... loading ...
سرجن کاشف مصطفیٰ کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے۔ وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں۔ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم کے بعد وہ اپنے گرو ڈاکٹر حسنات احمد کے مشورے پر جنوبی افریقا چلے گئے وہیں ملازمت اور سکونت اختیار کرکے ایسا نام کمایا کہ جنوبی افریقا کے مشہور عالَم لیڈر نیلسن منڈیلا کے بھی معالج رہے۔ سیر و سیاحت کے بے حد شوقین ہیں۔ دنیا کو کھلی نظر سے آدھے راستے میں آن کر کشادہ دلی سے گلے لگاتے ہیں۔ ہمارے دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر اپنا اسرائیل کا حالیہ سفر نامہ بطور ِ خاص “وجود” کے لیے لکھنے پر رضامند ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس کا ترجمہ اور تدوین کی ہے جو پیش خدمت ہے۔
بن گوریاں ائیرپورٹ پر پہلا گمان پتھروں کے بنے ایک بڑے سے قدیم تھیٹر کا ہوتا ہے ۔جا بجا حفاظتی اہل کار ایسے ہی ایستادہ دکھائی دیتے ہیں جیسے اسرائیل میں دیگر مقامات پرموجود ہوتے ہیں۔ سامان اور کسٹمز سے گزر کے جب میں باہر آیا تو ڈاکٹر کلور لی کے ڈرائیور کی تلاش ایک مرحلہ تھی۔ڈاکٹر صاحبہ جنوبی افریقا میں میری شریک کار تھیں ۔اب یہاں تل ایبب میں ماہر امراض قلب کی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔میرا خیال تھا کہ مروجہ طریقے کے مطابق کوئی میرا نام کا استقبالی کتبہ تھامے کھڑا ہوگا۔وہاں ایسے کوئی آثار نہ تھے۔ یہ سوچ کر کہ ڈاکٹر لی کا ڈرائیور شاید ٹریفک میں کہیں پھنس گیا ہے۔ میں باہر رکھی ایک بینچ پر بیٹھ کر اپنے فون سے چھیڑ چھاڑ میں لگ گیا ۔۔
چند ساعتوں کے بعد نظر اٹھی تو سامنے ایک فوجی قد کاٹھ کے پیٹر جاسوس کو ایستادہ پایا ۔ چھوٹے بال، سیاہ چشمہ، بہت خاموشی سے جائزہ لیتا ہوا۔مجھے لگا کہ خیر نہیں۔ لگتا ہے موساد کو میرے آنے کی اطلاع مل گئی ہے۔ اس نے بھرّائی آواز میں پوچھا کہ کیا آپ ہی ڈاکٹر مصطفے ہیں تو دھاڑس بندھی۔
میرا جواب اثبات میں پا کر اس نے بہت آہستگی سے اپنا نام وائن بتایا اور یقین دلایا کہ اسے ڈاکٹر کلور لی نے ہی بھیجا ہے۔میرے مزید ردعمل کا انتظار کیے بغیر اس نے ایک کمال آہستگی سے ڈاکٹر لی کی آرام دہ مرسڈیز میں مجھے دھکیل دیا جو دھیمے دھیمے سے تل ابیب کے طوفان ٹریفک میں بہنے لگی۔
دار الخلافہ تل ابیب، اسرائیل کا کراچی ہے مگر ویسا بدصورت، بے ہنگم اور بد حال نہیں۔ اس کا شمار خوش حالی میں ابو ظہبی کے بعد پورے مشرق وسطی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ شہر کا نام بھی اس کا مطلب جان لینے پر اور بھی حسین لگتاہے۔ اس کا مطلب پہاڑی (Tel) چشمہ (Aviv)ہے۔1948ء میں اسے غریبوں سے بیاہی ہوئی پنڈی کی خوش حال بہن اسلام آباد کی مانند بسایا گیا ۔ان کا پنڈی جافا کو مان لیں گو جافا کی تاریخ زیادہ قدیم اور دل چسپ ہے ۔یورپ کے یہودی ہمارے اپنے مہاجر بھائیوں کی طرح، دہلی اور لکھنٔوجیسی ارض ِ موعود چھوڑ کر سوئے میخانہ سفیر ان حرم کی طرح اسرائیل کی جانب گامزن تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ جو گلیاں چوبارے وہ پیچھے چھوڑ کر آتے ہیں۔ ویسی ہی کوئی بستی یہاں بھی آباد ہو جہاں ہواؤں میں دولت کی مہک ہو۔جہاں کی فضا خوشگوار اور زندگی تھرکتی مچلتی ہو۔ سب کچھ تو ہوگیا مگر ٹریفک کا نظام کم بخت وہی مسلمانوں والا رہا ۔منزل جنت اور سواریاں اور شاہراہ دوزخ کی ترغیبات سے الجھی ہوئیں۔
