسے افسوس ہوا ۔اس نے جتلایا بھی کہ میں نے تو ٹھیک سے ابھی تل ابیب دیکھا بھی نہیں کچھ دن اور ٹہروں۔
’’ یہ میرے مزاج کا شہر نہیں۔بہت جدید ہے ۔اس کی تاریخ بھی صرف 110سال پرانی ہے اسرائیل کی دیگر بستیوں کے مقابل میں تو یہ محض ایک دودھ پیتا بچہ ہے‘‘ میں نے جان چھڑاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا کہ تم خود بھی ایک ایسے اجڑے ہوئے ماہر آثار قدیمہ کی روح ہو جو سرد مہری سے ہیٹ پہنے ویرانوں اور تاریخی نوادرات کو کھوجتا ہو۔لیکن میرے دوست ایک بات کا خیال رکھنا حالات کچھ گمبھیرہیں،مسجد اقصیٰ اور ہیبرون جہاں آپ جانا چاہتے ہو، وہاں چند دنوں سے کسی نہ کسی کو چھرا گھونپ دیا جاتا ہے۔اسرائیلی فوجی وہاں بار بار چڑھائی کررہے ہیں، دونوں اطراف کے عوام میں بہت اشتعال ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارا شمار بھی محض ایک بد نصیب مردہ سیاح کے طور پر ہو‘‘
اسے جانے دو۔تم اچھی طرح جانتے ہو وہ تمہارے منع کرنے سے رکنے والا نہیں۔ڈاکٹر کلور نے بالکونی میں داخل ہوتے ہوئے اسے تنبیہہ کی۔ میری پسندیدہ اطالوی روسٹیڈ بلیک کافی کی پیالیاں اس نے ٹرے میں سجارکھی تھیں۔
’’ مسجد اقصیٰ تم لوگوں کے ہوش و حواس پر کیوں اس بُری طرح طاری ہے؟ میں نے بھی شرارتاً اسے چھیڑنے کے لیے پوچھا۔ ہم مسلمانوں نے تمہارے رونے اور گناہ معاف کرانے کے لیے ایک پوری دیوار گریہ چھوڑ دی ہے۔تم اگر مسجد اقصیٰ کو چھوڑ دو تو مسلمانوں سے آدھی دشمنی تمہاری فوراً ختم ہوجائے گی۔
ڈیوڈ نے اپنی بیوی پر ایک محتاط باخبر نگاہ ڈالی اور آہستہ سے ایک آہ بھر کر کہنے لگا کہ’’ اس بارے میں ہمارا نقطۂ نظر تم سے بہت مختلف ہے۔‘‘
’’ہم سے کیوں ،یہودی تو ایک دوسرے سے بھی اختلاف کرنے سے نہیں چوکتے ‘‘ میں کہاں دم لینے والا تھا۔میری بات سن کر ڈاکٹر کلور کھل کھلا کر ہنس پڑی اور کہنے لگی’’ بات تو تم ٹھیک ہی کرتے ہو مگر اس کو سن لو گے تو تمہاری معلومات میں اضافہ ہوگا‘‘۔
ڈیوڈ نے کافی کا بڑا سا گھونٹ لیا اور بتانے لگا کہ’’ ہماری مقدس کتاب تلمود ( بمعنی ہدایات )میں لکھا ہے کہ موجودہ عہد کی کل میعاد ہمارے کیلنڈر کے حساب سے 6000 سال ہے۔ اس کے بعد ہمارے مسیح موعود Mossiach کو آنا ہے۔اس وقت تک 5776 برس بیت چکے ہیں ۔ اب کل 224 برس ہی اس وعدے کے پورے ہونے میں باقی ہیں۔پھر ساری دنیا یہودی بن جائے گی۔دنیا بھر سے یہودی اسرائیل میں آن کر آباد ہوجائیں گے اور سلطنت داؤد ( Kingdom of David)دوبارہ اپنی آب و تاب سے قائم ہوجائے گی۔یہ کہہ کر اس نے کسی متوقع سوال کے لیے میری جانب دیکھا۔
