... loading ...
مولانا اکرم ندوی کیمبرج یونی ورسٹی کے اسلامک کالج کے بانی اور ڈین ہیں۔ عالم اسلام میں احادیث نبوی میں علم الرّجال پر سب سے بڑی سند مانے جاتے ہیں۔مدرسوں سے منشی فاضل کرکے لکھنو یونیورسٹی سے کلاسیکی عربی میں ڈاکٹریٹ کرتے ہوئے پہلے دمشق اور پھر مدینہ اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی پڑھانے لگے وہاں کی مسجد کے امام بھی تھے۔وہ جب انگریزی میں تقریر کرتے ہیں تو آپ کو ہمارے وزیر اعظم اور صدر کی انگریزی اور خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ کی اردو کی تقریر پنڈت روی شنکر کے ستار اور استاداﷲ بخش کے طبلے کی جگل بندی لگتی ہے۔ ۔بیان کی اس دیسی کرختگی اور ناپختگی کا گلہ مصنفہ کارلا پاؤر کو بھی رہا۔ جنہوں نے ان پر ایک کتاب
IF OCEANS WERE INK لکھی۔انگریزی کا لب و لہجہ مولانا اکرم ندوی نے انگلستان میں رہنے کے باوجود غالباًاس لیے نہیں اپنایا کہ ان پر اﷲ کا رنگ غالب ہے۔اﷲ کا رنگ جس پر غالب آجائے اسے عربی زبان میں صبغت اﷲ کہتے ہیں۔ ایک اور رنگ جو اُن پر اس حوالے سے غالب ہے، وہ سادگی کا رنگ ہے۔اتنے بڑے عالم دین ہونے کے باوجود کوئی طمطراق، کوئی غلغلہ ، کوئی شہرت کی تمنا نہیں۔لباس بھی بے حد سادہ ہوتا ہے۔
نہ کوئی ثوب، نہ کوئی بشت (وہ بیرونی قیمتی لباس جو عرب ، ایرانی روساء اور علماء پہنتے ہیں) نہ کوئی سفید یا سیاہ عمامہ جو نسلی تفاخر کا چیخ چیخ کراعلان کرتا ہو۔ نہ کوئی ہاتھ کی انگلیوں میں لپٹی تسبیح ۔سردیاں ہوں تو موٹا سا ایک اضافی پارکا اور سر پر شیخ احمد دیدات کی طرح چین کی بنی ہوئی سوتی جالی دار ٹوپی ۔گرمیاں ہوں تو سادہ کرتا پاجامہ،جیسا ندوۃ العلماء یا دیوبند کے طالب علم اور استاد زیب تن کرتے ہیں۔تقریر یا تقریب کے لیے بلائیں تو خوش دلی سے وقت پر آبھی جاتے ہیں۔اپنی گاڑی میں نقشہ دیکھ کر خود ہی ڈرائیو کرکے پہنچ جاتے ہیں۔ سفر ذرا دور شہر کا ہو تو بس یا ٹرین سے پہنچ جاتے ہیں۔نہ کوئی فرسٹ کلاس کا ٹکٹ نہ کوئی پانچ ستارہ ہوٹل،نہ ہی خادمین، مصاحبین اور ڈھونڈورچیوں کی کوئی فوج دکھائی دیتی ہے۔وہ یہاں انگلستان میں آکسفورڈ یونی ورسٹی میں اپنے ندوۃ العلماء کے وائس چانسلر مولانا ابو الحسن ندوی صاحب کے حکم پر عرب دنیا کی کسی جامعہ سے پہنچے تھے۔اسناد اور علمی فضیلت دیکھ کر یونیو رسٹی نے آناً فاناً استاد رکھ لیا۔