ہوائی اڈے سے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہوٹل تک 20کلو میٹر کا سفر70 منٹ میں طے ہوا۔ وائن نے شام سات بجے لینے آنے کا وعدہ کرتے ہوئے ہاتھ ملایا تو لگا میرا ہاتھ کسی لوہے کے شکنجے میں پھنس گیا ہے۔ڈاکٹر کلور اور ان کے شوہر نے رات کے کھانے پر مجھے مدعو کیا تھا۔کمرے کی کھڑکی کا شیشہ سرکایا تو بحیرہء روم کی تازہ ٹھنڈی ہوا نے چہرہ چھولیا۔نیچے جھانکا تو چند اسرائیلی نوجوان فوجی خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ اسرائیل میں نوجوانوں کو دو سال کی لازمی فوجی تربیت کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہی معاملہ ترکی میں بھی ہے۔ ہمارے اوپر والے جان کر انجان ہیں ۔وہ اسے قومی یکجہتی،صحت مندی اور سرے سے غائب ڈسپلن کے لیے لازم نہیں مانتے ورنہ ساری دنیا میں اسے Standardization کا ایک بہت ہی موثر ذریعہ مانا جاتا ہے۔اتنے سارے فوجی اس لیے بھی درکار ہیں کہ ہر ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ان کی ملٹری چیک پوسٹ ہوتی ہے۔ کھڑکی سے دکھائی دیتے منظر میں،دور افق پر ایک مینار اس بات کی علامت تھا کہ وہیں مسجد البحر بھی ہے۔
فضائی سفر کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر آپ نے سمندر کے اوپر سفر کیا ہے توجادو ٹوٹکے کا اثر جاتارہتا ہے ۔گرم شاور، مختصر قیلولہ اور ایک عمدہ کھانا آپ کا حق بنتا ہے۔میں نے صرف شاور پر اکتفا کیا اور ہوٹل کی استقبالیے پر آگیا۔ڈیسک پر موجود میزبان خاتون کا حسن ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر آپ گیت کہتے کبھی سنگیت بنانے چلتے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’’کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی !‘‘اس کا حسن دلفریب دیکھ کر دل نہ چاہا کہ مسجد کا راستہ پوچھوں۔ کچھ شرم ہوتی ہے ، کچھ حیا ہوتی ہے ۔ بھلے سے اتنی قلیل ہی کیوں نہ ہو جتنی فلور آف دی ہاؤس پر یہ شور مچانے والوں میں تھی۔
پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی ایک چھوٹی سی چالاکی سے کام لیا۔ ادھر ادھر دیکھ کر لجاوٹ سے پوچھ ہی لیا کہ ’’سن نی کڑیئے، رنگاں دیئے پُڑیئے ۔‘‘ وہ جو ایک بستی ہوٹل کی کھڑکی سے پرے دکھائی دی ہے ،ارے وہی جہاں ایک پرانا سا مسافروں کو راستہ دکھانے والا لائٹ ہاؤس دکھائی دیتا ہے ۔وہ تو شہر کا کوئی قدیم حصہ لگتا ہے ۔ وہاں جا سکتے ہیں؟ اسلام آباد ہوتا تو سر کھجاتا اپنی پھوپھی سے تلہ گنگ کے موسم کا سیل فون پر حال دریافت کرتا ہوٹل کا concierge جواب دیتا’’ آہو جی او وی اپنا فیض آباداے ‘‘ ۔
