... loading ...
جدید تاریخ میں جب بھی دنیا کو کسی بڑی تبدیلی سے دوچار کیا گیا تو اس سے پہلے اس عالم رنگ وبو کو ایک زبردست ـ’’جھٹکا‘‘ دیا گیا۔ اس کی مثال اس انداز میں دی جاسکتی ہے کہ جس وقت جدید تاریخ کے پہلے دور میں دنیا خصوصا مغرب کو معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں سے گزارا گیا تو پہلی عالمی جنگ کا ’’جھٹکا‘‘ اس دنیا کو لگا اور اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ جغرافیائی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں۔ اس کے تقریبا پچاس برس بعد جب باقی ماندہ کام مکمل کرنا مقصود ہوا تو دوسری جنگ عظیم کا اس دنیا کو سامنا کرنا پڑا اور یورپ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی، افریقا اور ایشیا کے بڑے حصے کا جغرافیہ تبدیلیوں کی زد میں آیا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد جہاں بہت سی ’’عالمی تبدیلیاں‘‘ منظر عام پر آئیں، ان میں اہم ترین اسلامی خلافت کا خاتمہ اور مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی صہیونی ریاست کا بیج بونا شامل تھا جو ہمیں نیویارک میں ہونے والے ’’بالفور ڈیکلریشن‘‘ کی شکل میں نظر آتا ہے۔اسی دوران دوسرا اہم قدم برطانیا سے ’’عالمی حکمران ریاست‘‘ کا اسٹیٹس امریکا منتقل کرناتھا۔1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ہونے والے بالفور ڈیکلریشن پر عملدرآمد کرانا یعنی صہیونی اسرائیلی ریاست کا قیام، امریکی ڈالر کو قوت بخشنے کے لئے یورپین کرنسیوں کو سونے کی بجائے ڈالر سے منسلک کرنااور مغرب کی اسلحے کی بھٹیوں کو گرم رکھنے کے لئے سوویت یونین کے ساتھ ’’سرد جنگ‘‘ کا آغاز شامل تھا۔ ’’نائن الیون‘‘ کل کی بات ہے ان سولہ برسوں میں فکری، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو جو تبدیلیاں لائی گئیں ،وہ سب کے سامنے ہیں۔
ماضی کے ان تمام حقائق کومدنظر رکھ کر اب ہم آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔ چند برس پہلے پانامہ لیکس سے پہلے وکی لیکس نے دنیا میں خاصا شورو غل مچایا تھا جو آج بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ اس وقت ہم نے ان لیکس پر سے کچھ پردہ اٹھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سی آئی اے اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا اتنا بڑا ڈیٹا بغیر کسی ’’خاص مقصد‘‘ کے افشاکردیا گیا ہو۔ اس افشا کے دوران اس وقت بھی اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا تھا کہ اسرائیل، امریکا اور یورپ کے اصل عالمی سیسہ گروں سے متعلق معلومات افشا نہیں کی گئیں تھیں۔ اب پانامہ لیکس کے ڈیٹا کی شکل میں دنیا کا سب سے بڑا اسکینڈل سامنے لایا گیا ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کے پس پردہ کیا عالمی صہیونی مقاصد ہیں؟ حقیقی منصوبہ کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب شاید بہت کم لوگوں کے پاس ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کے حکمرانوں، ان ملکوں کی ’’اشرافیہ‘‘، سول اور عسکری بیوروکریسی کی مالیاتی بدعنوانیوں کے حوالے سے جو کچھ جاری کیا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے لیکن پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حقائق سے کون نہیں واقف۔۔۔ امریکا اور یورپ کے انٹیلی جنس ادارے ، وہاں کی مالیاتی کمپنیاں اور عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی میڈیا ایمپائرز سب کچھ جانتے ہیں بلکہ خود بھی اس میں بُری طرح ملوث ہیں لیکن اس مرتبہ پھر اسرائیل، امریکا اور یورپ کے عالمی صہیونی سیسہ گرسب کو وکی لیکس کی طرح اس میں استثنا دے دیا گیا ہے۔۔۔