چند برس پہلے انہوں نے سورہ یوسف پر ایک سیمینار سے خطاب کیا۔ یہ سیمینار لیور پول یونی ورسٹی میں ہوا تھا۔وہ اس کے Key-Note Speaker تھے۔ اُن غیر مسلموں کی یونیورسٹی میں سورۃ یوسف پر سیمینار۔۔حیرت، تعجب، اچنبھااور ہم امت محمدی کے ہاں ایسی کسی تقریب کا نہ ہونا ،ا سے سوائے شرمندگی کے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں درس و تدریس اور علم دوستی کا جو اعلیٰ معیار ہے وہ ہماری جامعات کے لیے سوچنا بھی محال ہو۔تہران کے ہوٹل لالے انٹر نیشنل کے ایک کمرے کی بالکونی کے نیچے اس نے جب مسلسل تیسری صبح چار بجے خواتین کی بلند آواز ہنسی سنی تو گیسٹ ریلیشنز منیجر سے پوچھا کہ یہاں سے علیٰ الصبح گزرنے والی خواتین اتنی خوش کیوں ہوتی ہیں ؟تو فرما نے لگی کہ’’ Oh you mean that gaggle of giggling girls.۔یہ تہران یونیورسٹی کی طالبات ہیں جو کلاس سے گھر واپس لوٹ رہی ہوتی ہیں۔تہران یونی ورسٹی میں ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے کلاسیں ہورہی ہوتی ہیں۔
یونیورسٹی کی ہی بات ہورہی ہے تو یہ قصہ بھی برمحل ہے۔ وزارت جہاد کشاورزی ایران (ان کی وزارت زراعت )کے وزیر عیسیٰ قلنطاری کی ہمارے ڈاکٹر ظفر الطاف (سی ۔ایس۔پی )سے بہت دوستی تھی۔ ڈاکٹر صاحب جو ان دنوں چیئرمین پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کاونسل تھے۔ا یران کے دورے پر تھے ۔ وزیر عیسیٰ قلنطاری نے ایک دن ملاقات کے لیے اسی ہوٹل لالے انٹرنیشنل تہران کے باہر آٹھ بجنے میں ٹھیک پانچ منٹ پہلے پورچ میں پہنچ جانے کو کہا۔وہ حیران تھے کہ عجب وزیر ہے۔کھلے ذہن کے مالک تھے ۔ بعض معاملات میں سوال کو Mistrust جانتے تھے۔ایرانیوں کی دل سے قدر کرتے تھے۔صبح حسب وعدہ وقت مقررہ پر قلنطاری صاحب اپنی کار بغیر کسی پروٹوکول کے خود ہی چلاتے ہوئے آئے اور ڈاکٹر صاحب کو بٹھا کر برابر میں تہران یونیورسٹی لے گئے۔ وہاں خود اپنی کلاس میں طلبا کے ساتھ جابیٹھے اور ڈاکٹر صاحب کو پاکستان کی زراعت پر لیکچر دینے کو کہا۔ معلوم ہوا کہ سوائے لازمی جنگی سروس والے عرصے کہ موصوف نے دس سال سے اپنے ایّام وزارت میں اپنے استاد ہونے کا فریضہ نہیں ترک کیا۔ڈاکٹر صاحب کو کہہ رہے تھے ،استاد ہونا میرا وقار اور شوق ہے۔ وزیر بنانا تو حکومت کا فیصلہ ہے۔اس کی میں نے باقاعدہ اجازت لے رکھی ہے کہ میں تہران یونی ورسٹی میں پڑھانا جاری رکھوں گا ۔ سو جیسے پہلے آتا تھا اب بھی ویسے ہی آتا ہوں،تمہیں پورچ میں اس لیے بلایا تھا کہ وہاں آسانی سے پارکنگ نہیں ملتی اور غیر متعلقہ کاروں کو ہوٹل والے اندر پارکنگ میں نہیں جانے دیتے۔
الغرض کچھ برس پہلے لیورپول یونیورسٹی میں ایک سیمینار سورہ یوسف پر ہوا تھا۔اب سیمینار کی یہ کارروائی باقاعدہ ڈپلوما سیرت الانبیاء کے کورس کا حصہ بن گئی ہے۔اس لئے بغیر ممبر شپ کے دستیاب نہیں۔کیمبرج یونی ورسٹی کا اسلامک کالج جس کے شیخ اکرم ندوی بانی ڈین ہیں، وہاں اسے پڑھایا جاتا ہے۔