ہمارا سوال سن کر اس کے سرخ لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ کے دو متوازن چراغ روشن ہوئے تو ہم کو نصرت فتح علی خان یاد آئے کہ ع اندھیرے میں دل کے ،چراغ محبت یہ کس نے جلایا سویرے سویرے۔اس نے ہم بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھایا اور سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’یقینا وہ ہمارا جافا ہے۔
وہاں آپ پیدل جانا چاہیں تو پندرہ منٹ اور ٹیکسی سے بیس منٹ لگیں گے۔‘‘ساحل سمندر کے کنارے چلتے ہوئے مجھے یہ کہیں سے بھی احساس نہ ہوا کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ سیاسی طور پرشورش زدہ علاقہ ہے۔ وہی سائیکل سوار بچے، وہی خوش گپیوں میں مصروف خواتین۔جاگنگ میں مصرف مرد اور عورتیں۔زندگی ویسے ہی رواں دواں تھی جیسے کوالا لمپور یا کیپ ٹاؤن میں ہوتی ہے۔
اسرائیل کو اس کی حکومت نے تین انتظامی یونٹوں میں تقسیم کررکھا ہے۔زون۔ اے میں فلسطینی علاقے جن میں مغربی کنارہ ،غزہ وغیرہ شامل ہیں۔اسرائیلی باشندوں کو ایک سرخ وارننگ بورڈ جسم و جاں کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ تمام علاقہ ایک باڑ اور دیوار سے احاطۂ زنداں میں بدل دیا گیا ہے۔ خروج اور دخول کے مقامات متعین اور سنتریوں کی تحویل میں ہیں۔اندر سے کوئی باہر نہ جا سکے ، باہر سے کوئی اندر نہ آسکے ،وہاں کوئی نہیں کہتا کہ سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا ہو ۔ کیوں کہ اب جر م ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات مانی جاتی ہے۔ زون۔ بی کے انتظامی علاقے میں فلسطینی کام کاج کے لیے آ تو سکتے ہیں مگر قیام نہیں کرسکتے۔زون سی میں فلسطینیوں کا داخلہ یکسر ممنوع ہے۔ اس زون میں دار الخلافہ تل ابیب بھی شامل ہے مگر یہاں آج بھی دس فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ان کی اکثریت جافا میں رہتی ہے۔ ان جڑواں بستیوں یعنی تل ابیب اور جافا کا انتظام ایک ہی میونسپلٹی کے پاس ہے۔ اس کا نام تل ابیب ، یافو ہے۔ یافو عبرانی زبان میں جافا کا نام ہے۔
جافا دنیا کا دوسرا قدیم ترین شہر ہے۔ قدامت کے لحاظ سے پہلا شہر دمشق ہے جو مسلسل آباد ہے۔ وہاں کی روایت کے حساب سے اسے حضرت نوح کے صاحبزادے جافتا نے سیلاب تھم جانے کے بعد بسایا تھا۔حضرت داؤد علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اسے ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے بہت عروج ملا۔ایک روایت کے مطابق حضرت یونس علیہ السلام کو وہیل مچھلی نے اسی شہر کے کنارے لاکر اپنے پیٹ سے باہر انڈیلا تھا۔ کسی کم بخت مچھلی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ کوئی بھلا مانس اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے پرے آن کر بھی انڈیل دیتی ۔
جس جگہ حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ سے برآمد ہوئے تھے عین اسی مقام پر مملوک حکمرانوں نے سترہویں صدی میں مسجد البحر بنائی ہے۔ یونانی دیومالائی کہانیوں میں سیفہس( King Capheus )جو جافا کا بادشاہ اسے سمندر کے دیوتا پوزائی ڈن ( Poseidon )کو منانے کے لیے اپنی بیٹی آندرومیدا پیش کرنا پڑی۔ آندرومیدا کو ساحل سمندر پر ایک بڑی سی چٹان کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ پوزائیڈن نے اس کھالینے کے لیے ایک خونخوار عفریت کو بھیجا لیکن ایک یونانی ہیرو پرسی نن نے اس عفریت کو ہلاک کرکے اس کی جان بچا ئی اور آندرومیدا سے شادی کرلی۔آندرومیدا کے بارے میں یہ قصے بہت عام ہیں کہ وہ اس قدر حسین تھی کہ اس کی موجودگی میں پھول بھی کھلنے سے ہچکچاتے تھے۔جافا کی لڑکیاں اپنے حسن کے تانے بانے اسی ’’آف شور ‘‘حسینہ سے ملاتی ہیں۔