لیکن روس، چین جیسے بڑے ملکوں کے ساتھ ساتھ پاکستان، آئس لینڈاور دیگر ممالک کے حکمرانوں اور اشرافیہ کی قلعی کھول دی گئی ہے۔پاکستان میں جب یہ معاملہ اٹھا تو سب سے زیادہ حکمران شریف خاندان اس کی زد میں آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صدام دور کے عراق پر مسلط پابندیوں کے دوران ایک عالمی پروگرام تیل برائے خوراک شروع کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور عبدالرحمن ملک کی ایک کمپنی کا نام بھی دوبارہ سامنے آگیا ۔شریف خاندان کے پاس درحقیقت ان انکشافات کا سرے سے کوئی جواب ہی نہیں ہے سوائے اس بات کہ ’’ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے‘‘۔۔۔ !! اس سازش کا ’’کھرا ناپنے‘‘ نواز شریف کے ساتھ ساتھ دیگر حامی اور مخالف سیاستدان بھی جن میں تحریک انصاف کے عمران خان نمایاں ہیں لندن جا پہنچے لیکن یہ سب کچھ بے سود تھا کیونکہ معاملات کی ڈوریں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں 2017ء کے آخر تک ’’کاغذی کرنسی‘‘ کے خاتمے کا منصوبے عالمی صہیونی سیسہ گروں کی جانب سے زیرعمل ہے۔ لیکن اس سے پہلے دنیا کو اس کاغذی کرنسی کے نقصانات سے آگاہ کرنا ضروری تھا اس لئے اس قسم کے مالیاتی اسکینڈل، آف شور کمپنیاں اور ٹیکس سے فرار کی داستانوں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو اس کا قائل کیا جارہا ہے۔ایک بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ جب بھی کسی عالمی حکمران ریاست کا اسٹیٹس کسی دوسری ریاست کو منتقل ہونے لگتا ہے تو اس سلسلے میں آنے والی عالمی حکمران ریاست اپنا نیا ’’معاشی نظام‘‘ بھی لاتی ہے۔ عالمی ریاست کے اسٹیٹس کی یہ منتقلی جدید تاریخ میں دومرتبہ ہوچکی ہے اور اب تیسری اور آخری مرتبہ اس اسٹیٹس کی منتقلی واشنگٹن سے ’’یروشلم‘‘ ہونے جارہی ہے۔
جس وقت برطانیا عالمی حکمران ریاست کا مقام رکھتا تھا تو اس کے اپنے معاشی اورمعاشرتی تقاضے تھے جسے اس نے باقی دنیا پر تھوپ رکھا تھا۔ عالمی سیادت کا یہ جدید تاریخ میں طویل ترین دور تھااس دوران پونڈ اسٹرلنگ عالمی کرنسی تھی، لیگ آف نیشن عالمی تنظیم تھی۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ اسٹیٹس برطانیہ سے امریکا منتقل کردیا گیا ۔ واشنگٹن لندن کی جگہ عالمی حکمران دارالحکومت تھا ، ڈالر پونڈ کی جگہ عالمی کرنسی تھی،جینوا میں قائم لیگ آف نیشن نامی تنظیم کو ’’کفن چوروں‘‘ کا ٹولہ قرار دے دیا گیا تھا۔ اب یہ ’’کفن چور‘‘ تنظیم لیگ آف نیشن اقوام متحدہ کا روپ دھارچکی تھی جس کے قیام کا اولین مقصد اسرائیل کو اپنے رکن ممالک سے تسلیم کروانا تھا اور آہستہ آہستہ دنیا کو ’’گلوبل ولیج‘‘ میں ڈھالنا تھا تاکہ جب تیسری مرتبہ ’’عالمی دجالی حکمران ریاست ‘‘ کا اسٹیٹس یروشلم منتقل ہو تو دنیا کو ایک مربوط معاشی دجالی نظام میں پہلے ہی جکڑدیا جائے ۔
پانامہ لیکس کے اصل مقاصد کی جانب آنے سے پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جدید تاریخ کی ابتدا میں یورپ میں قائم ہونے والے سوئس بینکوں نے سب سے پہلے ’’آف شور کمپنیوں‘‘ کا کردار ادا کیا تھا۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس وقت پہلی عالمگیر جنگ کے بعد برطانیہ سے دجالی عالمی حکمرانی نظام کو سمیٹ کر امریکا منتقل کیا گیا تو اس وقت امریکی اور یورپی عوام کی بڑی تعداد سونے کی شکل میں بڑے لین دین کرتی تھی۔ عالمی دجالی ساہوکاروں نے اصل زر یعنی سونے پر قبضہ جمانے کے لئے 1922ء کے بعد امریکا میں ایک مہم شروع کروا دی جس کے مطابق سونے کے سکوں کو غیر قانونی طور پر ایسے لین دین میں استعمال کیا جارہا ہے جو ملکی معاشی پالیسیوں سے متصادم ہیں اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے ۔ اس کامیاب مہم کے ساتھ ساتھ عالمی صہیونی ساہوکار سینٹرل ریزرو بینک کی شکل میں ایک مالیاتی ادارہ بھی قائم کرچکے تھے ۔یہ ایک پرائیوٹ بینک ہے۔ آج بھی جس میں امریکی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتالیکن ڈالر چھاپنے کی اتھارٹی اسی کے پاس ہے۔ اس طرح 30جنوری 1934ء میں گولڈ ریزرو ایکٹ Gold Reserve Act کے نام سے ایک قانون پاس کروا لیا گیاجس کے تحت امریکامیں جس کسی کے پاس سونا موجود ہے، وہ اسے 35ڈالر فی اونس کی قیمت پر ’’فیڈرل ریزرو بینک‘‘ کے حوالے کرے۔اس طرح کاغذ ی کرنسی کو پہلی مرتبہ بڑے پیمانے پر سونے کی جگہ استعمال میں لایا جانے لگا جو سراسر ایک بڑا مالیاتی دجالی فراڈ تھا جس کا مقصد اصل زر یعنی سونے کو اپنی گرفت میں لیکر دنیا کے مالیاتی نظام کو دجالی صہیونی معاشی نظام کے تحت غلام بنانا تھا۔ اس دوران امریکا میں بے شمار ایسے تاجر بھی تھے جو کاروباری لین دین کی وجہ سے اپنے پاس بھاری مقدار میں سونا رکھتے تھے اور ساتھ اس بات سے بھی آگاہ تھے کہ فراڈ کے ذریعے ان سے سونا قبضے میں لیکر لین دین کے لئے بے وقعت کاغذ کی کرنسی تھمائی جارہی ہے۔ لیکن چونکہ امریکی صدر نے گولڈ ریزرو ایکٹ پر دستخط کرکے امریکی حکومت کے ہاتھ کٹوا دیئے تھے اس لئے اب اس سے آسانی کے ساتھ فرار بھی ممکن نہیں تھا۔ اس قانون کا اطلاق تو امریکا میں ہورہا تھا لیکن ابھی یورپ اس سے آزاد تھا اس لئے بہت سے امریکی تاجروں نے اپنا بھاری سونا یورپ منتقل کرنے کا منصوبہ بنانا شروع کردیا۔ یہاں پر یہ بات ذہن میں رہے کہ عالمی صہیونی ساہوکارں کامرکز یورپ تھا جن کا سرغنہ برطانیا کا لارڈ روتھ شائیلڈ تھایہ وہی روتھ شائیلڈ خاندان ہے جس نے ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی اور جس کا تاج برطانیہ آج تک مقروض ہے (کینیڈین ایڈمرل ولیم گے کیر کی کتاب ’’powns in the game‘‘ میں تحقیق سے بتایا گیا ہے کہ 1930ء میں آخری مرتبہ برطانیا میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا تاکہ پتا چلایا جاسکے کہ بینک آف انگلینڈ کے حقیقی مالکان کون ہیں لیکن اس کمیشن کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا) اسی خاندان نے ’’بینک آف پیرس‘‘ کی بنیاد ڈالی تھی اور یورپ کی ساری اقتصادیات اپنی مٹھی میں بند کرلی تھی۔ کیا مسلمانوں نے کبھی سوچا کہ آج بھی روزانہ کی بنیاد پر عالمی مارکیٹ کے لئے سونے کی قیمت لندن کے ’’اکنامکس زون‘‘ سے ہی کیوں نکلتی ہے؟ اور جس وقت 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد عالمی ساہوکاروں کی صہیونی تنظیم بلڈر برج کے بانی رکن ہنری کسنجر کی کوششوں سے تیل کی قیمت ڈالر سے منسلک کی گئی تو تیل کا ریٹ وال اسٹریٹ نیویارک سے ہی کیوں نکلتا ہے؟ اس کی تفصیلات پھر کبھی سہی۔۔۔یورپ سے ہی عالمی صہیونی ساہوکاروں نے اپنے ’’فرنٹ مین‘‘ جے پی مورگن ، جان ڈی راکفلراور جیکب نامی سرمایہ دارامریکا میں تعینات کئے تھے جنہوں نے وہاں کی اقتصادیات کو اپنی انگلیوں پر نچانے کے لئے سونے پر قبضے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ جس وقت ان مالیاتی صہیونی ساہوکاروں کو یہ بھنک پڑی کہ گولڈ ریزروایکٹ کے نام پر قانون سازی کے بعد بے شمار امریکی اپنا سونا یورپ منتقل کرنے والے ہیں تو انہوں نے سوئزرلینڈ میں ’’فرنٹ مینوں‘‘کے ذریعے متعدد بینک تشکیل دے دیئے جس میں ’’رازداری‘‘ بنیادی شرط رکھ کر سرمایہ منتقل کرنے والوں کو مطمئن کردیا گیااور یوں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکاکے مصداق ان امریکیوں کا بے بہا سونا امریکا کے بجائے یورپ میں ان صہیونی ساہوکاروں کے ہتھے چڑھ گیا۔اس مقام پر اب ہمیں ان مشہور زمانہ سوئس بینکوں کے قیام کے مقاصد بھی سمجھ آجانے چاہیے ۔یہ وہ سرمایہ تھا جس پر نہ کوئی ٹیکس لگ سکتا تھا اور نہ اس کی ملکیت کوئی نام سے جان سکتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح آج کی پانامہ لیکس میں آف شور کمپنیوں کا کردار بیان کیا جارہا ہے۔ ان بینکوں کا بھی شروع میں یہی کردار رہا ہے بلکہ اب تو یہ بینک دنیا بھر کے ’’چالیس چوروں‘‘ کی وہ محفوظ غار بن چکے ہیں جنہیں ’’کھل جا سم سم‘‘ کی طرح کے ایک خاص کوڈ کے ذریعے ہی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