دین اسلام پر اب کسی بھی اثر انگیز گفتگو کا معاملہ یہ ہوچلا ہے کہ وہ ذہن جن کی تربیت مغربی تعلیم والے اسکولوں میں ہوئی ہے، وہ ہمارے مدارس کے فارغ التحصیل علماء کو یکسر کردار کی روشنی میں پرکھنا شروع کردیتے ہیں۔اس کسوٹی پر دکھ کی بات یہ ہے کہ بہت کم علماء پورے اترتے ہیں۔ پاکستان کے علماء کی ایک کثیر تعداد مسلک اور سیاست میں ایسی بُری طرح اُلجھی دکھائی دیتی ہے کہ ان کو نمونہ تقلید بنانے کی بجائے جدید ذہن ان سے کنارہ کشی میں نجات ڈھونڈتا ہے۔اس کے برعکس مغرب میں جو مسلمان علماء ہیں۔وہ اس ذہن کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے ہیں، شیریں بیان اور علمیت کے اثر انگیز بیانیے سے بھی بخوبی واقف مولانا اکرم ندوی، یاسر قادری ، ہارون یحییٰ،اظہر علی خان ، نعمان علی خان اور ڈاکٹر ردا البدر کا شمار ایسے ہی اختلافات اور فرقہ بندی سے پرے دین کی خدمت میں مصروف علماء میں ہوتا ہے۔
سورۃ یوسف پر دو عالموں کی تفاسیر اور تقاریر ،جدید مسلمانوں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ایک تو شیخ اکرم ندوی اور دوسرے ڈاکٹر ردا البدر ہیں جو مصری نژاد کینڈین ہیں۔ڈاکٹر ردا کا بیانیہ بے دل چسپ،خوش کن مگر طویل ہے۔
گزشتہ کالموں میں چونکہ ہمارا موضوع کارلا پاؤر کی کتاب IF OCEAN WERE INK رہی ہے۔ لہذا اس کتاب کے ایک مختصر حوالے کی روشنی میں اس سیمینار کے وہ نکات درج ہیں جو عام مسلمانوں کی نظر سے اب تک شاید اوجھل رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت میں سورۃ یوسف کا بیان کردہ قصہ بہت عام ہے مگر اس کے فلسفے اور روح بیان سے واقفیت کم کم سننے میں آتی ہے۔سورۃ یوسف کا مکمل بیان ضمیر انسانی سے متعلق ہے اس کے باخبر رہنے کی بات، اس کی تربیت ،اس کی آزمائش، اس کی معاونت اور اس کا انعام۔
یہ سورۃ جس وقت نازل ہوئی تو مکہ میں نبی کریم ﷺ پر حالات بہت کڑے تھے۔ ان کے دو بڑے رفیق اور معاون جناب ابو طالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اﷲ کو پیارے ہوچکے تھے۔ کفار کی جانب سے ہر طرح کی سختیاں ایسی بڑھ گئی تھیں کہ آپﷺ کی طبیعت کئی دفعہ بہت گرانی محسوس کرتی تھی۔ اس دوران یہ ہوا کہ مکہ کے کچھ مشرکین مدینہ گئے تویہودیوں سے انہوں نے آنحضرت ﷺ کو تنگ کرنے کے لیے کوئی ایسی بات یا قصہ چھیڑنے کے متعلق مشورہ مانگا جس کے بارے میں وہاں پہلے سے کوئی معلومات موجود نہ ہوں۔ انہیں مشورے کے طور پر یوسف علیہ السلام کے بارے میں سوال کرنے کو کہا گیا جن کا شجرہ نسب اپنے والد حضرت یعقوب ؑکے ذریعے حضرت اسحقؑ (اسرائیل) اور ان کے والد حضرت ابراہیم ﷺ سے جا ملتا ہے۔(جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...