یہاں یہ وضاحت لازم ہے کہ بائبل کی پہلی پانچ کتابیں جنہیں توریت کہا جاتا ہے۔ اُن میں آمد مسیحا کا کوئی ذکر نہیں۔ البتہ تیرھویں صدی میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے یہودی ہسپانوی معالج موسی بن مامون (Rambam) نے جو تیرہ عقائد وضع کیے اور چودہ جلدوں کی اس کی وضع کردہ تلمود میں مسیح موعود کا ذکر ہے۔ اہل یہود کی وہ دعا جسے یہ ’’شمونے عسرے ‘‘کہتے ہیں یہ کنیسہ synagogue میں کھڑے ہوکر دن میں تین دفعہ پڑھی جاتی ہے۔ اس میں مسیح موعود کی آمد، دنیا بھر میں موجود یہودی مہاجرین کی اسرائیل واپسی،ان کی شرعی عدالتوں کا قیام، اہل یہود کے لیے دور خوش حالی و فراوانی ، مردوں کا دوبارہ جی اٹھنا، انصاف کی برتری ،ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور سلطنت داؤد کا قیام لازمی جز ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل یہود میں کسی شخص کو دعویٰ مسیحائی جائز نہیں، نہ ہی اسے وہ وقت ظاہر کرنا ہے جس میں اس کی آمد ہوگی۔ مسیحا کا اگر مشن ہے تو وہ اس کی موت سے پہلے مکمل ہوجائے گا ۔لیکن اگر وہ خود مشن کی تکمیل سے پہلے دنیا سے سدھارجائے تو وہ مسیحا نہیں تھا۔ یہودیوں نے اس معاملے میں بہت احتیاط رکھی ہے کیوں کہ اٹھارویں صدی میں ان کا ایک بڑا ربی Shabbatai Tzvi جس نے مسیحائی کا دعویٰ کیا تھا وہ مسلمان ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی بہت سے یہودی بھی دائرہ اسلام میں آگئے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے کچھ فرقوں کی طرح یہ بھی مسیحا کی آمد کا بڑے شد و مد سے انتظار کرتے ہیں۔
آیئے دوبارہ ڈاکٹر کلور لی کی بالکونی میں بیٹھے اس کے انتہائی باعلم شوہر ڈیوڈ سے سلسلہ تکلم جوڑتے ہیں۔ میں نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا کہ ہم مسلمان اور ہماری یہ مسجد اقصی آپ کے اس سہانے خواب کی راہ میں کیسے رکاوٹ بن رہی ہے یہ تو مجھے سمجھائیں؟
۔’’ ہمارا معبد ثلاثہ Third Temple یعنی ہیکل سلیمانی عین اس جگہ تعمیر ہونا ہے جس ٹیلے پر مسجد اقصی قائم ہے۔یہ منصوبہ مسیح موعود کے آمد سے پہلے پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے‘‘۔
اس کے جملے بتدریج معذرت خوانہ سرگوشی میں بدل گئے ۔ڈاکٹر کلور نے بھی ایک مہذب انداز سے نگاہیں کسی اور جانب مرکوز کرلیں۔ایک ناآسودہ سی خاموشی ماحول پر چھا گئی۔
’’اس طرح تو تمہارے پاس کل 224 برس ہی باقی رہ گئے ہیں؟ــ‘‘ میں نے بھی ایک خفیف طنز کیا۔اس نے بھی یہ سن کر اثبات میں سر ہلا دیا۔میں نے ڈاکٹر کلور کی جانب ایک نگاہ ڈالی جس کی خاموشی میں ایک گہری دوست کی ایسی مفاہمت بھری معنی آفرینی تھی جو آنے والے خطرات کا بہت دھیمے سے پتہ دے رہی۔