اب اس سے آگے بڑھتے ہیں۔۔۔ 1930ء سے لیکر اب تک تقریبا ایک صدی کے دوران میں دنیا بھر کا گورکھ دھندہ اس فراڈ کاغذی کرنسی کے ذریعے چلایا گیا ہے جس کا اصل زر ’’سونا‘‘جانے کہاں پڑا تھا ۔۔۔ جبکہ رسول پاک ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اسلامی معاشی نظام میں اصل کرنسی وہی ہے جس میں اس کا اصل زر موجود ہو یعنی دینار (سونا) درھم (چاندی)۔گزشتہ ایک صدی کے دوران میں جس وقت دنیا کوآہستہ آہستہ ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کیا جانے لگا تھا تو عالمی معاشی سرگرمیوں کا صرف چالیس فیصد قاعدے قانون کے مطابق ’’سطح آب‘‘ پر نظر آتا تھا جبکہ ساٹھ فیصد گورکھ دھندہ ’’زیر آب‘‘ یعنی قواعد اور قوانین کی آنکھوں سے پوشیدہ رہا اور اب بھی یہی حال ہے۔ عالمی صہیونی دجالی ساہوکار اپنے آپ کو ملکوں، قوموں اور سرحدوں کی قید سے آزاد تصور کرتے ہیں۔مغرب میں اسے ’’انٹرنیشنل ایلیٹ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے جس پر کسی قسم کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے آپ کو قانون ساز اور اسی قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ عالمی صہیونی ساہوکاروں کے گاڈ فادر مائر روتھ شائیلڈ کا مشہور قول تھا کہ “Give me control of a nation’s money and I care not who makes it’s laws” — Mayer Amschel Bauer Rothschild
’’قوم کی دولت پر مجھے کنٹرول دے دو پھر مجھے پروا نہیں کہ کون اس کے قانون بناتا ہے‘‘۔
عالمی صہیونی ساہوکار سمجھتے ہیں کہ کاغذی کرنسی کی صورت میں بھی دولت کا کنٹرول اور اس کے خرچ کرنے والے پر پوری نگاہ نہیں رکھی جاسکتی۔ پیسہ جب تک بینک میں ہے بینک کے علم میں ہے کہ بینک کے ذریعے اگر اسے کہیں اور منتقل کیا گیا تو کہاں گیا لیکن جب یہی کاغذی کرنسی انسان کے پاس موجود ہو یا اس کی بڑی مقدار وہ اسے اپنے گھر یا کسی اور ٹھکانے میں محفوظ کرلے تو اسے کیسے اور کہاں خرچ کیا گیا اس کا سراغ لگانا مشکل ہوجائے گا ۔ جیسے نائن الیون کے ڈرامے کے بعد جس وقت امریکا نے افغانستان اور عراق جیسے ملکوں پر دھاوا بولا تو القاعدہ اور دیگر امریکا مخالف تنظیموں کے مالیاتی اثاثوں اور ان کی نقل وحمل پر نظر رکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ دنیا بھر میں کہاں سے ان کو فنڈنگ ہوتی ہے اور مغرب مخالف ایسی تنظیمیں کس طرح اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے رقوم دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں یہ ایک ایسا چوہے بلی کا کھیل تھا جو مالیاتی میدان میں کھیلا جاتا رہا ہے ۔ اس سے پہلے چلے جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد افغانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے عرب اور دیگر مسلمان قومیتوں کے مسلمان نوجوان افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کرنے آئے تو دوسری جانب امریکا اور یورپی ممالک نے سوویت یونین کے خلاف ایک طویل جنگ کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بہت سے ’’ذرائع‘‘ تشکیل دیئے گئے تھے کیونکہ جنگ تو ایک بہت مہنگا ’’بزنس‘‘ ہوتا ہے۔بڑے بڑے ملک چند دنوں کی لڑائی کے بعد دیوالیہ ہونے لگتے ہیں پھر افغانستان کی سولہ سالہ طویل جنگ کیسے لڑی جاتی؟ لیکن جیسے ہی سوویت فوج آمو کے اس پار واپس پلٹی، امریکا اور اس کے مغربی حواریوں نے انہی’’ ذرائع‘‘ پر آرا چلا دیا۔ کیا ہمارے سامنے پاکستانی بی سی سی آئی بینک کا حشر نہیں ہے۔۔۔