جافا پر مسلمان آٹھ ویں صدی سے 1917 ء تک یعنی گیارہ سو سال حکمران رہے۔یہ وہ سال تھا جب یہاں برطانوی راج قائم ہوا اور یہودی یورپ سے پہنچنے لگے ۔جس کی وجہ سے مقامی مسلمان آبادی اور ان میں قومی فسادات بھڑک اٹھے۔انگریز کے جانب دارانہ رویے سے تنگ آکر مسلمان 1921 ء میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں بائیں کنارے پر اور یہودی جافا اور تل ابیب میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔1948 کی جنگ میں یہ سارا علاقہ یہودی تسلط میں آگیا لیکن کچھ مسلمان خاندان کسی طور یہاں سے جانے پر رضامند نہ ہوئے۔ان کی اس علاقے میں موجودگی تاریخ کا ایک دل چسپ باب ہے۔ یہاں تین پرانی مساجد ، کئی دکانیں اور اور ہوٹل بھی ہیں۔پتھریلی تنگ پرانی گلیاں آپ کے قدموں تلے آپ کا تعلق نادانستہ طور پر ان قدموں سے جوڑ دیتی ہیں جو انہیں روندتے روندتے خود بھی آسودۂ خاک ہوگئے۔
مسجد البحر بالکل خالی تھی ۔میرے جیسے کچھ سیاح ادھر ادھر کہیں فوٹو کھینچ رہے تھے۔ایک سیاح اندر آنے کا خواہشمند بھی تھا ۔مجھ سے اجازت طلب کی تو میں نے بتایا کہ خاکسار بھی مسافر ہے۔ جس پر اس نے کہا کہ جافا میں غروب آفتاب کا منظر دنیا بھر میں سب سے سہانا منظر مانا جاتا ہے۔ آپ اسے مسجد کے مینار سے دیکھ سکتے ہیں۔اس کا فوٹو گرافی کا سامان دیکھ کر لگا کہ وہ کوئی پیشہ ور فوٹو گرافر ہے۔میں بھی سیڑھیوں کے راستے پیچھے پیچھے ہولیا۔ دنیا بھر میں شامیں اداس ہوتی ہیں مگر جافا کی اس شام میں کا حسن کسی حسین بیوہ کی سوگوار ی کی مانند تھا۔مینار کی محراب سے میں نے جب سورج کو بحیرہ روم میں ڈوبتے دیکھا تو مجھے لگا کہ خون کی سی سرخی لہروں میں گھل گئی ہے۔بہت ممکن تھا کہ محو نظارہ ہوکر میں اسی جمال فطرت کی رعنائیوں میں کچھ دیر اور بھی گم رہتا مگر عین اس وقت فون کی گھنٹی بجی دوسری جانب میری دوست ڈاکٹر کلور لی چیخ رہی تھی کہــ’’ کہاں ہو؟ وہ وائن تمہارا ہوٹل میں منتظر ہے‘‘۔میں نے ہڑ بڑا کر گھڑی دیکھی تو شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے۔ میں منمنایا کہ مسجد البحر کے منارے سے غروب آفتاب کا منظر دیکھ رہا تھا۔مجھے اس اعتراف پر فوراً معافی مل گئی کہ وہ بھی اس غروب آفتاب کو دنیا کا سب سے خوبصورت منظر مانتی ہے ۔اس کا اگلا حکم یہ تھا کہ میں وہیں رُکوں۔ ڈرائیور وائن مجھے مسجد البحر کے پاس ہی سے لے گا۔میں نے تمہارے لیے خاص طور پر گولاش (سبزی اور فوشت کا اسٹو ہنگری کے چرواہوں سے منسوب ہے) اور آرٹی چوک سلاد تیار کیا ہے۔
’’جو حکم مادام میں تیار ہوں‘‘ (جاری ہے)
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے ل...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...