’’اگر ایسا ہے تو مجھے جلد ہی مسجد اقصی دیکھ لینی چاہیے‘‘۔
موضوع کی یہ تبدیلی ڈاکٹر کلور کی آنکھوں میں میرے لیے ستائش کے نئے رنگ بکھیر گئی۔
میزبانوں سے جلد ہی رخصت ہوکر میں ہوٹل کے لیے رخصت ہوگیا۔ تل ابیب کی گلیوں پر نیند کا خمار آہستہ آہستہ طاری ہورہا تھا۔ایک بوڑھا عرب کسی پارٹی کی ترک شدہ باقیات سمیٹ کر کچرا جمع کررہا تھا۔بحیرۂ روم بھی شانت تھا۔فضا میں برسات کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ایک جیتا جاگتا مچلتا ہوا شہر اب ادھ مواہوکر خواب غفلت میں لپٹ گیا تھا۔
راستے میں ہماری کار کو تین چیک پوائنٹس پر روکا گیا۔میرے بارے میں سنتریوں کے چہرے پر اس وقت نرمی آجاتی تھی جب انہیں میرے سیاح ہونے کا اطمینان ہوجاتا تھا۔وائن نے تیسری چیک پوسٹ سے گزرتے ہی کارکے عقبی شیشے سے مجھ پر گہری نگاہیں ڈالتے ہوئے ہنستے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ مجھے اس لیے روک رہے ہیں کہ میں شکل سے عربوں کی مانندناقابل اعتماد لگتا ہوں۔ میری خاموشی نے اس کی طبع تفنن کو آلودہ کردیا۔
اس نے میرے لیے ڈرائیور کا پہلے سے بندوبست کر لیا تھا ۔ وہ اسی کا دوست تھا۔ مجھے صبح وہ آٹھ بجے ہوٹل سے یروشلم لے جانے کے لیے آئے گا۔ مجھے اسے 350 شیکل دینے ہوں گے۔ اسرائیل کی یہ کرنسی ہمارے 11000 روپوں کے لگ بھگ ہوتی ہے۔آٹھ بجے تو جلدی ہے میں سونا چاہتا ہوں ،وہ دس بجے آئے گا تو میرے لیے بہتر ہے۔
لابی سے کمرے تک میرے ذہن میں ڈیوڈ کی بات کی چنگاریاں چٹاخ پٹاخ بھڑک رہی ہیں۔ وہی ہیکل سلیمانی کی تعمیر ۔تاریخ کے گم شدہ خزانوں کی تلاش میں مسجد اقصی کی بنیادوں کی کھدائی کے خبریں ۔وہ چاہتے ہیں کہ اس کی بنیاد ایسی کمزور ہوجائے کہ یہ خود بخود فلسطینوں کی مانند کھڑے کھڑے ڈھ جائے تاکہ اس کے ملبے سے وہ یہ ہیکل کی تعمیر کرسکیں۔
سوالات کا ایک طوفان میرے ذہن میں اٹھ رہا تھا کہ کون ہے جو مسلمانوں کے اس قبلۂ اوّل کی حفاظت کررہا ہے۔دنیا کی تیسری بہترین اسرائیلی فوج کے مقابلے پر کون سینہ سپر کھڑا ہے۔ یہ جھلسے ہوئے، مرجھائے اورکچلے ہوئے پچاس ہزار فلسطینی جو وہاں آباد ہیں۔ وہی حقیقی باشندے جن کے جوانوں کی اکثریت یا تو ٹور گائیڈ ہے یا ٹیکسی ڈرائیورز ۔ میرے بستر استراحت پر نیند میں ڈوبتے ہوئے مجھے لگا کہ کل سو میل کے فاصلے پر تاریخ کروٹیں لے کر ایک بڑی جنگ (جسے عرب ہرمجدون اور باقی سبArmageddon کہتے ہیں ۔) کی تیاریاں بڑی خاموشی سے شروع ہوگئی ہیں۔
نیند کے آتے آتے مجھے ایک افریقی زولو شامن( جادوگر اور درویش) کی بات یاد آتی رہی کہ ’’اختتام ہماری توقع سے جلدی ہوجاتا ہے۔‘‘(جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...