آگے بڑھتے ہیں۔۔۔ اب تقریبا ایک صدی کے بعد کاغذی کرنسی کو ختم کرنے کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ عالمی سرد وگرم پر حاوی صہیونی تنظیم بلڈر برج جس کا رکن بنے بغیر نہ تو امریکی صدر بنا جاسکتا ہے اور نہ ہی برطانوی وزیر اعظم۔۔ کے حوالے سے کویت سے شائع ہونے والے عالمی امور کے عربی جریدے المجتمع میں بھی آچکا ہے کہ ’’بلڈر برج‘‘کے آخری اجلاس میں کاغذی کرنسی کے خاتمے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ وہی بلڈر برج تنظیم ہے جس کے اہم ارکان میں ہنری کسنجر، ڈیوڈ راکفلر، جارج سوروس، بل گیٹس یورپی یونین کے بہت سے ارکان پارلیمنٹ اور مغربی حکومتوں کے خاص ارکان شامل ہیں اور جس کے اجلاس کے دوران میں اس کی سیکورٹی کی ذمہ داری امریکی سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی 6کے ذمے ہوتی ہے۔اب ٓصورتحال یہ ہے کہ عالمی معاشی نظام کی بڑی تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے جس کے ذریعے روس اور چین کی معیشت کو بڑا جھٹکا دیا جانا مقصود ہے۔اس سلسلے میں کاغذی کرنسی اور اس کے آف شور استعمال سے ہونے والی کرپشن اورٹیکس چوری کی خبروں کو اچھالا جانا تھا جو پانامہ لیکس کی شکل میں سامنے آنا شروع ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے دیگر ذرائع نے بھی اس جانب اشارہ کردیا ہے۔اس سلسلے میں ٹیکس سے فرار اختیار کرنے والے افراد کو ظاہر کرنا بلاشبہ ایک بہترین کاوش ہے، لیکن المجتمع کی رپورٹ کے مطابق پاناما پیپرز یا پاناما لیکس کے مقاصد کچھ “مشکوک” سے بھی لگتے ہیں۔ اس سے نقدی کے خاتمے اور عام افراد کو ٹیکس دائرے میں لاکر ان کے استحصال کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔مثلا برطانوی بلاگر کریگ مرے نے لکھا کہ پاناما پیپرز کو سامنے لانے والوں کی نیت یقینا ٹھیک ہوگی لیکن انہوں نے ساڑھے 11 ملین دستاویزات اس کارپوریٹ میڈیا کے حوالے کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے، جو دراصل خود ایک فریق ہے۔ یہ میڈیا صرف انہی افراد کی بدعنوانیوں کو منظر عام پر لائے گا جومغرب کے مالیاتی مفادات کے خلاف ہیں۔ ان کے الفاظ میں “مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی قلعی کھولنے والے انکشافات کی توقع ہرگز مت رکھیں۔ مغربی اداروں کے غلیظ کاروباری راز کوئی شائع نہیں کرے گا۔ البتہ روس، چین اور “توازن” کے لیے آئس لینڈ جیسے چند چھوٹے موٹے مغربی ممالک کے نام سامنے آتے رہیں گے۔”
عالم عرب کی صحافت میں بھی یہ سوال اٹھ چکے ہیں کہ خود مغرب میں بعض حلقے اس اسکینڈل کو کیش یعنی نقدی کے خاتمے کی عالمی کوششوں کی سمت اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔ اصل میں ہنگامہ کیا ہے؟ یہ ہے کہ پیسہ کہاں ہے، کس کا ہے، تاکہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس پر ٹیکس لگانا ہے، پابندی عائد کرنی ہے یا ضبط کرنا ہے۔ ایک ایسے عالمی نظام کا قیام دراصل بااختیار اور طاقتور افراد کو دوسروں کا استحصال کرنے اور خود کھلی بدعنوانی کرنے کی ضمانت دے گا۔انوسٹمنٹ واچ کے مائیکل سینڈر بھی پاناما پیپرز کے معاملے کو اسی سے منسلک کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ “میری رائے میں یہ پورا قضیہ سرمائے پر قابو پانے کی جنگ کا حصہ ہے۔”اصل حقیقت بھی یہی ہے جس کا پس منظر ہم اوپر جدید تاریخ کے حوالے سے دے چکے ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ ایک فیصد امیر ترین افراد ان دس فیصد کے پیچھے ہیں، جو بجائے قرض لینے کے ایک خود مختار زندگی گزارتے ہیں بلکہ بچت بھی کرتے ہیں۔ باقی عوام کی بڑی تعداد اپنی زندگی میں مالی جدوجہد کرتی ہے۔ یہی افراد بینکوں کے مقروض ھی ہوتے ہیں اور ان کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہوتی کہ ان پر ٹیکس لگایا جا سکے۔ اس لیے اب یہ جنگ ہے مالیاتی زنجیر کے سب سے بالائی ایک فیصد، بلکہ 0.0001 فیصد طبقے کی، اپنے فوراً بعد آنے والے مالی طور پر خود مختار طبقے سے۔ نت نئے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں کہ کسی طرح ان کی بچت کو قانونی طور پر ضبط کیا جائے۔
ماہرین کے مطابق چار ایسی کوششیں ہیں جو کی جائیں گی، ایک بیل-اِن، دوسری نیگیٹو انٹرسٹ، تیسری ڈیجیٹل کرنسی اور چوتھی ان تمام مقامات کا علم کہ جہاں ٹیکس سے فرار اختیار کرنے والوں کی دولت جمع ہے۔ بیل-انز دراصل بینکوں کو اپنے صارفین کے پیسوں پر جوا کھیلنے کی اجازت دیں گے۔ اگر بینک غلط بھی کھیل گیا، دیوالیہ بھی ہوگیا تو وہ قانونی طور پر اپنے صارفین کی امانتیں ضبط کر سکتا ہے۔ نیگیٹو انٹرسٹ دراصل ایک فیس یا نجی ٹیکس ہے جو بینک سرمایہ رکھنے پر لے گا۔ پھر نقدی کے خاتمے کا اہم ترین معاملہ ہے۔ یہ بینک کو مکمل طور پر محفوظ بنا دے گا۔ ایسا پیسہ جو صرف اور صرف ڈیجیٹل صورت میں موجود ہو، نہ ہی نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے گھر کی تجوریوں یا کسی خفیہ مقام پر چھپایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ٹیکس سے فرار کے مقامات کو ظاہر کرنا ان “شکاریوں” کو بتائے گا کہ مال اصل میں ہے کہاں اور اس کا مالک کون ہے؟ یوں ایک ایسی دنیا جو مرکزی بینکوں یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی گرفت میں ہو کی تکمیل ہوجائیگی۔ ان کڑیوں کو ملاتے جائیں تو آپ اس پورے معاملے کا ایک دوسرا اور خطرناک پہلو پائیں گے۔ذرائع کہتے ہیں کہ اس کی حتمی منصوبہ بندی ڈیووس، سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے گزشتہ اجلاس میں کی گئی، جہاں دنیا بھر کی اشرافیہ(بلڈر برج تنظیم کے ارکان) جدید دنیا کے اقتصادی مسائل پر سر جوڑ کر بیٹھی تھی۔ فورم میں شریک مورگن اسٹینلی سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کے مطابق رواں سال کا اہم ترین موضوع ‘بغیر نقدی کے نظام کا فوری قیام’ تھا۔یعنی کاغذی کرنسی کا خاتمہ اور اس کی جگہ ’’پلاسٹک کارڈ‘‘ یا پلاسٹک منی۔اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے اور اس کے مراکز یعنی بینکوں کو مضبوط کرنے کے لیے “نقدی یا کاغذی کرنسی کے خلاف اعلان جنگ” ہو چکا ہے۔
ٹیکس سے فرار اختیار کرکے جن علاقوں کا رخ کیا جاتا ہے وہاں ایک خفیہ جال کے ذریعے امریکا کے سرفہرست اداروں نے 1.4 ٹریلین ڈالرز ذخیرہ کر رکھے ہیں۔غربت کے خلاف کام کرنے والے اہم ادارے ‘آکسفیم’ کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹیکس سے بچنے کے لیے چالوں، طریقوں اور قانونی سقم کے ذریعے امریکا کی 50 بڑی کمپنیاں 2008ء سے 2015ء کے دوران دنیا بھر میں 4.6 ٹریلین ڈالرز کا منافع حاصل کرچکی ہیں، جو دولت کی عدم مساوات میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ان اداروں میں گولڈمین ساکس، ویریزون کمیونی کیشنز، ایپل، کوکا کولا، آئی بی ایم اور شیورون جیسے بڑے نام تک شامل ہیں۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کئی ملٹی نیشنل اداروں میں یہ ٹیکس فرار منافع بڑھانے کی حکمت عملی سمجھا جاتا ہے۔ 2008ء سے 2015ء کے درمیان 50 سرفہرست امریکی اداروں نے وفاقی ٹیکس کی مد میں ادا کردہ ہر ایک ڈالر کے بدلے وفاقی قرضہ جات، قرضے کی ضمانتوں اور بیل آؤٹس کی مد میں مجموعی طور پر 27ڈالرز وصول کیے۔اس عرصے کے دوران ان 50اداروں نے تقریباً 2.6 ارب ڈالرز لابنگ پر خرچ کیے جبکہ وفاقی قرضہ جات، قرضے کی ضمانتوں اور بیل آؤٹس میں 11.2 ٹریلین ڈالرز وصول کیے۔
مجموعی ٹیکس شرح کو کم کرنے کے لیے ان کی اس حکمت عملی کو بیان کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے کہ مجموعی طور پر امریکی کثیر القومی اداروں کی 43 فیصد غیر ملکی آمدنی ان پانچ مقامات سے آئے جو ٹیکس فرار کے لیے معروف ہیں، حالانکہ اتنے بڑے منافع کے جواب میں ان اداروں میں غیر ملکی کارکنوں میں ان علاقوں کے افراد کی تعداد صرف چارفیصد اور ان ممالک میں غیر ملکی سرمایہ کاری صرف سات فیصد ہے۔ مثال کے طور پر برمودا کو لے لیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکی کمپنیوں نے 2012ء میں یہاں سے 80 ارب ڈالرز کمائے، لیکن یہ جاپان، چین، جرمنی اور فرانس جیسے بڑے ممالک سے حاصل کردہ مجموعی منافع سے بھی زیادہ ہے۔ بالفاظ دیگر یہ ہرگز برمودا میں ہونے والی حقیقی معاشی سرگرمی کی عکاس نہیں ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر جاری کی گئی ہے جب پاناما لیکس کا ہنگامہ اپنے عروج پر ہے جس میں دنیا کے امیر اور طاقتور ترین افراد کی جانب سے ٹیکس سے بچنے اور اپنی دولت چھپانے کے طریقوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ آکسفیم کے سینئر ٹیکس مشیر روبی سلورمین کہتے ہیں کہ اس سے ہمیں ایک مرتبہ پھر عالمی ٹیکس نظام کے بڑے پیمانے پر باضابطہ استحصال کی شہادتیں ملی ہیں۔ جب بڑے ادارے اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے تو حکومتیں ضروری خدمات کی فراہمی کے لیے دیگر لوگوں پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹیکس سے فرار اختیار کرنے والوں کے ان پسندیدہ مقامات کا خاتمہ کیا جائے۔
اس حوالے سے ایک سابق سوئس بینکر کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے منظر عام پر لانے میں سی آئی اے کا کردار مرکزی ہے۔ ان دستاویزات میں کئی عالمی رہنماؤں، اداروں، تنظیموں، کاروباری و معروف شخصیات کے ٹیکس سے فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے اثاثے بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں رکھنے کے انکشافات ہیں۔اس کے علاوہ سوئس ادارے یو بی ایس کے لیے سابق امریکی بینکر بریڈلی برکن فیلڈ کا کہنا ہے کہ “میری رائے میں اس کے پیچھے یقیناً سی آئی اے ہے۔یہ برکن فیلڈ ہی تھے جنہوں نے امریکا کے ٹیکس فراریوں کی جانب سے سوئس بینک کھاتوں کے استعمال کا انکشاف کیا تھا تاکہ وہ اپنی دولت امریکی حکام کی پہنچ سے دور لے جائیں۔ وہ اس کام میں اپنی شمولیت کی وجہ سے ڈھائی سال قید میں رہے اور 2012ء میں رہا کیے گئے۔ بعد ازاں یو بی ایس کو تصفیہ حل کرنے کے لیے 780 ملین ڈالرز کی ادائیگی کرنا پڑی اور تعاون پر برکن فیلڈ کو اس میں سے 104 ملین ڈالرز ملے۔ 2012ء میں رہائی کے بعد انہوں نے کہاکہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت نے آخر کیوں انہیں اتنے جارحانہ انداز میں قانونی کارروائی میں گھسیٹا جبکہ اس معاملے میں شامل دیگر تقریباً تمام ہی اداروں اور افراد کو ہلکے پھلکے جرمانوں پر ہی اکتفا کیاگیا۔حالیہ انٹرویو میں انہوں نے احتیاطاً سی آئی اے والی بات کو محض اپنی رائے قرار دیا ہے، لیکن تاریخ کے ان سب سے بڑے انکشافات کے مقاصد پر زبردست مشاہدہ بھی پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “حقیقت یہ ہے کہ اب تک جتنے نام سامنے آئے ہیں وہ امریکا کے دشمنوں کے ہیں۔ روس، چین، پاکستان، ارجنٹائن اور ہمیں ایک بھی امریکی نام اس میں نہیں ملتا؟ اس لیے مجھے تو یہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا آپریشن ہی لگتا ہے۔”
اس سوال پر کہ ایک امریکی خفیہ ایجنسی آخر ایسی معلومات کیوں جاری کرے گی جو اسی کے اتحادیوں کو نقصان پہنچائے؟ جیسا کہ برطانیا میں ڈیوڈ کیمرون، برکن فیلڈ نے کہا کہ وہ امریکا کے دشمنوں کو گندا کرنے کے منصوبے میں محض ایک ‘کولیٹرل ڈیمیج’ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح یہ انکشافات عوام کے سامنے پیش کیے جا رہے ہیں، اس میں سی آئی اے کا سوچا سمجھا کردار نظر آتا ہے۔برکن فیلڈ نے کہا کہ اگر این ایس اے اور سی آئی اے غیر ملکی حکومتوں کی جاسوسی کر سکتی ہیں تو یہ ایسے کسی قانونی ادارے میں بھی گھس سکتی ہیں۔ لیکن وہ صرف ایسی معلومات کو عوام کے سامنے لا رہے ہیں جو امریکا کو کسی بھی صورت یا شکل میں نقصان نہ پہنچائے۔ یوں اس پورے معاملے کے پیچھے صریح بددیانتی موجود ہے۔امریکا اور یورپ میں موجود ان افراد کے خیالات صحیح حالات کی محدود شکل پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔
2017اور 2018ء کے وسط تک اس بات کا بھی قوی احتمال ہے کہ نئے عالمی معاشی قوانین کے تحت اپنے اپنے ملکوں کو لوٹنے والے حکمرانوں،سیاستدانوں، بیوروکریٹس، جرنیلوں اور پراپرٹی ٹائیکونس کی بیرون ملک وسیع جائدادیں ضبط کرلی جائیں گی۔تاکہ مستقبل میں امریکا اور یورپ میں موجود سرمایے کی منتقلی کو ان کی حکومتوں کے خلاف سیاسی بلیک میلنگ کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے اس سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ عربوں کو سب سے زیادہ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا زیادہ تر سرمایہ کیش اور مختلف جائیدادوں کی شکل میں امریکا اور یورپ میں موجود ہیں۔جبکہ روس اور چین اس نئی عالمی معاشی تبدیلی میں اس طرح کسی حد محفوظ رہ سکیں گے کہ انہوں نے اپنے محفوظ ذخائر ڈالر کی بجائے گزشتہ دس سالوں کے دوران میں سونے میں منتقل کرنا شروع کردیئے تھے۔ایسا سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے کہ یروشلم (اسرائیل)کی عالمی سیادت کے لئے عالمی سرمایے کو مرکزی بینکوں کے نرغے میں دے دیا جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نوازشریف اورجہانگیرترین سمیت دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست واپس کردی۔ سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اعتراضات لگا کر اسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات ن...
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لیکس میں 700 پاکستانیوں کے نام آئے، 2016میں پاناما پیپرزمیں 4500 پاکستانیوں کے نام آئے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما لیکس سے متعلق پٹشنز دائر ہوئیں،ایس ای سی پی ،اسٹیٹ بینک ،ایف بی آر اور ایف آئی اے نے تحقیقات کیں، عدالت ...
پنڈورا پیپرز کا پنڈورا باکس کھلنے لگا۔ پنڈورا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق سات سو سے زائد پاکستانیوں کے نام اس میں نکل آئے۔ پانامالیکس سے زیادہ بڑے انکشافات پر مبنی پنڈورا باکس میں جن بڑے پاکستانیوں کے ابھی ابتدائی نام سامنے آئے ہیں۔ اُن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، پاکستانی سیاست می...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حکومت مخالف اور پاناما لیکس پر احتجاج سے حکومت اب کچھ بدحواس نظر آتی ہے۔ کنٹینرز سے احتجاج اور ریلیوں کوروکنے کے عمل نے کہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت "نے باگ ہاتھ میں ہے ، نہ پاہے رکاب میں" کی عملی تصویر بنتی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی...
ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے پاناما لیکس میں سامنے آنے والے افراد سے اُن کی آمدنی کی تفصیلات مانگ لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے اس ضمن میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز شریف کو بھی نوٹس ارسال کیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشر...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
پاناما لیکس پر وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے کیے جانے والے وعدے کے بھی ایفانہ ہونے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نوازشریف اور دیگر متعلقین کے خلاف نااہلی کے ریفرنس دائرکیے گئے ۔جس پر الیکشن کمیشن نے وزیراعظم نوازشریف سمیت دیگر چھ فریقین کو بھی 6 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کردیئ...